مواد کا کوڈ۔: 12
ہٹس: 2036
تاریخ اشاعت : 11 August 2022 - 14: 09
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (7)
ماہ ربیع الاول بعثت کے تیرہویں برس میں سرداران قریش کہ جو مسلمانوں کے یثرب کی جانب ہجرت کرنے سے بہت زيادہ خوف و ہراس میں مبتلا تھے "دارالندوہ " نامی مقام پر کہ جہاں اپنی مشکلات و پریشانیوں کے حل کے لئے ہمیشہ اکھٹا ہوتے تھے جمع ہوئے اور یثرب کی جانب مسلمانوں کے جوق در جوق ہجرت کرنے

 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (7)


پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت
 


ماہ ربیع الاول بعثت کے تیرہویں برس میں سرداران قریش کہ جو مسلمانوں کے یثرب کی جانب ہجرت کرنے سے بہت زيادہ خوف و ہراس میں مبتلا تھے "دارالندوہ " نامی مقام پر کہ جہاں اپنی مشکلات و پریشانیوں کے حل کے لئے ہمیشہ اکھٹا ہوتے تھے جمع ہوئے اور یثرب کی جانب مسلمانوں کے جوق در جوق ہجرت کرنے، یثرب میں اکٹھا ہونے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف بہت زيادہ رغبت پیدا کرنے کے سلسلے میں گفتگو کی اور اس مشکل سے نجات پانے کے لئے راہ حل تلاش کرنے کے لئے تحقیق و بحث میں مشغول ہوئے کافی طویل گفتگو و بحث کرنے کے بعد اس بات پر متفق ہوئے کہ تمام قبیلوں سے ایک ایک فرد کا انتخاب کیا جائے اور رات کے سناٹے میں ایک ساتھ مل کر پیغمبر اسلام کے گھر پر حملہ کرکے انہیں قتل کردیا جائے تاکہ کسی ایک قبیلے پر قتل کا الزام عائد نہ ہو اور قاتل کی شناخت نہ بھی ہوسکے، اس صورت میں قاتل ایک شخص نہیں ہوگا اور بنی ہاشم کےلئے تمام قبیلوں سے انتقام لینا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ تمام قبائل سے جنگ کرنا ان کے لئے ناممکن ہو گا اور وہ مجبور ہو کر دیت پر راضی ہو جائیں گے لہذا اسی فیصلے پر سب نے اتفاق کیا اور اس کام کے لئے جن لوگوں کو معین کیا گیا انہیں ذمہ داری سونپ دی گئی اور طے پایا کہ معین شدہ وقت پر اس کام کو انجام دیں گے ۔ 
دوسری جانب خدا کے حکم سے فرشتہ وحی جبرئيل امین پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مشرکین مکہ کی سازش سے آگاہ کیا، لہذا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ہوا کہ اپنی جان کی حفاظت کے لئے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ  کی جانب ہجرت کرجائيں اور یہ بھی طے پایا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے بستر پر کسی کو سلادیں تاکہ مشرکین مکہ یہ سمجھیں کہ پیغمبر اپنے گھر میں آرام کررہے ہیں جس کے نتیجے میں صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرنے تک ہی محدود رہیں اور دشمن پیچھا کرنے کی فکر سے باز آجائیں اور مکہ مکرمہ کی گلیوں اور کوچوں کو آزاد چھوڑ دیں تاکہ لوگوں کو کوئی پریشانی نہ ہو ، اس کام کے لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے علی آج کی شب میرے بستر پر سوجاؤ اور وہ سبز چادر کہ جو میں سوتے وقت اوڑھتا ہوں تم اوڑھ کر سوجاؤ،چونکہ مشرکین مکہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں لہذا حکم خدا ہے کہ میں مدینہ منورہ ہجرت کر جاؤں۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام رات کے ابتدائی حصے میں ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر پر سوگئے، رات کا  کچھ حصہ گذر چکا تھا اور قریش کے چالیس افراد برہنہ تلواریں لئے ہوئے پیغمبر اسلام کے گھر کا محاصرہ کرلیا ،ان لوگوں نے دروازے کے سوراخ سے گھر کے اندر کا جائزہ لیا اور بستر پر کسی کو سوتا ہوا دیکھا تو سمجھے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے بستر پرسورہے ہیں ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گھرسے باہر نکلنے کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ  دشمن نے چاروں طرح سے گھر کا محاصرہ کر رکھا ہے اور پورے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں، دوسری جانب خداوندعالم کا ارادہ یہ تھا کہ اسلام کے عظيم الشان و باعظمت رہبر کو دشمنوں کے چنگل سے نجات عطا کرے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سورہ "یسین" کی ابتدا‏ئی  آیتوں سے" فھم لایبصرون" تک تلاوت کی جو اس وقت کے حالات کے لئے مناسب تھی اور پھر فورا ہی آپ گھر سے باہر نکلے اور جو لوگ گھر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے ان کے درمیان سے بڑے ہی سکون و اطمینان کے ساتھ گذر گئے ( البتہ یہ بات کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دشمنوں کے درمیان سےعام طور پر گذر جانا نہایت ہی سادہ اور فطری طور پر تھا، یعنی اس وقت وہ سب کے سب سورہے تھے اور آںحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گذرنے کی آہٹ کی جانب ذرہ برابر بھی متوجہ نہ ہوئے یا یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہاں سے گذرنا بہت ہی آسان اور معجزانہ طور پر تھا یہ خود ایک بحث ہے کہ جسے مفسرین اور اسلامی مورخین نے اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے۔)
دوسری جانب دشمن کہ جو بیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا محاصرہ کئے ہوئے تھے اور حملہ کرنے کا ارادہ کئے ہوئے تھے ان میں حملے کے وقت کو لے اختلاف پیدا ہوگیا، بعض نے کہا آدھی رات میں حملہ کریں تو بعض گروہ نے کہا کہ کچھ دیر صبر کریں اور جب اجالا ہوجائے تب حملہ کریں بہرحال کچھ دیر تک ان لوگوں نے اپنا محاصرہ برقرار رکھا اور حملہ نہیں کیا لیکن جب صبح صادق کا اجالا سینہ افق چاک کرکے باہر نکلا تو سب کے سب برہنہ تلواریں اور قبضہ شمشیر پر ہاتھ رکھے ہوئے ایک ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے تو اس وقت امیرالمومین حضرت علی علیہ السلام نے سبزچادر سے سرنکالا اور نہایت ہی سکون و اطمینان کے ساتھ فرمایا: تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے پوچھا: محمد کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا: کیا تم نے محمد کو ہمارے سپرد کیا تھا کہ مجھ سے سوال کررہے ہو؟ اس وقت وہ گھر میں نہیں ہیں۔
کفار قریش نے جب دیکھا کہ ان کی سازش نقش برآب ہوگئی اور شکست سے دوچار ہوگئے تو بہت زیادہ غصہ کرنے لگے اور آپس میں کہنے لگے ابھی بہت ہی کم وقت گذرا ہے محمد ابھی مکہ مکرمہ سے باہر نہیں نکلے ہوں گے اور مجبورا مکہ ہی میں کہیں چھپے ہوں گے یا مدینہ کے راستے میں ہوں گے یہ کہتے ہوئے سب کے سب آپ کو تلاش کرنے کے لئے نکل پڑے ۔
جب کہ مورخین کے قول کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہلی اور دوسری رات مکہ مکرمہ کے جنوب اور مدینہ منورہ کی سمت میں واقع " غارثور" میں رہے اور ابوبکر بھی آپ کے ہمرا ہ ہولئے تھے اور غار میں آپ کے ہمراہ تھے ۔
قریش نے مکہ مکرمہ سے باہر جانے والے تمام راستوں کو بند کردیا اور ایسے افراد کی تلاش میں لگ گئے جو لوگوں کے پیروں کے نشانات کی شناخت و پہچان رکھتے ہوں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اعلان کردیا کہ جو شخص بھی محمد کے چھپنے کی جگہ کو بتائے گا اسے سو اونٹ انعام کے طور پردیا جائے گا۔ مکہ مکرمہ کے مشہور و معروف قیافہ شناس" ابو کرز" پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پائے مبارک کے نشان کو پہچان گیا اور غار کے دہانے تک آگیا اور لوگوں سے کہا یقینا محمد اسی غار میں چھپے ہوئے ہیں ، ایک شخص کو غار میں جانے کے لئے کہا گیا جب وہ غار کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ غار کے دہانے پر جالا لگا ہوا ہے اور اس پر کبوتروں نے انڈے دیئے ہوئے ہیں لہذا وہ غار میں داخل ہونے کے بجائے واپس آگیا اور تمام حالات سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ غار کے دہانے پر مکڑی کے جالوں کا وجود اور کبوتر کے گھونسلے میں انڈوں کا ہونا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس غار میں کوئی شخص نہیں گیا ہے اور اس طرح سے پروردگار عالم نے اپنے معجزے کے ذریعے اپنے پیغمبر کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا ادھر کفار قریش بے حد تلاش و جستجو کی مگر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تلاش نہ کرسکے اور مایوسی کے عالم میں واپس پلٹ آئے۔ (1)


راہ حق میں فدا کاری


پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ کے اس گوشے میں مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے بے انتہا فداکاری اور جانثاری انجام دی چونکہ ہجرت کی شب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر پر وہ بھی ایسی رات کہ جس میں چاروں طرف سے برہنہ تلواروں کے سائے میں رات بھر رہے، جہاں قتل ہوجانے کا امکان تھا اطمینان کے ساتھ سو جانے کا جذبہ اس قدر عظیم و اہمیت کا حامل تھا کہ پروردگارعالم نے قرآن کریم میں اس جان کا نذرانہ پیش کرنے کو "رضا الہی " سے تعبیر کیا ہے اور بہت سے مفسرین کے نظریہ کے مطابق یہ آيت کریمہ اسی واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ارشاد احدیت ہوتا ہے: " وَ مِن النّاس مَن یَشرِی نَفَسَه ابتِغاءَ مَرضاتِ الله و اللهُ رؤفٌ بِالعِبادِ " (2)
"  اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔"
اس عمل کی اہمیت اس بات کا باعث بنی کہ اسلام کے عظیم و بزرگ مفکرین اور دانشوروں نے اس کو مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی ایک بہت بڑی فضیلت کے طور پرشمار کیا اور تفسیرقرآن اور تاریخ اسلام میں جب بھی جہاں پر بھی اس آيت کے بارے میں ذکر ہوا ہے وہاں پر اس آیت کریمہ کو سب نے لکھا ہے کہ یہ آيت مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔


غار سے باہر نکل کر یثرب کی جانب روانگی


امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق ایک امین شخص کو کہ جس کا نام "اریقط" تھا کے ہمراہ تین اونٹ غار کی سمت روانہ کیا،اونٹ کے بولنے اور اس شخص کی آواز کہ جو رہنمائی کے لئے آيا تھا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کانوں تک پہنچی، آپ ابوبکر کے ہمراہ غار سے باہر نکلے،اونٹ پر سوار ہوئے اور مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوگئے، یہی غار سے نکلنا اور مدینہ کی سمت روانہ ہونا تاریخ اسلام کا آغاز قرار پایا اور مسلمانوں اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکہ مکرمہ سے یثرب کی جانب ہجرت کرنا اور اسلامی معاشرے میں بے شمار پیش آنے والے حوادث و واقعات تاریخ کے دامن میں ہمیشہ کے لئے درج ہوگئے۔


سوالات:


1۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ کی جانب کس طرح ہجرت کی۔؟
2۔ حضرت علی علیہ السلام نے راہ حق میں کس طرح سے فداکاری کی۔؟


منابع:


1۔ طبقات الکبری،ابن سعد،ج 1 ص 229
2۔ سوره بقره آیه 207
 
 دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف:  علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: