مواد کا کوڈ۔: 22
ہٹس: 66
تاریخ اشاعت : 26 October 2022 - 23: 52
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (15)
یہودیوں کے بعض  قبیلوں کے سردار کہ جو مدینہ منورہ کےعوام کے اسلام قبول کرنے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے بعد  مدینہ منورہ کو ترک کرکے قلعہ خیبر میں پناہ لے لیا تھا، اسلام کو ختم کرنے کے لئے ایک منصوبہ بند سازش رچی اورمسلمانوں کو مختلف گروہوں کے روبرو کردیا جو تاریخ عرب میں ایک بے نظیر واقعہ تھا

 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (15)
 


" یہودیوں کے بعض  قبیلوں کے سردار کہ جو مدینہ منورہ کےعوام کے اسلام قبول کرنے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے بعد  مدینہ منورہ کو ترک کرکے قلعہ خیبر میں پناہ لے لیا تھا، اسلام کو ختم کرنے کے لئے ایک منصوبہ بند سازش رچی اورمسلمانوں کو مختلف گروہوں کے روبرو کردیا جو تاریخ عرب میں ایک بے نظیر واقعہ تھا ۔ "


جنگ خندق سے جنگ موتہ تک


یہودیوں کے بعض  قبیلوں کے سردار کہ جو مدینہ منورہ کےعوام کے اسلام قبول کرنے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے بعد  مدینہ منورہ کو ترک کرکے قلعہ خیبر میں پناہ لے لیا تھا، اسلام کو ختم کرنے کے لئے ایک منصوبہ بند سازش رچی اورمسلمانوں کو مختلف گروہوں کے روبرو کردیا جو تاریخ عرب میں ایک بے نظیر واقعہ تھا ۔


جنگ خندق


اس جنگ میں اسلام کے خلاف عرب اور یہودیوں کی مشترکہ فوج آمادہ ہوگئیں، قریش نے موقع سے فائدہ اٹھایا اورمختلف گروہوں سے ایک عظیم لشکر تیارکیا اور مدینہ جانے کا قصد کیا، تقریبا ایک مہینے تک مدینہ منورہ کا محاصرہ کیا، چونکہ اس جنگ میں بہت سے احزاب اور مختلف گروہ شریک تھے لہذا مسلمانوں نے اسلامی مرکز" مدینہ منورہ" کی حفاظت کے لئے شہر کے ارد گرد خندق کھودی تاکہ دشمن مدینہ میں داخل نہ ہوسکیں اسی لئے اس جنگ کو احزاب یا جنگ خندق کہا جانے لگا۔
یہودی قبیلوں کے بعض سردار کہ جو مدینے مدینہ منورہ کے لوگوں کے مسلمان ہونے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ آنے کے بعد مدینہ منورہ ترک کیا تھا اور خیبر میں پناہ حاصل کی تھی انہوں نے اسلام کے خلاف بہت ہی دقیق نقشہ تیار کیا اورمسلمانوں کو مختلف گروہوں کے سامنے روبرو کردیا جس کی مثال عرب کی طویل تاریخ میں نہیں ملتی، اس منصوبہ میں عرب کے بے شمار گروہ یہودیوں کی مالی اور اقتصادی مدد سے بہرہ مند تھے اور مخالف لشکر کو سیکڑوں قسم کے جنگی وسائل و سامان فراہم کیا تھا۔ 
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے جو لوگ مدینہ منورہ کے اطراف و جوانب اور مخالفین کے امور پر نظریں جمائے ہوئے تھے ان لوگوں نے خبر دی کہ  اسلام کے خلاف ایک بہت بڑا لشکر تشکیل پایا ہے اور اس لشکر کے افراد ایک معینہ دن روانہ ہوں گے اور مدینہ منورہ کا محاصرہ کریں گے ،یہ سنتے ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سیکورٹی کونسل تشکیل دی تاکہ جنگ احد میں جو تلخ تجربات حاصل ہوئے تھے اس سے بہترین نتیجہ حاصل کریں ، کچھ مدت تک ہونے والی بحث و گفتگو کے بعد حضرت سلمان فارسی رحمۃ اللہ علیہ نے کہ جو ایران کے تمام جنگی فنون سے مکمل طور پر آشنا تھے کہا:ہماری سرزمین پر جب بھی لوگ خطرناک دشمن کے روبرو ہوتے تھے تو شہر کے اطراف و جوانب میں ایک بہت گہری خندق کھودتے تھے اور اس طرح سے دشمنوں کو اپنی جانب آنے سے روک دیا کرتے تھے  لہذا ضروری ہے کہ ہم بھی مدینہ کے ان حساس علاقے کو کہ جہاں سے جنگی ساز و سامان آسانی سے داخل ہوسکتے ہیں ایک خندق کھودکر دشمن کی راہ کو بند کردیں تاکہ دشمن شہر میں داخل نہ ہوسکیں اورخندق کے اطراف میں محاذ بناکردفاع کریں اور خندق کے اطراف میں موجود برج اور محاذوں سے تیر بارانی کرکے دشمنوں کو خندق سے عبور کرنے میں رکاوٹ پیدا کردیں ۔
حضرت سلمان فارسی کف مشورے کو سب نے قبول کرلیا اور ان کے اس دفاعی مشورے نے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت میں نہایت ہی اہم کردار ادا کیا اور سب سے اہم بات تو یہ کہ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بعض گروہ کے ساتھ مل کر نقصان پہنچنے والے حساس مقامات کا جائزہ لیا اور سب سے پہلے خود ہی زمین پر کدال چلائی اور زمین کھودنے میں مشغول ہوگئے اور حضرت علی علیہ السلام مٹی کو باہر نکال کر پھینکنے لگے، آنحضرت کے چہرے اور پیشانی سے پسینہ بہہ بہہ کر گررہا تھا اور آپ کی زبان اقدس پر یہ جملے جاری تھے:  "لاعَیْشَ اِلاّ عَیْشُ الْآخِرَۀِ اَللّهُمَّ اغْفِرِ الْاَنْصارَ وَالْمُهاجِرَۀ"(1)
" بے شک حقیق زندگی آخرت کی زندگی ہے خدا یا مہاجر و انصار کے  گناہوں کو بخش دے"
آخر کارمختلف قبیلوں کے دس ہزار افراد پر مشتمل عرب کا لشکر مدینہ منورہ پرحملہ کرنے کے لئے روانہ ہوا مگر جب یہ لشکر مدینہ منورہ کے قریب پہنچا تو مجبورا خندق کے کنارے اسے پڑاؤ ڈالنا پڑا، دوسری جانب مسلمانوں کا چار ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکرخندق کی جانب روانہ ہوا جس میں تین سو گھوڑے اور پندرہ سو اونٹ شامل تھےاور ان لوگوں نے "کوہ سلع " کے دامن میں پڑاؤ ڈالا۔
جنگی ٹکٹیک( جنگی حکمت عملی) کے مطابق مسلمانوں کی فوج کا پڑاؤ ایک بلند جگہ پرتھا جس کی بناء پر خندق کی سمت مشرکین کی رفت و آمد پربہت ہی آسانی سے نظر رکھی جاسکتی تھی، خندق کی وجہ سے مشرکین کا لشکر تقریبا ایک مہینے تک وہیں بے کار پڑاؤ ڈالے رہا کیونکہ جب بھی کفار میں سے کوئی شخص خندق  کو پار کرنے کی کوشش کرتا تھا تو اوپر سے مسلمان ایک خاص طریقے سے پتھرمار کر اسے بھگا دیتے تھے اور دوسرے یہ کہ جنگ خندق کا زمانہ جاڑے کا تھا اور مدینہ منورہ میں سخت ٹھنڈک پڑتی تھی اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ مشرکین کی فوج کے پاس  کھانے پینے کی چیزیں اس مقدار میں نہ تھیں کہ وہ اس سے زیادہ وہاں قیام کرتے لہذا یہودی کہ جو اس جنگ کے اصلی روح رواں تھے اس نتیجے پر متفق ہوئے کہ اگر کھانے پینے کی چیزیں ختم ہوگئیں اورمکہ کی فوج  بھوک مری کا شکار ہوگئی تو کیا ہوگا اس لئے ایک اور منصوبہ بنایا یعنی جو یہودی مدینہ منورہ میں موجود ہیں انہیں مسلمانوں کے خلاف اکسائیں اوروہ لوگ فتنہ و فساد برپا کریں تاکہ مشرکین مکہ کی فوج آسانی کے ساتھ مدینہ منورہ میں داخل ہوجائے۔
اس منصوبے کے مطابق " حی بن اخطب" جس نے اس جنگ کو بھڑکایا تھا بڑی ہی زحمت و پریشانی کے بعد خود کو بنی قریظہ کے قلعہ تک پہنچا دیا، (بنی قریظہ میں صرف یہودی رہتے تھے اور مسلمانوں سے صلح و آشتی کے ساتھ زندگی بسرکرتے تھے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جو عہد و پیمان باندھا تھا اس کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔) قبیلہ بنی قریظہ کے سردار کعب کو جب یہ خبر ملی کہ حی بن اخطب اس ارادے سے آیا ہے تو حکم دیا کہ دروازے کو نہ کھولیں مگر اس نے بہت زیادہ منت و سماجت اور اصرار کیا کہ اسے مہمان کے طور پرقبول کرکے اندر آنے کی اجازت دیں لہذا دروازہ کھول دیا گیا اور وہ قبیلہ کے سردار کے پاس آکر بیٹھ گیا اور مکہ کی فوج کی بہت زیادہ عظمت بیان کی اور کہا کہ ان کا ارادہ یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں پر مکمل برتری حاصل نہیں کرلیں گے مکہ مکرمہ واپس نہیں جائیں گے۔
کعب نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: خدا کی قسم تم نہایت ہی ذلت و رسوائی کے ساتھ یہاں آئے ہو میری نظر میں عرب کی فوج اس بادل کی طرح سے ہے جو بہت زیادہ گرجتا ہے مگر ایک قطرہ پانی نہیں برساتا، اے اخطب کے بیٹے اے جنگ کو بھڑکانے والے، مجھے میرے حال پر چھوڑ دے ہم نے محمد سے ایک عظیم عہد و پیمان باندھا ہے جو ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم ان سے کئے ہوئے عہد کو نظر اندازکردیں کیونکہ ہم نے آج تک ان میں صداقت ، صلح و صفا، انصاف اور پاکیزگی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ہے۔
لیکن اخطب کا بیٹا جو لوگوں کو بہکانے اور ورغلانے میں بہت زیادہ مہارت رکھتا تھا اس قدر باتیں کیں کہ کعب کو بھی پیغمبر اسلام سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو ختم کرانے میں کامیاب ہوگیا چنانچہ اس نے ایک کمیٹی تشکیل دی اور قبیلے والوں سے رائے مشورہ کیا، ان لوگوں نے متفقہ طور پرکہا کہ جو آپ کی رائے ہے وہی ہم سب کی رائے ہے، آپ جو بھی ارادہ کریں ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اس کے بعد جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اس قبیلے کے درمیان عہد نامہ لکھا گیا تھا، حی بن اخطب کے ہاتھوں پھاڑ دیا گیا اور قبیلہ بنی قریظہ کے تمام افراد مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے۔ (2)
دوسری جانب جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے معتبر افراد سے بنی قریظہ کی عہد شکنی کی خبرملی اور حالات کا پتہ چلا تو آپ ان سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے۔
ادھر بنی قریظہ والوں نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ اپنے کام کے آغاز میں سب سے پہلے مدینہ منورہ کو تباہ و برباد کریں گے اور مسلمانوں کی عورتیں اور بچے کہ جو گھروں میں پناہ لئے ہوئے تھے انہیں خوف و ہراس دلا کر مرعوب کردیں گے۔
مسلمانوں کی جانب سے حالات کا جائزہ لینے والے افراد نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک یہ خبر پہنچائی کہ بنی قریظہ والوں نے قریش اورغطفان سے دو ہزار سپاہی طلب کئے ہیں تاکہ اس قلعہ کے ذریعے مدینہ منورہ میں داخل ہوکر مدینہ کو تباہ و برباد کردیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فورا ہی اپنے دو بہادر و جانباز سرداروں کو یہ ذمہ داری سونپی کہ پانج سو سپاہیوں کے ہمراہ پورے مدینہ میں گھومیں اور تکبیر بلند کرنے والے افراد بنی قریظہ کو کسی بھی طرح کے اقدامات انجام دینے سے روکیں تاکہ عورتیں اور بچے تکبیر کی آواز سن کر سکون و اطمینان حاصل کریں۔
 بہرحال سخت جاڑے کا موسم، کفار قریش کو کھانے پینے کی اشیاء میں کمی اور خوشگوار زندگی بسر نہ کرپانے کا خوف انہیں سخت خوفزدہ کررہے تھے لہذا اس جنگ کو بھڑکانے والے اہم سرغنہ حی بن اخطب نے بنی قریظہ کے یہودیوں سے بیس اونٹ پر لدا ہوا خرما مدد کے طور پر لیا مگر اسلام کے سپاہیوں کے ذریعے اسے ضبط کر لیا گيا اور اسلامی لشکروالوں میں تقسیم کردیا گیا۔
کفار قریش کے لشکر کی ناکامی کی ایک وجہ گہری خندق کا وجود تھا جو ان کے مدینے میں داخل نہ ہونے کے لئے کھودی گئی تھی، دشمن کی فوج رات و دن اس بات کی کوشش میں تھی کہ کسی نہ کسی طرح سے خندق کو عبور کرکے مدینہ میں داخل ہوجائیں لیکن خندق پر پہرا دینے والے محافظوں کے سخت حملوں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہترین تدبیر کی بناء پر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔
یہی وجہ ہے کہ خندق اور کانال کے وجود سے مسلمانوں کے خلاف کفار قریش کے تمام حملوں کی راہیں بند ہوگئیں اورصرف جس بات کے خدشے کا امکان پایا جاتا تھا وہ یہ تھا کہ جو گھوڑے سوار بہت ہی بہادر و ماہر ہیں وہی خندق کو پار کرکے اسلامی لشکر کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیں گے اور مبارزہ طلب کرنے لگیں اور ہوا بھی یہی کہ لشکر کفار کے پانچ افراد منجملہ عمر بن عبدود، عکرمہ بن ابو جہل، ہبیرہ بن وہب، نوفل بن عبداللہ اورضرار بن الخطاب نے جنگی لباس پہنا اورغرور و تکبر کے نشے میں چور بنی کنانہ فوج کے سامنے کھڑے ہوکر کہنے لگے: جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ، آج تم لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ عرب کی فوج کے سب سے بڑے بہادر و شجاع افراد کون ہیں، اس کے بعد اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگائی اور اس جگہ پر پہنچ گئے جو بہت ہی تنگ تھی لیکن فورا ہی ان کے راستے کا محاصرہ کرلیا گیا اور انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا گيا۔  
ان پانچ افراد کے درمیان میں سے ایک شخص کہ جو شجاعت و بہادری اور فنون جنگ میں بہت زیادہ مشہور و معروف اور زبان زد عام و خاص تھا میدان میں آیا اور جنگ کے لئے مبارز طلب کیا، اس نے ہر ہر پل اپنی آواز بلند کی اور جھوم جھوم کر متکبرانہ انداز میں بگل بجانا شروع کردیا اور کہا : ھل من مبارز" کیا ہے کوئی جو میرے مقابلے کے لئے آئے؟ اس آواز سے اسلامی لشکر اورپورے میدان جنگ پر  مہیب سناٹا چھا گيا  ، مسلمانوں کی خاموشی نے اس کی جسارت کو اوربھی زیادہ کردیا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا : جنت کا دعوی کرنے والے کہاں ہیں؟ اے ملت اسلام کیا تمہارا یہ دعوی نہیں ہے کہ تمہارے قتل ہوجانے والے افراد جنت میں جائیں گے اور ہمارے مارے جانے والے دوزخ میں ہوں گے؟ تو کیا تم میں سے کوئی بھی ایک آدمی اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مجھے جہنم واصل کردے یا میں اسے جنت میں بھیج دوں۔؟
بہت زیادہ فریاد اور شوروغل کے بعد کہنے لگا : میں مبارزہ طلب کرنے اور فریاد بلند کرتے کرتے تھک گيا ہوں اور میری آواز پھنس گئی ہے۔
دوسری جانب لشکر اسلام میں عمرو بن عبدود کے نعروں کے مقابلے میں مہیب سناٹا چھایا ہوا تھا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی مرتبہ فرمایا: تم میں سے ایک آدمی اس کے مقابلے میں جائے اور مسلمانوں کو اس کے شرسے محفوظ رکھے لیکن حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے سوا کوئی بھی شخص اس سے مقابلے کے لئے تیار نہیں ہوا آخر کار حضرت علی علیہ السلام نے اس کو واصل جہنم کرکے اسلام کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کردیا، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی تلوارحضرت علی علیہ السلام کو دی ، اپنا مخصوص عمامہ آپ کے سرپر رکھا اور آپ کے بارے میں اس طرح دعا فرمائي : پروردگارا علی کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنا اس کے بعد آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:  " رَبِّ لاتَذَرْنی فَرداً وَ اَنْتَ خَیْرُ الْوارِثین۔" پروردگارا، مجھے اکیلا نہ چھوڑ دینا کہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ہے۔" (3)
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے اس تاخیر کی تلافی کرنے کے لئے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور بہت ہی تیزی کے ساتھ میدان قتال میں پہنچے اس وقت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:
" بَرَزَ الاْیمانُ اِلَی الشِّرک کُلِّه."  (۴) آج کل ایمان کا کل کفر سے مقابلہ ہے"
حضرت علی علیہ السلام نے باآواز بلند فرمایا: اے عمرو جلدی نہ کر، تیرا جواب دینے کے لئے ایک بہادر میدان میں آگيا ہے، عمرو نے پوچھا تم کون ہو کہ مجھ جیسے سے مقابلہ کرنے کے لئے جنگ میں آئے ہو؟ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں ابوطالب کا فرزند علی ہوں، عمر و بن عبدود نے کہا: میں تمہارا خون نہیں بہانہ چاہتا کیونکہ تمہارے والد ماجد میرے قدیمی اور بہترین دوست تھے،میں تمہارے چچا زاد بھائی کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ جس نے تمہیں نہایت ہی سکون و اطمینان کے ساتھ میدان جنگ میں مجھ  سے مقابلہ کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ میں اگر چاہوں تو تمہیں نوک نیزہ کی انی پر اٹھا کر زمین اور آسمانوں کے درمیان معلق کرسکتا ہوں جب کہ نہ تم مردہ ہوگے اور نہ ہی زندہ ۔


سوالات:


1. جنگ خندق میں لوگوں کو اکسانے والا کون تھا اور کس طرح سے وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا۔؟
2. جنگ خندق میں اسلامی لشکر کے کامیاب ہونے کی وجہ کیا تھی۔؟


منابع:


1- غررالحکم و درر الکلم ج 1 ص781 ، صحيح البخاري ج 5 ص 2357 ح 6050 ، صحيح مسلم ج 3 ص 1431 ح 127، سنن الترمذي ج 5 ص 694 ح 3857،مسند ابن حنبل ج 4 ص 343 ح 12757 كلّها عن أنس، كنزالعمّال ج 3 ص 379 ح 7038،المناقب لابن شهر آشوب: ج 1 ص 18 ، بحار الأنوار ج 19 ص 134 ح 9
2- تفسیرقمی ج 2 ص  17و 8
3- سورہ انبیاء آیت نمبر 89
4- احقاق الحق "شوستری " ج 20 ص 625

 

دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت

مولف: علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: