مواد کا کوڈ۔: 30
ہٹس: 1839
تاریخ اشاعت : 28 November 2022 - 11: 00
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (22)
حضرت عباس بن عبدالمطلب پیغبمراسلام کے حکم کے مطابق صبح سویرے ابوسفیان کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لے کرحاضر ہوئے اس وقت مہاجر و انصار کے بہت سے افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔

ابو سفیان، پیغمبر کی خدمت میں


حضرت عباس بن عبدالمطلب پیغبمراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق صبح سویرے ابوسفیان کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے اس وقت مہاجر و انصار کے بہت سے افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظر ابوسفیان پر پڑی تو آپ نے فرمایا: کیا وہ وقت اب آن نہیں پہنچا ہے کہ تو جان لے کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے؟ ابوسفیان نے جواب میں عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ اپنے اعزہ پر کس قدرمہربان و بردبار اور کریم ہیں؟ میں نے اب سمجھا ہے کہ اگر اس کے علاوہ کوئی خدا ہوتا تو اب تک ہمارے فائدے کے لئے کوئی کام انجام دیتا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے خداوند عالم کی وحدانیت کے اقرار کرنے کے بعد فرمایا:کہ کیا اب وہ وقت نہیں آن پہنچا ہے کہ تجھے جان لے کہ میں خداوندعالم کا بھیجا ہوں رسول ہوں؟ ابوسفیان نے اپنے پہلے والے جملے کی تکرار کرتے ہوئے کہا آپ کس قدر بردبار، کریم اور اپنے اعزہ و احباب کے ساتھ مہربان ہیں، میں آپ کی رسالت کے بارے میں اس وقت غور و فکر کرنے میں مشغول ہوں، عباس بن عبدالمطلب ابوسفیان کے شک و تردید کو سن کر بہت سخت ناراض ہوئے اور کہا: اگر تونے اسلام قبول نہ کیا تو جان لے کہ تیری جان خطرے میں ہوگی۔
اس وقت ابوسفیان نے خداوندعالم کی وحدانیت اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اقرارکیا اور مسلمانوں کے زمرے میں شامل ہوگیا۔
اگر چہ اس طرح یعنی خوف ورعب کے ساتھ ایمان لانا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آئین اور اہداف و مقاصد کے مطابق نہ تھا لیکن مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو ابوسفیان مسلمانوں کے زمرے میں آجائے تاکہ مکہ مکرمہ کے عوام کو اسلام کی جانب رغبت اور جھکاؤ پیدا ہونے میں جو سب سے بڑی رکاوٹ بن رہی تھی وہ ختم ہوجائےچونکہ ابوسفیان اور قریش کے دوسرے سرداروں نے عوام پراس قدر رعب و وحشت طاری کر رکھا تھا کہ کوئی بھی شخص اتنی ہمت نہیں کرپارہا تھا کہ اسلام کے بارے میں غور و فکر کرے یا اس کے بارے میں اپنی رغبت و رضایت کا اظہار کرسکے۔
بہرحال ابوسفیان کے اسلام لانے کے بعد عباس بن عبدالمطلب نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سفارش کی کہ ابوسفیان کو بھی کوئی مقام و عہدہ عطا فرمائيں اگرچہ ابوسفیان نے تقریبا بیس برسوں تک مسلمانوں اور اسلام پرکاری ضربیں لگائی ہیں ان سب کے باوجود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مصلحت کے تقاضوں کے پیش نظرابوسفیان کو ایک عہدہ تفویض فرمایا اورایسے موقع پر آپ نے ایک تاریخی جملہ کہ جو آپ کی عظمت و روحانیت پر دلالت کرتا ہے ارشاد فرمایا: ابوسفیان، اگر چاہے توعوام کو یہ اطمینان دلا سکتا ہے کہ جو شخص بھی مسجد الحرام کے اطراف میں پناہ گزیں ہو یا اپنا اسلحہ اتار کرزمین پر رکھ دے اور اپنے بے طرف ہونے کا اعلان کرے یا اپنے گھر کے دروازے کو بند کردے یا ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے تو اسے اسلامی فوج سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور وہ ہمیشہ محفوظ رہے گا۔
اس سے پہلے کہ ابوسفیان مکہ مکرمہ واپس جاتا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عباس بن عبدالمطلب کو حکم دیا کہ اے عباس اسے درہ کے پاس ہی روکے رکھو تاکہ اسلام کی نئی نویلی فوج اپنے تمام ساز و سامان کو اس کے مقابلے میں آمادہ وتیار کرلے اوراسی طرح وہ دن کے اجالے میں اسلامی نظام کی قدرت و توانائی سے باخبر ہوسکے اورمکہ مکرمہ واپس جانے کے بعد لوگوں کو اسلامی نظام کی قدرت و طاقت سے خوفزدہ کرے اور ان لوگوں کومقابلہ کرنے کی فکر سے روک دے۔ اسلامی فوج کے منظم گروہ کہ جو مختلف قبائل کے افراد سے تشکیل پایا تھا وہ نو گروہ میں ایک ہزار افراد یا پانج سو افراد یا اس سے کم یا زیادہ افراد پر یہ تمام سسٹم کے ساتھ ہر گروہ کے سردارجب ابوسفیان کے سامنے پہنچتے تھے تو بلند آواز کے ساتھ نعرہ تکبیر لگاتے تھے اور اس گروہ کے تمام افراد بھی اس مقدس نعرے کو تین مرتبہ بلند آواز سے لگاتے تھے، تکبیر کی یہ آوازیں مکہ مکرمہ کے دروں میں منعکس ہوتی تھیں جس نے وہاں موجود افراد کو اسلامی نظام کا دلدادہ بنا دیا اور دشمنوں کے تمام منصوبوں کو ناکام بناکر انہیں خوف و ہراس اور رعب و وحشت سے مرعوب کردیا۔
ابوسفیان بڑی ہی بے صبری سے انتظار کررہا تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو گروہ ان کے درمیان قرار دیا تھا اسے دیکھ لے کیونکہ جو گروہ اس کے سامنے سے ہوکر گذرتا تھا وہ عباس بن عبدالمطلب سے سوال کرتا تھا کہ کیا محمد ان کے درمیان میں ہیں؟ اور وہ جواب میں کہتے تھے نہیں، یہاں تک کہ پانچ ہزار افراد پر مشتمل ایک بہت ہی منظم گروہ کہ جس میں دوہزار سپاہی زرہ پہنے ہوئے تھے اور بے شمار پرچم کچھ کچھ فاصلے پرانہوں نے اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھا تھا جس نے ابوسفیان اور عباس بن عبد المطلب کی توجہ کو اپنی جانب مجذوب کرلیا اس گروہ کا نام " کتیبہ خضراء " یعنی لشکرسبز تھا اور ان کے ہر سپاہی کا پورا جسم اسلحوں سے ڈھکا ہوا تھا اور صرف ان کی آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں اور سرپٹ دوڑنے والے عربی گھوڑے اورسرخ بال والے اونٹ ان کی آنکھوں کو چکا چوندھ کررہے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسی لشکر کے درمیان اپنے مخصوص اونٹ پر سوار آگے بڑھ رہے تھے اور مہاجر و انصار کی بڑی بڑی شخصیتیں آنحضرت کے چاروں طرف چل رہی تھیں اور آپ ان لوگوں سے گفتگو کررہے تھے۔
اس پرشکوہ لشکر نے ابوسفیان کو اس قدر مرعوب کردیا کہ اس کے حواس باختہ ہوگئے اور فورا ہی عباس بن عبدالمطلب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: کوئی بھی طاقتور فوج اس عظیم لشکرسے مقابلہ کرنے کی جرات نہیں کرسکتا اور اے عباس تمہارے بھتیجے محمد کی ریاست و سلطنت بہت ہی زیادہ طاقتور ہوگئی ہے۔
عباس بن عبدالمطلب نے ڈاٹنے والی صورت بناتے ہوئے کہا: میرے بھتیجے کی قدرت و توانائی کا سرچشمہ وہ نبوت و رسالت ہے جو خداوندعالم نے انہیں عطا فرمائی ہے اوریہ قدرت و طاقت ہرگزمادی اور ظاہری نہیں ہے۔
اس مرحلے تک جناب عباس بن عبد المطلب نے بہت ہی اہم اور بہترین کردار ادا کیا اور ابوسفیان کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فوجی قوت و طاقت سے خوب مرعوب کیا، اس موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مصلحت سمجھی کہ ابوسفیان کوآزاد کردیں تاکہ وہ مناسب وقت، اسلامی لشکراور اس کے گروہوں کے پہنچنے سے پہلے مکہ مکرمہ چلا جائے اور اہل مکہ کو مسلمانوں کی قدرت و توانائی سے آگاہ کردے۔
ابوسفیان مکہ مکرمہ میں داخل ہوا عوام کہ جنہوں نے گذشتہ شب نہایت ہی بے چینی و اضطراب میں بسر کی تھی اور ہم خیال و ہم فکرنہ ہونے کی بناء پر کوئی مستحکم ارادہ نہیں کرسکے تھے اس کے چاروں طرف جمع ہوگئے اس وقت ابوسفیان کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا اور بدن پر لرزہ طاری تھا اس نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے مدینہ منورہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا اسلامی فوج میں ایسے ایسے بہادر افراد موجود ہیں جن کا مقابلہ کوئی بھی نہیں کرسکتا انہوں نے شہر کا محاصرہ کرلیا ہے اور کچھ ہی لمحوں بعد وہ شہر میں داخل ہوجائیں گے، اس فوج کے رہبر و پیشوا محمد نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ جو شخص بھی مسجد اور کعبہ کے آس پاس پناہ گزیں ہوگا یا اپنا اسلحہ زمین پر اتار کررکھ دے گا اور اپنے دروازے کو بند کردے گا جیسے کہ اسے کچھ معلوم ہی نہیں ہے یا میرے اور حکیم حزام کے گھر میں پناہ لے گا تو اس کی جان و مال محترم شمار ہوگا اور وہ ہر طرح ک خطروں سے محفوظ رہے گا۔
ابوسفیان نے اپنے اس پیغام کے ذریعے مکہ مکرمہ کے عوام کی قدرت و توانائی کو اس قدر کمزور کردیا کہ اگر کسی گروہ میں استقامت کی قدرت بھی تھی تو کلی طور پر ختم ہوگئی اور ان کے دل میں خوف و وحشت طاری ہوگئی۔
اسلامی لشکر ایک خاص عظمت و ہیبت کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہوا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لشکرکے تمام گروہوں کو تقسیم کیا اور پورے شہر کو اپنے قبضے میں لے لیا اور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبرستان " حجون" میں اپنے چچا حضرت ابوطالب علیہ السلام کی قبر منورہ کے پاس سواری سے اترے، آپ کے لئے ایک مخصوص خیمہ بنایا گیا تاکہ آپ استراحت فرمائیں، حالانکہ لوگوں نے بہت زیادہ اصرار کیا کہ آپ جس گھر میں چاہیں آرام کریں مگرآپ نے قبول نہیں کیا۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اپنے اونٹ پر سوار ہوئے اور خانہ کعبہ کی زیارت اور اس کے طواف کے لئے مسجد الحرام کی جانب روانہ ہوئے حالانکہ مہاجر و انصار کے جھرمٹ کا ہالہ آپ کو اپنے حصار میں لئے ہوئے تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے راستے میں ایک مسلمان کہ جو آپ کے آگے آگے چل رہا تھا فریاد بلند کی: آج بدلہ لینے کا دن ہے جیسے ہی یہ آواز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کانوں سے ٹکرائی فورا ہی آپ نے حکم دیا کہ اس نعرے کو تبدیل کریں اور یہ نعرہ بلند کرنے کے بجائے یہ نعرہ لگائیں " آج رحمت و مرحمت کا دن ہے۔"
 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے راستے میں مسلمانوں اور مشرکوں کی منظم صفیں تشکیل دی گئیں بعض گروہ خوف و ہراس سے کانپ رہے تھے اور بعض گروہ خوشیاں منارہے تھے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مصلحت کے پیش نظر اونٹ سے نہیں اترے بلکہ اسی حالت میں مسجد الحرام میں داخل ہوئے اور حجر الاسود کے سامنے قیام کیا اور اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تکبیر بلند کی آپ کے صحابی پروانے کی طرح آپ کے چاروں سمت کھڑے ہوئے تھے اور آپ کی پیروی میں بلند آواز سے نعرہ تکبیر بلند کررہے تھے ان کی تکبیر کی آواز مکہ مکرمہ کے تمام گھروں میں موجود مشرکین کے کانوں تک پہنچ گئی مسجد الحرام میں عجیب و غریب شور و غل برپا تھا اور عوام کا یہ شور اس بات کا باعث بنا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سکون و اطمینان سے طواف نہ کرسکیں لہذآ آپ نے عوام کو خاموش کرنے کے لئے ان کی طرف اشارہ کیا اورمسجد میں مہیب سناٹا چھا گیا لوگوں کی سانسیں گلے میں اٹک گئیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے طواف کرنا شروع کردیا ابھی طواف کا پہلا ہی دور تھا کہ آپ کی نظریں بڑے بتوں یعنی ہبل ، اساف اور نائلہ پر پڑی جو کعبے کے دروازوں کے اوپر نصب ہوئے تھے آپ کے ہاتھ میں جو نیزہ تھا اس سے آپ نے ان پر زبردست ضرب لگائی اور وہ زمین پر گر کر بکھر گئے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:
" وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِل إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا۔" (1)
" اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے۔"
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم اور مشرکین مکہ کی نگاہوں کے سامنے "ہبل" توڑ دیا گيا آپ نے طواف مکمل کرنے کے بعد خانہ خدا کے کلید بردار کو طلب کیا اور خانہ کعبہ کے دروازے کو کھولا اور اندر داخل ہوئے اور خانہ کعبہ کی دیواروں پر جو نقش و نگار بنے ہوئے تھے انہیں مٹا دیا۔
محدثین و مورخین لکھتے ہیں کہ کعبہ کے اندر اور باہر بہت سے بتوں کو حضرت علی علیہ السلام نے سرنگوں کیا تھا یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےحکم دیا کہ اے علی میرے کاندھوں پر سوار ہوجاؤ اور پیتل سے بنائے گئے قریش کے سب سے بڑے بت کو توڑکر زمین پر پھینک دو اوربھی جتنے بھی بت موجود ہیں انہیں بھی توڑ کرزمین پر پھینک دو۔ "
نویں صدی ہجری قمری کے حلہ کے مشہور شاعر ابن العرندس نے حضرت علی علیہ السلام کی اس عظیم فضیلت کو اپنے شعر میں اس طرح نظم کیا ہے:
   صُعودُ غَارِبِ أحمَد فَضلٌ لَهُ                         دُونَ القِرابَۀِ وَ الصَّحابَۀِ أفضَلا
" دوش پیغمبر پر علی علیہ السلام کا سوار ہونا ان کے لئے ایک عظیم فضیلت ہے اور یہ فضیلت رشتہ داری اور ہمنشینی کی وجہ سے نہیں ہے۔"
مسجد میں عجیب سناٹا چھایا ہوا تھا لوگوں کی سانسیں ان کے سینوں میں ٹھہر گئی تھیں اور لوگوں کے دل و دماغ میں عجیب افکار و خیالات موجزن تھے، اس وقت مکہ کے عوام ان ظلم و ستم اور بیداد کو یاد کرنے لگے اور طرح طرح کی فکروں میں غرق ہوگئے یہ لوگ اپنے بڑے بڑے جرائم کو یاد کررہے تھے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمانوں کے بارے میں گذشتہ دنوں میں جو برے ارادے اور سازشیں رچی تھیں آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے جان لو کہ محمد اب ہمیں ضرور قتل کردیں گے یا بعض گروہ کو قتل اور بعض گروہ کو گرفتار کرلیں گے اور ہماری عورتوں اور بچوں کو ضرور اسیر بنالیں گے۔
اچانک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے سکوت کو توڑتے ہوئے فرمایا:  " ماذا تَقُولُونَ؟ وَ ماذا تَظُنُّونَ " تم لوگ کیا کہہ رہے ہو ؟ اور ہمارے بارے میں کیسی فکر کررہے ہو؟ لوگ خوف و ہراس میں ڈوبے حیرت زدہ کانپتی ہوئی آواز کے ساتھ کہنے لگے: ہم آپ کے بارے میں اچھائیوں اور نیکیوں کے علاوہ کچھ نہیں سوچ رہے ہیں ہم آپ کو اپنا بڑا بھائی اور اپنے بڑے بھائي کا فرزند جانتے ہیں ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہایت ہی محبت و بردباری کے ساتھ فرمایا: میں وہی جملہ جو میرے بھائی یوسف نے اپنے ظالم بھائیوں سےکہا تھا وہی تم سے کہتاہوں۔(2)
" لا تَثرْیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرَ اللهُ لَکُمْ وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّاحِمینَ۔" (3)
" یوسف نے کہا کہ آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے، خدا تمہیں معاف کر دے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے"۔


سوال: 

1- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن کو کیا نام دیا ہے۔؟


منابع:


1- سورہ اسراء آیت 81
2- اصول کافی ج 4 ص 226
3- سورہ یوسف آیت 92

 
دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف: علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: