مواد کا کوڈ۔: 26
ہٹس: 1862
تاریخ اشاعت : 28 November 2022 - 08: 45
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (18)
خیبر میں رہنے والے یہودی ہمیشہ اس بات کی کوشش میں لگے رہتے تھے کہ عرب کے قبیلے والوں کو اسلامی حکومت ختم کی ترغیب و تشویق دلائیں مثال کے طور پر ایک جگہ پرمشترکہ فوج کو سعودی عرب کے مختلف مقامات پرروانہ کیا اور یہودیوں کی مالی مدد سے ان لوگوں کو مدینہ منورہ پہنچایا اورجنگ احزاب چھیڑ دی۔

خطرہ کا اڈہ  یا قلعہ خیبر


خیبر میں رہنے والے یہودی ہمیشہ اس بات کی کوشش میں لگے رہتے تھے کہ عرب کے قبیلے والوں کو اسلامی حکومت ختم کی ترغیب و تشویق دلائیں مثال کے طور پر ایک جگہ پرمشترکہ فوج کو سعودی عرب کے مختلف مقامات پرروانہ کیا اور یہودیوں کی مالی مدد سے ان لوگوں کو مدینہ منورہ پہنچایا اورجنگ احزاب چھیڑ دی۔ 
خیبر کے بے غیرت یہودیوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اصرار کیا کہ اس خطرے کے اڈے کو اجاڑ پھینکیں اوران سب کے اسلحوں کو ضبط کرلیں، کیونکہ اس بات کا خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ہٹ دھرم، ضدی اور فسادی قوم بہت زیادہ پیسےخرچ کرکے بت پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف ورغلا دیں اور دوبارہ جنگ احزاب کا معرکہ شروع ہوجائے۔
اسی بناء پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ تمام مسلمان سعودی عرب میں یہودیوں کے آخری مرکز پر قبضہ کرنے کے لئے تیار ہوجائیں اور پھر فرمایا: اس عظیم جنگ میں وہی لوگ شرکت کرسکتے ہیں جو صلح حدیبیہ میں موجود تھے اس کے علاوہ درسرے افراد اس جنگ میں بعنوان رضا کارانہ شرکت کریں لیکن انہیں مال غنیمت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا ، پھر آپ نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ میں سفید پرچم دیا اور روانہ ہونے کا حکم دیا۔
جب یہ لوگ سرزمین خیبر کے قریب پہنچے تو اپنے سروں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور اپنے خدائے منان سے اس طرح مناجات کی: خدایا، تو ہی آسمانوں اور جو کچھ بھی اس کے نیچے ہے اس کا خدا ہے اور زمین اور جو کچھ  بھی اس پربھاری چیزيں موجود ہیں اس کا خدا ہے میں تجھ سے اس آبادی کے لئے نیکی اور اس کے اہل کے لئے اور جو کچھ اس میں ہے نیکی کا خواہاں ہوں اور ان کی برائیوں اور جو کچھ اس میں برائی موجود ہے اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
ایک ہزار چھ سو شجاع  و بہادر سپاہیوں کے سامنے تضرع و زاری کے ساتھ یہ دعائیں اس بات کی حکایت کررہی ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سرزمین پر جاہ و حشم، آرام و سکون اور بدلہ لینے کے قدم نہیں رکھا تھا بلکہ آپ اس لئے تشریف لائے تھے کہ اس خطرناک اڈے کو کہ جس کے متعلق ہر لمحہ یہ امکان پایا جارہا تھا کہ مشرک بت پرستوں کا مرکز بن جائے، ختم کردیں تاکہ اسلامی تحریک کو خطرہ لاحق نہ ہو۔ 
خیبر کے یہودیوں نے اپنی سرزمین کی حفاظت کے لئے سات مستحکم قلعہ مخصوص ناموں کے ساتھ بنوایا تھا اور ہر قلعے کے کنارے حفاظت کے لئے ایک ایک برج بنوایا تھا تاکہ ان برجوں کے نگہبان قلعہ کے باہر کی خبروں سے آگاہ کریں، برج اور قلعہ کی عمارت کو بنانے کی روش یہ تھی کہ اس میں رہنے والے قلعے کے باہر کے حالات سے باخبر تھے اور منجیق وغیرہ کے ذریعے دشمنوں پر سنگ بارانی کرسکتے تھے ۔ کھانے پینے کی بہت زیادہ اشیاء قلعہ میں اس قدر جمع کی گئی تھیں کہ تقریبا بیس ہزار افراد کافی دنوں تک کھا پی سکتے ہیں، آمادہ کی گئی تھیں۔
تمام مسلمان کہ جو اس کیفیت کے ساتھ روبرو ہوئے تھے سب سے پہلا کام جو انجام دیا وہ یہ تھا کہ ایک شبانہ روز میں تمام حساس علاقوں اور راستوں پر اسلام کے سپاہیوں نے قبضہ کرلیا اور یہ کام اس قدر پوشیدہ طور پر اتنی جلدی انجام دیا گيا تھا کہ برج پر رہنے والے محافظ بھی اس کام سے آگاہ نہ ہوسکے ۔ صبح سویرے جب کسان قلعہ کے باہرنکلے اور اسلام کے بہادر سپاہیوں سے ملاقات ہوئی تو الٹے پیر بھاگ کھڑے ہوئے اور سب کے سب چیچنے چلانے لگے، محمد اپنے سپاہیوں کے ساتھ یہاں موجود ہیں لہذا فورا ہی قلعہ کے تمام دروازوں کو مستحکم طریقے سے بند کردیا اور قلعہ کے اندر جنگی سیکورٹی تشکیل دیا آخر کار یہودیوں نے قلعہ کے اندر جو کچھ امکانات موجود تھے اور اپنے لئے آمادہ کررکھا تھا ایک مہینے تک اسلامی لشکر سے مقابلہ و استقامت کی اس طرح سے کہ کبھی کبھی ایک قلعہ کو حاصل کرنے کے لئے دس دس دنوں تک محنت و مشقت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی کوئی ینتجہ نہیں نکلا۔


مشکلات کے باوجود پرہیزگاری


جنگ کے ان سخت دنوں میں بھوک و پیاس نے بھی مسلمانوں پر سخت دباؤ ڈالا جس کی بناء پراسلامی لشکرسخت مشکلات و پریشانیوں کاشکارہوگیا تھا ۔ ایک سیاہ چہرے والے چرواہے نے کہ جو یہودیوں کے مویشیوں کی دیکھ بھال کرتا تھا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کیا اے اللہ کے رسول ہمیں اسلام کی حقانیت و تعلیمات سے آگاہ فرمائیے، چرواہے پر ایک ہی ملاقات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحتوں کا اس قدراثر ہوا کہ فورا ہی ایمان لایا اور کہا: یہ سب کی سب بکریاں میرے ہاتھ میں امانت کے طور پر ہیں اور اس وقت جب کہ ہمارے اور بکریوں کے مالک کے درمیان دینی فاصلہ ہوگیا ہے تو میرا فریضہ کیا ہے ؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیکڑوں بھوکے سپاہیوں کی نظروں کے سامنے پوری صراحت کے ساتھ فرمایا : ہمارے مذہب میں امانت میں خیانت ایک بہت بڑا جرم ہے لہذا تم پر لازم ہے کہ بکریوں کو قلعہ کے دروازے تک لے جاؤ اور سب کو ان کے مالکوں تک پہنچا دو اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی اطاعت کی اور فورا ہی جنگ میں شرکت کی اور اسلام کی راہ میں شہادت کے درجے پر فائز ہوگیا۔


قلعے کا دروازہ ایک کے بعد ایک کھلتا  گیا


بعض قلعے کو فتح کرنے کے بعد اسلامی لشکر آخری قلعے کو فتح کرنے کے لئے حملہ آورہوا لیکن قلعہ کے باہر یہودیوں کی نہایت ہی سخت استقامت سے دوچار ہوگیا اور مسلمان سنگین نقصانات کے باوجود دس دنوں سے زیادہ یہودی جنگجوؤں سے لڑتے رہے اور روزانہ بغیر کسی نتیجے کے چھاؤنی پر واپس آتے رہے۔ 
ایک دن ابوبکرابن قحافہ کو خیبرفتح کرنے کے لئے بھیجا گیا ، وہ سفید پرچم لے کر قلعہ کے قریب تک پہنچے اور مسلمان بھی ان کی سرداری میں قلعہ کی طرف روانہ ہوئے مگر کچھ ہی دیر کے بعد بغیر کسی نتیجے کے واپس آگئے اور سردار اور لشکر دونوں ہی ایک دوسرے پرالزام عائد کرتے رہے اور ایک دوسرے پر بھاگنے کا الزام لگاتے رہے۔ 
دوسرے دن فتح خیبر کے لئے عمربن خطاب کو بھیجا گیا انہوں نے بھی اپنے دوست ہی کی طرح کارنامہ انجام دیا اور بغیرکسی نتیجے کے واپس آگئے، تاریخ کے عظیم مورخ علامہ طبری کے نقل کرنے کے مطابق میدان جنگ سے واپس آنے کے بعد مدافعین خیبر کے سردار مرحب کی تعریف و توصیف اور شجاعت و بہادری کا ذکر کرکے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابیوں کو مرعوب کردیا اس کیفیت کو دیکھ کرپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہت سخت ناراض ہوئے پھر آپ نے لشکر کو جمع کیا اورایک ایسا قیمتی جملہ ارشاد فرمایا جسے تاریخ نے اپنے دامن میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلیا، آپ نے فرمایا:
 "  کل میں علم اس شخص کو دوں گا جو خدا وپیغمبرکو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوگا اور خدا و پیغمبر اس کو دوست رکھتے ہوں گے اور خداوندعالم اس قلعہ کوبھی اسی کے ہاتھوں فتح کرے گا وہ ایسا شخص ہے جس نے کبھی بھی دشمن کی طرف پشت نہیں کیا اور نہ ہی کبھی میدان جنگ سے فرار کیا ہے۔ (1)
دوسرے دن صبح سے ہی لشکر اسلامی کا ہر سپاہی اس بات کا منتظرتھا کہ دیکھیں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس شخص کو لشکر کا کمانڈر معین کرتے ہیں اچانک لوگوں کی سماعتوں سے پیغمبر اسلام کی دلنشیں آواز ٹکرائی " علی کہاں ہیں" لوگوں نے عرض کیا وہ آشوب چشم میں مبتلا ہیں اورآرام کررہے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: علی کو بلاؤ، مشہور مورخ علامہ طبری کہتے ہیں: لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کو اونٹ پر سوار کیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس لائے ( یہ جملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے علی علیہ السلام کی آنکھوں میں اس قدر سخت درد تھا سردار کو قتل کردیا تھا) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ حضرت علی علیہ السلام کی آنکھوں پر پھیرا اور ان کے حق میں بارگاہ الہی میں دعا کی آپ کے دہن اقدس سے نکلنے والی دعا اور اس عمل نے اس قدر بہترین اثر دکھایا کہ آپ کی آنکھ فورا ٹھیک ہوگئی اور زندگی کے آخری لمحات تک پھر آپ کی آنکھ میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو میدان جنگ میں جانے کا حکم دیا اور یاد دہانی کرائی کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے قلعہ کے سرداروں کے پاس اپنے نمائندوں کو بھیج کر انہیں اسلام کی دعوت دینا اور اگر قبول نہ کریں تو ان لوگوں کو اسلامی حکومت کے زیر پرچم اپنے فرائض سے آگاہ کرنا یعنی اسلحوں سے خود کو دور کردیں اور ٹیکس ادا کرکے اسلامی حکومت میں آزادی کے ساتھ زندگی بسر کریں اور اگر ان شرائط کو قبول نہ کریں تو ان سے جنگ کرنا اس کے بعد آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے رخصت کیا کہ اگر خداوندعالم نے تمہارے ذریعے ایک انسان کی بھی ہدایت کردی تو اس سے بہتر ہے کہ تمہارے سرخ بال والے اونٹ ہوں اور تم اسے راہ خدا میں دیدو۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بدن کو مضبوط و قوی زرہ سے زینت دی اور اپنی مخصوص تلوار یعنی ذوالفقار کو لیا اور پوری شان و شوکت کے ساتھ میدان جنگ میں جانے کی کہ جو ایک شجاع و بہادر سپاہی کی شان ہوتی ہے قلعہ خیبر کی جانب روانہ ہوئے اور جس پرچم اسلام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کے سپرد کیا تھا اسے خیبر کے پاس زمین میں گاڑ دیا عین اسی وقت قلعہ خیبر کا در کھلا یہودیوں کے بہادر باہر نکلے ، سب سے پہلے مرحب کا بھائی حارث سامنے آيا اس کا رجز اس قدر مہیب تھا کہ وہ سپاہی جو حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے وہ خوف کے مارے پیچھے ہٹ گئے مگر حضرت علی علیہ السلام پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے اورابھی ایک لمحہ بھی نہ گذرا تھا کہ حارث کا بے جان جسم زمین پر پڑا ہوا تھا۔
حارث کی موت نے مرحب کو بہت ہی سخت غمگین اور متاثر کردیا وہ اپنے بھائی کے خون کا بدلہ لینے کے لئے میدان کی جانب بڑھا جب کہ وہ اسلحوں سے لیس، بدن پر یمانی زرہ اور پتھر کی ایک خاص قسم کی بنی ہوئی ٹوپی سر پرلگائے ہوئے تھا اور میدان میں آکر عرب کے بہادروں کی رسم کے مطابق مندرجہ ذیل رجزپڑھنے لگا۔
" خیبر کے در و دیوار گواہی دے رہے ہیں کہ میں مرحب ہوں، ایک آزمودہ بہادر سپاہی اور جنگی اسلحوں سے لیس ہوں،اگر کامیابی کا دن ہے تو میں بھی کامیاب ہوں، میدان جنگ میں جو بھی بہادر سپاہی ہم سے روبرو ہوتا ہے وہ اپنے خون سے رنگین ہوجاتا ہے۔ "
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے بھی دشمن کے مقابلے میں رجز پڑھا اور اپنی شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو دشمن کی طرف بڑھایا اور فرمایا: میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے، میں بہادر سپاہی ہوں، میں ایک شیر غضنفر ہوں، میرے بازو قوی اور میں قوی گردن والا ہوں ، میدان جنگ میں شیر غضنفر کی طرح ہوں کہ جب غراتا ہوں تو میدان جنگ میں سناٹا چھا جاتا ہے۔
دونوں بہادروں کی رجز خوانی کا سلسلہ ختم ہوا، اسلام اور یہودی بہادروں کی تلواروں اور نیزے چلنے کی آوازیں دیکھنے والوں کے دلوں کو دہلا رہی تھیں اچانک لوگوں کی نظروں نے دیکھا کہ اسلام کے عظیم بہادر کی تیز تلوار مرحب کے سر پر لگی اور سپر، جنگی ٹوپی اور سر کو دانت تک دو حصوں میں تقسیم کردیا ، یہ ضربت اس قدرخوفناک تھی کہ مرحب کے پیچھے جو بعض یہودی پہلوان کھڑے ہوئے تھے میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے اور قلعہ میں جا کر پناہ لی اور بعض جو بھاگے نہیں تھے وہ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کرنے لگے اور یکے بعد دیگرے جہنم واصل ہوگئے ، حضرت علی علیہ السلام نے میدان چھوڑ کربھاگنے والوں کا قلعہ کے دروازے تک پیچھا کیا اسی کشمکش کے عالم میں یہودیوں کے ایک جنگجو نے حضرت علی علیہ السلام کی سپر پر تلوار ماری اور سپر آپ کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرگئی ، حضرت علی علیہ السلام فورا ہی در خیبرکی جانب متوجہ ہوئے اور اسے ہاتھوں سے اکھاڑ لیا اور جنگ کے آخرتک اسے سپر کے طور پر استعمال کیا اس کے بعد جب آپ نے اسے زمین پر رکھ دیا تو لشکر اسلام کے آٹھ طاقتور سپاہیوں سمیت منجملہ ابورافع نے اسے اٹھانے کی کوشش کی مگر ذرہ برابر اسے ہلا تک نہیں پائے المختصر یہ کہ وہ قلعہ کہ جس کے پیچھے مسلمان دس دنوں سے محصور تھے بہت ہی کم وقت میں کھل گیا۔
 سیرت لکھنے والوں نے باب خیبراکھاڑے جانے اور اس کی خصوصیات اور فتح باب خیبرکے متعلق حضرت علی علیہ السلام کی ارشادات کے بارے میں حیرت انگیز مطالب تحریر کئے ہیں۔ یہ واقعہ ہرگزانسان کی معمولی طاقت سے وجود میں نہیں آیا ہے خود حضرت علی بن ابی طالب علیہا السلام نے اس بارے میں وضاحت فرمائی ہے اور اس سلسلے میں ہونے والی شک و تردید کو ختم کردیا ہے آپ نے ایک شخص کے جواب میں اس طرح فرمایا: میں نے باب خیبر کو انسانی قوت سے نہیں اکھاڑا ہے بلکہ قوت ربانی اور قیامت پر ایمان راسخ  کے ساتھ یہ کام انجام دیا ہے۔
مسلمانوں کے بزرگ رہنماؤں نے فتح خیبرکے بعد خیبر کے عوام کے لئے اپنی آغوش عطوفت کو پھیلا دیا( وہ افراد جنہوں نے بہت زیادہ پیسے خرچ کرکے بت پرست عربوں کو ان کے خلاف اکسایا اور مدینہ منورہ کو مورد حملہ قرار دیا) اور خیبر کے یہودیوں کے مطالبے کو یعنی یہ کہ یہ لوگ سرزمین خیبر پر زندگی بسر کریں اور خیبر کی زمین اور کجھوروں کے باغ ان کے اختیار میں رہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کچھ حصہ مسلمانوں کو ادا کریں قبول کرلیا۔ (2)
اگر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہتے تو سب کو قتل کردیتے اور سرزمین خیبر کو ان سے چھین کر انہیں نکال باہر کرتے صرف یہی نہیں بلکہ انہیں اسلام قبول کرنے پربھی مجبورکرسکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہیں آزادی کے ساتھ اپنے مذہب کے اصولوں و قوانین پر عمل کرنے کے لئے چھوڑ دیا اگر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خیبرکے یہودیوں سے جنگ کی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ خیبر اور اس سرزمین پر رہنے والے لوگ اسلام اور آئین توحید کے لئے بہت بڑا خطرہ تھے اور اسلام کی تازہ حکومت کے خلاف ہمیشہ مشرکوں سے مل جل کران کی حمایت کرتے تھے اور اگران سے جزیہ ( ٹیکس، اقلیتوں وصول کی جانے والی مالیات) لیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ اسلام کے پرچم تلے امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کررہے تھے اور ان کی جان و مال کی حفاظت کرنا تمام مسلمانوں پر لازم تھا اور دقیق حساب و کتاب کے مطابق جس قدر مسلمانوں پر مالیات اسلامی حکومت کو دینا لازم تھا وہ اس ٹیکس سے زیادہ تھی جو حکومت اسلامی یہود و نصاری قوم سے لے رہی تھی اور اس طرح سے حکومت اسلامی ان اقوام کی حمایت کرتی تھی اور یہ تقسیم اس قدر منصفانہ تھی جس کے بارے میں یہودی کہتے ہیں کہ اس طرح کی منصفانہ تقسیم کی وجہ سے ہی آسمان اور زمین مستحکم و استوار ہیں۔


سوالات:


1-     پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے جنگ کرنے کا ارادہ کیوں کیا۔؟
2-     باب خیبر کس طرح سے اورکس کے ہاتھوں فتح ہوا ۔؟


منابع:


1- مسند بن حنبل  ج 4 ص 51 و 52
2- السیرۃ النبویۃ " ابن ہشام" ج 2 ص 337

دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف: علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: