مواد کا کوڈ۔: 15
ہٹس: 1936
تاریخ اشاعت : 09 September 2022 - 23: 05
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (10)
میدان احد کا منظرراہ حق میں دی جانے والی قربانیوں اور جانثاریوں کا ایک نہایت ہی خوبصورت میدان اور عفو و بخشش اور حقیقت و ایثار کا بہترین مرکز ہے ،اس جنگ میں مسلمانوں کے سبق آموز واقعات نہایت ہی حیرت انگيزاورانسان کو اپنی جانب مجذوب کرنے والے ہیں

 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (10)
 


پیغمبر اسلام مدینہ منورہ میں


میدان احد کا منظرراہ حق میں دی جانے والی قربانیوں اور جانثاریوں کا ایک نہایت ہی خوبصورت میدان اور عفو و بخشش اور حقیقت و ایثار کا بہترین مرکز ہے ،اس جنگ میں مسلمانوں کے سبق آموز واقعات نہایت ہی حیرت انگيزاورانسان کو اپنی جانب مجذوب کرنے والے ہیں ۔


حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی 


کائنات کی عظیم الشان شہزادی رسول خدا کی لخت جگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جسمانی اعتبار سے شادی کرنے کی منزل میں تھیں اور ایک اپنے ہم کفو کے ساتھ گھر کی تشکیل دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھیں ،بزرگان عرب اس بات سے باخبر تھے اور ان میں سے ہر ایک اس بات کی کوشش میں تھا کہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نظریئے اور رضایت کو اپنی طرف مرکوز کرلے،حالانکہ وہ سب اس بات سے غافل تھے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک کوئي معمولی خاتون نہیں تھیں بلکہ عصمتوں کے دامن کی پروردہ ایک معصوم خاتون تھیں لہذا ہر شخص میں ان کا شوہر بننے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی تھی۔  
ایک کے بعد ایک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لوگ شادی کا پیغام لے کر آتے رہے اور حضرت سے تقاضا کرتے رہے کہ ہمارا یہ پیغام فاطمہ زہرا تک پہنچادیں تاکہ شہزادی کسی نہ کسی کے پیغام کو قبول کرلیں لیکن ان کی مسلسل خواہشوں کے باوجود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سب کو یہی جواب دیا کہ فاطمہ کی شادی خدا وندعالم کے حکم سے ہوگی اور آنحضرت نے یہ جواب دے کر ایک حد تک حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے ، پیغمبر اسلام کے اصحاب نے سمجھ لیا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی کا مسئلہ اس قدر آسان نہیں ہے جو ان لوگوں کا خیال تھا کہ جو شخص بھی چاہے اس عظيم شرف سے مشرف ہوجائے،بلکہ اس نکتہ پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب فکر کررہے تھے کہ تنہا وہ شخص اس مسئلہ میں قدم اٹھاسکتا ہے اور اس کی درخواست پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبول کرسکتے ہیں حضرت علی علیہ السلام ہوں گے لہذا امتحان لینے کی غرض حضرت علی علیہ السلام کو تشویق و ترغیب دلایا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں جاکر فاطمہ سے رشتہ مانگے، حضرت علی علیہ السلام بھی صمیم قلب سے اس بات سے موافقت رکھتے تھے بس مناسب موقع کی تلاش میں تھے تاکہ خواستگاری کے لئے خدمت پیغمبر میں جائیں۔  
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام بہ نفس نفیس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں شرفیاب ہوئے ،شرم و حیا سے آپ کا پورا وجود سرشار تھا اور آپ سرکو جھکائے ہوئے بیٹھے تھے ایسا لگتا تھا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر شرم مانع ہورہی ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے علی اگر کچھ کہنا چاہتے ہوتو بیان کرو آپ نے نہایت ہی ادب و احترام سے چند جملوں میں اپنی بات اور مقصد کو بیان کردیا، اس طرح کی شادی کی درخواست یا خواستگاری اخلاص و صمیمیت کی علامت شمار ہوتی ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی درخواست کو قبول کرلیا اور فرمایا تم تھوڑی دیر منتظر رہو اس بات کو میں اپنی بیٹی فاطمہ زہرا سے بیان کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ ان کا کیا نظریہ ہے ، جب آںحضرت نے اس درخواست کو اپنی بیٹی کے سامنے بیان کیا تو اس وقت حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہ کے پورے وجود کے ساتھ خاموش تھیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہاں سے یہ کہہ کر اٹھے کہ " واللہ اکبر سکوت ھا اقرارھا " یعنی میری بیٹی فاطمہ کی خاموشی ہی اس درخواست کے قبول کرنے کی علامت ہے، دوسری جانب حضرت علی علیہ السلام کے پاس مال دنیا میں سے صرف ایک تلوار اور زرہ کے کچھ اور نہیں تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنی زرہ بیچ کر شادی کے اخراجات اور مقدمات فراہم کریں، آپ نے نہایت ہی اطمینان کے ساتھ زرہ بیچ دی اور اس کا پیسہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس میں سے کچھ پیسے اٹھا کر بلال کو دیا اور فرمایا جاؤ حضرت فاطمہ زہرا کے لئے عطر خریدو، اور بقیہ پیسے محمد بن ابی بکر اور عمار کو دیا تاکہ مدینہ منورہ کے بازار سے دولہا اور دولہن کے لئے زندگی گذارنے کے سامان کی خریداری کریں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم ملتے ہی دونوں بازار گئے اور بازار مندرجہ ذیل چيزیں کہ جو درحقیقت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا جہیز تھا خریدا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔   

                   
جہیز


علامہ شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے جہیز کی فہرست یہ لکھی ہے:
ایک پیراہن جس کی قیمت سات درہم تھی۔
ایک مقنعہ جس کی قیمت ایک درہم تھی۔
ایک کالی چادرجو پورا جسم بھی ڈھانپ نہیں سکتی تھی۔
ایک تخت کہ جولکڑی اورکجھور کی چھال سے بنا ہوا تھا۔
دو عدد مصری کتان کی توشک جس میں سے  ایک گوسفند کے اون اور دوسری کجھور کی چھال سے بھری ہوئی تھی ۔
چارتکیے جس  میں سے دو بھیڑ کے اور اور دو کو کجھور کی چھالوں سے بھرا گیا تھا۔
اون کا ایک پردہ۔
ایک چٹائی اور بوریہ ۔
ایک چکی
ایک چمڑے کا مشکیزہ
لکڑی کا  ایک  کاسہ
چمڑے کا ایک ظرف
 سبز رنگ کا ایک جگ اور چندمٹی کے برتن
دودھ دوہنے کے لئے گہرا برتن
دو تین کوزے
پانی کے لئے ایک مشک
چاندی کے دو کوزے
تانبے  کا ایک طشت
معتبر کتابوں میں تحریر ہے کہ  شادی کے بعد ایک حاجت مند عورت نے جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  سے کچھ مانگا تو آپؑ نے اپنا شادی کا جوڑا اسے دے دیا۔
جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظر بیٹی کے جہیز پر پڑی تو آپ نے ارشاد فرمایا: خدایا ان گروہوں کی زندگی کو مبارک قرار دے جو زيادہ ترمٹی کے برتن سے استفادہ کرتے ہیں۔(1)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی کا مہر کہ جسے بعد میں " مہر السنۃ" کے نام سے موسوم کیا گیا چاندی کا پانچ سو درہم تھا اور یہ شادی تمام مسلمان عورتوں اور مردوں کےلئے اسوہ و نمونہ ہے خصوصا وہ لڑکے اور لڑکیاں جو مہر کی رقم کے بہت زیادہ ہونے کی بناء پر شور و غل مچاتے ہیں اور کبھی کبھی جہیز کے نہ ہونے کی بناء پر شادی کرنے سے منصرف ہوجایا کرتے ہیں۔


تقریب شادی خانہ آبادی


جہیز کے آمادہ ہوجانے کے بعد یہ طے پایا کہ لوگوں کو ولیمہ کی دعوت دیا جائے ، مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے اپنی شریکہ حیات کے افتخار میں دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا ، کھانے سے فراغت کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اپنے پاس بلایا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا شرم وحیا کا پیکر بنی ہوئی رسالتمآب کی خدمت میں حاضر ہوئیں جب کہ شرم و حیا کا پسینہ پیشانی پر جاری تھا ،جب آپ کی نظر بابا کے چہرے پر پڑی توآپ لڑکھڑا گئیں اور امید تھی کہ آپ زمین پر گر پڑیں ۔ یہ منظر دیکھتے ہی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فورا ہی اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑلیا اور پھرچہرے پر سے نقاب ہٹایا اوردولہن کا ہاتھ دولہا کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا:اے علی خداوندعالم رسول خدا کی بیٹی کے ساتھ تمہاری شادی کومبارک کرے ، فاطمہ تمہارے لئے بہترین شریکہ حیات ہیں اس کے بعد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایا : اے فاطمہ، علی تمہارے لئے بہترین شوہر ہیں۔
اس موقع پر بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق مہاجرین و انصار کو حکم دیا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سواری کو اپنے حصار میں لے کر انہیں ان کے شوہر کے گھر تک پہنچائیں ۔ سب سے حسین و خوبصورت منظر یہ تھا کہ جب دولہا و دولہن حجلہ عروسی میں گئے حالانکہ دونوں شرم و حیا کی وجہ سے نظریں جھکائے ہوئے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے پانی کا ایک پیالہ ہاتھوں میں لیا اوراپنی بیٹی کے سر اور اطراف میں چھڑکا چونکہ پانی مایہ حیات ہے اور اس کے بعد دولہا و دولہن کے حق میں دعائیں کی۔
پروردگارا ، یہ میری بیٹی اور لوگوں کی نظروں میں بہت ہی محبوب ہے ، خدایا، علی بھی تمام مسلمانوں کے درمیان میرے نزدیک سب سے زيادہ محبوب ہیں خدایا ان دونوں کے رشتے کو استحکام و دوام عطا فرما۔ (2)
یہاں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی کے حق کی ادائیگی کے لئے آئيے اس حدیث پر غور کرتے ہیں:
 انس بن مالک کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چھ مہینے تک مسلسل طلوع فجر کے وقت گھر سے باہر تشریف لاتے اور مسجد کی طرف جاتے تھے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر کے سامنے کھڑے ہوکر یہ فرماتے تھے: اے میرے اہل بیت کبھی بھی نماز سے غافل نہ ہونا ، خداوندعالم چاہتا ہے کہ رجس کو ہمیشہ تم لوگوں سے دور رکھے۔(3)


کوہ احد کے دامن میں جنگ احد


سن تین ہجری قمری میں بہت بڑے بڑے حادثات رونما ہوئے منجملہ متعدد جنگیں جن میں سے سب سے اہم "جنگ احد" تھی ۔ جنگ بدر کے بعد اور قریش کی جانب سے جنگ بدر میں پیش آنے والے نقصانات کو برداشت کرنے کے کچھ دنوں بعد ابو جہل کے بیٹوں صفوان بن بنی امیہ اور عکرمہ نے ابوسفیان سے درخواست کی کہ چونکہ ہمارے قریش کے سردار اور ہمارے جانباز و بہادرکہ جو مکہ جانے والے تجارتی قافلے کی حفاظت کرتے ہوئے مارے گئے ہیں تو جن جن کا مال اس تجارتی قافلے میں تھا وہ لوگ اپنے مال سے کچھ حصہ جنگ میں ہونے والے اخراجات کے لئے دیں ، ابو سفیان نے اس درخواست کو قبول کرلیا اور فورا ہی سب نے ادا کردیا ۔  
اس سلسلے میں عمرو عاص اور چند افراد کو یہ ذمہ داری سونپی گئي کہ قبیلہ کنانہ اور قبیلہ ثقیف جائیں اور ان لوگوں سے نصرت و مدد طلب کریں اور وہاں کے رہنے والے بہادر و شجاع افراد کو مختلف وسائل کے ساتھ محمد سے جنگ لڑنے کے لئے دعوت دیں۔لہذا چار ہزار افراد پر مشتمل افراد جنگ کے لئے آمادہ ہوگئے۔
البتہ یہ تعداد ان افراد کی تھی جنہوں نے اس جنگ میں شرکت کی تھی لیکن عربوں کی قدیمی رسم کے برخلاف کہ کبھی بھی اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو جنگ میں شریک نہیں کرتے تھے اس جنگ میں بہت سی عورتوں کو اپنے ہمراہ لے گئے، اس جنگ میں عورتوں کا کام ڈھولک بجانا، اشعار پڑھنا اور انتقام لینے کے لئے مردوں کو اکسانا اور تشویق دلانا تھا اور دوسری جانب عورتوں کو اس جنگ میں شریک کرنے کا اصل مقصد و فلسفہ یہ تھا کہ جنگجوؤں کے بھاگنے کے راستے میں رکاوٹ بنیں چونکہ جنگ سے بھاگنا ان کی عورتوں اور لڑکیوں کے اسیر ہونے کا سبب تھا اور یہ چیزعربوں کی شہامت کے خلاف تھی کہ وہ ذلت و رسوائی سے دوچار نہ ہوں۔


سوالات:


1۔ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی کیوں تمام لوگوں کےلئے اسوہ و نمونہ ہے۔؟
2۔ جنگ احد میں کفار اپنی عورتوں اورلڑکیوں کو ساتھ کیوں لائے تھے۔؟


منابع:


1۔  کشف الغمّۀ ،اربلی، ج 1 ص 353،359
2۔ امالی ،شیخ طوسی، ص 43
3۔ شواهد التنزیل ،حاکم حسکانی، ج 2 ص 18
 
دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف: علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: