مواد کا کوڈ۔: 21
ہٹس: 1979
تاریخ اشاعت : 24 October 2022 - 08: 33
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (14)
مدینہ منورہ میں یہ خبرعام ہوگئی کہ جنگ احد میں پیمغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قتل کردیئے گئے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعزہ واقرباء اس خبر کی حقیقت جاننے کے لئے احد کی جانب روانہ ہوگئے

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (14)


 
" مدینہ منورہ میں یہ خبرعام ہوگئی کہ جنگ احد میں پیمغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قتل کردیئے گئے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعزہ واقرباء اس خبر کی حقیقت جاننے کے لئے احد کی جانب روانہ ہوگئے."


 
بے مثال اور بہادر خواتین

 

مدینہ منورہ میں یہ خبرعام ہوگئی کہ جنگ احد میں پیمغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قتل کردیئے گئے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعزہ واقرباء اس خبر کی حقیقت جاننے کے لئے احد کی جانب روانہ ہوگئے. راستے میں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی کہ جو اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے مدینہ منورہ کی جانب رواں دواں تھی، ان لوگوں نے اس خاتون سے پوچھا: اگر تم احد سے آرہی ہو تو یہ بتاؤ کہ پیغمبر کے بارے میں کیا خبر ہے؟ اس نے اس انداز سے جواب دیا کہ جیسے لگتا تھا کہ آنحضرت کو کوئی تکلیف ہی نہ پہنچی ہو، کہنے لگی کہ ایک خوشی کی خبر ہے اور وہ یہ کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زندہ وسلامت ہیں اور اس بڑی نعمت کے مقابلے میں ہر طرح کے مصائب نہایت ہی چھوٹے اور ناچیز ہیں۔
دوسری خوشی کی خبر یہ کہ پروردگارعالم نے کافروں کو کہ جو غیظ و غضب میں ڈوبے ہوئے تھے واپس کردیا ، اس کے بعد اس خاتون سے سوال کیا کہ یہ جنازے جنہیں تم نے اونٹ پر رکھا ہے کس کے ہیں؟ اس نے جواب میں کہا کہ یہ سب جنازے ہم سے مربوط ہیں اس میں سے ایک لاش میرے شوہر کی ہے اوردوسری میرے بیٹے اور تیسری لاش میرے بھائی کی ہے جنہیں میں مدینہ منورہ دفن کرنے کے لئے لے جارہی ہوں ۔
یہ بہادرخاتون کہ جو اونٹ کو لئے ہوئے مدینہ منورہ کی جانب روانہ رواں دواں تھی اچانک متوجہ ہوئی کہ اونٹ میں اب چلنے کی قوت و طاقت نہیں رہی اور بہت ہی پریشانی کے عالم میں راستہ طے کررہا ہے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیویوں میں سے ایک نے کہا: ایسا نہیں ہے بلکہ اونٹ کی پیٹھ پررکھی ہوئی لاشیں بہت بھاری ہیں اس خاتون نے جواب دیتے ہوئے کہا: نہیں ایسا نہیں یہ اونٹ بہت ہی طاقتور و توانا ہے اور اس کے دو برابر سامان اٹھا سکتا ہے اور دوسرے یہ کہ جب بھی میں اس اونٹ کو احد کی جانب لے جانا چاہتی ہوں تو یہ حیوان بہت ہی تیزی کے ساتھ راستہ طے کرتا ہوا آسانی سے چلتا ہے لیکن جب بھی اسے مدینہ منورہ کی جانب لے کر چلنا چاہتی ہوں تو بڑی ہی مشکل سے چلتا ہے اورکبھی کبھی زمین پر بیٹھ جاتا ہے لہذا اس خاتون نے احد کی جانب واپس جانے کا ارادہ کیا تاکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس پورے واقعے سے آگاہ کرے جس وقت وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں شرفیاب ہوئی اور تمام باتیں بیان کی تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جس وقت تمہارا شوہر( کہ جس کا نام عمروبن جموح تھا) میدان جنگ میں جارہا تھا اس وقت اس نے خداوندعالم سے کیا طلب کیا تھا ؟ اس نے عرض کیا میرے شوہرنے اپنی توجہ بارگاہ خداوندی میں کرکے کہا تھا کہ خدایا مجھے اب گھر کی جانب واپس نہ کرنا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے شوہر کی دعا قبول بارگاہ حق ہوگئی اور پروردگار عالم نہیں چاہتا کہ یہ جنازہ عمرو کے گھر جائے لہذا تم پر لازم ہے کہ تینوں جنازوں کو احد کی سرزمین پر ہی دفن کرو اور جان لو کہ یہ تینوں افراد آخرت میں بھی ایک ہی ساتھ ہوں گے۔ عمرو بن جموح کی بیوی ہند نے کہ جس کی آنکھوں سے اشک جاری تھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول پروردگارعالم سے دعا کیجئے کہ میں بھی ان لوگوں کے پاس پہنچ جاؤں ۔ (1)
 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے گھر میں تشریف لائے، آپ کی عزیز بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نظر آپ کے زخمی چہرہ اقدس پر پڑی ،آپ کی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے، آپ فورا ہی پانی لائیں تاکہ اپنے بابا کے چہرہ انور سے خون کو صاف کریں اس وقت امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام پانی ڈال رہے تھے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بابا کے چہرے سے خون صاف کررہی تھیں لیکن چونکہ زخم بہت ہی گہرا تھا اور خون رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا لہذا مجبور ہوکر چٹائی کا کچھ حصہ جلا کر اس کی راکھ کو زخم پر رکھا تاکہ خون نکلنا بند ہوجائے۔ (2)


دشمنوں کا پیچھا ضرور کریں


وہ رات کہ جس میں تمام مسلمان واقعہ احد کے بعد اپنے اپنے گھروں ميں سکون و اطمینان سے سوئے ہوئے تھے یہ رات بہت ہی حساس شب تھی ہر گھر سے نالہ وشیون کی آواز بلند تھی جب کہ مدینے میں رہنے والے منافقین اور یہودی اس واقعے سے بہت زیادہ خوشحال تھے اور اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں دشمن ایسے حساس موقعے سے استفادہ نہ کریں اور غمزدہ اور داغ اٹھانے والے مسلمانوں کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف اکسا کر شورش پیدا نہ کردیں اس بناء پر لازم تھا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دشمنوں کو خوفزدہ کریں اور ان کے دلوں میں یہ بات ڈال دیں کہ مسلمانوں کے قدم لڑکھڑائیں نہیں ہیں۔
خداوندعالم کی جانب سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ ذمہ سونپی گئی کہ دوسرے دن دشمنوں کا ضرور پیچھا کریں لہذا فورا ہی آپ نے حکم جاری کیا کہ پورے شہر میں اعلان کردیں کہ جو لوگ کل جنگ احد میں شریک تھے وہ صبح کو دشمنوں کا پیچھا کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں اور جن لوگوں نے جنگ احد میں شرکت نہیں کی تھی ان کو یہ حق نہیں ہے کہ کل وہ ہمارے ساتھ اس پروگرام میں شرکت کریں ۔
پیغمبر اسلام کی جانب سے اعلان کرنے والے کی آواز بنی عبد الاشہل قبیلے کے ایک نوجوان کے کانوں تک بھی پہنچی اگر چہ وہ اپنے بھائی کے ہمراہ زخمی حالت میں بستر پر پڑا ہوا تھا لیکن اس اعلان نے اسے اس قدر متاثر کیا کہ ایک ہی گھوڑا رکھنے کے باوجود کہ جس کا چلنا بھی محال تھا آپس ایک دوسرے سے کنہے لگے کہ کسی بھی طریقے سے سزاوار نہیں ہے کہ پیغمبر اسلام جہاد کے لئے روانہ ہوں اور ہم لوگ پیچھے رہ جائيں لہذا نکل پڑے یہ دونوں بھائی کچھ کچھ دیر بعد گھوڑے پر سوار ہوتے تھے یہاں تک کہ خود کو لشکر اسلام تک پہنچا دیا۔(3)


حمراء الاسد چھاؤنی


پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ام مکتوم کو اپنا جانشین قرار دیا اور مدینہ منورہ سے آٹھ میل کی دوری پر واقع " حمراء الاسد"  نامی جگہ پر قیام کیا، معبد خزاعی کہ جو قبیلہ خزاعہ کا رئیس تھا مشرک ہونے کے باوجود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر تسلیت و تعزيت پیش کی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کے لئے حمراء الاسد سے قریش کی مرکزی چھاؤنی "روحا" کی سمت روانہ ہوا اور ابوسفیان سے ملاقات کی اور گفتگو کے درمیان اس نے درک کیا کہ ابوسفیان نے مدینہ جانے کا ارادہ کیا ہے اور مسلمانوں کی بچی ہوئی قدرت و توانائی کو دوبارہ حملہ کرکے ختم کردینا چاہتا ہے ۔ معبد نے اسے مدینہ جانے روک دیا اور کہا: اے ابوسفیان جان لو کہ محمد اس وقت حمراء الاسد میں موجود ہیں اور ان کے ہمراہ بے شمار سپاہی مدینہ منورہ سے باہر آئے ہیں اور وہ افراد جو گذشتہ روز جنگ احد میں شریک نہیں ہوئے تھے وہ بھی آج ان کی رکاب میں موجود ہیں اے ابوسفیان ان کے درمیان میں نے ایسے ایسے چہرے دیکھیں ہیں جو غیظ و غضب کی شدت  سے سرخ ہیں اور میں نے اپنی پوری عمر میں ایسے چہرے اب تک نہیں دیکھے تھے اور یہ بھی جان لو کہ مسلمان اپنی گذشتہ روز کی بے نظمی سے بھی بہت زيادہ شرمندہ ہیں، معبد خزاعی نے مسلمانوں کی ظاہری قدرت و توانائی اور روحانی و نفسیاتی عظمت سے ابو سفیان کو اس قدر متاثر کیا کہ اسے اپنے ارادے سے منصرف کردیا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ " حمراء الاسد" میں قیام پذير رہے اور حکم دیا کہ پورے بیابان میں آگ روشن کرو تاکہ دشمن یہ خیال کریں کہ مسلمانوں کی قدرت و طاقت اس سے کہیں زیادہ ہے جو انہوں نے جنگ احد میں مشاہدہ کیا تھا۔
دوسری جانب قریش کے لشکر میں موجود صفوان امیہ نے ابوسفیان سے کہا: مسلمان بہت ہی غصے اور غمزدہ ہیں میرا خيال ہے کہ اب ہم کوئی قیام نہ کریں اور مکہ واپس چلے جائیں۔
آخر کار جنگ احد ستر یا چوہتر یا ایک قول کی بناء پر اکیاسی افراد کی شہادت کے بعد ختم ہوگئی اور قریش کے لشکر میں صرف بیس افراد مارے گئے اور یہ ناگوار واقعہ صرف اور صرف اس لئے پیش آيا تھا کیونکہ مسلمانوں نے درہ کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کیا تھا جسے تفصیل کے ساتھ ہم بیان کرچکے ہیں ۔(4)   
اور اس طرح سے  جنگ احد کہ جو سات شوال سن تین ہجری سنیچر کے دن شروع ہوئی تھی حمراء الاسد کے واقعہ کے ساتھ اسی ہفتہ جمعہ کے دن تک جاری رہا اسی برس چودہ شوال کو ختم ہوگیا۔


حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت با سعادت  


سن تین ہجری کا ایک اور اہم ترین واقعہ فرزند رسول گلشن امامت کے درخشندہ ستارے حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہے جو پندرہ رمضان المبارک سن تین ہجری قمری کو دنیا میں تشریف لائے ۔
آپ کی ولادت باسعادت پر خاص جشن کا اہتمام ہوا جسے تاریخ نے اپنے دامن میں خاص جگہ دی ہے اور ہم اختصار کو مد نظررکھتے ہوئے یہاں پر اسے ذکرکرنے سے گریز کررہے ہیں۔ (5)


پیغمبر اسلام سے زینب بنت جحش کی شادی


پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کا نہایت ہی پیچیدہ واقعہ آنحضرت کی پھوپھی کی بیٹی زینب بنت جحش سے آپ کی شادی تھی اس کے لئے کچھ مقدمات تھے اسی طرح سے آنحضرت نے جو دوسری شادیاں کی تھیں اس کے مقصد شادی کے علاوہ دوسرے اہداف و مقاصد بھی تھے لیکن پیغمبراسلام کا اس شادی سے ایک اور مقصد تھا یعنی اس وقت معاشرے میں جو ایک بیہودہ رسم رائج تھی اسے ختم کرنا تھا ۔
اصل واقعہ کچھ اس طرح سے ہے:
جاہلیت کے زمانے میں صحرا و بیابان میں لوٹ مار اور غارتگری کرنے والے ایک عرب نے کسی قافلے سے ایک بچے کو چرایا اور اسے لے جاکر بازار "عکاظ" میں غلام کے عنوان سے بیچ دیا اورحکیم بن حزام نے اسے اپنی پھوپھی جان خدیجہ کے لئے خریدا تھا پھر انہوں نے بھی اپنی شادی کے بعد اسے پیغمبر اسلام کو ہدیہ کردیا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بہترین و بلند و بالا اخلاق اس بات کا باعث بنا کہ یہ جوان پیغمبراسلام کا دلدادہ بن گيا یہاں تک کہ ایک دن اس نوجوان کا باپ اپنے بچے کی تلاش میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی اسے آزاد کردیں تاکہ اپنے بابا کے ساتھ اپنے گھر واپس چلا جائے مگر جوان نے اپنے بابا کے ہمراہ گھر جانے سے منع کردیا اور پیغمبر اسلام کو اپنے گھر کے تمام افراد پر ترجیح دی بہرحال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا کہ اگر چاہے تو اپنے گھر واپس چلا جائے اور چاہے تو یہیں پر رک جائے۔
یہ جوان کہ جس کا تاریخ نے " زید " نام لکھا ہے اور قرآن کریم نے بھی اسے اسی نام سے یاد کیا ہے نہ صرف یہ کہ وہ پیغمبر اسلام کو بہت زیادہ عزیز رکھتا تھا بلکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اسے صمیم قلب سے چاہتے تھے یہاں تک اسے اپنی فرزندی میں لے لیا اور لوگ اسے زید بن حارثہ کے بجائے زيد بن محمد کہنے لگے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس موضوع کو رسمیت عطا کرنے کے لئے ایک دن زید کے ہاتھ کو پکڑا اور قریش سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: یہ میرا بیٹا ہے اور ہم ایک دوسرے سے میراث حاصل کریں گے۔(6) یہ قلبی محبت اسی طرح باقی رہی یہاں تک کہ زید جنگ موتہ میں شہید ہوگئے اور پیغمبر اسلام ان کی شہادت پر اس قدر متاثر ہوئے جیسے کہ اپنے بیٹے پر متاثر ہوئے تھے۔
جس وقت زید شادی کی عمر کو پہنچے اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی پھوپھی کی بیٹی یعنی حضرت عبد المطلب کی نواسی زینب کی شادی اپنے سابق غلام زيد سے کردی تاکہ اس شادی کے ذریعے بیہودہ طبقاتی فاصلے کو معاشرے سے ختم کردیں اور فضیلت و برتری کا معیار صرف اور صرف قرآن کریم کے فرمان کے مطابق تقوی کو قراردیدیں اگرچہ زینب اور ان کے بھائی ابتدا میں اس شادی کے لئے راضی نہیں تھے لیکن جب اس سلسلے میں آیت قرآنی نازل ہوئی جس میں پروردگارعالم ارشاد فرماتا ہے: " وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا۔ " اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کر دیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحبِ اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھُلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہو گا۔"(7) تو زینب اور ان کے بھائی اس شادی سے راضی ہوگئے اور پھر اس طرح قریش کی شریف زادی کی شادی حضرت محمد کے غلام زید سے ہوگئی ہے لیکن ابھی اس شادی کو کچھ ہی دن گذرے تھے کہ زید اور زینب میں اخلاقی اعتبار سے مفاہمت نہ ہوسکی اور آخرکار روز روز کی بداخلاقیوں اور نااتفاقیوں کی بناء پر دونوں میں طلاق کی وجہ سے جدائی پیدا ہوگئی۔
عربوں کے درمیان ایک رسم رائج تھی کہ اگر کوئی شخص کسی بچے کو پالتا تھا تو اسے حکم فرزندی میں شمار کرتے تھے یہاں تک کہ شادی کے مسئلے میں بھی یعنی اگر کسی لڑکی سے شادی کیا جاتا تو وہ لڑکی اپنے منھ بولے باپ کی محرم ہوجاتی تھی اور اگر خدانخواستہ شادی طلاق کی نوبت تک پہنچ جاتی تو بھی وہ اپنے شوہر کے منھ بولے باپ کے لئے محرم ہی ہوتی تھی اور وہ اس سے ہرگز شادی نہیں کرسکتا تھا جیسا کہ حقیقی بیٹے کے بارے میں یہی مسئلہ ہے یعنی بہو اپنے شوہر کے باپ سے ہمیشہ کے لئے یہاں تک کہ اگر شوہر مر بھی جائے یا اس سے جدا بھی ہوجائے تو بھی سسر محرم ہی رہے گا۔
لہذا معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسم ، جاہلیت کی غلط رسم تھی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہ جن پریہ ذمہ داری عائد تھی کہ معاشرے میں جاری تمام غلط رسومات سے مقابلہ کرکے اسے ختم کردیں آپ پر اس بارے میں بھی ذمہ داری عائد تھی۔
اصولی طور پر تمام انبیاء اور دوسرے عام  پیشواؤں کے درمیان فرق یہ ہے کہ دنیوی پیشوا اس بات کی سعی و کوشش کرتے ہیں کہ جس طرح سے بھی ممکن ہوسکے لوگوں کو اپنی طرف مجذوب کرلیں یہاں تک کہ وہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ اجتماعی سنتوں کا احترام اور لوگوں کو اس کے سامنے تسلیم کو بھی اپنی طرف متوجہ کرلیں اگر چہ وہ رسم و رواج لوگوں کی زبانوں پر محترم ہی کیوں نہ شمار ہوتی ہو جب کہ پیغمبران الہی ان کے برعکس عمل کرتے ہیں کیونکہ وہ غلط چیزوں کو ختم کرنے والے ہیں اور اگر کسی غلط رسم سے روبرو ہوتے ہیں تو اس سے مقابلہ کرتے ہیں اگر چہ وہ رسم لوگوں کے درمیان مورد احترام ہی کیوں نہ واقع ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم انبیاء کرام علیہم السلام کی تاریخ زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان کے زمانے میں رہنے والے لوگ شروع میں ان سے مقابلہ کرتے تھے اور انہیں قبول نہیں کرتے تھے لیکن جب کچھ دنوں بعد ان کی سمجھ میں حقانیت آتی تھی تو پیغمبران الہی کی اہمیت و حقانیت کو درک کرتے تھے اور جن لوگوں کا شعور و فہم بلند ہوتا تھا وہ انبیاء الہی کے اس قدر دلدادہ ہوجاتے تھے کہ آخر عمر تک جب تک آخری سانس باقی رہتی تھی پیغمبروں کی پیروی کرتے تھے اس سلسلے میں پیغمبر خدا پر بھی پروردگارعالم کی جانب سے یہ ذمہ داری عائد تھی کہ اس غلط رائج رسم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں وہ بھی اس طرح سے کہ اپنے منھ بولے بیٹے کی سابقہ بیوی سے شادی کریں کیونکہ یہ غلط رسم معاشرے میں اس طرح جڑ پکڑ چکی تھی کہ صرف قانون نافذ کرنے کے ذریعے کبھی بھی ختم نہیں ہوگی بلکہ اس کے خاتمے کے لئے ایک عملی اقدام کی ضرورت تھی ایسی ضرورت کہ جس کا کوئی بھی مقابلہ نہ کرسکے اور یہ چیز سب کے لئے قابل قبول ہو قرآن کریم اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ۔ ۔ ۔ ۔ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا۔ مَا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا۔" " اس کے بعد جب زید نے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اس عورت کا عقد تم سے کر دیا تاکہ مومنین کے لئے منھ بولے بیٹوں کی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب وہ لوگ اپنی ضرورت پوری کر چکیں اور اللہ کا حکم بہرحال نافذ ہوکر رہتا ہے۔ نبی کے لئے خدا کے فرائض میں کوئی حرج نہیں ہے یہ گزشتہ انبیاء کے دور سے سنّت الہیہ چلی آرہی ہے اور اللہ کا حکم صحیح اندازے کے مطابق مقررکیا ہوا ہوتا ہے۔" (8)
اس شادی نے اگر چہ جاہلیت کے زمانے میں رائج ایک غلط رسم کو ختم کردیا تھا اس کےعلاوہ معاشرے میں مساوات و برابری کا درس دیا چونکہ اسلام کے عظیم و عالیقدر رہبرنے ایک ایسی عورت سے شادی کیا کہ جو پہلے ان کے منھ بولے بیٹے کی بیوی تھی اور اس زمانے میں ایسی شادیوں کی سخت مخالفت کی جاتی تھی اسی بناء پر منافقوں اور کج فکروں کی جانب سے بے شمار اعتراضات اور تنقیدیں شروع ہوگئيں اور ہر ایک کی زبان پر یہی جملہ رقص کرنے لگا کہ محمد نے اپنے منھ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کی ہے ۔ پروردگارعالم نے ان افکار سے مقابلے کے لئے قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کو نازل کیا" " مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا۔" محمد تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء علیہم السّلام کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے۔"(9)
قرآن کریم نے صرف اسی بات پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اپنے پیغمبر کو کہ جو اپنے پروردگار کے حکم کو جاری کرنے میں شجاعت و بہادری اور بے باکی کا مظاہرہ کیا لہذا سورہ احزاب کی اڑتیسویں اور انتالیسویں آیتوں میں مورد ستائش قرار دیا ، ان دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ محمد بھی تمام پیغمبروں کی طرح ہیں جو خدا کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور خداوندعالم کی اطاعت و فرمانبرداری میں کسی سے بھی نہیں ڈرتے ہیں۔


سوالات:


1۔ انبیاء علیہم السلام اور دوسرے اجتماعی رہبروں میں بنیادی فرق کیا ہے۔؟
2۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زینب بنت جحش سے شادی کیوں  اس قدرپیچیدہ بن گئی۔؟


منابع:


(1) المغازی، " واقدی" ج 2 ص 265
(2) کشف الغمـّۀ " اربلی" ج 2 ص 189
(3) بحارالانوار، " مجلسی" ج 20 ص 39
(4) طبقات الکبری "ابن سعد" ج 2 ص 49
(5) امالی "شیخ صدوق" ص 134
(6) أسد الغابـۀ "ابن اثیر" ج 2 ص 130
(7) سوره احزاب آیت 36
(8) سوره‎ احزاب آیت 37و38  
(9) سوره‎ احزاب آیت 40
 
 
دفترنشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف: علی ریختہ گرزادہ تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: