مواد کا کوڈ۔: 37
ہٹس: 1860
تاریخ اشاعت : 28 November 2022 - 18: 00
سلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (29)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمرمبارک کے آخری ایام تھے اور آپ روم کی حکومت کی جانب سے اسلامی حکومت پر احتمالی خطرے کا احساس کررہے تھے لہذا آپ نے مہاجرو انصار کے افراد سے ایک منظم فوج تیار کی جس میں سرفہرست ابوبکر،عمر، ابو عبیدہ اور سعد بن وقاص جیسے لوگ شریک تھے۔

اسامہ کی فوج


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمرمبارک کے آخری ایام تھے اور آپ روم کی حکومت کی جانب سے اسلامی حکومت پر احتمالی خطرے کا احساس کررہے تھے لہذا آپ نے مہاجرو انصار کے افراد سے ایک منظم فوج تیارکی جس میں سرفہرست ابوبکر،عمر، ابو عبیدہ اور سعد بن وقاص جیسے لوگ شریک تھے اسی طرح آپ نے حکم دیا کہ مہاجرین کا وہ گروہ جس نے سب سے پہلے مدینہ منورہ ہجرت کی ہے وہ بھی اس فوج میں شامل ہوجائے اور پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے اسامہ کو پرچم عطا کیا اور انہیں لشکر کا کمانڈر معین کیا اور انہیں اس طرح سے حکم دیا: خدا کے نام سے راہ خدا میں جنگ کرو اور دشمنان خدا کے ساتھ پیکار کرو۔
سحر کے وقت انبا( وہ مقام جو شام کی سرزمین اور موتہ کے قریب میں واقع ہے) کے لوگوں پر حملہ کرو اور اس راہ کو اس قدرتیزی کے ساتھ طے کرو کہ تم لوگوں کے وہاں پہنچنے کی خبر سے پہلے تم اور تمہارے فوجی اس سرزمین پر پہنچ چکے رہو۔
اسامہ نے پرچم بریدہ کودیا اور جرف نامی مقام پر کہ جہاں سے شام کا راستہ شروع ہوتا ہے اپنی چھاؤنی قراردیا تاکہ اسلامی فوج کے افراد گروہ در گروہ وہاں پہنچ جائیں اور پھر سب ایک ساتھ معین وقت پر وہاں سے روانہ ہوں۔
اگر چہ مسلمان نہایت ہی قریب سے اس بات کو محسوس کررہے تھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس فوج کو منظم کررہے ہیں لیکن خفیہ طور پر بعض فوجی سپاہ کو جرف چھاؤنی سے روانہ ہونے میں تاخیر کرا رہے تھے اور پوشیدہ طور پر عہد شکنی کررہے تھے ۔
جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسامہ کے حوالے پرچم کیا تھا اس کے دوسرے دن سردرد اور شدید بخار میں مبتلا ہوگئے بیماری کا یہ سلسلہ کچھ دنوں تک جاری رہا اور بالآخر اسی بیماری کی وجہ سے آپ رحلت فرما گئے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیماری کے دوران ہی اس بات سے باخبر ہوگئے تھے کہ جرف چھاؤنی سے فوج کی روانگی کے بارے میں ہی مخالفت شروع ہوگئی ہے اوربعض گروہ اسامہ کو طعنہ دے رہے ہیں یہ سن کر آپ بہت سخت رنجیدہ ہوئے حالانکہ آپ اپنے دوش پرایک پارچہ ڈالے ہوئے تھے اور ایک کپڑا اپنے سر پر باندھے ہوئے تھے مسجد میں لوگوں کو جمع کرنے کی دعوت دی تاکہ قریب سے مسلمانوں سے گفتگو کریں اور اس مخالفت کے خطروں سے مسلمانوں کو ڈرائیں، آپ شدید بخار ہونے کے باوجود منبر پر تشریف لائے اور پروردگارعالم کی حمد و ثناء کے بعد ارشاد فرمایا:
اے لوگو، میں فوج کی روانگی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے بہت سخت ناراض ہوں، ایسا لگتا ہے کہ تم لوگ اسامہ کی سرداری سے خوش نہیں ہو اور ان پر تنقیدیں کرنا شروع کردیا ہے مگر تم لوگوں کی مخالفت اور اعتراض کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی ان کے بابا زید پر بھی تنقیدیں کرچکے ہو، خداوندعالم کی قسم ان کے بابا بھی اس منصب کے لئے لائق و شائستہ تھے اور خود ان کے بیٹے بھی اس منصب کے لئے لائق و شائستہ ہیں۔ میں انہیں بہت زيادہ دوست رکھتا ہوں، اے لوگو، ان کے ساتھ نیک سلوک کرو اور دوسروں کو بھی ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی سفارش کرو وہ تمہارے درمیان بہت ہی نیک انسان ہیں۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی گفتگو یہیں پر ختم کردی اور منبر سے نیچے تشریف لائے اور سخت بخار کی وجہ سے بستر بیماری پر آگئے آپ نے اپنے صحابہ سے کہ جو آپ کی عیادت کے لئے آئے ہوئے تھے باربار سفارش کی اور فرمایا: " اُنْفُدُوا بَعْثَ اُسامَة" اسامہ کی فوج کو روانہ کرو۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسامہ کی فوج کے روانہ ہونے پر اس قدر اصرار کررہے تھے کہ  اسی بستر بیماری پر جب آپ اپنے چاہنے والوں سے فرما رہے تھے کہ اسامہ کی فوج کوروانہ کرو اسی کے ساتھ ساتھ جو لوگ اسامہ کے لشکر سے الگ ہونا چاہتے تھے اور مدینے میں ٹھہرنا چاہ رہے تھے ان پر لعنت و ملامت بھی کررہے تھے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ سفارش اس بات کا باعث بنی کہ مہاجر و انصار کے گروہ خدا حافظی کے لئے پیغمبراسلام کے پاس آئیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی مدینے سے روانہ ہوکر اسامہ کے لشکر سے جرف میں جاکر ملحق ہوجائیں۔
ان دو تین دنوں میں کہ جب اسامہ اپنی فوج کو منظم کرکے روانہ ہونے کی تیاری کررہے تھے اس وقت مدینہ منورہ سے پیغمبر کی سخت بیماری کی خبریں موصول ہورہی تھیں جسے سن سن کر لوگوں کے ارادے سست پڑ رہے تھے یہاں تک کہ دوشنبہ کے دن فوج کے سردار پیغمبر اسلام سے خداحافظی کرنے کے لئے مدینہ منورہ آئے تو آپ کے چہرے پر شفا یابی کے آثار دیکھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جتنی جلدی ممکن ہو اپنے مقصد کی طرف روانہ ہوجاؤ، اسامہ چھاؤنی کی طرف واپس آئے اور لشکر کو منزل کی جانب روانہ ہونے کا حکم جاری کیا، ابھی فوج مقام جرف سے روانہ بھی نہیں ہوئی تھی کہ مدینہ منورہ سے یہ خبر پہنچی کہ پیغمبراسلام کی حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی ہے اور آپ حالت احتضار میں ہیں، بعض لوگ کہ جو بہانے کی تلاش میں تھے اور سولہ دنوں تک لشکر کی روانگی میں مختلف طریقوں سے رکاوٹ کا باعث بن رہے تھے ایک بار پھر پیغمبر اسلام کی نازک حالت کا بہانہ بنا کر مدینہ منورہ واپس پلٹ آئے اور ان کے آنے کی وجہ سے فوج کے تمام لوگ مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوگئے اور اس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک منظم پروگرام فوج کے بعض سرداروں کی بے انضباطی کی بناء پر آپ کی زندگی میں پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔(1)  


اہل بقیع کے لئے استغفار کرنا


جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدید بیمار ہوئے توآپ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور ایک گروہ کے ساتھ قبرستان بقیع کی طرف روانہ ہوئے اور اپنے ہمراہ آنے والوں سے فرمایا: مجھے پروردگارعالم نے اہل بقیع کے لئے استغفار کرنے کا حکم دیا ہے اور پھر قبرستان بقیع میں داخل ہوکر اہل قبور کو سلام کیا اور اپنی گفتگو کا اس طرح آغاز کیا:
تم سب پر میرا سلام ہو، فتنے تاریکی شب کے ٹکڑوں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے آکر ایک دوسرے سے مل گئے ۔ اس کے بعد آپ نے اہل بقیع کے لئے استغفار کیا اور پھر حضرت علی علیہ السلام کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا:
" ان لوگوں نے مجھے دنیا کے خزانے کی کنجی اور اس میں لمبی عمر کی پیشکش کی ہے اور مجھے اس کے اور رب سے ملاقات اور جنت میں داخل ہونے کے درمیان اختیاردیا ہے لیکن میں نے پروردگار عالم سے ملاقات اور جنت میں داخل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ فرشتہ وحی ہر سال مجھے ایک بار قرآن کریم پیش کرتے تھے لیکن اس سال دو مرتبہ میرے سامنے پیش کیا ہے اور یہ صرف اس لئے ہے کہ میری موت کا وقت قریب آگیا ہے۔ (2)


وہ خط جو لکھا نہ جاسکا


پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگي کے آخری ایام بہت ہی سخت گذر رہے تھے، بعض بزرگ صحابہ کی جانب سے اسامہ کی فوج میں شرکت کرنے کی مخالفت یہاں تک کہ فوج کو روکنے اور مختلف بہانے بناکر مدینہ منورہ واپس جانے نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوآپ کے جانشین کے خلاف مخفیانہ طور پر سازشیں رچنے کی جانب متوجہ کیا ، دوسری جانب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعض بیویوں کی جانب سے تکلیف دہ باتیں اور خفیہ طور پر ناروا سرگرمیوں نے اس مطلب کو مکمل طور پر واضح کردیا ۔ اس بناء پر اگر چہ پیغمبر اسلام کی طبیعت ناساز تھی اورآپ شدید بخار میں مبتلا تھے پھر بھی آپ مسجد میں تشریف لائے اور منبر کے بغل میں کھڑے ہوکر تنی بلند آواز سے کہ آپ کی آواز مسجد سے باہر سنائی دے رہی تھی عوام کو مخاطب کرکے فرمایا:
اے لوگو، فتنہ و فساد کی آگ بھڑکا‏ئی جا چکی ہے اور یہ فتنہ رات کی تاریکی کی طرح لوگوں کے سروں پر منڈلارہا ہے اور میرے خلاف تمہارے پاس کوئی بھی دستاویز نہیں ہے میں نے کسی بھی چیز کو حلال نہیں کیا مگر یہ کہ جس کو قرآن کریم نے حلال کیا ہے اور اسی طرح سے میں نے کسی بھی چیز کو خود سے حرام بھی نہیں کیا ہے مگر یہ کہ جسے قرآن کریم نے حرام قرار دیا ہے۔ (3)
یہ جملہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے بعد کی آئندہ کی صورتحال اور اسلام کے مستقبل کے بارے شدت کے ساتھ نگرانی و تشویش کو ظاہر کرتا ہے اور اس آگ سے مراد کہ جس کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ شعلہ ور ہوگئی ہے کیا ہے؟ کیا آپسی اختلافات و افتراق  کے فتنے کی آگ کے علاوہ کچھ ہے جو مسلمانوں کی کمین میں تھی کہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھ بند ہوتے ہی شعلہ ور ہوگئی اور اس کی لپٹیں بلند ہونے لگیں اور آج بھی اس آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔
قلم و دوات لاؤ تاکہ نوشتہ لکھ دوں
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان واقعات و حالات سے بھی باخبر و آگاہ تھے کہ جو خلافت پر قبضہ کرنے کے موضوع پر مخفیانہ طور پر انجام دی جارہی تھیں۔ اسی بناء پر جس دن بڑے بڑے صحابہ آپ کی عیادت کے لئے آپ کے بیت الشرف پر آئے تو آپ نے کچھ دیر کے لئے سر کو جھکالیا اورغور و فکر کرنے کے  بعد سر کو اٹھایا اور فرمایا: میرے لئے قلم اور دوات لاؤ تاکہ تمہارے لئے کچھ لکھ دوں تا کہ تم لوگ میرے بعد گمراہ نہ ہو، اس وقت عمربن خطاب نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا: نبی پر بیماری کا غلبہ ہوگیا ہے تمہارے پاس قرآن موجود ہے ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ وہاں پر موجود افراد کے درمیان تکرار ہونے لگی، ایک گروہ نے عمر کی مخالفت کرتے ہوئے کہا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی ضرور پیروی کی جائے، جاؤ قلم اور کاغذ لے کر آؤ تاکہ جو پیغمبر اسلام لکھنا چاہتے ہیں اسے رشتہ تحریر میں لایا جائے جب کہ بعض گروہ نے عمربن خطاب کی حمایت میں کہا کہ نہیں قلم اور دوات نہ دیا جائے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ اختلاف اور جسارت آمیز گفتار سن کر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا :” میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ ۔
جناب ابن عباس اس واقعے کو نقل کرنے کے  بعد کہتے ہیں: اسلام کے لئے سب سے بڑی مصیبت اور المیہ یہی تھا کہ بعض صحابہ نے اپنے اختلاف اور شور وغوغا کی وجہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کو نوشتہ لکھنے سے روک دیا ۔(4)


خط لکھنے کا کیا مقصد تھا؟


ممکن ہے کوئی شخص یہ سوال کرے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو نوشتہ لکھنا چاہتے تھے اس کا موضوع کیا تھا؟ تو اس کا جواب نہایت ہی واضح و روشن ہے کیونکہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصد حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کو مستحکم کرنے اور اپنے اہل بیت کی پیروی کو واجب قرار دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا اور یہ مطلب مشہور و معروف حدیث ثقلین کو ملاحظہ کرنے سے کہ جو اہل سنت اور اہل تشیع کے محدثین کے درمیان متفق علیہ ہے واضح ہوجاتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو نوشتہ لکھنا چاہتے تھے اس کے بارے میں اس طرح فرمایا: یہ خط میں اس لئے لکھ رہا ہوں تا کہ میرے بعد گمراہ نہ ہو اور حدیث ثقلین میں بھی بالکل یہی جملہ بیان کیا اور فرمایا ہے کہ کتاب خدا اور میرے اہل بیت کی پیروی اس بات کا باعث بنے گی کہ تم لوگ کھبی بھی گمراہ نہیں ہوگے۔ حدیث ثقلین کی عبارت یہ ہے:
"  إِنِّی تَارِكٌ فِیكُمُ الثَّقَلَیْنِ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بعدی كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلَ بَیْتِی وَ إِنَّهُمَا لَنْ یَفْتَرِقَا حَتَّى یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ۔" میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چيزیں چھوڑ کرجارہا ہوں جب تک ان دونوں سے وابستہ رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ایک اللہ کی کتاب قرآن اور دوسری میری عترت اور اہل بیت ہیں۔
کیا ان دونوں احادیث یعنی حدیث ثقلین اور حدیث قرطاس کے الفاظ سے کہ جو ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں یہ قطعی گمان نہیں کیا جاسکتا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دوات و قلم مانگنے کا مقصد حدیث ثقلین کے مضمون کا لکھنا یا حدیث ثقلین کے مطالب سے کچھ زيادہ لکھنے کو اجاگر نہیں کرتا ہے اور وہ بھی اپنے بلافصل جانشینی و ولایت کو مستحکم کرنا تھا کہ جسے آپ نے اٹھارہ ذی الحجہ اس مقام پر جہاں سے عراقی ، مصری اور حجاز کے حجاج کرام کے راستے جدا ہوتے ہیں یعنی غدیر خم کی سرزمین پر سوا لاکھ کے مجمع کے سامنے اپنے ہاتھوں پرعلی علیہ السلام کو بلند کرکے فرمایا تھا۔
صحابہ کرام سے آخری وداع
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیماری کے دوران ایک دن جب آپ کے سر پرکپڑا بندھا ہوا تھا اورعلی علیہ السلام اور فضل بن عباس آپ کو بغل سے سہارا دئيے ہوئے تھے اور آپ کا پیر زمین پر لٹک رہا تھا مسجد میں داخل ہوئے اور منبر پر تشریف لائے اور اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو، اب وہ وقت آگیا ہے کہ میں تمہاری نظروں سے اوجھل ہوجاؤں، اگر میں نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہے تو میں اس وقت اسے انجام دینے کے لئے آمادہ ہوں اور اگر کسی کا مجھ پر کوئی حق ہے تو بیان کرے تاکہ میں اس کو ادا کردوں اس وقت مجمع سے ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا کہ اے پیغمبر کچھ دن پہلے آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں شادی کرلوں تو آپ کچھ پیسے سے  میری مدد کریں گے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فورا ہی فضل کو حکم دیا کہ اس کے منظور نظر پیسہ ادا کریں پھر آپ منبرسے نیچے تشریف لائے اور بیت الشرف کی جانب روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد جمعہ کے دن یعنی اپنی وفات سے تین روز پہلے دوبارہ مسجد میں تشریف لائے اور گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا: جس شخص کا بھی میرے ذمہ کوئی حق ہے بیان کرے کیونکہ قیامت کے دن کے قصاص سے اس دنیا کا قصاص نہایت ہی آسان ہے ۔
اس موقع پر سوادہ بن قیس اپنی جگہ سے اٹھے اورعرض کیا: اے پیغمبر جب ہم لوگ جنگ طائف سے واپس آرہے تھے اس وقت آپ اونٹ پر سوار تھے اور آپ نے اپنا تازيانہ اپنی سواری کو مارنے کے لئے بلند کیا تھا لیکن اتفاق سے وہ تازيانہ میری پیٹھ پر آکر لگ گیا تھا اس وقت میں آپ سے اس کا قصاص لینا چاہتا ہوں ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ مطالبہ اخلاقی طور پر نہیں کیا تھا بلکہ آپ حقیقت میں تلافی کرنا چاہتے تھے کہ ایک ایسا بھی معمولی حق کسی کا میرے ذمہ نہ رہ جائے کہ جسے انسان نظر انداز کردیتا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا کہ جاؤ اور میرے گھر سے وہی تازيانہ لاؤ اس کے بعد آپ نے اپنا کرتا اوپر اٹھایا تاکہ سوادہ اپنا بدلہ لے لے، ادھر پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ پرنم آنکھوں سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے کہ آخر یہ ماجرا کہاں پر جاکر ختم ہوتا ہے، کیا سوادہ حقیقت میں پیغمبراسلام سے بدلہ لے گا ؟ اچانک لوگوں کی نظروں نے دیکھا کہ سوادہ بے اختیار پیغمبر کے پیٹ اور سینے کا بوسہ لینے لگے اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: خدایا سوادہ کو معاف فرمادے جس طرح سے اس نے اپنے پیغمبرکو معاف کردیا ہے۔ (5)


سوالات:   


1- پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خط لکھنے میں کس نے رکاوٹ پیدا کی اور کیوں۔؟
2- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بستر بیماری سے اس خط لکھنے کا مقصد کیا تھا۔؟  


منابع :


1- المغازی "واقدی" ج 3 ص 1119
2- بحارالانوار "مجلسی" ج 21 ص 466
3- سیرت ابن ہشام  ج 2 ص 654
4- جو چیز یہاں پر تحریر کی گئی ہے وہ شیعہ منابع کے علاوہ اہل سنت کی کتابوں میں بھی موجود ہے منجملہ صحیح بخاری ج 1 ص22، ج ص2 ص 14،مسند احمد ج 1 ص 325 ، طبقات اکبری ج 2 ص244
5- اجتجاج طبرسی ج 1 ص 263
 
دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: