مواد کا کوڈ۔: 13
ہٹس: 2033
تاریخ اشاعت : 08 September 2022 - 23: 11
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (8)
" قبا " یثرب سے دو فرسخ کی دوری پر قبیلہ بنی عوف کا مرکز ہے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے ساتھ آنے والے ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو دوشنبہ کے دن اس سرزمین پر پہنچے اور قبیلہ کے بزرگ کے گھر کے پاس اپنی سواریوں سے اترے دوسری جانب مہاجر و انصار کے بہت سے گروہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتظار کررہے تھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (8)
 


قبا کے علاقے میں داخل ہونا
 


"قبا" یثرب سے دو فرسخ کی دوری پر قبیلہ بنی عوف کا مرکز ہے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے ساتھ آنے والے ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو دوشنبہ کے دن اس سرزمین پر پہنچے اور قبیلہ کے بزرگ کے گھر کے پاس اپنی سواریوں سے اترے دوسری جانب مہاجر و انصار کے بہت سے گروہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتظار کررہے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک ہفتہ یہیں پر قیام کیا،اس مدت میں آپ نے وہاں رہنے والوں کے لئے ایک مسجد کی بنیاد رکھی ، پروردگار عالم نے قرآن کریم میں اس مسجد اور اس ميں نماز پڑھنے والوں کی تعریف و تمجید کی ہے اور صدیاں گذرجانے کے باوجود آج بھی وہ اپنی اصلی حالت میں "مسجد قبا" کے نام سے باقی اور مسلمان عالم کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ یثرب کے عوام کا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طویل مدت تک انتظار کا سبب یہ ہوا کہ بعض افراد نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اصرار کیا کہ جتنی جلدی ممکن ہو یثرب کی جانب روانہ ہوجائیں لیکن آپ اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کا انتظار کررہے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہجرت کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام مکہ مکرمہ میں ایک بلند جگہ پر کھڑے ہوکر فرمایا: جس شخص نے بھی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کوئی امانت یا سامان رکھا ہے وہ ہم سے آکر اپنی امانت واپس لے لے ، امانت رکھوانے والے مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کے پاس آئے اور پہچان و علامت بتا کر اپنی اپنی امانتیں واپس لے گئے ۔ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق تمام ہاشمی خواتین منجملہ آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، خود امام علی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا اور زبیر کی بیٹی فاطمہ کو اپنے ہمراہ لے کر یثرب کی جانب روانہ ہوئے کہ جس کا نام بعد میں مدینہ منورہ ہوگیا ۔ اس طرح مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام ہاشمی خواتین کو اپنے ساتھ لائے اور مقام قبا میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملحق ہوئے۔
حضرت علی علیہ السلام قبا پہنچے تو اس وقت آپ کے قدم مبارک زخمی ہوگئے تھے لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت علی علیہ السلام کے آنے کی خبردی اور کہا کہ ان میں اتنی قوت و توانائي نہیں ہے کہ آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوسکیں، جیسے ہی یہ خبر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچی آپ فورا اس جگہ پہنچے جہاں حضرت امام علی علیہ السلام تشریف فرما تھے آپ نے امام علی علیہ السلام کو گلے سے لگایا اور جب آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام کے زخمی پیر پر پڑی تو آپ کی آںکھوں سے اشک جاری ہوگئے۔(1)
وہ افراد جو تین برس قبل اپنے پیغمبر پر ایمان لائے تھے اور ہر سال اپنی جانب سے نمائندے بھیجتے تھے اور ہر روز اپنی نمازوں میں ان کا مقدس نام اپنی زبانوں پر جاری کرتے تھے اب جب کہ ان لوگوں کو خبر ملی کہ ان کے رہبر و پیشوا نے مدینہ منورہ سے دو فرسخ کی دوری پر قبا نامی جگہ پر قیام کیا ہے اور کچھ دنوں بعد ان کے شہر میں آنے والے ہیں تو نہایت ہی بے چینی کے ساتھ لمحہ لمحہ شمار کرنے لگے تاکہ جتنی جلدی ممکن ہو اپنے پیشوا کا قریب سے دیدار کریں ۔
ادھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوئے ،جس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سواری " ثنیۃ الوداع" نامی مقام سے گذری اور آپ نے اپنے قدم کو مدینہ منورہ کی سرزمین پر رکھا تو لوگوں نے آپ کا زبردست استقبال کیا اس وقت خوشی و مسرت کے نغموں سے مدینہ کی پوری فضا گونج اٹھی۔
مدینہ منورہ میں لوگوں کے درمیان دو بڑے قبیلے بہت ہی مشہور و معروف تھے جو بہت زمانے سے آپس میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کے مقابلے میں لڑائی و مقابلے کے لئے صف بستہ کھڑے ہوجاتے تھے ایک کا نام " اوس" اور دوسرے قبیلے کا نام "خزرج" تھا ان دونوں قبیلوں کے افراد یہ چاہتے تھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ  علیہ و آلہ وسلم کی آمد سے اپنے قبلیے کے حق میں فائدہ اٹھائیں، اس بناء پر دونوں قبیلوں کے افراد فوجی لباس پہن کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا استقبال کے لئے گئے ، وہ لوگ آپ کی سواری کی لجام کو اپنے ہاتھوں میں لیتے اور اصرار کرتے تھے کہ رسول خدا ان کے علاقے میں تشریف لائیں لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے یہی فرماتے تھے کہ سواری کے سامنے سے ہٹ جائیں اور میری سواری جہاں پر بھی رکے گی میں وہیں قیام کروں گا آخر کار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سواری ایک بہت ہی بڑی سرزمین پر جاکر ٹھہر گئي جو دو یتمیم بچوں کی تھیں اور وہاں پر کجھور کو خشک کیا جاتا تھا اور کھیتی باڑی کی جاتی تھی اسی سرزمین سے قریب ابو ایوب انصاری کے گھر کے سامنے رکی ، ان کی مادر گرامی اس سنہرے موقع سے فائدہ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سامان اٹھا کر اپنے گھر کےاندر لے گئیں، اس وقت لوگوں کے درمیان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے اپنے گھر لے جانے کی خواہش کی بناء پر آپس میں چہ می گوئیاں اور سخت اختلاف شروع ہوگیا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے اختلافات کو ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:میرا سامان سفر کہاں ہیں؟ لوگوں  نے عرض کیا کہ ایوب انصاری کی مادر گرامی اپنے گھر لے گئی ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں بھی وہیں جاؤں گا لہذا آپ نے ابوایوب انصاری کے معمولی سے مکان میں قیام کیا ۔                                    
تاریخ کے معتبر مورخین لکھتے ہيں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعے کے دن مدینہ منورہ میں وارد ہوئے اور قبلیہ بنی سالم کے علاقے میں اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز جمعہ ادا کیا اور بہترین خطبہ پڑھا تو جو لوگ اس طرح کےعلمی کلمات اور مضامین کو نہیں سنا تھا ان کے دل پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوئے۔ 


مدینہ منورہ میں پہلی مسجد کی بنیاد


اسلامی معارف کی تعلیم و تربیت، روزانہ کی نمازوں کی ادائگی کے لئے مناسب جگہ اور مسلمانوں کے مرکز کے لئے ایک لازمی جگہ کی ضرورت پیش آنے کی بناء پرپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسی سرزمین کو جس پر آپ کی سواری آکر ٹھہری تھی مسجد کے لئے دس دینار میں خریدا اور فورا ہی مسجد کی تعمیر شروع کردی۔
تمام مسلمان پورے جوش و خروش کے ساتھ کام میں مصروف ہوگئے ان کے درمیان سب سے آگے آگے خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مسلمانوں کی طرح اطراف سے پتھروں کو جمع کررہے تھے ۔ مسجد کی تعمیر کا واقعہ ، مسلمانوں کی خوشی، جوش و خروش اور مسجد کی تعمیر کے وقت جو افراد ترانے پڑھ رہے تھے وہ حقیقت میں سننے کے لائق ہے لیکن اختصار کے پیش نظر ہم ان مطالب کو یہاں بیان نہیں کررہے ہیں۔
بہرحال مسجد بن کر تیار ہوگئی پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا کہ مسجد کے بغل میں " صفہ" نام کا ایک محلہ بنایا جائے تاکہ مدینہ کے باہر سے آنے والے افراد جو اسلام کے دامن سے وابستہ ہوں اور مدینہ میں زندگی بسر کرنے کے لئے کوئي گھر نہ رکھتے ہوں وہ اسی مقام پر زندگی بسر کریں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہاں کے تمام امورکی ذمہ داری  "عبارت بن صامت" کے سپرد کی اور فرمایا کہ جو شخص یہاں پر رہ رہے ہیں ان کوقرآن کریم کی تعلیم دیں اور انہیں لکھنا پڑھنا سکھائیں۔


حضرت علی علیہ السلام کی عظیم فضیلت


مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہوگئ اور مسجد کے اطراف میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اصحاب کے گھر تعمیر کئے گئے اور ہر ایک کے گھر کا ایک دروازہ مسجد میں کھلتا تھا اور ان خصوصی دروازوں سے لوگ مسجد میں داخل ہوتے تھے ، کہ اچانک ایک دن پروردگارعالم کی جانب سے حکم آن پہنچا کہ تمام لوگوں کے دروازے جو مسجد میں کھلتے ہیں انہیں بند کردیا جائے سوائے علی بن ابی طالب علیہما السلام کے، بعض ورخین کے مطابق یہ حکم سن کر بعض اصحاب بہت ہی سخت ناراض ہوئے اورکہنے لگے کہ علی کے دروازے کو بند نہ کرنے میں محبت کا پہلو نظر آتا ہے لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کے ذہنوں سے شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لئے ایک تقریر کی جس میں فرمایا: اے لوگوں یہ حکم الہی تھا اور میں حکم خداوندی کی اطاعت پر مجبور تھا ۔
 


منابع:

 

1۔ کامل التواریخ ، ابن اثیر، ج 2 ص 75


دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: