مواد کا کوڈ۔: 29
ہٹس: 1865
تاریخ اشاعت : 28 November 2022 - 10: 00
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (21)
اس سے پہلے کہ ابوسفیان مکہ مکرمہ واپس پہنچتا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابن عباس کو حکم دیا کہ اسے درہ کے پاس ہی روکے رکھو تاکہ اسلام کی نئی نئی فوج اپنی پوری تیاریوں کے ساتھ ان سے مقابلے کے لئے آمادہ ہوجائے۔

فتح مکہ سے غزوہ طائف تک


اس سے پہلے کہ ابوسفیان مکہ مکرمہ واپس پہنچتا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابن عباس کو حکم دیا کہ اسے درہ کے پاس ہی روکے رکھو تاکہ اسلام کی نئی نئی فوج اپنی پوری تیاریوں کے ساتھ ان سے مقابلے کے لئے آمادہ ہوجائے اور وہ روز روشن کی طرح اسلامی لشکر کی قدرت و توانائی سے آگاہ ہوسکے اور مکہ مکرمہ واپس جانے کے بعد عوام کو اسلامی لشکرکی قوت و طاقت سے ڈرائے اور انہیں استقامت کرنے کی فکر کرنے سے روک دے۔


فتح مکہ


اگر چہ قریش نے  پہلے مسلمانوں کے ساتھ عہد و پیمان باندھا تھا کہ ایک دس سالہ معاہدے کے ضمن میں مسلمان جس قبیلے سے بھی چاہیں عہد و پیمان باندھ سکتے ہیں( اس بناء پر قبیلہ خزاعہ نے مسلمانوں کے ساتھ عہد و پیمان باندھا) مگر کچھ ہی دنوں کے بعد اور حدیبیہ کے معاہدے کے چند ہی دن بعد قریش نے دوسرے قبیلوں کی حمایت سے قبیلہ خزاعہ پر حملہ کرکے ان میں سے اکثر افراد کو قتل کردیا اور بعض افراد کو اسیر بنا لیا۔ قبیلہ خزاعہ کے سردار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور تمام واقعات سے آپ کو آگاہ کردیا دوسری جانب قریش اپنے اس کام سے بہت شرمندہ ہوئے اور اس کی تلافی کرنے کے لئے غور و فکر کرنے لگے اور اس بات کی کوشش کرنے لگے کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نظریہ کو پہلے والے عہد و پیمان کی طرف جلب کرلیں، اس کے بعد ابوسفیان مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوا اور مدینہ میں داخل ہونے کے بعد اپنی بیٹی "ام حبیبہ"کہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریکہ حیات تھیں کے گھر گیا اور چاہتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاص بستر پر بیٹھ جائے مگر ام حبیبہ نے اپنے باپ کے نیچے سے پیغبمراسلام کے بستر کو ہٹا دیا، ابوسفیان نے پوچھا اے ام حبیبہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ کیا تم نے مجھے اس لائق نہیں سمجھا کہ میں محمد کے بستر پر بیٹھ سکوں یا تم نے اپنے بابا کو اس بستر پر بیٹھنے کا مستحق نہیں سمجھا؟ ام حبیبہ نے جواب میں کہا: اے بابا یہ بسترمحمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مخصوص ہے حالانکہ آپ ایک کافر ہیں اور میں نہیں چاہتی تھی کہ ایک کافر شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاکیزہ بستر پر بیٹھے۔
یہ منطق و تدبیر ایک ایسے شخص کی بیٹی کی ہے جس نے بیس برسوں تک اسلام کی مخالفت میں سازشوں اوراس کی نابودی کے لئے رہبری کی اور قتل و غارتگری کا بازار گرم کررکھا تھا لیکن چونکہ ام حبیبہ نے اسلامی مکتب میں پرورش پائی تھی اور اس کا پورا وجود دینی تعلیمات سے مملو تھا اور تمام طرح کی رغبت اور تعلق باپ اور بیٹی کے درمیان پائی جانے والی محبت نے اسے مذہبی الفت و عطوفت پر مقدم کیا تھا۔
ابو سفیان اپنی بیٹی کی اس روش سے بہت سخت ناراض ہوا وہ ام حبیبہ کے گھر سے نکلا اور مسجد میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے معاہدے کی مدت میں توسیع اور اسے استحکام بخشنے کے بارے میں گفتگو کی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سکوت کرنے کی بناء پر کہ جو اس کی بات پر توجہ نہ کرنے کے مترادف تھا دوچارہوا ، ابوسفیان نے چند دوسرے افراد منجملہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اپنا شفیع بنایا تاکہ شاید یہ افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس کی سفارش کریں مگر ان لوگوں نے کہا کہ ہم پیغمبر اسلام کے امور میں مداخلت نہیں کریں گے۔
آخر کارپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ کیا کہ مہاجر و انصار کے دس ہزار افراد پر مشتمل اور اسی طرح دوسرے قبیلوں کے افراد کے ہمراہ مکہ مکرمہ روانہ ہوں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارگاہ خداوندی میں دعا کی کہ خدایا ایسا کردے کہ قریش کے جاسوس مسلمانوں کے مکہ کی جانب روانگی سے باخبرنہ ہوں۔ ماہ مبارک رمضان کے شروع میں قرب و جوار کے بے شمارسپاہی مدینہ منورہ میں جمع ہوئے اور مسلمانوں کی آراستہ فوج سے قریش کے لوگ آگاہ نہ ہوں اس کے لئے انہوں نے مکہ مکرمہ کی سمت جانے والے تمام راستوں پر اسلامی حکومت کے سپاہیوں کو تعینات کردیا اور آنے جانے والوں پر سخت نگرانی رکھی۔


پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جاسوسی سے باخبر ہونا


اسلامی فوج ابھی مکہ مکرمہ کی جانب روانہ بھی نہ ہوئی تھی کہ جبرئیل امین نازل ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس بات سے باخبر کیا کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے قریش کے سرداروں کے نام ایک خط لکھا ہے اور سارہ نامی ایک عورت کو کچھ پیسے دے کر خرید لیا اور اس کے ذریعے وہ خط قریش کے پاس بھجوادیا ہے اس خط میں تحریر کیا گیا تھا کہ عنقرب مسلمان مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔
سارہ مکہ مکرمہ کی اچھی اور خوبصورت آواز میں پڑھنے والی ایک خاتون تھی اور کبھی کبھی مجلسوں میں نوحہ بھی پڑھا کرتی تھی۔ جنگ بدر کے بعد مکہ مکرمہ میں اس کی کمائی اور آمدنی کا ذریعہ نہ کے برابر تھا کیونکہ جنگ بدر میں قریش کی بڑی بڑی شخصیتیں قتل ہوگئی تھیں اور پورے مکہ پر غم و الم کے بادل چھا گئے تھے اس بناء پر سوگواری اور عیش و نوش کے پروگرام بند ہوگئے ، قریش کے غم و غصے اور کینے دلوں میں باقی رہے اور جنگ بدر میں مرنے والوں کا بدلہ لینے کا احساس ختم نہ ہوجائے اس لئے سوگواری اورغم و الم کے پروگرام کے انعقاد کو بند کردیا گيا ادھر سارہ کہ جس کے پاس اب آمدنی کا کوئی بھی ذریعہ نہیں بچا تھا مجبورا جنگ بدر کے دوبرس بعد وہ مدینہ منورہ آگئی تھی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اسلام قبول کرلیا؟ سارہ نے جواب میں عرض کیا نہیں، آپ نے فرمایا: تو پھر تم کس لئے یہاں آئی ہو ؟ اس نے پورا واقعہ بیان کیا تو آپ نے حکم دیا کہ اسے کھانے پینے کی اشیاء مہیا کی جائیں۔
اگر چہ سارہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبتوں سے سرافراز ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود قریش کے جاسوس کے عنوان سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوگئی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اور زبیر و مقداد کو حکم دیا کہ مکہ و مدینہ کے درمیان راستے میں جہاں پربھی یہ عورت ملے اس کی تلاشی لے کر اس سے خط لے لیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے منتخب ہونے والے افراد نے درمیان راہ اس عورت کو پکڑ لیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس کی تلاشی لی مگر خط نہیں ملا اور ادھرعورت مسلسل انکار کئے جارہی تھی لیکن امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: پیغمبر اسلام کبھی بھی کوئی غلط بات نہیں کرتے اس لئے تم خط کو فورا ہمارے حوالے کردو ورنہ پھر جیسے بھی ممکن ہوگا تم سے خط لے کر ہی رہیں گے، سارہ نے محسوس کیا کہ علی علیہ السلام جب تک پیغمبر اسلام کے حکم پر عمل نہیں کرلیں گے ہمیں چھوڑیں گے نہیں، لہذا اس نے تقاضا کیا کہ ہم سے کچھ دور ہوجائیں اس کے بعد اس نے اپنے گیسوؤں سے خط نکال کرحضرت علی علیہ السلام کے سپرد کیا اورآپ خط لے کر آنحضرت کی خدمت میں تشریف لائے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خط لکھنے والے شخص (حاطب بن ابی بلتعہ) کو اپنے پاس بلوایا اورخط بھیجنے کے مقصد کے بارے میں اس سے وضاحت طلب کی ،اس نے خدا اور رسول خدا کی قسم کھاکر کہا کہ میرے ایمان میں ذرہ برابر بھی تزلزل نہیں پایا جاتا لیکن آپ جاتنے ہیں کہ میں یہاں پر تنہا ہوں اور میری بیوی اور بچے مکہ میں قریش کی اذیتوں اور ان کے دباؤ میں ہیں ، میں نے اس خط کے ذریعے یہ چاہا تھا کہ شاید یہ خبر سن کر قریش میرے اہل و عیال پر ظلم و ستم کم کردیں گے۔
بالآخر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے عذر کو قبول کرکے اسے آزاد کردیا یہاں تک کہ عمر نے آںحضرت سے درخواست کی کہ اسے قتل کردیں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور ایک دن الطاف الہی اس کے شامل حال تھی اس بناء پر میں نے اسے آزاد کردیا ۔
مگر اس واقعہ کی دوبارہ تکرار نہ ہو اس حوالے سے خداوندعالم کی جانب سے چند آیتیں نازل ہوئیں ارشاد قدرت ہوتا ہے: " یا اَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا لاتَتَّخِذُوا عَدُوّی وَ عَدُوَّکُمْ اَوْلِیاءَ تُلْقُونَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّۀِ۔"
" ایمان والو خبردار میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو جب کہ انہوں نے اس حق کا انکار کر دیا ہے جو تمہارے پاس آ چکا ہے۔(1)


لشکر اسلام کی روانگی


چونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ مدت پہلے مدینہ منورہ اور اس کے اطراف کے تمام مسلمانوں کو آمادہ ہونے کا حکم دیا تھا مگر روانہ ہونے کا وقت معین نہیں تھا اور اب دس رمضان المبارک سن آٹھ ہجری قمری کو مکہ کی جانب روانہ ہونے کا حکم دیا۔
اسلامی فوج مدینہ منورہ سے باہر آئی، مدینہ منورہ سے کچھ دور آنے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پانی طلب کیا اور افطار کیا اور دوسروں کو بھی روزہ کھولنے کا حکم دیا، بہت سے گروہوں نے آپ کے حکم کی پیروی کی لیکن کچھ سادہ لوح افراد نے گمان کیا کہ اگر روزہ کی حالت میں جہاد کریں گے تو بہت زیادہ ثواب کے مستحق ہوں گے مگر جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے روزہ کھولنے کا حکم جاری کیا کہ تم لوگ بھی روزہ کھول لو تو ان لوگوں نے لیت و لعل سے کا لیا اور یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نافرمانی شمار ہوئی، یہی وجہ ہے کہ جب ان لوگوں کے افطار نہ کرنے کی خبر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ملی تو آپ بہت سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: وہ گنہگار اور سرکش گروہ ہے۔"
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب مکہ مکرمہ میں مقیم تھے آپ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے مکہ مکرمہ میں سکونت اختیار کی تھی تاکہ قریش کے تمام ارادوں اور خبروں سے آنحضرت کو آگاہ فرمائیں، انہوں نے جنگ خیبرکے بعد اپنے مسلمان ہونے کا بہ بانگ دہل اعلان کیا تھا لیکن قریش کے سرداروں سے ان کا اب بھی رابطہ تھا انہوں نے ارادہ کیا کہ ایک مسلمان گھرانے کے عنوان سے کہ جو مکہ مکرمہ میں باقی بچا تھا چھوڑ کر مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہو کہ درمیان راہ میں " جحفہ" نامی مقام پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملاقات ہوئی، فتح مکہ میں عباس بن عبد المطلب کا وجود بہت ہی مفید اور سودمند تھا اور دونوں طرف کے لئے سود مند ثابت ہوا۔
 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دس ہزار پر مشتمل اپنی فوج کی مکہ مکرمہ کے قریب رہنمائی فرمائی حالانکہ قریش اور اس کے حامیوں کو مسلمانوں کے لشکر کی آمد کی ذرہ برابر بھی خبرنہیں تھی، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے عوام کے دلوں میں خوف و ہراس ڈالنے کے لئے اور یہ کہ مکہ کے رہنے والے بغیر کسی استقامت کے سر تسلیم خم کردیں حکم دیا کہ اسلامی لشکر کے سپاہی بلند مقامات پر آگ جلائیں اور مزید خوف و ہراس پیدا کرنے کے لئے حکم دیا کہ ہر شخص خود الگ الگ آگ جلائے تا کہ آگ کے شعلے تمام پہاڑیوں اور بلند مقامات پر پھیل جائيں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ حکمت عملی بہت ہی موثر واقع ہوئی اور قریش اور اس کے حامیوں کے دلوں میں رعب و وحشت طاری ہوگیا ۔
ایسے حالات میں قریش کے سردار جیسے ابوسفیان اور حکیم بن حزام معلومات فراہم کرنے کے لئے مکہ سے باہر آئے اور اس آگ کے بارے میں تحقیق و جستجو کرنے لگے ۔ دوسری جانب عباس بن عبدالمطلب نے بہت زیادہ قتل و غارتگری سے لوگوں کو بچانے کے لئے ایک منصوبہ بنایا، وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سفید گھوڑے پر سوار ہوئے اور رات کے سناٹے میں مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوگئے تاکہ مکہ مکرمہ کے محاصرے سے قریش کے سرداروں کو باخبر کریں جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو دور ہی سے ابوسفیان اور بدیل بن ورقاء کی باتوں کو سنا جو آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے:
ابوسفیان: میں نے اب تک اس قدر بھڑکتی ہوئی آگ اور اتنے زیادہ سپاہی نہیں دیکھے تھے۔
بدیل بن ورقاء: یہ لوگ قبیلہ خزاعہ کے رہنے والے اور جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوئے ہیں۔
ابوسفیان: خزاعہ کے لوگوں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ اس قدر آگ بھڑکائيں گے اور اتنے زیادہ سپاہیوں کو آمادہ کریں گے۔
اسی درمیان عباس بن عبدالمطلب نے ان کی باتوں کو منقطع کرتے ہوئے ابوسفیان کو آوازدی ، ابوسفیان نے عباس بن عبد المطلب کی آواز پہچان لی اور فورا ہی کہا: اے عباس تم یہاں کیا کررہے ہو؟ عباس نے کہا خدا کی قسم یہ آگ کے بھڑکتے شعلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سپاہیوں سے مخصوص ہیں وہ ایک طاقتور فوج کے ہمراہ قریش کی جانب آئیں ہیں جس کا قریش ہرگز مقابلہ نہیں کرسکتے۔
عباس بن عبد المطلب کی گفتگو سن کرابو سفیان کا پورا جسم لرز اٹھا اور ایسے حال میں جب اس کا پورا بدن لرز رہا تھا اوردانت ایک دوسرے سے ٹکرارہے تھے عباس کی طرف رخ کرکے کہا: میرے ماں باپ تم پر قربان، بتاؤ اب راہ چارہ کیا ہے؟
عباس بن عبدالمطلب نے کہا کہ اس کا حل یہ ہے کہ تم میرے ساتھ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملاقات کے لئے چلو اور آپ سے امان طلب کرو ورنہ جان لو کہ قریش کی جان خطرے میں ہے پھرعباس نے اسے گھوڑے پر سوار کیا اور لشکراسلام کی جانب روانہ ہوگئے اور ابوسفیان کے ساتھی مکہ واپس چلے گئے ، عباس بن عبد المطلب ابوسفیان کو لے کر آگ کے بھڑکتے شعلے اور سپاہیوں کے جم غفیر کے درمیان سے ہوکر گذرے تمام سپاہی کہ جو پیغمبر اسلام کے مخصوص گھوڑے استرکو پہجانتے تھے وہاں سے گذرنے سے انہیں منع نہیں کیا اور راستہ چھوڑ کر ہٹ گئے تاکہ یہ دونوں لوگ آرام سے گذر جائيں۔
راستے میں عمر کی نظر ابوسفیان پر پڑی تو اس نے چاہا کہ ابوسفیان کو وہیں پر قتل کردےمگر جس وقت معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب نے اسے امان دیا ہے تو اپنے ارادے سے منصرف ہوگئے۔ بالآخرعباس اورابوسفیان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خیمے کے قریب سواری سے اترے، عباس نے اجازت لی اور آنحضرت کے خیمے میں داخل ہوئے، اس وقت بھی عمر نے اصرار کیا کہ ابو سفیان دشمن خدا ہے لہذا اسے قتل کردینا چاہیئے ، عباس بن عبدالمطلب نے کہا میں نے اسے امان دیا ہے اور میرے امان کو احترام کی نظروں سے دیکھا جانا چاہیئے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا کہ عباس ابو سفیان کو صبح تک خیمے میں قید رکھیں اور دوسرے دن صبح کو میرے پاس لائیں۔


سوالات:


1- اسلامی فوج کے مکہ کی جانب روانہ ہونے کی کیا وجہ تھی؟
2- پیغمبر اسلام کو مسلمان جاسوس کے بارے میں کیسے آگاہی ہوئی۔؟
3- سورہ ممتحنہ کا شان نزول کیا ہے۔؟
4- پیغمبر اسلام نے کن لوگوں کو گناہ گار اور سرکش گروہ قرار دیا۔؟
5- پیغمبراسلام کی کس حکمت عملی نے قرش کے دلوں پر رعب و وحشت طاری  کردیا ۔؟
6- عباس بن عبدالمطلب نے ابوسفیان کو اسلامی فوج سے کس طرح مرعوب کیا۔؟


منابع:  


1- سورہ متحنہ آیت 1

دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: