قبیلہ ثقیف کہ جو عرب کا ایک طاقتور قبیلہ شمار ہوتا ہے اوروہاں کے لوگ شہر طائف میں زندگی بسرکرتے تھے ایک ایسا شہر کہ جس کی فضا بہت ہی لطیف اور اس میں سرسبز کجھور کے درخت اور باغات ہیں، قبیلہ ثقیف کے افراد وہ تھے جنہوں جنگ حنین میں اسلام کے خلاف شرکت کی تھی اور بہت بری طرح شکست کھانے کے بعد اپنے شہر کہ جس کے قلعے بہت ہی مستحکم اور بلند و بالا تھے پناہ لیا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا کہ اسلامی فوج کی کامیابی کی تکمیل کے لئے حنین سے بھاگنے والے افراد کا پیچھا کیا جائے ، اسلامی فوج کے بڑے بڑے سپاہی یکے بعد دیگرے روانہ ہوگئے اور شہر کے اطراف کو اپنی چھاؤنی بنائی، طائف کا قبیلہ بہت ہی بلند تھا اور اس کی دیواریں بہت ہی محکم تھیں اور اس کی حفاظت کرنے والے برج قلعہ پر مسلط تھے ، قلعہ کا محاصرہ اسلامی فوج نے کرلیا لیکن ابھی یہ محاصرف مکمل طور پورا نہیں تھا کہ دشمنوں نے تیراندازی کرکے اسلامی سپاہیوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا گیا اور ایک گروہ کو پہلے ہی مرحلے میں قتل کردیا۔
حضرت سلمان فارسی کہ جن کی فوجی حکمت عملی اور تدبیر سے مسلمانوں نے جنگ خندق میں بہت ہی بہترین نتیجہ حاصل کیا تھا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست کی کہ منجنیق نصب کرکے دشمنوں کے قلعے پر پتھر برسائیں آپ نے اس درخواست کو قبول کرلیا چونکہ منجنیق اس زمانے کی جنگ میں آج کی توپ کا کام کرتی تھی۔
اس جنگ میں مسلمانوں کو منجنیق کیسے ملی، مورخین کے درمیان اس بارے میں اختلاف پا جاتا ہے، بعض مورخین کا کہنا ہے کہ خود جناب سلمان فارسی نے منجنیق اسی جنگ کے دوران بنایا تھا جب کہ بعض مورخین کہتے ہیں کہ جنگ خیبر میں مسلمانوں کو منجنیق ہتھیاروں کے درمیان ملی تھی اور وہ اسے اپنے ہمراہ طائف لائے تھے حالانکہ یہ بعید نہیں ہے کہ سلمان فارسی اس منجنیق میں کچھ تبدیلیاں کی ہو اور مسلمانوں کو اس کے نصب کرنے اور چلانے کا طریقہ سکھایا ہو۔
منجنیق کے نصب کرنے اور پتھروں کے برسانے کے وقت طے یہ پایا کہ قلعہ کی دیوار کو توڑنے کے لئے جنگی رتھ سے استفادہ کیاجائے اور قلعہ کی دیوار میں شگاف کرکے اس میں سے اسلامی فوج اندر داخل ہوجائے لیکن دیوار کا توڑنا اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ برجوں اور قلعہ کے چاروں طرف سے اسلامی فوج پر تیر اور پتھر برس رہے تھے اس کام کے لئے بہترین وسیلہ جنگی رتھ ہی تھا کہ جو اس زمانے میں دنیا کی منظم فوجوں میں بطورناقص پایا جاتا تھا ۔ جنگی رتھ لکڑی سے بنایا جاتا اور اسے موٹے چمڑے سے چھپایا جاتا تھا اور بہت ہی بہادر سپاہی اس کے اندر بیٹھتے تھے اور پھر اسے قلعہ کی طرف چلایا جاتا تھا اور اس کے ذریعے قلعہ کی دیوار میں شگاف پیدا کیا جاتا تھا۔
اسلامی فوج کے سپاہی نہایت ہی عقلمندی کے ساتھ اس جنگی رتھ سے استفادہ کرتے ہوئے دیوار میں سوراخ کرنے میں مشغول ہوگئے لیکن دشمن کی جانب سے آنے والے لوہے کے ٹکڑے اور آگ کے گولوں نے جنگی رتھ کو چھپانے والے چمڑوں کو جلا کر راکھ اور اس کی چھت کو منہدم کردیا اور اس میں بیٹھے ہوئے فوجیوں کو زخمی کردیا ، دشمنوں کی تدبیروں کی وجہ سے یہ اسلامی طریقہ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہی ختم ہوگیا اور مسلمانوں کی جانب سے کچھ افراد قتل اور زخمی ہوگئے جس کی وجہ سے وہ اس کام سے منصرف ہوگئے۔
اس بات کے پیش نظر کہ طائف کے محاصرے کے لئے بہت زیادہ وقت درکار تھا اور دوسری جانب طائف کے لوگوں کے مقابل مسلمانوں کا روبرو ہونا۔ شوال کا مہینہ تھا اور لوگ اس مہینے کے آخری ایام بسر کررہے تھے جس کے بعد ذی القعدہ کا مہینہ آپہنچا اورماہ ذی القعدہ حرام مہینوں میں سے ایک ہے اور اس کے بعد ذی الحجہ کا مہینہ ہے اور اس کے بعد محرم الحرام کا مہینہ ہے یہ تینوں مہینے حرام مہینے ہیں اورجاہلیت کے زمانے میں ان تینوں مہینوں میں اور اسی طرح رجب المرجب میں بھی کہ جن میں ہر طرح کی لڑائي جھگڑے اور جنگ کو حرام جانتے تھے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی اس سنت کا احترام کیا اور طائف کے محاصرے کوختم کرکے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ " جعرانہ" چلے گئے جہاں پر مال غنیمت رکھا جاتا اور اسیروں کو قید میں رکھا جاتا ہے۔
آٹھویں ہجری کے آخری دنوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی منھ بولی بیٹی" زینب " کا انتقال ہوگیا آپ نے بعثت سے پہلے ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابوالعاص سے کردی تھی وہ بعثت کے بعد فورا ہی پیغمبر اسلام پر ایمان لائیں لیکن ان کے شوہر مشرک ہی رہے اوراسلام کے خلاف جنگ بدر میں شرکت کی اور اسیر کرلئے گئے، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں ایک شرط کے ساتھ آزاد کردیا اور وہ شرط یہ تھی کہ زینب کو مدینہ بھیج دیں،ابوالعاص نے بھی اپنی شرط کو نبھایا اور اپنی بیوی کو مدینہ منورہ بھیج دیا۔ ادھر قریش کے سرداروں نے بعض لوگوں کو یہ ذمہ داری دی کہ انہیں درمیان راہ سے مکہ واپس لے آئيں، اس ذمہ داری کو نبھانے والے افراد زینب کی سواری کے پاس پہنچے اور اپنے نیزوں سے ان کے کجاوے پر مارا، یہ دلخراش منظر دیکھ کر زینب کا حمل ساقط ہوگیا لیکن اس کے باوجود وہ مدینے کی جانب روان دواں رہیں اور بیمار جسم اور ضعف کے عالم میں مدینہ منورہ میں داخل ہوئیں ، زندگی کا باقی حصہ مدینے میں ہی بسر کیا اور آٹھویں ہجری قمری کے اواخر میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ غم کا یہ ماحول اس وقت خوشی میں تبدیل ہوگیا جب اسی سال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریکہ حیات ماریہ ( جو مقوقس کی کنیز تھیں جسے مصر کے حاکم نے پیغمبر اسلام کو بطور ہدیہ دیا تھا) کے یہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی جس ابراہیم رکھا گيا ۔ جس وقت دایہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خوشخبری سنائی کہ خداوندعالم نے آپ کو بیٹا عطا فرمایا ہے تو آپ نے اسے گرانقدر ہدیہ عطا کیا اور ساتویں دن عقیقہ کیا اور ایک بکری ذبح کیا، بچے کے سرکے بال منڈوائے اور اس کے وزن کے برابر چاندی خداوندعالم کی راہ میں صدقہ دیا۔
قبیلہ طی میں ایک بہت بڑا بت موجود تھا جسے اب بھی بہت سے بت پرست بڑے ہی عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھتے اور اس کی پرستش کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک سو پچاس سپاہی کے ساتھ قبیلہ طی روانہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حکم دیا کہ وہاں جاکراس بت اور بت خانے کو تباہ کردیں، اس گروہ نے سحر کے وقت اس بت خانہ پر حملہ کردیا اور چند مقابلہ کرنے والے افراد کو اسیر کرلیا ، اس آزاد شخص نے کہ جو مدتوں بعد مسلمانوں کے بہت بڑے مدافع اور مجاہد کے عنوان سے مشہور ہوا اپنے بھاگنے کے بارے میں اس طرح لکھا ہے:
" اس سے پہلے کہ میں دامن اسلام سے وابستہ ہوتا ایک عیسائی تھا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف جو جھوٹے اور مذموم پروپگنڈے بیان کئے جاتے تھے ان کی وجہ سے بہت زیادہ بغض و کینہ رکھتا تھا اور سرزمین حجاز پر ہونے والی آپ کی بڑی بڑی کامیابیوں سے بھی واقف تھا اور مطمئن تھا کہ ایک نہ ایک دن آپ کی فوجی قدرت کا اثر سرزمین طی کے اس علاقے پر ضرور پڑے گا، جس کا میں رئیس تھا۔ لہذا میں نے اس بناء پر کہ اپنے مذہب پر باقی رہوں اور اسلامی فوج کے ہاتھوں گرفتارنہ ہوؤں اپنے غلام کو حکم دیا تھا کہ تند و تیز اونٹوں اور میرے راہوار کو آمادہ رکھنا تاکہ جب بھی مجھے خطرہ محسوس ہوگا فورا ہی شام کی جانب بھاگ جاؤں گا اور مسلمانوں کے قدرت و اقتدار سے باہر نکل جاؤں گا۔
میں غافل نہ ہوجاؤں اس لئے میں نے ایک پہرے دارکو سرراہ بٹھا رکھا تھا تاکہ جس وقت بھی دور سے لشکر آتا ہوا دکھائی دے مجھے فورا خبر دیں، اتفاق سے ایک دن میرا ایک غلام دوڑتا ہوا آیا اورمجھے اسلامی لشکر کے آنے کی خبردی ، میں نے خبر سنتے ہی اپنی بیوی، بچوں اور سامان کے ساتھ شام کی طرف کہ جو اس وقت عیسائيت کا مرکز تھا روانہ ہوگیا۔
میری بہن (حاتم طائي کی بیٹی) قبیلے والوں کے درمیان ہی رہ گئی جس کی بناء پر وہ اسیر ہوگئی۔
میری بہن کو اسیر کرکے مدینہ منورہ منتقل کردیا گیا اور اسے مسجد پیغمبرکے قریب ایک گھر میں( کہ جو قیدیوں کے رہنے کے لئے بنایا گيا تھا ) مقید کردیا گیا وہ اپنے حالات کو اس طرح بیان کرتی ہے:
" ایک دن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے قیدیوں کے گھر کے سامنے سے گذرے لہذا میں نے اس موقع کو غنیمت شمارکیا اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے آکرکھڑی ہوگئی اور آپ کو مخاطب کرکے عرض کیا :" یا رَسُولَ اللهِ! هَلَکَ الْوالِدُ وَ غابَ الْوافِدُ فَامْنُنْ عَلَیَّ مَنَّ اللهُ عَلَیْکَ۔"
" اے رسول خدا میرے والد اور میرے سرپرست پہلے ہی گم ہوگئے ہیں آپ مجھ پر احسان کیجئے خداوندعالم آپ کو اس احسان کا بدلہ ضرور دے گا۔"
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا: تمہاری کفالت کون کرتا ہے میں نے عرض کیا، میرے بھائی ( عدی بن حاتم) آپ نے فرمایا: وہی شخص جو خدا اور اس کے رسول کو چھوڑ کر شام بھاگ گیا ہے؟ آںحضرت نے یہ جملہ ارشاد فرمایا اور مسجد کی جانب روانہ ہوگئے۔
دوسرے دن بھی جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز کے لئے مسجد کی طرف جارہے تھے تو بھی یہی گفتگو ہم دونوں کے درمیان ہوئی لیکن کونتیجہ نہ نکلا ، تیسرے دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے گفتگو کرنے کے بعد میں مایوس اورناامید ہوگئی تھی لیکن جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسی جگہ سےدوبارہ گذرے تو میں نے آپ کے پیچھے ایک نوجوان کو دیکھا جو مجھے اشارہ کررہا تھا کہ اٹھ جاؤ اور اپنی کل والی گفتگو کو دوبارہ بیان کرو، اس نوجوان کے اشارے سے میرے دل میں امید کا چراغ روشن ہوگيا لہذا میں نے گذشتہ روز کے مطالبے کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے دوبارہ دہرایا، پیغمبر اسلام نے میرے جواب میں فرمایا: تم جانے کے لئے جلدی نہ کرو کیونکہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک امین اور معتبر شخص کے ہمراہ تمہیں تمہارے وطن بھیج دوں گا مگر ابھی تمہارے سفر پر جانے کے تمام شرائط فراہم نہیں ہوئے ہیں۔
میری بہن کہتی ہے کہ وہ شخص جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا اور مجھے اشارہ کیا تھا کہ اپنی باتوں کو دوبارہ پیغمبر اسلام کے سامنے دہراؤ وہ کوئی اور نہیں تھا بلکہ علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے۔ (1)
ایک دن ایک قافلہ کہ جس میں کچھ ہمارے رشتہ دار بھی موجود تھے مدینے سے شام کی طرف جارہا تھا میری بہن نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے بھی اس قافلے کے ساتھ شام جانے کی اجازت دیں تاکہ شام جاکر اپنے بھائی سے مل جاؤں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی درخواست قبول کرلیا اور اسے سفر کے آخراجات کے لئے کچھ پیسے ، گھوڑا اور کپڑے دیئے۔
میں شام میں اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اچانک میں نے دیکھا کہ ایک اونٹ کجاوے کے ساتھ میرے گھر کے سامنے آکر بیٹھ گیا ہے جب میں نے غور سے دیکھا کہ وہ میری بہن ہے میں گھر سے نکل کر اونٹ کے پاس آیا اور اپنی بہن کو اتار کر گھر میں لایا، کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میری بہن گلہ و شکوہ کرنے لگی کہ ہمیں سرزمین طی پر کیوں تنہا چھوڑ کر چلے آئے، خود شام آگئے اور مجھے اپنے ساتھ نہ لائے۔
میری بہن چونکہ بہت عقلمند عورت تھی لہذا میں نے ایک دن پیغمبر کے بارے میں اس سے پوچھا اورکہا کہ اچھا یہ بتاؤ ان کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے میری بہن نے جواب میں کہا: میں نے ان میں بے شمار فضائل و مناقب دیکھے ہیں اورمصلحت اسی میں ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو ان سے دوستی کا عہد وپیمان کرلو کیونکہ وہ حقیقت میں پیغمبرہوں گے تو ایسی صورت میں صاحب فضیلت وہ ہوگا جو دوسروں سے پہلے ان پر ایمان لایا ہوگا اوراگرعام سردار ہوں گے تو ان کی طرف سے تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور ان کی قدرت سے بہرہ مند ہوگے۔
عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میری بہن کی باتوں نے مجھ پر بہت زیادہ اثرات مرتب کئے لہذا میں مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوگیا جس وقت میں مدینہ میں داخل ہوا تو فورا ہی حضرت محمد مصطفی کی تلاش میں نکل پڑا میں نے آپ کو مسجد میں دیکھا اور آپ کے سامنے جاکر بیٹھ گیا اور پھر اپنا تعارف کرایا جب پیغمبر نے مجھے پہچان لیا تو اپنی جگہ سے اٹھے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لائے، راستے میں ایک بوڑھی عورت نے آپ کے راستے کو روک دیا اور آپ سے باتیں کرنے لگی میں نے دیکھا کہ آپ نہایت ہی تواضع کے ساتھ اس بوڑھی عورت کی باتیں سن رہے تھے اور اس کا جواب دے رہے تھے ، آپ کے مکارم اخلاق نے مجھے ان کا مجذوب بنا دیا اور میں نے دل ہی دل میں کہا یقینا یہ کوئی عام سردار نہیں ہیں جب میں آپ کے گھر میں آیا تو آپ کی سادہ زندگی نے مجھے اپنی طرف جذب کرلیا، آپ کے گھر میں موجود کجھور کی چھال سے بنی توشک تھی جسے آپ نے میرے لئے بچھا دیا اور خود چٹائی یا زمین پر بیٹھ گئے ، میں ایسی تواضع اور فروتنی دیکھ کر حیرت میں ڈوب گیا۔
آپ کے پسندیدہ اخلاق، بے مثال مناقب و کمالات اور بے انتہا ان کا احترام دیکھ کر سمجھ گیا کہ آپ عام شخص یا معمولی سردار نہیں ہیں۔
اس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میری جانب رخ کیا اور میرے حالات زندگی کے بارے میں بہت ہی اہم خبریں سنائی اور فرمایا: کیا تم مذہب رکوسی ( عیسائی اور صائبی مذہب کے درمیان ایک مذہب ہے) کے ماننے والے نہیں تھے، ؟ میں نے کہا جی ہاں تو آپ نے ارشاد فرمایا: تم نے اپنی قوم کی آمدنی کا چوتھائی حصہ کیوں اپنے لئے مخصوص کررکھا تھا ؟ کیا تمہارا مذہب تمہیں اس بات کی اجازت دے رہا تھا؟ میں نے عرض کیا نہیں اے رسول خدا ، میں نے پیغمبر کی غیب کی باتوں کو سن کر سمجھ لیا کہ وہ خدا کی جانب سے رسول ہیں ، ابھی میں انہیں باتوں کے بارے میں غور و فکر کررہا تھا کہ اچانک آپ کی تیسری بات نے میری مجھے چونکا دیا آپ نے فرمایا: مسلمانوں کی فقر و تنگدستی تجھے اسلام لانے میں رکاوٹ کا سبب نہ بنے کیونکہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ جب اسلام کے وسیع طور پر پھیلنے اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے عورتیں تنہا قادسیہ سے خانہ خدا کے لئے آئیں گی اور راستے میں انہیں کوئی پریشان کرنے والا نہیں ہوگا، اگر آج تم یہ مشاہدہ کررہے ہو کہ قدرت و طاقت دوسروں کے ہاتھوں میں ہے تو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اسلام کی فوجیں ان محلوں میں ہوں گی اور بابل پر ان کا قبضہ ہوگا۔
عدی بن حاتم کہتے ہیں: میں بہت دنوں تک زندہ رہا اور میں نے خود مشاہدہ کیا کہ اسلام کے امن و سیکورٹی کی بناء پر دنیا کے دور دراز علاقوں سے عورتیں خانہ خدا کی زیارت کے لئے آنے لگیں اور کوئی بھی فرد انہیں اذیت و پریشان نہیں کرتا تھا میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ بابل فتح ہوگیا اور مسلمانوں نے کسری کے تخت و تاج پرقبضہ کرلیا اوراب مجھے قوی امید ہے کہ میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تیسری پیشنگوئی کا بھی ضرور مشاہدہ کروں گا یعنی پوری دنیا کی دولت وثروت مدینے میں ہوگی اور کوئی بھی اسے جمع کرنے کی طرف راغب نہیں ہوگا۔
1- سرزمین طی پر مسلمانوں نے کیسے حملہ کیا ۔؟
1- سیرت ابن ہشام ج 2 ص 579
دفترنشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف: علی ریختہ گرزادہ تہرانی