مواد کا کوڈ۔: 38
ہٹس: 1903
تاریخ اشاعت : 28 November 2022 - 19: 30
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (30)
پورے مدنیہ منورہ پر اضطراب و بے چینی کی فضا چھائی ہوئی تھی گھر کے اندر سے جو خبریں باہر آرہی تھیں وہ نہایت ہی رنج و الم سے بھری ہوئی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض عقیدت مندوں کی یہ آرزو تھی کہ اے کاش اپنے رہبرو پیشوا کی قریب سے زيارت کرتے۔

پیغمبر اسلام کی زندگی کے آخری لمحات


پورے مدنیہ منورہ پر اضطراب و بے چینی کی فضا چھائی ہوئی تھی گھر کے اندر سے جو خبریں باہر آرہی تھیں وہ نہایت ہی رنج و الم سے بھری ہوئی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض عقیدت مندوں کی یہ آرزو تھی کہ اے کاش اپنے رہبرو پیشوا کی قریب سے زيارت کرتے لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جسمانی کیفیت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ لوگ اندر جاتے اور جس کمرے میں آنحضرت تھے وہاں سوائے اہل بیت علیہم السلام کے کسی کو آمد ورفت کی اجازت نہیں تھی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لخت جگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے بابا کے سراہنے بیٹھی ہوئی آپ کے نورانی چہرے کی طرف دیکھ رہی تھیں آپ کی نظریں دیکھ رہی تھیں کہ بابا کے چہرے پر موت کا پسینہ موتیوں کی طرح پیشانی اور چہرے سے گررہا تھا ، آپ پرنم آنکھوں اور گلو گیر آواز کے ساتھ یہ شعر پڑھ رہی تھیں کہ جسے حضرت ابوطالب علیہ السلام نے پیغمبر اسلام کی شان میں کہا تھا:
            وَ ابیَض سَتَیَسقَی الغَمام ثَمالُ الیَتامی عِصمَۀ لِلأرامِلِ» بِوَجهِهِ  
" وہ نورانی چہرہ کہ جس کے احترام میں بارش کے لئے بادل سے درخواست کی جاتی ہے ایسی شخصیت کہ جو یتیموں کی پناہ گاہ اور بیوہ عورتوں کا نگہبان تھا۔
یہ سن کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی آنکھیں کھولیں اور بہت ہی نحیف آواز سے اپنی بیٹی سے فرمایا:  یہ وہ شعر ہے جسے میرے چچا حضرت ابوطالب علیہ السلام نے میرے بارے میں کہا تھا لیکن بہتر یہی ہے کہ اس شعر کے بدلے میں اس آیت کریمہ کی تلاوت کرو۔
" وَ ما مُحَمَّدٌ اِلّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل اَفَاِنْ ماتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُم عَلی اَعْقابِکُمْ وَ مَنْ یَنْقَلِبْ عَلی عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَضُرَّ اللهَ شَیْئاً وَ سَیَجْزِی الشّاکِرینَ۔" (1)
" اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل ہو جائیں تو تم اُلٹے پیروں پلٹ جاؤ گے تو جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا تو عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا دے گا۔"


پیغمبراسلام اور حضرت فاطمہ زہرا کے درمیان گفتگو


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی اکلوتی بیٹی کو بہت زيادہ چاہتے تھے یہاں تک کہ جب بھی کہیں شہر سے باہر جاتے تھے تو اپنی بیٹی سے سب سے آخر میں خداحافظی کرتے تھے اور جب واپس آتے تھے تو سب سے پہلے اپنی بیٹی سے ملاقات کے لئے تشریف لاتے تھے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ہر ایک سے زیادہ چاہتے تھے اور فرمایا کرتے تھے:
" فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑا ہے اس کی مرضی میری مرضی ہے اور اس کا غضب میرا غضب ہے۔"
جتنے دن بھی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بتسر بیماری پر تھے اتنے دنوں تک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے بابا کے سراہنے موجود تھیں اور ایک لمحے کے لئے بھی وہاں سے دور نہیں ہوئیں۔ اچانک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیٹی کی جانب اشارہ کیا تا کہ آپ سے گفتگو کریں آپ کی لخت جگر تھوڑا سا جھکیں اور اپنے سر کو بابا سے قریب کیا اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس طرح آہستہ آہستہ اپنی بیٹی سے گفتگو کی کہ جو لوگ پیغمبر اسلام کے بستر کے قریب موجود تھے وہ بھی اس گفتگو سے آگاہ نہ ہوسکے،جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گفتگو ختم ہوگئی تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس قدر شدید گریہ کیا کہ آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری ہوگیا ایسے عالم میں ایک مرتبہ پھر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیٹی کے کان میں کچھ کہا مگر اس مرتبہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے مسکراتے ہوئے اپنے سر کو بلند کیا، وہاں موجود افراد کہ جو دو متضاد حالت دیکھ کر بہت زيادہ تعجب میں غرق ہوگئے تھے انہوں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے درخواست کی کہ آپ کے بابا نے آخر کون سی ایسی باتیں کی ہیں کہ آپ ایک مرتبہ زار و قطار گریہ و زاری کرنے لگیں اور دوسری مرتبہ ہسنے لگیں ہمیں بھی آگاہ کریں شہزادی اسلام نے فرمایا: میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے راز کو فاش نہیں کروں گی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے عائشہ کے اصرار پر اپنے بابا کی باتوں سے آگاہ کیا اور فرمایا: پہلی مرتبہ میرے بابا نے مجھے اپنی موت کے بارے میں خبر دی تھی اور فرمایا تھا کہ مجھے اس بیماری سے رہائی نہیں ملے گی لیکن دوسری مرتبہ مجھ سے فرمایا اے میری لاڈلی میرے اہل بیت میں تم وہ پہلی فرد ہوگی جو سب سے پہلے مجھ سے ملحق ہوگی تو میں پہلی گفتگو سن کر رونے لگی تھی اور دوسری گفتگو  سن کرمیں خوش ہوگئی کہ بابا کا فراق بہت زيادہ طولانی نہیں ہوگا لہذا میں ہسنے لگی۔ (2)
میرے بابا نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں مجھ سے فرمایا: میرے بھائی سے کہو کہ میرے بستر کے پاس ہی بیٹھیں، شیرکردگار حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے اور میرے بابا کے بستر کے پاس بیٹھ گئے، زيادہ دیر نہ گذری تھی کہ میرے بابا کے نورانی وجود پر موت کا پسینہ بہنے لگا ۔ ایک شخص نے ابن عباس سے پوچھا: پیغمبراسلام نے کس کی آغوش میں اپنی جان دی ؟ ابن عباس نے کہا جب آپ کا سرمبارک حضرت علی علیہ السلام کی آغوش میں تھا اپنی جان راہ خدا میں تسلیم کی ۔ پھر وہ شخص دوبارہ کہتا ہے کہ عائشہ کا دعوی ہے کہ جب پیغمبراسلام نے جان دی تو ان کا سر ان کے سینے پر تھا ،ابن عباس نے اس کے اس کلام کی تکذیب کرتے ہوئے کہا: پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کی آغوش میں اپنی جان دی اور علی علیہ السلام اور میرے بھائی فضل نے انہیں غسل دیا ۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اس مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" وَ لَقَدْ قُبِضَ رَسُولُ اللهِ وَ اَنَّ رَأْسَهُ لَعَلی صَدْری ... وَ لَقَدْ وَلَّیْتُ غُسْلَهُ وَ الْمَلائِکَۀُ اَعْوانی۔" (3)
" جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روح قبض ہوئی تو آپ کا سرمیرے سینے پر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے انہیں غسل دیا اور ملائکہ میری مدد کررہے تھے۔
پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بزرگ و مقدس روح اٹھائیس صفرالمظفر سنہ گیارہ ہجری قمری کو دوشنبہ کے دن دوپہر میں عالم ملکوت کی جانب پرواز کی، اس وقت میں نے آپ کے جسم اطہر پر یمنی چادر اوڑھائی اور کچھ دیر کے لئے آپ کے جسم نازنین کو ایک گوشہ میں رکھا گيا ۔ عورتوں اور اعزہ و احباب کے رونے کی آواز سن کرگھر کے باہر موجود لوگوں نے سمجھ لیا کہ پیغمبراسلام اب اس دنیا میں نہیں رہے اور پھر بڑی تیزی کے ساتھ یہ خبر پورے مدینہ منورہ میں پھیل گئی، عمر بن خطاب نے گھر کے باہر کسی وجہ سے فریاد بلند کیا کہ پیغمبراسلام کی وفات نہیں ہوئی ہے بلکہ حضرت موسی علیہ السلام کی طرح اپنے خدا کی جانب چلے گئے ہیں اور اپنی اس بات پر حد سے زيادہ اصرار کیا اور عنقریب تھا کہ اور بھی بہت سے افراد کو اپنی بات کا حامی بنا لیتا، اس وقت مسلمانوں کے درمیان میں سے ایک شخص نے اس کے سامنے سورہ آل عمران کی ایک سو چوالیسویں آیت کی تلاوت فرمائی :   
" وَ ما مُحَمَّدٌ اِلاّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل اَفَاِنْ ماتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلی اَعْقابِکُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ۔ "
" اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم اُلٹے پیروں پلٹ جاؤ گے تو جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا تو عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا دے گا۔"
عمربن خطاب نے اس آیت کو سننے کے بعد اپنی بات کو واپس لے لیا اور پھر کچھ نہیں بولے۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غسل دیا اور کفن پہنایا کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھ سے سب سے قریب رہنے والا مجھے غسل دے گا اور یہ شخص سوائے علی بن ابی طالب علیہ السلام کے کوئی اور نہیں تھا۔ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے آپ کے چہرے سے کفن ہٹایا اس وقت آپ کی آںکھوں سے آنسو جاری تھے آپ نے فرمایا: اے پیغمبر آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں آپ کی موت سے رشتہ نبوت ، وحی الہی اور آسمانی خبروں کا سلسلہ کہ جو کسی بھی شخص کی موت سے منقطع نہیں ہوا تھا منقطع ہوگیا۔ اگر آپ نے ہمیں اپنی موت پر صبر کرنے کی سفارش نہ کرتے تو آپ کے فراق میں اس قدراشک غم بہاتے کہ اپنی آنکھوں سے آنسوؤں کو خشک کردیتے لیکن اس راہ میں حزن وغم بہت زيادہ ہیں جس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے اور اس کے لئے کوئی چارہ بھی نہیں ہے میرے ماں باپ آپ پرقربان ، اے پیغمبرخدا آپ آخرت میں بھی ہمیں یاد رکھیئے گا ۔
سب سے پہلے جس نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازہ پر نماز پڑھی وہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام تھے۔ اس کے بعد گروہ در گروہ صحابہ نے آکر آپ کے جنازہ پر نماز پڑھی اور یہ سلسلہ منگل کے دن دوپہر تک جاری رہا اور اس کے بعد یہ طے پایا کہ جس حجرے میں آپ کی وفات واقع ہوئی تھی اسی میں آپ کے جسم اطہر کو دفن کردیا جائے ۔ آپ کی قبر اطہر کو ابوعبیدہ جراح اور زید بن سہل نے کھودا تھا اور امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے عباس اور فضل کی مدد سے آپ کو دفن کیا تھا۔
آخرکار ایک ایسے شخص کی آفتاب زندگی کہ جس نے بے پناہ مشکلات و پریشانیوں کے باوجود انسانیت کی تقدیر کو تبدیل اور اسلامی ثقافت کے زرین و نورانی صفحات کو انسانوں کی طرف کھولا تھا غروب ہوگئی۔


منابع:


1- سورہ آل عمران آیت 144
2- الکامل فی التاریخ " ابن اثیر" ج 2 ص 219
3- نہج البلاغہ "سید رضی ، صبحی صالح" ص 311  
 
 
دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: