مواد کا کوڈ۔: 36
ہٹس: 1859
تاریخ اشاعت : 28 November 2022 - 17: 00
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (28)
حج کے مناسک اختتام پذير ہوئے تمام مسلمانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے اپنے اپنے شہر و دیار کی طرف کوچ کیا، مدینہ منورہ کے رہنے والے اس قافلے کے ہمراہ مدینے کی سمت روانہ ہوئے جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موجود تھے۔

واقعہ غدیر


حج کے مناسک اختتام پذير ہوئے تمام مسلمانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے اپنے اپنے شہر و دیار کی طرف کوچ کیا، مدینہ منورہ کے رہنے والے اس قافلے کے ہمراہ مدینے کی سمت روانہ ہوئے کہ جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موجود تھے جب قافلہ سرزمین " رابغ" کہ جو جحفہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے پہنچا تو ناگہاں فرشتہ وحی الہی جناب جبرئیل امین علیہ السلام غدیر خم نامی جگہ پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئے اوراس آیت کریمہ کے ذریعے خطاب کیا" يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ  وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ۔
اے رسول! اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا توگویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا؛ اللہ آپ کو لوگوں کے شرسے محفوظ رکھے گا۔(1)
لہٰذا اس پیغام الہی کے ملتے ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قافلہ کو روکنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جولوگ آگے بڑھ گئے ہیں وہ واپس پلٹ آئیں اور جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں  ان کا انتظار کیا جائے ۔ ظہر کا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پرتھی حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سرپر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ہوئے تھے۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے ایک درخت پرچادرڈال کرسائبان تیار کیا گیا اورپھر لوگوں نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء میں نمازظہرین باجماعت ادا کی اس وقت تمام لوگ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے حصار میں لے ہوئے تھے آپ اونٹوں کے کجاؤں سے بنے ہوئے منبرپر تشریف لائے اور اس کے بعد بلند و رسا آواز میں ایک فصیح وبلیغ خطبہ ارشاد فرمایا:جس کا خلاصہ ہم یہاں پیش کررہے ہیں۔
" حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے، ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہم برائی اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اس خدا کی پناہ چاہتے ہیں جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے اور جس کی بھی اس نے ہدایت کی وہ کبھی بھی گمراہ نہ ہوگا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ۔
ہاں اے لوگو، وہ وقت قریب ہے جب میں دعوت حق پر لبیک کہتا ہوا تمھارے درمیان سے چلا جاؤں گا !تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟ کیا میں نے تمھارے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کردیا ہے؟ یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت زحمتیں اٹھائیں اوراپنی ذمہ داریوں کو بہترین انداز سے پورا کیا ہے اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے ۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کا معبود ایک ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے؟ اور جنت و جہنم اور آخرت کی جاویداں زندگی میں کوئی شک نہیں ہے؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے اور ہم گواہی دیتے ہیں ۔
اس کے بعد پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیسا سلوک اور برتاؤ کرتے ہو؟۔
اس وقت مجمع سے ایک شخص نے کھڑے ہوکربلند آواز میں سوال کیا کہ اے پیغمبر،ان دو اہم چیزوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے اور دوسرے میری عترت اور اہل بیت ہیں اور اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے۔
ہاں اے لوگو، قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا اور ان دونوں کے حکم کی تعمیل میں بھی کوتاہی نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔
اس کے بعد آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کراتنا اوپراٹھایا کہ دونوں بغلوں کی سفیدی سب کو نظر آنے لگی پھر علی علیہ السلام کو سب لوگوں سے متعارف کرایا اس کے بعد فرمایا: کون ہے جو مومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے ؟ سب نے ایک آواز ہوکرکہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔
پھر آپ نے ارشاد فرمایا: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِیٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ اللّهُمَّ أدِرِ الحَقَّ مَعَهُ حَیثُ دارَ.
" جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ، اے اللہ تو اس کو دوست رکھ جوعلی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جوعلی کو دشمن رکھے، تواس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو، اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کرے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں( 2)
اس اہم تاریخی واقعے کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں بہت کم ایسے تاریخی واقعات ہیں جو غدیر کی طرح محدثیں، مفسریں، متکلمیں، فلاسفہ، خطباء، شعراء، مؤرخین اور سیرت نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوں اور اس تاریخی واقعے کی اہمیت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ واقعہ غدیر خم کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب نے نقل کیا ہے۔ البتہ اس جملے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد میں سے صرف انہیں اصحاب نے اس واقعے کو بیان کیا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل سنت کے علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں صرف انہیں ایک سو دس افراد کا ذکر ملتا ہے ۔البتہ یہ بات بھی صحیح ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک لاکھ کے مجمع میں ولایت علوی کا اعلان کیا ہے مگراس زمانے میں لوگ علم اور قدرت بیان میں اس قدر ماہر نہ تھے کہ جن باتوں کو سنا تھا سب کے سب اس کو بعینہ بیان کرتے بلکہ اس واقعے کو ان میں سے صرف ایک سو دس لوگوں نے نقل کیا ہے۔ 
دوسری صدی کہ جس کو تابعین کا دور کہا جاتا ہے اس میں اناسی افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔
دوسری صدی کے بعد کی صدیوں میں بھی اہل سنت کے تین سو ساٹھ علماء اور دانشوروں نے اپنی اپنی کتابوں میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اورعلماء اہل سنت کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کی سند اور صحت کو صحیح تسلیم کیا ہے ۔
تیسری صدی میں بانوے، چوتھی صدی میں تینتالیس، پانچویں صدی کے چوبیس، گیارہویں صدی میں بارہ، بارہویں صدی میں تیرہ، تیرہویں صدی میں بارہ اور چودہویں صدی میں چودہ علماء اور دانشوروں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔ ان گروہوں نے صرف اس حدیث کو بیان کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس حدیث کی سند اور افادیت کے بارے میں مستقل طور کتابیں بھی تحریرکی ہیں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑے مورخ طبری نے بھی ” الولایۃ فی طرقِ حدیث الغدیر“ نامی کتاب تحریر کی ہے اور اس حدیث کو پچہترطریقوں سے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے ۔
ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ولایت میں اس حدیث کو ایک سو پانچ افراد سے نقل کیا ہے۔ ابوبکر محمد بن عمر بغدادی نے بھی جو کہ جمعانی کے نام سے مشہور ہیں اس حدیث کو پچیس طریقوں سے نقل کیا ہے ۔


اہل سنت کے مشہورعلماء اور حدیث غدیر


احمد بن حنبل شیبانی نے چالیس سند کے ساتھ ،ابن حجر عسقلانی نے چالیس طریقوں سے، جزری شافعی نے اسی(80) طریقوں سے، امیر محمد یمنی نے چالیس طریقوں، نسائی نے ڈھائی سو طریقوں اور ابو العرفان حیان نے تیس سندوں کے ساتھ اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
جن علماء اور دانشوروں نے اس واقعے کے بارے میں تفصیل کے ساتھ کتابیں تحریر کی ہیں ان کی تعداد چھبیس ہے۔ شیعہ علماء نے بھی اس تاریخی واقعے کے بارے میں بہت سی اہم کتابیں لکھیں ہیں اور ان میں سے جامع ترین کتاب ” الغدیر“ ہے، جو عالم اسلام کے مشہورمؤلف علامہ مجاہد آیت اللہ امینی طاب ثراہ کے قلم کا شاہکار ہے۔ (اس کتابچہ کو لکھنے میں ہم نے اس عظیم کتاب سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے).
بہرحال پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کو اپناجانشین بنانے کے بعد فرمایا: اے لوگو! ابھی ابھی جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے ہیں:الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينا۔" آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کوبھی تمام کردیا ہے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے ۔(3)
اس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلند آواز سے تکبیر کہی اور فرمایا : میں اللہ کا شکرادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے آئین اور نعمتوں کو پورا کیا اور میرے بعد علی علیہ السلام کی وصایت و ولایت اور جانشینی سے خوشنود ہوا ہے۔ اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ: جاؤ خیمے میں جا کر بیٹھو تا کہ اسلام کی بزرگ شخصیتیں تمہاری بیعت کریں اورمبارکباد پیش کریں، سب سے پہلے شیخین (ابوبکر و عمر) نے حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور ان کو اپنا مولا تسلیم کیا ۔
اس زمانے کے معروف و مشہور شاعر حسان بن ثابت نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے ایک قصیدہ کہہ کر پڑھا، ہم یہاں پر اس قصیدے کے صرف دواہم اشعار پیش کررہے ہیں :
                     فقال لہ قم یا علی فاننی           فانی رضیتک من بعدی اماما وہادیاً
                  فمن کنت مولاہ فھذا ولیہ                 فکونو لہ اتباع صدق موالیا
" پیغمبراسلام نے علی علیہ السلام سے فرمایا” اٹھو میں نے تمہیں اپنی جانشینی اور اپنے بعد لوگوں کی امامت و راہنمائی کے لئے منتخب کرلیا ہے۔ پس جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں،اگرتم سچے دل سے ان کو دوست رکھتے ہو تو ان کی پیروی کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔"
پوری تاریخ میں یہ حدیث علی علیہ السلام کی تمام صحابہ پرفضیلت اور برتری کے لئے سب سے بڑی دلیل ہے یہاں تک کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے مجلس شورائے خلافت میں کہ جو دوسرے خلیفہ کے مرنے کے بعد منعقد ہوئی اور عثمان کی خلافت کے زمانے میں اورخود اپنی خلافت کے دوران بھی اس پر احتجاج کیا ہے۔ خود شہزادی اسلام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جیسی عظیم شخصیت نے بھی حضرت علی علیہ السلام کی عظیم ولایت سے انکار کرنے والوں کے سامنے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی بڑی بڑی شخصیتوں نے بھی اس حدیث کو مخالفین اورعلی علیہ السلام کے حق کا انکارکرنے والوں کے سامنے بعنوان اجتجاج پڑھا اور استدلال کیا ہے۔


سوال:


1-     سورہ مائدہ کی آیت نمبر سڑسٹھ کا شان نزول کیا ہے۔؟


منابع:


1-      سورہ مائدہ آیت 67
2-     السیرۃ الحلبیہ ج 3  384
3-     سورہ مائدہ آیت 3

 
دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: