مواد کا کوڈ۔: 24
ہٹس: 1954
تاریخ اشاعت : 28 November 2022 - 08: 16
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (16)
تاریخ اسلام کے عظیم مورخ ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں کہ میرے تاریخ کے استاد جب بھی اس واقعہ کے بارے میں گفتگو اور تفصیل سے روشنی ڈالتے تھے تو اس طرح کہتے تھے: اصل میں عمرو بن عبدود حضرت علی بن ابی طالب سے جنگ کرنے میں خوف محسوس کررہا تھا کیونکہ وہ جنگ بدر اور جنگ احد میں موجود تھا اور حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت و بہادری کو بہت ہی قریب سے مشاہدہ کیا تھا اس بناء پر وہ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ نہیں کرنا چاہتا تھا۔

 

مشہور مورخ ابن ابی الحدید کا بیان


تاریخ اسلام کے عظیم مورخ ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں کہ میرے تاریخ کے استاد جب بھی اس واقعہ کے بارے میں گفتگو اور تفصیل سے روشنی ڈالتے تھے تو اس طرح کہتے تھے: اصل میں عمرو بن عبدود حضرت علی بن ابی طالب سے جنگ کرنے میں خوف محسوس کررہا تھا کیونکہ وہ جنگ بدر اور جنگ احد میں موجود تھا اور حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت و بہادری کو بہت ہی قریب سے مشاہدہ کیا تھا اس بناء پر وہ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: تو میری موت کے بارے میں فکرمند نہ ہو، میں دونوں صورتوں میں یعنی اگر مارا گیا یا تجھے قتل کردیا تو بھی سعادت مند رہوں گا لیکن ہر صورت میں دوزخ تیرا انتظار کررہی ہے ،یہ سن کر عمر بن عبدود مسکرایا اور کہنے لگا: اے علی یہ تقسیم منصفانہ نہیں ہے کہ جنت و دوزخ دونوں صورتوں میں تمہاری ہی ہو۔؟
اس وقت مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے اسے اس عہد نامہ کی یاد دلائی کہ ایک دن کعبہ کاغلاف پکڑ کر خداوندعالم سے یہ عہد و پیمان باندھا تھا کہ جب بھی کوئی بہادر شخص میدان جنگ میں تین درخواست کرے گا تو ان میں سے ایک کو ضرور قبول کروں گا، اس بناء پر حضرت علی علیہ السلام نے اس سے فرمایا : کہ اسلام کے دامن سے متمسک ہوجا، اس نے جواب میں کہا یہ بھول جاؤ ایسا کبھی بھی نہیں ہوسکتا ،پھر مولائے کائنات نے فرمایا  ٹھیک ہے تو پھر جنگ کرنے سے باز آجا اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کے حال پر چھوڑ دے اور میدان جنگ سے باہر چلا جا، اس نے جواب میں کہا : اے علی، یہ بات قبول کرنا میری ذلت و رسوائی پر استوار ہوگا کیونکہ کل عرب کے شعراءاپنے اشعار میں مجھے برا بھلا کہیں گے اور یہ بھی لکھیں گے کہ ہم نے خوف و ہراس کی بناء پر ایسا کیا ہے یہ سننے کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: تو اب تم جنگ کے لئے تیار ہوجا تیرا حریف تیرے مد مقابل سواری سے اتر کر کھڑا ہے تو بھی اپنے گھوڑے سے اترجا تاکہ ایک دوسرے سے جنگ کریں، اس نے کہا: اے علی یہ درخواست بہت ہی معمولی ہے کہ ایک عرب مجھ سے اس طرح کی درخواست کرے۔
عرب کے دو پہلوانوں کے درمیان گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی دونوں پہلوانوں کو اڑنے والے گردوغبار نے ہر طرف سے گھیر لیا اورجنگ کا مشاہدہ کرنے والے حالات سے بے خبر تھے صرف تلوار کے ٹکرانے اور سپر پر پڑنے والے وار کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور ایک دوسرے پروار کرنے کی آوازیں کانوں سے ٹکرارہی تھیں کچھ دیر کے بعد عمرو بن عبدود نے حضرت علی علیہ السلام کے سر پر تلوار چلائی مگر حضرت علی علیہ السلام نے اپنی سپر کے ذریعے اس کی ضربت کا دفاع کیا لیکن پھربھی آپ کے سر پر تلوارکا وار لگ ہی گیا ، آپ نے اس سنہرے وقت سے استفادہ کرتے ہوئے اس کے پیر پر تلوار چلائی اور اس کے دونوں پیر کٹ کر الگ ہوگئے اور عمرو بن عبدود زمین پر گر پڑا۔  
اچانک گرد و غبار صاف ہوا اور اس کے درمیان سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی یہ حضرت علی علیہ السلام کی کامیابی کی علامت تھی، ادھر زمین پر عمرو بن عبدود کے تڑپنے کے منظر نے تمام بہادروں کے دلوں پر کہ جو اس کے پیچھے صف بستہ کھڑے تھے ایسا رعب ڈالا کہ بے اختیار سب نے اپنے اپنے گھوڑوں کی لجامیں پکڑیں اور خندق کی طرف بھاگنے لگے اور اپنے لشکر میں آکر پناہ حاصل کی سوائے نوفل کے کہ جس کا گھوڑا خندق میں گرگیا تھا اور وہ خود بھی زمین پر گرگيا، خندق کی نگہبانی کرنے والے سپاہیوں نے اس پر سنگ بارانی شروع کردی اس نے بلند آواز سے چیخنا شروع کردیا کہ اس طرح سے کسی کو مارنا شجاعت و جوانمردی کے برخلاف روش ہے، تم میں سے کوئی ایک شخص خندق میں آئے تا کہ میں اس کے ساتھ جنگ کروں، حضرت علی علیہ السلام خندق میں اترے اور اس کے ساتھ جنگ کی آخر کار وہ مولائے متقیان کے ہاتھوں مارا گيا۔ 
یہ منظردیکھ کر سب سے زیادہ ابو سفیان وحشت زدہ اور مبہوت ہوگیا تھا وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان نوفل کے جسم کو حمزہ کے بدن کا انتقام لینے کے لئے مثلہ کردیں ۔یہی سوچ کر اس نے ایک شخص کو بھیجا تا کہ دس ہزار دینار میں نوفل کی لاش کو خرید لے لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: نوفل کی لاش کو دیدو کیونکہ اسلام میں لاش کا بیچنا حرام ہے۔  


ضربت حیدری کی عظمت


عمرو بن عبدود کے قتل نے ایک طرف تو دس ہزار پر مشتمل عرب کی فوج کے دلوں پر رعب و وحشت طاری کردیاتھا اور دوسری جانب مسلمانوں کو کہ جو عمرو بن عبدود کے نعرے سن رہے تھے اور ان کے بدن پر خوف و ہراس نے رعشہ ڈال دیا تھا زندہ کردیا، جس وقت حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ضربت حیدری کی ان الفاظ میں اہمیت و عظمت بیان کی۔  " ضَرْبَۀُ عَلِیٍّ یَوْمَ الْخَنْدَقِ اَفْضَلُ مِنْ عِبادَۀِ الثَّقَلَیْنِ" (1) "جنگ خندق میں علی کی ایک ضربت میری امت کے تمام اعمال سے افضل ہے"
کیونکہ عرب کے سب سے بڑے شجاع و بہادر کافر کے قتل کے سائے میں تمام مسلمان عزیز و محترم قرار پائے اور مشرکین  مکہ کی فوج ذلیل و خوار ہوگئی۔


جوانمردی


اگر چہ عمرو بن عبدود کی زرہ بہت ہی زیادہ قیمتی تھی لیکن علی علیہ السلام نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا یہاں تک کہ عمربن خطاب نے حضرت علی علیہ السلام کوبرا بھلا کہا کہ آخر کیوں علی نے اس کے بدن سے زرہ کو جدا نہیں کیا اور اپنے ساتھ کیوں نہیں لائے ، جب عمرو بن عبدود کی بہن کو اس بات کی خبر ملی تو کہا: مجھے اپنے بھائی کے قتل ہونے کا ذرہ برابر بھی افسوس نہیں ہوا کیونکہ اسے ایک کریم شخص نے قتل کیا ہے ورنہ جب تک زندہ رہتی ان پر اشک غم بہاتی رہتی۔  


جنگ کا خاتمہ


آخر کارعمرو بن عبدود کے مارے جانے کے بعد دشمن کا لشکر متفرق ہوگيا اور راہ فرار اختیار کیا، کفارقریش مکہ کی طرف واپس چلے  گئے اور یہودی عہد و پیمان باندھنے کے لئے اپنے اپنے قبیلوں کی طرف واپس چلے گئے لیکن جنگ ختم ہونے کے فورا بعد ہی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا کہ اسلامی فوج اس بڑے یہودی قبیلے کی جانب کہ جس کا اس جنگ میں بہت ہی اہم کرداررہا ہے متوجہ ہوں، چونکہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے بعد اطراف مدینہ کے یہودیوں سے صلح و آشتی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا عہد و پیمان باندھا تھا اور اس عہد نامہ میں مدینہ کے اطراف میں رہنے والے یہودیوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر کسی موقع پر اسلام و مسلمین کے خلاف قیام کریں گے یا اسلام مخالف گروہوں کے ساتھ سازباز کریں تو اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے مبارزہ کرکے انہیں قتل اور اسیرکرکے ان کے مال کو ضبط کرسکتے ہیں اس بناء پر ایسے عہد نامہ کے پیش نظراور دوسری جانب ان کی جانب سے جنگ شروع کرنے میں ان کے اہم کردار اور یہ کہ آئندہ مسلمان ان کی جانب سے خوف و ہراس محسوس کریں تو اس طرح کے تمام عوامل اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے مناسب طریقے سے پیش آئيں، یہی وجہ ہے کہ جنگ کے ختم ہوجانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنی قریظہ کے یہودیوں پر حملہ کرنے کا حکم دیدیا چنانچہ منصوبہ بند پروگرام کے مطابق ( کہ جس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی ) ان کی جنایتوں کا قلع قمع کردیا۔  


حج یا عمرہ کرنے کا ارادہ


ہجرت کا چھٹا سال تمام تلخ و شیریں واقعات کے خاتمے کی راہ پر گامزن تھا کہ اچانک پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ مسلمان مسجد الحرام میں طواف خانہ خدا میں مشغول ہیں آپ نے اس خواب کو اپنے صحابیوں کے سامنے بیان کیا اور اس خواب کو نیک فال تصور کیا کہ مسلمان عنقریب اپنی دیرینہ آرزو کو پہنچ جائیں گے۔
اس خواب کے مطابق اور بعض مسلمانوں کے حج و عمرہ کی انجام دہی کے لئے بے حد لگاؤ اور انسیت کی وجہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تقریبا اٹھارہ سو افراد کے ہمراہ مناسک حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے اور جب" ذو الحلیفہ" نامی مقام پر پہنچے تو احرام پہنا اور ستر اونٹ قربانی کے لئے معین کیا اور ان سب کی ایک خاص روش سے ان کی نشاندہی کی اور اس سفر کے ذریعے اپنے اہداف و مقاصد کو بیان کیا۔ 
جب قریش پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارادے سے آگاہ ہوئے تو اس خوف سے کہ کہیں پیغمبراس مناسک حج کی ادائیگی کے بہانے حملہ اور جنگ کا ارادہ رکھتے ہوں لہذا اپنے لشکرکے دو سو فوجیوں کو خالد بن ولید کی سرپرستی میں مکہ مکرمہ سے باہر بھیجا تاکہ پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیں ادھر کفار قریش کے اس مختصر لشکر نے یکے بعد دیگرے اپنے چند نمائندوں کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس بھیجا تاکہ پیغمبر اسلام کے آنے کا مقصد دریافت کریں اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی طرف سے آنے والے ہر ایک شخص کا جواب صرف اور صرف مناسک حج کی ادائیگی بتایا مگر اس کے باوجود وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و اآلہ وسلم کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئے۔


بیعت رضوان


کفار قریش کی جانب سے مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی نے مسلمانوں میں عجیب وغریب ہیجان پیدا کردیا اور ان میں سے بعض کے پاکیزہ احساسات و عواطف اس قدر جوش مارنے لگے کہ فورا ہی مشرکوں سے جنگ کرنے کے لے آمادہ ہوگئے، قریش کی بے جا حرکتیں اور انسانیت سے گرے ہوئے کام اس بات کا باعث بنے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان مسلمانوں کو آزمائيں کہ جو مدینہ منورہ سے خانہ خدا کی زیارت کے لئے بغیر اسلحے کے نکلے تھے اور اس وقت اسیر اور جنگ کے لئے آمادہ تھے ۔
لہذا آپ نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں یہاں سے اس وقت تک کہیں نہیں جاؤں گا جب کہ اس کام کو مرحلہ اختتام تک نہ پہنچادوں اس کے بعد یہ سوچا کہ مسلمانوں کے ساتھ اپنے عہدو و پیمان کی تجدید کریں لہذا آپ ایک پیڑ کے سائے میں بیٹھ گئے اورآپ کے تمام صحابیوں نے آپ کے دست مبارک پردوبارہ بیعت کی، اپنی وفا داری پر عہد باندھا، قسم کھائی اورکہا کہ جب تک جسم میں سانس چلتی رہے گی دین اسلام کے حریم و آئین کا دفاع کرتے رہیں گے اور اس واقعے کو " بیعت رضوان" کا نام دیا گيا جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ 
" یقیناً خدا صاحبانِ ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انہیں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی۔" (2)
اس عہد و پیمان کے بعد مسلمانوں کے لئے یہ بات واضح و روشن ہوگئی کہ یا تو مسلمانوں کو مکہ مکرمہ جانے کا راستہ دیں تاکہ یہ لوگ خانہ کعبہ کی زیارت سے مشرف ہوں یا تو پھر قریش کے ساتھ سخت جنگ کریں گے۔(3) 


صلح حدیبیہ


بہرحال چند دنوں کی کشمکش کے بعد قریش کی جانب سے سہیل بن عمرو نامی ایک نمائندہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آيا اور بہت زیادہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد کہا: کہ قریش کے سرداروں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے اس وقت جہاں پر پڑاؤ ڈالا ہے وہیں سے مدینہ منورہ واپس چلے جائیں لیکن آئندہ برس تمام قبائل عرب کی طرح مناسک حج میں شرکت کریں مگر شرط یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ مکہ مکرمہ میں نہیں ٹھہریں گے اورمسافروں کے اسلحے کے علاوہ کسی بھی طرح کا اسلحہ ان کے ساتھ نہیں ہوگا۔   
سہیل بن عمر اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان ہونے والی گفتگو اس بات کا سبب بنی کہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان ایک وسیع و مکمل معاہدہ لکھا جائے، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ صلح نامہ تحریر کریں۔
ابتداء میں سہیل بن عمرو نے خداوندعالم کے نام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام اور معاہدے کےعنوان کے متعلق مخالفت کی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا اور مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ حضرت اور قریش کے درمیان معاہدہ طے پایا ۔
1۔ قریش اور مسلمان اس بات کا عہد کریں کہ دس برس تک آپس میں جنگ و جدال نہیں کریں گے تاکہ اجتماعی طور پر امن و سکون اور پورے خطہ عرب میں صلح و آشتی کا ماحول بنارہے۔
2۔ اگر قریش کا کوئی بھی شخص اپنے بزرگوں کی اجازت کے بغیر مکہ سے راہ فرار اختیارکرکے اسلام قبول کرے اور مسلمانوں کے ساتھ ہوجائے تو محمد اسے قریش کے پاس واپس بھیجیں گے لیکن اگر کوئی مسلمان بھاگ کر قریش کی طرف آجائے تو قریش کے لئے ضروری نہیں ہوگا کہ وہ اسے مسلمانوں کی طرف واپس بھیجیں ۔
3۔ مسلمانوں اور قریش کو یہ حق حاصل ہوگا کہ جس قبیلے سے بھی چاہیں عہد و پیمان باندھیں۔
4۔ محمد اور ان کے ساتھی اس سال اسی علاقے سے مدینہ منورہ واپس پلٹ جائیں مگر آئندہ برس آزادی کے ساتھ مکہ مکرمہ آکر خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ مکہ مکرمہ میں قیام نہ کریں اور مسافروں کے اسلحے کے علاوہ کسی بھی طرح کا اسلحہ ان کے ساتھ نہ ہو۔   
5۔ مکرمہ میں مقیم مسلمان اس معاہدہ  کے سبب اپنی تمام مذہبی امور کو آزادی کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں اور قریش کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ مسلمانوں کو اذیت و تکلیف پہنچائیں یا انہیں اپنے مذہبی قوانین و امور کو چھوڑنے پر مجبور کریں یا ان کے مذہب کا مذاق اڑائیں۔
6۔ اس معاہدہ پر دستخط کرنے والوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کے مال کو محترم شمار کریں گے اور دھوکہ و فریب کو ترک کرکے ان کے قلوب کو ایک دوسرے کی بہ نسبت کدورت اور کینے سے پاک صاف رکھیں گے۔
7۔ وہ مسلمان جو مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوں گے ان کی جان و مال کی حفاظت اور ان کا احترام ضروری ہوگا۔
چونکہ یہ معاہدہ "حدیبیہ "نامی مقام پر لکھا گیا تھا لہذا " صلح حدیبیہ" کے نام سے مشہور ہوگیا ۔ قریش اور اسلام کی بڑی بڑی شخصیتوں نے اس معاہدہ پرگواہی دی اور اسے دو مرتبہ لکھا گیا اور اس کا ایک نسخہ سہیل بن عمرو اور دوسرا نسخہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا گیا ۔ البتہ اس صلح نامہ کو دونوں طرف سے بہت ہی سنجیدگی سے قبول نہیں کیا گیا بلکہ قوانین کی ہرشق پرکچھ نہ کچھ کشمکش یا قریش کی جانب سے یا مسلمانوں کی جانب سے انجام پائی گئی، لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سکون و اطمینان اور مسلمانوں کی آزادی کے لئے کہ جو مکہ مکرمہ میں کسم پرسی کے عالم میں زندگی بسر کررہے تھے اور قریش کے ظلم و ستم کا شکار تھے سب نے اس معاہدہ کو قبول کرلیا اور آخر کارصلح نامہ پر دستخط ہوجانے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احرام اتارنے کے عنوان سے اس مقام پر اپنے اونٹ کی قربانی دی اور اپنے سر کے بال منڈوائے اور بہت سے گروہ نے بھی آپ کی پیروی کی۔  (4)


سوالات:


1-     پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ خندق میں حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت کو کس طرح توصیف فرمایا۔؟
2-     بیعت رضوان کس طرح رونما ہوئی۔؟
3-     صلح حدیبیہ کا واقعہ کیا ہے۔؟


منابع:


1-     المواقف " عضد الدین ایجی " ص 617
2-     سورہ فتح آیت 18
3-     زاد المعاد " ابن قیم جوزی" ج 1 ص 382
4-     البدایۃ و النہایۃ " ابن کثیر" ج 4 ص 168 و 169
  
 
دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف: علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: