مواد کا کوڈ۔: 3
ہٹس: 2822
تاریخ اشاعت : 04 November 2021 - 11: 41
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سوانح حیات (2)
"میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ قریش کے تمام لوگوں سے افضل و برتر ہے اگر چہ مال و ثروت سے محروم ہے کیونکہ دولت و ثروت ایک ایسا سایہ ہے جو ختم ہونے والا ہے جب کہ اصل و نسب ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ "

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (2)

حضرت ابوطالب علیہ السلام کی سرپرستی
حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ السلام کی سرپرستی آپ کے چچا حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ذمہ قرار پائی ، چونکہ ایک تو یہ کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداللہ دونوں ایک ہی ماں (حضرت فاطمہ بنت عمرو مخذومی بن عائذ) سے تھے۔ اس نسبت کی بناء پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بہت زیادہ محسوس کرتے تھے اور دوسرے یہ کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام سخاوت اور نیک امور کے انجام دینے میں بہت ہی زیادہ  مشہور و معروف تھے۔ بہرحال حضرت ابوطالب علیہ اسلام خاندان عبدالمطلب علیہ السلام کے آٹھ سالہ یتیم کو اپنے گھر لائے اور آپ اور آپ کی شریکہ حیات حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا اور آپ کے بچے حضرت علی ،جعفر اور عقیل علیہم السلام پورے ذوق و شوق کے ساتھ آپ کی خدمت میں مشغول رہے۔


شام کی جانب سفر
جس زمانے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت ابوطالب علیہ السلام کی سرپرستی میں زندگی بسر کررہے تھے اس وقت حضرت ابوطالب علیہ السلام نے قریش کے بڑے بڑے تاجروں کے ساتھ شام جانے کا ارادہ کیا اور اپنے ہمراہ اپنے بھتیجے پیغمبر اسلام صلی الہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی لے جانے کا ارادہ کیا جن کی عمر ابھی بارہ برس تھی، قافلہ روانہ ہوا اور چلتے چلتے " بصری " نامی ایک مقام پر پہنچا ، اس سرزمین پر" بحیرا" نامی  ایک عیسائي راہب رہتا تھا جس نے اپنے لئے ایک شاندارگرجا گھربنوایا تھا اور برسوں سے شب و روزعبادت میں مشغول تھا ، اس علاقے کے تمام عیسائی اس کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ، عام طور پر تجارتی قافلے جب اس مقام پر پہنچتے تھے تو  کچھ دیر کے لئے قیام کرتے تھے اور کبھی کبھی اس راہب سے ملاقات بھی کرتے تھے۔
اس مرتبہ بھی جب قریش کے تاجروں کا قافلہ اس مقام پر پہنچا تو کچھ دیر کے لئے یہاں  قیام کیا ، راہب جو اپنی کھڑکی سے باہر کی طرف نظارہ کررہا تھا اچانک اس کی نظر حضرت ابوطالب علیہ السلام کے بھتیجے پر پڑی اور کچھ دیر کے لئے وہ مبہوت ہوگیا  پھر اس نے لوگوں سے سوال کیا کہ  اس بچے کا سرپرست کون ہے ؟  لوگوں نے جواب دیا کہ وہ ابوطالب کا بھتیجا ہے ، بحیرا نے کہا: اس بچے کا مستقبل نہایت ہی درخشندہ و تابناک ہے اس بچے میں پیغمبرموعود کی نشانیاں ہیں جن کے بارے میں آسمانی کتابوں میں عالمی نبوت اور وسیع حکومت کے متعلق خبردی گئی ہے ، یہ وہی پیغمبرہے جس کا نام ،جس کے والد کا نام اور اس کے رشتہ داروں کا نام میں نے اپنی دینی کتابوں میں دیکھا اور پڑھا ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ کہاں سے طلوع  کرے گا اور کس طرح سے اس کا دین پوری دنیا پر چھا جائے گا لیکن تم پر واجب ہے کہ اس کو یہودیوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھنا کیونکہ اگر ان لوگوں کو ان کی آمد کی خبر ہوگئی تو اسے قتل کردیں گے۔ (1)

 

گلہ بانی اور تجارت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی عمرمبارک کا کچھ عرصہ گلہ بانی میں گذارا چنانچہ اس بارے میں آپ سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:تمام پیغمبران الہی منصب نبوت پر فائز ہونے سے پہلے کچھ مدت تک گلہ بانی کرتے تھے لوگوں نے پوچھا اے رسول خدا، کیا آپ نے بھی گلہ بانی کی ہے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا : ہاں میں نے بھی کچھ زمانے تک اہل مکہ کی بکریوں کو سرزمین "قراریط" پر چرایا ہے ۔
آپ کے فرمان کے مطابق کچھ مدت تک آپ نے قریش کی بکریوں کو چرایا لیکن اسی کے ساتھ ساتھ آپ نے حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا کی جانب سے کہ جو قریش کی بڑی تاجروں میں سے ایک تھیں اور بعد میں آپ کی شریکہ حیات بن کرآپ کے گھر تشریف لائیں کے سامان کی بھی تجارت کی ، چونکہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آغاز جوانی سے صداقت و امانتداری میں بہت ہی زیادہ مشہور و معروف تھے اورجس شخص کے پاس بھی کوئي قیمتی امانت ہوتی تھی وہ آپ ہی کے پاس رکھواتا تھا۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا بھی ایک ایسے امانتدار شخص کی تلاش میں تھیں جس کو اپنا تجارتی سامان  عطا کریں تاکہ وہ آپ کے لئے تجارت کرے، جب آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صداقت و امانتداری کے متعلق سنا اور دوسری طرف یہ بھی سنا کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام نے اپنے بھتیجے سے فرمایا ہے کہ وہ کام میں مشغول ہونے اور تجارت کے لئے خدیجہ کے پاس جائیں تو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے ایک شخص کو آپ کے پاس بھیجا اورفرمایا: جس چیز نے مجھے آپ کا دلدادہ بنادیا ہے وہ آپ کی صداقت، امانتداری اور بہترین اخلاق ہے  میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ جو چیزیں میں تجارت کے لئے دوسروں کو دیتی ہوں اس کا دوگنا آپ کو دوں گی اور دو غلام بھی آپ کے ہمراہ کردوں گی جو تمام مرحلوں میں آپ کے فرماں بردارہوں گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی اس پیشکش قبول کرلیا اور معاہدہ ہونے کے بعد ایک تاجرکے عنوان سے قریش کے تاجروں کے ہمراہ شام کا سفر کیا اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے جو سامان تجارت آپ کے سپرد کیا تھا  اس میں بہت زیادہ فائدہ  ہوا اور تجارتی قافلہ مکہ مکرمہ واپس آگیا۔
مکہ مکرمہ واپس آنے کے بعد حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کہ جوآپ کی واپسی کا شدت سےانتظارکررہی تھیں آنحضرت کی ملاقات سے بہت زیادہ خوش ہوئیں اورجب  اس سفر میں ہونے والی خرید و فروخت اور بے شمارفوائد سے آگاہ ہوئیں تو اپنے اس عمل سے بے حد مسرور ہوئیں، اس سے بھی اہم بات یہ کہ جب آپ کے بھیجے ہوئے دونوں غلاموں میں سے ایک بنام "میسرہ "نے جن تمام واقعات کا اس پورے سفر میں مشاہدہ کیا تھا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کا بغور مشاہدہ کیا تھا تفصیل کے ساتھ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے بیان کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا کہ جب ہمارا قافلہ سرزمین "بصری"پر پہنچا تو حضرت محمد امیں ایک درخت کے نیچے آرام و استراحت کے لئے بیٹھے، اس وقت ایک راہب کی نظر حضرت امین پر پڑی جو اپنے گرجا گھر میں مصروف عبادت تھا وہ میرے پاس آیا اور اس نے آپ کا نام پوچھا اور مجھ سے کہا: یہ شخص جو درخت کے نیچے بیٹھا ہوا ہے یہ وہی پیغمبر ہے جس کے بارے میں ہم نے توریت و انجیل میں بہت زیادہ بشارتوں کے متعلق پڑھا ہے۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کہ جو پہلے ہی سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بہت زیادہ انسیت رکھتی تھیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اپنے غلام میسرہ کی زبانی فضائل و کمالات سنا تو کہا کہ  تم نے محمد سے میری انسیت کو دوبالا کردیا، جاؤ میں نے تمہیں اور تمہاری بیوی کو آزاد کردیا ہے اورساتھ ہی  تمہیں دو سو درہم ، دو گھوڑا  اور نہایت ہی قیمتی لباس عطا کررہی ہوں اس کے بعد آپ نے جو کچھ بھی اپنے غلام میسرہ سے سنا تھا سرزمین عرب کے سب سے بڑے عاقل و دانا " ورقہ بن نوفل" سے بیان کیا  تو انہوں نے کہا: ان کرامتوں کے مالک  پیغمبر عربی ہیں۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے شام کے سفر میں جو کچھ فضائل و کمالات  امین قریش حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق سنا تھا اور اسی طرح جو آپ نے خواب دیکھا تھا اور ورقہ بن نوفل سے فضائل سنا تھا سبب بنا کہ آپ  آنحضرت سے شادی کرنے کے لئے مائل ہوئیں اور کہا: اے میرے  چچا کے بیٹے، جو رشتہ داری ہمارے اور آپ کے درمیان قائم ہے اس کی بناء پر اور جوعظمت و عزت  یعنی خودداری ، صداقت ، امانتداری اور بہترین اخلاق آپ کو قوم کے درمیان حاصل ہے اس کی بناء پر میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب میں فرمایا: ہم پر لازم ہے کہ اپنے اپنے چچا کو اس نیک ارادے سے آگاہ کریں تاکہ ان لوگوں کے مشوروں سے یہ نیک کام انجام پائے۔
المختصریہ کہ دونوں کے چچا خصوصا حضرت ابوطالب علیہ السلام سے رائے مشورے  اور دونوں جانب سے ہونے والی درخواستوں کو قبول کرلیا گیا اور ایک عظیم الشان جشن کا انعقاد کیا گيا جس میں تمام بزرگان قریش کو دعوت دی گئی اور حضرت ابوطالب علیہ السلام نے عقد نکاح  پڑھا جس میں خداوندعالم کی حمد و ثناء کے بعد اپنے بھتیجے کا  اس طرح تعارف کرایا:
"میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ قریش کے تمام لوگوں سے افضل و برتر ہے اگر چہ مال و ثروت سے محروم ہے کیونکہ دولت و ثروت ایک ایسا سایہ ہے جو ختم ہونے والا ہے جب کہ اصل و نسب ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ "
جب حضرت ابوطالب علیہ السلام خطبہ پڑھ چکے تو ورقہ بن نوفل نے کہ جو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے عزیزوں میں سے تھے اپنی گفتگو میں کہا:  تمام قریش کے درمیان آپ کے فضائل و کمالات کا  کوئی بھی منکر نہیں ہے ہم صمیم قلب سے آپ سے اس رشتہ شرافت کو قبول کرتے ہیں۔(2)حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی مہر چار سو  دینار تھی جب کہ بعض مورخین نے لکھا ہے کہ ایک سو بیس اونٹ مہر تھی۔ مشہور ہے کہ شادی کے وقت حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی عمرچالیس برس تھی اورعام الفیل سے پندرہ برس پہلے یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت سے پندرہ برس پہلے پیدا ہوئی تھیں۔


حضرت خدیجہ سے پیغمبر اسلام کی اولادیں   
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے تین اولادیں ہو‏ئیں: قاسم سب بڑے فرزند تھے اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کنیت ابو القاسم قرار پائی  ۔ دوسرے فرزند کا نام عبداللہ تھا اور عرف عام میں انہیں کو طیب و طاہر بھی کہا جاتا تھا اور سب سے آخری اور چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تھیں۔ قاسم اور عبداللہ کا انتقال بعثت سے پہلے ہوگیا تھا جب کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نبوت کے زمانے میں بھی موجود تھیں۔ (3)

 

سوالات:
1۔ حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کی وفات کے بعد پیغمبر اسلام کی سرپرستی کس کے ذمہ تھی اور کیوں۔؟
2۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ مکرمہ میں کن کاموں میں مشغول تھے۔؟
3۔حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیسے پہچانا ۔؟

 

منابع:
1۔ ابن جریر طبری ، تاریخ طبری ج 1 ص 34 و35
2۔ شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ج 3 ص 397
(3)بحارالانوارج 22 ص 191، ملیکۃ  العرب ص 211 علامہ سید کرارحسین رضوی اعلی اللہ مقامہ
 
دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف: علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: