مواد کا کوڈ۔: 27
ہٹس: 2068
تاریخ اشاعت : 28 November 2022 - 09: 00
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (19)
فدک ایک زرخیز اور آباد سرزمین ہے جو خیبر کے قریب اور مدینہ منورہ سے ایک سوچالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور قلعہ خیبر کے بعد حجاز کے یہودیوں کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔

واقعہ فدک


فدک ایک زرخیز اور آباد سرزمین ہے جو خیبر کے قریب اور مدینہ منورہ سے ایک سو چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور قلعہ خیبر کے بعد حجاز کے یہودیوں کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ اسلامی لشکر نے جب قلعہ خیبر، وادی ام القری اور تیما کے یہودیوں پر فتح حاصل کرلی تو اس سرزمین سے یہودیوں کی قدرت و توانائی کے خاتمے کے لئے کہ جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے خطرہ اور اسلام کے خلاف ایک تحریک شمار ہوتی تھی محیط نامی ایک سفیر کو فدک کے سربراہوں کی طرف بھیجا، یوشع بن نون نے کہ جواس علاقے کے رئیس تھے جنگ کے بجائے صلح و تسلیم کو ترجیح دی اور یہ معاہدہ کیا کہ فدک سے حاصل ہونے والی آمدنی کا نصف حصہ ہر سال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں روانہ کریں گے اور اس کے بعد اسلامی پرچم کے زیر سایہ زندگی بسر کریں گے اسی طرح سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں بھی نہیں رچیں گے اور اسلامی حکومت ان کے ٹیکس ادا کرنے کے بدلے ان کے علاقے کی سکیورٹی کا بھرپور بندو بست کرے گی۔
وہ سرزمین جو اسلامی نظریہ کے مطابق جنگ اور فوج قوت و طاقت کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے اس پر تمام مسلمانوں کا حق ہوتا ہے اور اس کی ذمہ داری اسلامی رہبر و پیشوا کے ہاتھوں میں ہوتی ہے لیکن وہ سرزمین جو بغیر کسی جنگ و فوج کے مسلمانوں کو حاصل ہوتی ہے وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے بعد آنے والے امام کا حق شمار ہوتی ہے اور تمام اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے یعنی انہیں یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ جسے چاہیں تحفے کے طور پر دیدیں اور چاہے تو کرائے پر دیدیں یا اس کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنیوں سے اپنے قریبی اعزہ و اقرباء کی مشکلات اور پریانیوں کو دورکردیں۔
اس معیار کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے باغ فدک کو اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دے دیا تا کہ آنحضرت کی رحلت کے بعد ان کی زندگی عزت و آبرو کے ساتھ بسر ہو اور اسی کے ساتھ ساتھ مقام ومنصب رہبری کی راہ میں پیش آنے والے اخراجات کو بھی رفع کیا جاسکے۔ اہل تشیع کے محدثین و مفسرین اور اہل سنت کے بعض دانشوروں نے اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے کہ جس وقت آیت کریمہ" وَ آتِ ذَا القُرْبی حَقَّهُ وَ الْمِسْکینَ وَابْنَ السَّبیل۔"(1) نازل ہوئی اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اپنے پاس بلایا اور باغ فدک ان کے حوالے کردیا البتہ اس موضوع کے سلسلے میں یعنی آیت کریمہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور آپ کی اولاد طاہرین کی شان میں نازل ہوئی ہے علمائے اسلام کے درمیان اتفاق پایا جاتا ہے مگر آیت کریمہ کے نازل ہونے کے بعد جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے باغ فدک اپنی لخت جگر کو بخش دیا تو اس بارے میں صرف تمام شیعہ علماء اور اہل سنت کے بعض علماء میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ (2)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانگداز رحلت کے بعد سیاسی اغراض و مقاصد کی بناء باغ فدک کو پیغمبر اسلام کی لخت جگرحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خصوصی ملکیت سے محروم کردیا گیا اور اس وقت کے غیر قانونی خلیفہ نے انہیں وہاں سے نکال دیا آپ نے بہت زیادہ کوششیں کی کہ کسی نہ کسی طرح سے غیرقانونی خلافت سے اپنا حق واپس لے لیں مگر جب تک آپ زندہ رہیں اس وقت تک حکومت وقت نے باغ فدک آپ کو واپس نہیں کیا۔
اسلامی خلافت کی پوری تاریخ اور بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں باغ فدک متعدد مرتبہ خاندان پیغمبر کے حوالے کیا گیا اور پھر واپس لے لیا گیا۔


عمرہ قضا


مسلمانوں کو صلح حدیبیہ کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد یہ حق حاصل تھا کہ وہ معاہدے کی تاریخ کے ایک برس گذرجانے کے بعد مکہ مکرمہ میں داخل ہوں اور مکہ مکرمہ میں تین روز قیام اور اعمال عمرہ بجالانے کے بعد مکہ مکرمہ کو ترک کردیں اب جب کہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کو گذرے ہوئے ایک برس ہوگیا تھا تو اب وہ اس سنہرے موقع سے مستفید ہوسکتے تھے اور وہ مسلمان مہاجر کہ جو سات برسوں سے اپنے گھرباراور سکون و اطمینان کی زندگی سے دور تھے اپنے وطن واپس لوٹ جائیں، جس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ جو لوگ گذشتہ برس خانہ خدا کی زیارت سے محروم رہ گئے تھے وہ سفر پر چلنے کے لئے آمادہ ہوجائیں تو ان کے درمیان بے مثال جوش و ولولہ دیکھنے کو ملا اور خوشی کے مارے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اگر گذشتہ برس پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ تیرہ سو افراد خانہ خدا کی زیارت کے لئے گئے تھے تو ایک برس بعد آنحضرت کے ہمراہ زائر خانہ خدا کی تعداد بڑھ کر دو ہزار تک پہنچ گئی تھی۔
مسلمانوں نے میقات پہنچ کر احرام پہنا اور ساٹھ اونٹ کہ جو قربانی کی علامت کے طور پرساتھ میں لائے تھے اپنے ہمراہ لے گئے اور اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے یہ قافلہ مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوا، اس قافلے کا منظر اتنا پررونق اور حسین تھا کہ اس نے بے شمار مشرکین مکہ کو معنویت اور اسلام کی حقیقت کی جانب متوجہ کردیا۔
دوسری جانب مکہ مکرمہ کے سرداروں نے مسلمانوں کے لئے شہر کے دروازوں کو کھول دیا اور کفرکے سرداروں اور ان کے ماننے والوں نے بھی اس شہر کو خالی کرکے اطراف کے پہاڑوں پر سکونت پذیر ہوگئے تھے تا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے روبرو نہ ہوں اور مسلمانوں کے تمام امور پر دور سے نظریں جمائے رکھیں۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہ جو اپنے خاص اونٹ پر سوار تھے دوہزار افراد کے ہمراہ کہ جوآپ کا احاطہ کئے ہوئے تھے لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کررہے تھے جو پورے علاقے میں گونج رہی تھی اور ایسے پرشکوہ انداز میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قافلہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوا اس قافلے سے بلندہونے والی آوازیں اس قدر دلنشیں تھیں جس نے مکہ مکرمہ کے تمام افراد کو متاثر کردیا اور مسلمانوں کے متعلق ان کے قلوب میں کچھ حد تک محبت و الفت پیدا ہوگئی اور اسی کے ساتھ ساتھ مشرکین مکہ کے دلوں میں مسلمانوں کی جانب سے خوف و ہراس بیٹھ گيا۔
  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اونٹ سے اترے، خانہ خدا کی زيارت کی ، طواف کیا اور عبداللہ بن رواحہ کو حکم دیا کہ اس دعا کی ایک خاص لحن کے ساتھ تلاوت کریں اور تمام افراد بھی ان کی آواز سے اپنی آواز ملاکر پڑھیں اور وہ دعا یہ ہے: " لا اِلهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ وَحْدَهُ، صَدَقَّ وَعْدَهُ وَ نَصَرَ عَبْدَهُ وَ اَعَزَّ جُنْدَهُ وَ هَزَمَ الْاَحْزابَ وَحْدَهُ ۔(3)  
اس زمانے میں زیارت کے تمام مراکز اور اعمال عمرہ کے تمام مقدس مقامات جیسے مسجد، کعبہ اور صفا و مروہ وغیرہ سب کے سب مسلمانوں کے اختیار میں تھے۔ ظہرکے وقت بلال حبشی کہ جوعرصہ دراز سے اس شہر میں مسلمان ہونے کے جرم میں مورد ظلم و ستم واقع ہوئے تھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے کعبہ کی چھت پر گئے اور اذان دی ، بت پرست اور توحید کے دشمن یہ منظر دیکھ کر اس قدر ناراض اور غصہ ہوئے کہ صفوان بن بنی امیہ اور خالد بن اسید نے کہا: خدا کا شکر ہے کہ ہمارے آباؤ واجداد مرگئے اور اس حبشی غلام کی آواز نہیں سنی۔
عمرہ کا اعمال ختم ہوا مہاجرین اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگئے اور اپنے اپنے رشتہ داروں اور اہل خاندان سے ملاقاتیں کی، وہ لوگ انصار کے بعض گروہوں کو مہمان کے عنوان سے اپنے گھر لے گئے اور اس طرح سے انصار کی خدمتوں کی تلافی کی کہ جو انہوں نے مہاجرین کی سات برسوں تک کی تھی ۔


سوال:


1-  سرمین فدک کا واقعہ کیا ہے۔؟


منابع:


 1- سورہ اسراء آیت 26 " اور دیکھو قرابتداروں کو اور مسکین کو اور مسافر غربت     زدہ کو اس کا حق دے دو اور خبردار اسراف سے کام نہ لینا۔"
2- درالمنثور " سیوطی" ج 4 ص 177
3- السیرۃ الحلبیہ " ابو الفرج حلبی" ج 3 ص 94   

دفترنشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف: علی ریختہ گرزادہ تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: