مواد کا کوڈ۔: 7
ہٹس: 2201
تاریخ اشاعت : 26 June 2022 - 23: 08
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سوانح حیات (5)
بعثت کے گیارہویں سال کے آغاز سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں بے انتہا غم و الم کے پہاڑ ٹوٹنے لگے اور قریش کے سرداروں کی جانب سے ہونے والے کینوں اور عداوتوں سے تکلیفیں پہنچانا شروع کردیں ہر وقت خطرات کے بادل آپ پر منڈلاتے رہے اور تبلیغ دن کے ہر طرح کے امکانات و وسائل کو آپ سے سلب کرلیا گیا تھا ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (5)
 
طائف کی جانب سفر
بعثت کا دسواں سال اپنی تمام تر تلخ اور شیریں واقعات کے ساتھ ختم ہوا، اس سال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسچے حامی و مدافع دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے سب سے پہلے قبیلہ قریش کی بزرگ ترین شخصیت آپ کے چچا محسن اسلام حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات ہوئی ابھی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پراسی غم کے اثرات کوہ الم بن کے ٹوٹ پڑے تھے اور آپ اسی غم میں مبتلا تھے کہ آپ کی شریکہ حیات حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا بھی اس دارفانی سے رخصت ہوگئيں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرمزيد غم آن پڑا ، حضرت ابوطالب علیہ السلام آپ کے زبردست حامی ، جان کے محافظ اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آبرو تھے اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اپنی کثیر دولت دے کر اسلام کی ترقی وپیشرفت میں اہم کردار ادا کیا اور بہترین خدمات انجام دیں۔
بعثت کے گیارہویں سال کے آغاز سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں بے انتہا غم و الم کے پہاڑ ٹوٹنے لگے اور قریش کے سرداروں کی جانب سے ہونے والے کینوں اور عداوتوں سے تکلیفیں پہنچانا شروع کردیں ہر وقت خطرات کے بادل آپ پر منڈلاتے رہے اور تبلیغ دن کے ہر طرح کے امکانات و وسائل کو آپ سے سلب کرلیا گیا تھا ۔
ابھی حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات حسرت آیات کو کچھ ہی دن گذرے تھے کہ قریش کے ایک شخص نے آپ کے سر پر مٹی ڈال دی اور آپ اسی حالت میں اپنے گھر میں داخل ہوئے، یہ منظر دیکھ کر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا رنجیدہ ہوئیں اور جلدی سے اٹھ کر پانی لائیں اور اپنے بابا کے سراور چہرے کو دھل کر صاف کیا آپ زار و قطار رورہی تھی اور آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے جاری تھے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیٹی کو تسلی دی اور فرمایا:اے میری لاڈلی گریہ و زاری نہ کرو خداوندعالم تمہارے بابا کا محافظ و مددگار ہے اس کے بعد فرمایا : جب میرے چچا حضرت ابوطالب علیہ السلام زندہ تھے قریش کے اندر اتنی ہمت نہ ہوئي جو مجھے اذیت و آزار پہنچاتے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے گھٹن بھرے ماحول میں یہ ارادہ کیا کہ یہاں سے کسی دوسرے شہر چلے جائيں، اس زمانے میں "طائف" مرکزی اعتبار سے بہت ہی بہترین شہر شمارہوتا تھا لہذا آپ نے تن و تنہا طائف جانے کا پروگرام بنا لیا، آپ نے قبیلہ "ثقیف" کے سرداروں سے رابطہ برقرارکیا اوران کے سامنے اپنے آئين کو پیش کیا تاکہ شاید اس طریقے سے کامیابی حاصل کرلیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے طائف پہنچنے کے بعد اس قبیلے کے بزرگوں اور اشراف سے ملاقاتیں کیں اور آئين توحید کو پوری وضاحت کے ساتھ ان کے سامنے بیان کیا اور انہیں توحید پر ایمان لانے کی دعوت دی لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات کا ذرہ برابر بھی ان پر اثر نہ ہوا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان لوگوں سے عہد لے لیا کہ آپ کی اس دعوت کے بارے میں کسی دوسرے سے کوئی بات نہیں کہیں گے، کیونکہ ممکن تھا کہ قبیلہ ثقیف کے پست و ذلیل افراد کوئی نہ کوئي بہانہ بنا کر آپ کی غربت و تنہائي سے سوء استفادہ کریں لیکن اشراف قبیلہ نے آپ کی بات کی کوئی لاج نہیں رکھی بلکہ جاہل و متعصب اور سادہ لوح افراد کو اکسایا تاکہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف سازشیں رچیں، اچانک پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے آپ کو دشمنوں کے کثیر مجمع کے درمیان میں پایا ایسے حالات میں کوئی تدبیر سمجھ میں نہ آئی مگر یہ کہ وہ باغ جو "عتبہ" اور شیبہ" کے متعلق تھا اس میں پناہ لی، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بے انتہا مشکلات و پریشانیاں جھیل کر کسی طرح سے اپنے آپ کو باغ میں پہنچایا اور آپ کا پیچھا کرنے والے گروہ وہیں سے واپس چلے گئے، یہ دونوں افراد یعنی عتبہ اور شیبہ قریش کے مالداروں میں سے تھے اور طائف میں بھی ان کے باغات تھے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سر اور چہرہ اقدس سے پسینے کے قطرات جاری تھے اور جسم اطہر پر زخموں کے بے شمار نشانات تھے، آخر کار آپ انگور کے پیڑ کے سائے میں کہ جو در و دیوار پر تھا بیٹھ گئے اس وقت آپ کی زبان اقدس پر یہ جملہ جاری تھا:
" خدایا میں اپنی ناتوانی اور کمزوری کو تیری بارگاہ میں پیش کررہا ہوں بے شک تو رحیم و کریم پروردگار ہے تو ضعیفوں اور کمزوروں کا پروردگار ہے مجھے کس کے حال پر چھوڑ رہا ہے۔۔۔؟
باغ کے مالکین کہ جو خود بت پرست اور آئين توحید کے سخت ترین دشمن تھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس غمزدہ حالت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئےاور اپنے عیسائي غلام " عداس" کو حکم دیا کہ انگور کا ایک بھرا ہوا طشت حضرت محمد کے پاس لے جائے ۔ عداس انگور کا ایک طشت حضرت محمد کے پاس لے گیا اور آپ کے چہرہ انور کو بہت ہی غور سے دیکھا تو مشاہدہ کیا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انگور کھاتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم کی آیت کی تلاوت کررہے ہیں اس منظر نے اسے سخت متعجب کردیا اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا اے محمد اس سرزمین کے لوگ آپ کے اس کلام سے آشنائي نہیں رکھتے اور ہم نے بھی اس سے پہلے کسی سے بھی یہ جملہ نہیں سنا تھا کیونکہ یہاں کے لوگ اپنے ہرکام کو "لات" و "عزی" کے نام سے شروع کرتے ہیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اور کس مذہب کے ماننے والے ہو؟ اس نے عرض کیا میں نینوا کا رہنے والا اور نصرانی ہوں، آپ نے فرمایا:اچھا تم اس سرزمین کے رہنے والے ہوجہاں کے مرد صالح " یونس بن متی" ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جواب سن کر اسے بہت زيادہ تعجب ہوا لہذا اس نے دوبارہ پوچھا کہ آپ یونس متی کو کہاں سے جانتے ہیں ؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا: میرے بھا‏‏ئی یونس بھی میری ہی طرح خدا کے پیغمبر تھے، پیغمبر اسلام کی بات کا عداس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ زمین پر گرپڑا، اس نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں کا بوسہ لیا اور آپ پر ایمان لایا ۔
باغ کے مالکوں نے جب اپنے عیسائی غلام میں اس روحانی انقلاب کے اثرات کا مشاہدہ کیا تو بہت زيادہ متعجب ہوکر اپنے غلام سے پوچھا: تم اس اجنبی سے کیا باتیں کررہے تھے؟ اور آخر کیوں اس قدر اس کے سامنے تواضع و انکساری سے پیش آرہے تھے؟غلام نے جواب میں عرض کیا: اس وقت جس نے تمہاری باغ میں پناہ لے رکھا ہے وہ روئے زمین پر لوگوں کے سید و سردار ہیں انہوں نے مجھ سے ایسی باتیں بیان کی جس سے صرف اور صرف پیغمبران الہی ہی آگاہی رکھتے ہیں اور یہ شخص وہی پیغمبر موعود ہیں، یہ باتیں سن کر باغ کے مالکوں کو بہت ہی برا لگا اور منھ بنا کر غلام سے کہا کہ اس شخص نے تم کو تمہارے قدیمی مذہب سے روک دیا ہے اور عیسائي مذہب کہ جس کے تم پیرو ہو ان کے دین سے بہت زيادہ بہتر ہے ۔(1)


طائف سے واپسی
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ مکرمہ واپس جانے کا ارادہ کیا لیکن چونکہ آپ کے عظیم حامی و مدافع حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات ہوچکی تھی لہذا یہ احتمال پایا جارہا تھا کہ ممکن ہے جیسے ہی آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوں بت پرست افراد آپ کو گرفتار کرلیں بلکہ دشمن شاید آپ کوقتل کرڈالیں اس لئے آپ نے مکہ اور طائف کے درمیان "نخلہ" نامی مقام پر کچھ دنوں کے لئے قیام کیا تاکہ کوئی ایسا شخص مل جائے جس کے ذریعے سے بعض قریش کے سرداروں سے امان نامہ حاصل کریں لیکن چند دن گذر جانے کے باوجود بھی کوئی ایسا شخص نہ مل سکا لہذا آپ وہاں سے "حرا" چلے گئے اور قبیلہ بنی خزاعہ کے ایک شخص کو " مطعم بن عدی کے پاس بھیجا جس کا شمار مکہ مکرمہ کے بزرگوں میں ہوتا تھا تاکہ وہ آپ کے لئے امان نامہ لے "مطعم" اگر چہ بت پرستوں میں سے تھا لیکن اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی درخواست کو قبول کرلیا اور کہا: محمد براہ راست ہمارے گھر تشریف لائیں اور ہم اور ہمارے بیٹے ان کے جان کی حفاظت کریں گے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رات کے سناٹے میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور مطعم کے گھر تشریف لائے، صبح کے وقت جب سورج کچھ بلندی پر پہنچا تو مطعم نے عرض کیا اے محمد آئيے مسجد الحرام چلیں تاکہ قریش کو معلوم ہوجائے کہ آپ میری پناہ میں ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مطعم کی بات کو پسند کیا اور مسجد الحرام کی جانب روانہ ہوگئے مطعم نے اپنے بچوں کو حکم دیا کہ اسلحوں سے لیس ہوکر پیغمبراسلام کے ہمراہ مسجد میں داخل ہوں، مسجد الحرام میں ان لوگوں کی تشریف آوری بہترین منظر پیش کررہی تھی، ابوسفیان کہ جو مدتوں سے پیغمبر اسلام کے سراغ میں تھا اس منظر کو دیکھ کر بہت سخت ناراض ہوا لیکن چونکہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا لہذا حضرت کو نقصان پہنچانے سے منصرف ہوگیا ۔
"مطعم" اور اس کے فرزند مسجد میں بیٹھ گئے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم طواف میں مشغول ہوگئے اور طواف سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گھر کی جانب روانہ ہوگئے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی تو اسی برس "مطعم" کا مکہ مکرمہ میں انتقال ہوگیا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب مطعم کے انتقال کی خبر سنی تو انہیں نیکیوں سے یاد کیا، اور پیغمبر اسلام کے چاہنے والے شاعر "حسان بن ثابت" نے مطعم کی خدمات کے بارے میں بہت سے اشعار کہے اور ان میں جنگ بدر میں قریش کے بے شمار نقصانات اٹھانے، اسیروں کے قید ہونے اور شکست کھا کر مکہ واپس آنے کا بھی ذکر کیا،اس وقت بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مطعم کو نہایت ہی خوبصورت اور عمدہ طریقے سے یاد کیا تھا اور فرمایا تھا جب تک مطعم زندہ رہے مجھ سے ہمیشہ تقاضا کرتے تھے کہ تمام اسیروں کو قید سے آزاد کردیجئے یا اس کے حوالے کردیجئے اور میں کبھی بھی ان کی درخواست کو رد نہیں کرتا تھا۔(2)

 

سوال:
1۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم طائف سے مکہ کیسے واپس آئے۔؟

 

منابع:
1۔ البدایۃ والنھایۃ "ابن کثیر"ج 3 ص 135، 136
2۔ سیرہ حلبیہ " ابوالفرج حلبی" ج 1 ص 189
 

دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف: علی ریخته گرزاده تهرانی  

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: