مواد کا کوڈ۔: 16
ہٹس: 2198
تاریخ اشاعت : 15 September 2022 - 17: 34
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (11)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس علیہ السلام نے ایک خفیہ رپورٹ اپنی مہر اور دستخط کے ساتھ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا جس میں قریش کے منصوبوں اور سازشوں سے آگاہ کیا تھا جس وقت قاصد یہ نامہ لے کر پہنچا اس وقت آپ مدینہ منورہ کے باہر ایک باغ میں تشریف فرما تھے۔

 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (11)

 


قریش کی سازشوں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آگاہ کرنا


پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس علیہ السلام نے ایک خفیہ رپورٹ اپنی مہر اور دستخط کے ساتھ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی خدمت میں روانہ کیا جس میں قریش کے منصوبوں اور سازشوں سے آگاہ کیا تھا جس وقت قاصد یہ نامہ لے کر پہنچا اس وقت آپ مدینہ منورہ کے باہر ایک باغ میں تشریف فرما تھے۔ قاصد نے نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ آپ کی خدمت میں خط پیش کیا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خط کو پڑھا لیکن اس میں تحریر مطالب کو اپنے آپ سے پوشیدہ رکھا ( فقیہ و مورخ شہیرعلامہ مجلسی علیہ الرحمہ فرزند رسول حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خط نہیں لکھتے تھے مگر خط کو ضرور پڑھتے تھے )(1) لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم واپس مدینہ منورہ تشریف لائے تو تمام لوگوں کے سامنے خط پڑھ کر سنایا۔   


قریش کی روانگی


قریش کی فوج مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوئی درمیان راہ جب یہ فوج " ابواء" نامی جگہ پر پہنچی کہ جہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مادر گرامی حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا کی قبرمبارک تھی تو قریش کے بیہودہ و بدبخت اور جاہل نوجوانوں نے بہت زیادہ اصرار کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مادر گرامی کی قبر مبارک کو کھود کر آپ کے جنازے کو باہر نکال دیں مگر دور اندیش اور سمجھ دار فوجیوں نے اس کام کی سخت ملامت کی اور کہا کہ ممکن ہے مدتوں بعد یہ کام لوگوں کے لئے مثال بن جائے اور لوگ ہمارے بزرگوں کی قبروں کو بھی کھود کر یہی کام انجام دینے لگیں۔ 
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  شب جمعہ پانچ شوال المکرم سن تین ہجری قمری  کو انس اور یونس کی خبرگیری کے لئے فضالہ کے بیٹوں کو مدینہ منورہ کے باہر بھیجا تاکہ انہیں قریش کی باتوں سے آگاہ کردیں ، یہ دونوں افرا د وہاں گئے اور یہ خبر لے کر واپس آئے کہ قریش کی فوج مدینہ کے قریب پہنچ گئی ہے اور انہوں نے اپنی اپنی سواریوں کو مدینہ کے چراگاہ میں چرنے کے لئے چھوڑ دیا ہے ، اس بناء پر اوس و خزرج کے سرداروں نے اسلحوں سے لیس ہوکر مسجد میں رات گذاری تاکہ کفار قریش رات کے سناٹے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اچانک حملہ نہ کردیں لہذا  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر اور شہر مدینہ منورہ کے دروازوں کی حفاظت کے لئے رات پر  پہرہ دیا تاکہ دن کا سورج نکل آئے اور جنگ کے متعلق ان کی حکمت عملی معین ہوجائے۔
کفار قریش کی فوج جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچی تو اس نے اپنے راستے کو موڑ دیا اور مدینہ منورہ کے شمال میں واقع دامن کوہ احد کے " وادی عقیق" میں قیام کیا اور چونکہ اس علاقے میں نخلستان نہیں تھا اور زمین ہموار اور ہر طرح کی فوجی سرگرمیاں انجام دینے کے لئے بہترین و مناسب تھی لہذا قریش کے فوجی پانچ شوال المکرم سنہ تین ہجری قمری جمعرات کے دن کوہ احد کے دامن میں پڑاؤ ڈالا ۔


سیکورٹی کونسل


پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جمعہ کے دن ایک عظیم الشان جلسے میں کہ جس میں بڑے بڑے سردار اور اسلامی فوج کے دلیر و بہادر فوجی شریک تھے بلند آواز میں فرمایا: " اُشیرُوا اِلَیَّ" دشمنوں کے مقابلے میں حریم اسلام کے دفاع کے بارے میں اپنے اپنے نظریات بیان کریں۔
مسلمانوں نے دفاع کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے بعض کا کہنا تھا کہ مدینہ میں ہی رہیں اور چاروں طرف سے مدینہ کا محاصرہ رکھیں اور جب دشمن شہر پر حملہ کریں تو اندر سے ان کا دفاع کریں اور بعض لوگوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ شہر مدینہ کو چھوڑ کر باہر نکلیں اور بہادری کے ساتھ دشمنوں سے ڈٹ کر مقابلہ کریں ، دوسرے نظریہ کو قبول کرنے والوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ علیہ السلام جیسے افراد تھے، حضرت حمزہ علیہ السلام نے فرمایا: اس خدا کی قسم جس نے قرآن کریم کو نازل کیا آج ہم اس وقت تک کھانا نہیں کھائيں گے جب تک کہ شہر سے باہر جاکر دشمنوں سے جنگ نہ کریں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی مسلمانوں کے بہترین اور قاطعانہ افکار و نظریات کو دیکھنے کے بعد دوسرے نظریہ کو پسند فرمایا۔


پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی"احد" کی سمت روانگی


پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دفاع کے طور طریقوں کو معین کرنے کے بعد بیت الشرف میں تشریف لائے، زرہ پہنی ، تلوارلی، پشت پر سپر لٹکائی، کمان شانے پر رکھی اور ہاتھ میں نیزہ لئے ہوئے گھر سے باہر تشریف لائے ، یہ منظر دیکھ کر مسلمانوں میں بہت زيادہ جوش و خروش بڑھا اور سعی و کوشش کرنے لگے کہ جتنی جلدی ممکن ہو آنحضرت کی پیروی کرتے ہوئے جنگی لباس سے آراستہ ہوکر جنگ کے لئے روانہ ہوجائيں ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز جمعہ پڑھی اور ایک ہزار کی تعداد پر مشتمل لشکر کے ہمراہ مدینہ منورہ سے " احد" کی طرف روانہ ہوئے ، مدینہ منورہ کے نوجوانوں نے پورے جوش و عقیدت کے ساتھ نہایت ہی خاضعانہ طور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جنگ میں جانے کی اجازت طلب کی لیکن چونکہ ان کی عمر اس بات کے لئے مناسب نہیں تھی کہ انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت دیتے،صرف ان میں سے دو افراد کو کہ جن کی عمریں تو پندرہ برس سے کم تھیں لیکن تیر اندازی میں بہت ماہر تھے جنگ میں شریک ہونے کی اجازت لینے میں کامیاب ہوگئے۔ 


شہادت و پاکیزگی سے عشق


میدان احد، حق کی راہ میں ایثار و قربانی کا نہایت ہی خوبصورت منظراور حقیقی ایثار سے سرشار عشق سے مملو تھا اس جنگ میں مسلمانوں کے سبق آموز واقعات نہایت ہی حیرت انگیز اور پرکشش و جاذب ہیں، ان میں سے ہم یہاں پر بعض واقعات کا ذکر کررہے ہیں۔
1۔ خمیدہ کمرعمربن جموح نے کہ جس کا ایک پیر پہلے ہی سے زخمی تھا اپنے چار بہادرجوان بیٹوں کو میدان جنگ میں بھیجا اور اسی کے ساتھ اپنی پوری توانائی و ضعف کے باوجود خود بھی جنگ میں جانے کا ارادہ کیا اس کے دوستوں اور قریب میں رہنے والوں نے اسے اس کام سے منع کیا اور دلیل پیش کی کہ اسلام کے قوانین نے ہر طرح کے قوانین کو اس سے اٹھا لیا ہے لیکن اس ضعیف آدمی پر کسی کی بات کا بھی اثر نہیں پڑا اور پھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا: ہمارے چاہنے والے رشتہ دار ہمیں جنگ میں جانے سے منع کررہے ہیں لیکن مجھے شہادت کی آرزو ہے میں بہشت کی جانب پرواز کرنا چاہتا ہوں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: خداوندعالم نے تمہیں جنگ سے معذور رکھا ہے اور تم پر یہ فریضہ ساقط کردیا ہے، اس نے بہت زیادہ اصرار کیا اور عاجزی کے ساتھ التماس کیا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس وقت کہ جب اس کے تمام اعزہ و احباب اس کا احاطہ کئے ہوئے تھے ان کی طرف رخ کرکے فرمایا: تم لوگ اسے جنگ میں جانے سے نہ روکو تاکہ راہ اسلام میں جام شہادت نوش کرے وہ اپنے گھر سے نکل گیا جب کہ گھر سے باہر آتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا: خدایا مجھے توفیق عطا کرتاکہ تیری راہ میں مارا جاؤں اور اپنے گھر دوبارہ واپس نہ آؤں۔( 2)
2۔ حنظلہ ابن ابو عامر کہ جس کا باپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سخت ترین دشمن اور مسجد ضرار کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک تھا جس کا ذکر نویں ہجری قمری میں کیا جائے گا اور جنگ احد میں لشکر کفر اور قریش کی فوج کا سپاہی تھا لیکن حنظلہ چوبیس سالہ مسلم نوجوان تھا اگر چہ اس کا باپ مسلمانوں کے مقابلے میں موجود لشکر کفر میں شامل تھا لیکن حنظلہ نے خود کو اسلام کے لشکر میں شامل کرکے کفارسے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ کرلیا تھا مگر جس دن طے پایا تھا کہ اسلامی فوج جنگ کے لئے روانہ ہوگی اسی دن حنظلہ کی شادی  قبیلہ اوس کے بزرگ عبداللہ بن ابی کی بیٹی کے ساتھ ہونا قرار پائی تھی اور مجبوری تھی کہ شب زفاف کے پروگرام اسی رات انجام دئيے جائيں لہذا وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں شرفیاب ہوا تاکہ آپ سے اس رات مدینے میں رہنے کی اجازت طلب کرے اور دوسرے دن صبح سویرے جنگ احد میں اسلامی لشکر سے متصل ہوجائے۔ 
مورخ شہیرعلامہ مجلسی علیہ الرحمہ کے فرمان کے مطابق مندرجہ ذیل آيات کریمہ حنظلہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(3)
"مومنین صرف وہ افراد ہیں جو خدا اور رسول پر ایمان رکھتے ہوں اور جب کسی اجتماعی کام میں مصروف ہوں تو اس وقت تک کہیں نہ جائیں جب تک اجازت حاصل نہ ہو جائے۔"
" بے شک جو لوگ آپ سے اجازت حاصل کرتے ہیں وہی اللہ اور رسول پر ایمان رکھتے ہیں لہذا جب آپ سے کسی خاص حالت کے لئے اجازت طلب کریں تو آپ جس کو چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے حق میں اللہ سے استغفار بھی کریں کہ اللہ بڑا غفور اور رحیم ہے۔"(4)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حنظلہ کو عقد نکاح کے لئے ایک شب کی اجازت دی دوسرے دن صبح اتنا بھی پانی نہیں تھا کہ حنظلہ غسل جنابت کرتے لہذا غسل کئے بغیر ہی میدان جنگ میں چلے گئے، جب انہوں چاہا کہ گھر سے باہر نکلیں تو دیکھا کہ ایک شب کی دلہن کی آنکھوں سے اشک غم جاری ہے اس نے اپنے شوہر کے گردن میں باہیں ڈال دی اور خواہش ظاہر کی کہ کچھ دیر صبر کریں اس نے ان چار افراد کو جو کسی عذر کی بناء پر مدینہ میں ہی رہ گئے تھے گواہ بنایا کہ گذشتہ شب ہی اس کی شادی ہوئی ہے، اس کے بعد حنظلہ گھر سے باہر نکلے ، دلہن نے ان لوگوں سے کہا کہ رات کو میں نے خواب دیکھا کہ آسمان شگافتہ ہوا اور میرے شوہر اس کے اندر چلے گئے اور اس کے بعد آسمان اپنی اصلی حالت میں ہوگیا میں نے اس خواب سے سمجھ لیا کہ ہمارے شوہر شہید ہوجائيں گے۔
دوسری جانب حنظلہ راستہ طے کرتے ہوئے میدان احد میں پہنچے اور لشکر میں شامل ہوگئے جنگ اپنے پورے شباب پر تھی حنظلہ مشرکین سے مقابلے کے لئے میدان قتال میں آئے اور گھمسان کی جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ دشمن کے ہاتھوں مارے گئے اور زمین پر گر پڑے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ فرشتوں نے حنظلہ کو غسل دیا اور اسی لئے انہیں " غسیل الملائکہ " کا خطاب ملا۔
جناب حنظلہ ایسی بہترین شخصیت کے مالک تھے کہ لشکر کے سردار ابوسفیان نے چیخ چیخ کر کہا کہ اگر مسلمانوں نے جنگ بدر میں میرے بیٹے حنظلہ کو قتل کیا ہے تو میں نے جنگ احد میں مسلمانوں کے حنظلہ کو قتل کردیا۔"


سوالات:


1۔ جنگ احد کے بارے میں سیکورٹی کونسل کا نتیجہ کیا تھا۔؟
2۔ حنظلہ کو غسیل الملائکہ کیوں کہا جاتا ہے۔؟


منابع:


1۔ بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج 20 ص 111
2۔ سیرہ حلبیہ ،ابوالفرج حلبی، ج 2 ص 329
3۔ بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج 20 ص 57
4۔ سورہ نور آیت 62
 
دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف: علی ریخته گرزاده تهرانی

ٹیگس: پیامبر
آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: