مواد کا کوڈ۔: 41
ہٹس: 108
تاریخ اشاعت : 30 August 2023 - 09: 35
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (3)
تاریخ انسانیت میں بہت ہی کم شخصیتیں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام جیسی ہوں گی جس کے دوست اور دشمن دونوں مل کر ان کے فضائل و کمالات کو عام ہونے سے روک دیں اس کے باوجود بھی اس کے تمام فضائل وکمالات اورصفات سےعالم اسلام رو شناس ہوجائے۔

حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کو بیان کرنے سے منع کرنا


تاریخ انسانیت میں بہت ہی کم شخصیتیں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام جیسی ہوں گی جس کے دوست اور دشمن دونوں مل کر ان کے فضائل و کمالات کو عام ہونے سے روک دیں اس کے باوجود بھی اس کے تمام فضائل وکمالات اورصفات سےعالم اسلام رو شناس ہوجائے۔
ادبیات عرب کے بزرگ دانشور خلیل ابن احمد اس بارے میں کہتے ہیں کہ جب ان سے سوال کیا گيا کہ تم علی علیہ السلام کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہو تو انہوں نے کہا ایسے شخص کے بارے میں کیا کہوں جن کے چاہنے والوں نے ان کے فضائل و مناقب کو دشمنوں کے خوف اور شکنجے کی وجہ سے چھپایا اوران کے دشمنوں نے ان سے عداوت ودشمنی کو اپنے دل میں بٹھا رکھا اور حسد وکینہ کی وجہ سے ان کے بلند و با فضیلت مقامات اورکمالات کو لوگوں سے چھپایا لیکن ان دونوں گروہوں کے چھپانے کے باوجود امام علیہ السلام کے فضائل و مناقب پورا عالم چھا گيا۔   
خاندان بنی امیہ کے افراد ہمیشہ اس بات کے کوشاں رہتے تھے کہ جس طرح سے بھی ممکن ہوعلی علیہ السلام  اور ان کے خاندان کے فضائل کو مٹادیا جائے ۔ بس اتنا کہنا ہی کافی تھا کہ یہ علی علیہ السلام کا چاہنے والا ہے اوردو آدمی انہیں سپاہیوں میں سے گواہی دیتے تھے کہ یہ علی علیہ السلام کا چاہنے والا ہے تو فوراً ہی اس کا نام حکومت میں کام کرنے والوں کی فہرست سے حذف کردیاجاتا تھا اوربیت المال سے اس کا وظیفہ بند کردیا جاتا تھا،معاویہ نے اپنے گورنروں اورحاکموں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی شخص کے لئے معلوم ہوجائے کہ وہ علی علیہ السلام اور ان کے خاندان سے محبت رکھنے والا ہے تو اس کا نام کام کرنے والوں کی فہرست سے خارج کردو اور اس کے وظیفے کو ختم کردو اور اسے تمام سہولتوں سے محروم کردو ۔
 پھرمعاویہ نے اپنے دوسرے حکم نامہ میں سختی اور تاکید سے حکم دیا کہ جو بھی  علی اور ان کے خاندان سے دوستی کا دم بھرتا ہے اس کے ناک اور کان کو کاٹ ڈالو اوران کے گھر کو ویران کردو۔(1)
اس فرمان کے نتیجے میں عراق کی عوام خصوصاً اہل کوفہ اس قدر ڈرے اور سہمے کہ شیعوں میں سے کوئی بھی ایک شخص معاویہ کے جاسوسوں کی وجہ سے اپنے راز کو اپنے دوستوں تک سے بیان نہیں کرسکتا تھا مگر یہ کہ پہلے قسم لے لیتا تھا کہ اس کے راز کو فاش نہ کرنا ۔(2)
معاویہ نے تیسری مرتبہ سرزمین اسلامی پر پھیلے ہوئے اپنے سیاسی نمائندوں کو خط لکھا کہ علی کے شیعوں کی گواہی کسی بھی مسئلے میں قبول نہ کریں لیکن اس کا یہ سخت حکم بہت زیادہ مفید ثابت نہ ہوا جوعلی اورخاندان کے فضائل کو منتشر ہونے سے روک پاتا، اس وجہ سے معاویہ نے چوتھی مرتبہ اپنے گورنرکو لکھا کہ جو لوگ عثمان کے فضائل ومناقب کو نقل کریں ان کا احترام کرو اوران کا نام اور پتہ میرے پاس روانہ کروتا کہ ان کی عظیم خدمات کا صلہ انہیں دیا جاسکے ۔
یہ ایک ایسی خوشخبری تھی جو اس بات کاسبب بنی کہ تمام شہروں اور جھوٹے بازاروں میں عثمان کے فضائل ومناقب گھڑے جانے لگے اور یہ فضائل نقل کرنے والے عثمان کے فضائل کے متعلق حدیثیں لکھ لکھ کر مالدار بننے لگے اور یہ سلسلہ بڑی تیزی سے چلتا رہا۔ یہاں تک کہ خود معاویہ اس بے اساس اورجھوٹے فضائل کے مشہور ہونے کی وجہ سے بہت ناراض ہوا اور اس مرتبہ حکم دیا کہ عثمان کے فضائل بیان نہ کئے جائیں اورخلیفہ اول اور دوم اور دوسرے صحابہ کے فضائل بیان کئے جائیں اوراگرکوئی محدث ابوتراب( یعنی حضرت علی علیہ السلام) کی فضیلت میں کوئی حدیث نقل کرے تو فوراً اسی سے مشابہ ایک فضیلت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے صحابیوں کے بارسے گڑھ دیا جائے اوراسے لوگوں کے درمیان بیان کیا جائے کیونکہ یہ کام شیعوں کی دلیلوں کوبے اثرکرنے کے لئے عمدہ ہے۔
مروان بن حکم ان لوگوں میں سے تھا جس کا یہ کہنا تھا کہ علی نے عثمان سے جودفاع کیا تھا ایسا دفاع کسی نے نہیں کیا اور اسی کے ساتھ ساتھ ہمیشہ امام پر لعنت و ملامت کرتا تھا جب اس سے اعتراض کیا کہ تم علی کے بارے میں جب ایسا عقیدہ رکھتے ہو تو پھر کیوں انہیں برا بھلا کہتے ہو تو اس نے جواب دیا میری حکومت صرف علی کو برا بھلا کہنے اور ان پر لعنت کرنے کی وجہ سے ہی محکم اور مستحکم ہوگی اور ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو حضرت علی علیہ السلام کی پاکیزگی اورطہارت اور عظمت وجلالت کے کے قائل تھے لیکن اپنے مقام و منصب کی بقاء کے لئے حضرت علی علیہ السلام اور ان کے بچوں کو برا بھلا کہتے تھے ۔
عمربن عبدالعزیز کہتے ہیں :
میرے باپ مدینہ کے حاکم اورمشہورخطیب اور بہت بہادرتھے اور نمازجمعہ کا خطبہ بہت ہی فصیح وبلیغ اندازسے دیتے تھے لیکن حکومت معاویہ کے فرمان کی وجہ سے مجبورتھے کہ خطبہ جمعہ کے درمیان علی اور ان کے خاندان پر لعنت کریں لیکن جب گفتگو اس مرحلے تک پہنچی تواچانک ان کی زبان میں لکنت ہونے لگتی اور ان کے چہرہ کا رنگ تبدیل ہونے لگتا اور خطبہ سے فصاحت و بلاغت ختم ہوجاتی تھی میں نے اپنے باپ سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا جو کچھ میں علی کے بارے میں جانتا ہوں اگر دوسرے بھی وہی جانتے تو کوئی بھی میری پیروی نہیں کرتا اور میں علی کے تمام فضائل وکمالات اورمعرفت کے بعد بھی انہیں برا بھلا کہتا ہوں کیونکہ آل مروان کی حکومت کو بچانے کے لئے میں مجبور ہوں کہ ایسا کروں(3)
بہرحال بنی امیہ کی اولاد کا دل علی کی دشمنی سے لبریزتھا جب کچھ حقیقت پسند افراد نے معاویہ کو نصیحت کی کہ اس کام سے بازآجائے تو معاویہ نے کہا کہ میں اس مشن کواس حد تک جاری رکھوں گا تا کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے یہ فکر لئے ہوئے بڑے ہوجائیں اور ہمارے بزرگ اسی حالت میں بوڑھے ہوجائیں اوراس طرح حضرت علی علیہ السلام کو ساٹھ برس تک منبروں اور مجلسوں سے وعظ و نصیحت اور خطباء کے ذریعے اور درس و تدریس کے ذریعے، خطباء اور محدثین کے درمیان معاویہ کے حکم سے برا بھلا کہا جاتا رہا اور یہ سلسلہ اس قدر مفید و مؤثر ہوا کہ کہتے ہیں کہ ایک دن حجاج نے کسی مرد سے غصہ میں بات کی اور وہ شخص قبیلۂ ''بنی ازد'' کا رہنے والا تھا اس نے حجاج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے امیر! مجھ سے اس انداز سے بات نہ کرو ہم بافضیلت لوگوں میں سے ہیں، حجاج نے اس کے فضائل کے متعلق سوال کیا تواس نے جواب دیا کہ ہمارے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ ہم سے تعلقات بڑھائے یا ہمارے یہاں شادی کرے تو سب سے پہلے ہم اس سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ ابوتراب کو دوست رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ تھوڑا بہت بھی ان کا چاہنے والا ہوتا ہے تو ہرگز ہم اس سے تعلقات و رابطہ برقرار نہیں کرتے، علی اور ان کے خاندان سے ہماری دشمنی اس حد تک ہے کہ ہمارے قبیلے میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملے گا کہ جس کا نام حسن یا حسین ہو اورکوئی بھی لڑکی ایسی نہیں ملے گی جس کا نام فاطمہ ہو، اگر ہمارے قبیلے کے کسی بھی شخص سے یہ کہا جائے کہ علی سے کنارہ کشی اختیار کرو تو فوراً ان کے بچوں سے بھی دوری اختیار کرلیتا ہے۔(4)
خاندان بنی امیہ کے لوگوں نے مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو پوشیدہ رکھا اور ان کے مناقب سے انکار کیا اور اتنا برا بھلا کہا کہ جس کا اثر یہ ہوا کہ بزرگوں اور جوانوں کے دلوں میں اتنا رسوخ کرگیا کہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کو برا کہنا ایک مستحب عمل سمجھنے لگے اور بعض لوگوں نے اسے اپنا خلاقی فریضہ سمجھا جس وقت عمر بن عبد العزیز نے چاہا کہ اس بدنما داغ کو اسلامی معاشرے کے دامن سے پاک کرے اس وقت بنی امیہ کی روٹیوں پر پلنے والے کچھ لوگوں نے نالہ و فریاد بلند کرنا شروع کردیا کہ خلیفہ،اسلامی سنت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
بہرحال ان تمام چیزوں کے باوجود اسلامی تاریخ کے اوراق آج بھی گواہی دے رہے ہیں کہ بنی امیہ کے نامردوں نے جو نقشہ کھینچا تھا ان کی آروزئیں خاک میں مل گئیں اوران کی مسلسل کوششوں نے توقع کے خلاف نتیجہ دیا اور فضائل و مناقب امام علیہ السلام سورج کی طرح آج بھی چمک رہے ہیں اوراموی مشن کو تاریکی میں غرق کردیا،دشمن کے اصرار و انکار نے نہ صرف یہ کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت علی  علیہ السلام کی محبت کو بیدارکیا بلکہ یہ سبب بنا کہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بہت زیادہ تلاش و جستجو کریں اورامام علیہ السلام کی شخصیت کو سیاسی مشکلات سے نکال کر قضاوت کریں، یہاں تک کہ عبداللہ بن زبیر کا پوتا عامر جو خاندان علی کا دشمن تھا اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ہے کہ علی کو برا کہنے سے باز آجائے کیونکہ بنی امیہ نے ساٹھ برسوں تک منبروں سے علی پر سب و شتم کیا لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا بلکہ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت اوربھی اجاگرہوتی گئی اور لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت اور بھی بڑھتی گئی۔(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج13 ص 321)


حدیث یوم الدار


تاریخ اسلام میں حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت بہت زيادہ روشن وتابناک ہوئی ایسے موقع پروحی کا فرشتہ نازل ہوا اورخداوندعالم کی طرف سے حکم دیا کہ اے پیغمبر اپنی رسالت کا اعلان اپنے رشتے داروں اوردوستوں کے ذریعے شروع کریں۔
" وَأَنْذِرْعَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ۔" (5)
" اوراے رسول! تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا سے) ڈراؤ اور جو مومنین تمہارے پیرو ہوگئے ہیں ان کے سامنے اپنا بازو جھکاؤ (تواضع کرو) پس اگرلوگ تمہاری نافرمانی کریں تو تم (صاف صاف) کہہ دو کہ میں تمہارے کرتوتوں سے بری الذمہ ہوں۔ "
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ بنی ہاشم کے پینتالیس بزرگوں کو دعوت پر مدعو کرو اور ان کے کھانے کے لئے بکرے کا گوشت اور دودھ کا انتظام کرو۔
 تمام مہمان اپنے معین وقت پرپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور لوگوں نے کھانا کھایا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابولہب نے ایک حقیر اور پست جملے سے بنے ہوئے ماحول کو خراب کردیا اور لوگ منتشرہوگئے اور بغیر کسی نتیجے کے دعوت ختم ہوگئی اور لوگ کھانا کھا کر پیغمبراسلام کے گھر سے نکل گئے ۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پھر دوسرے دن اسی طرح کی دعوت کا اہتمام کرنے اور ابولہب کے علاوہ تمام لوگوں کو دعوت دینے کا ارادہ کیا اور پھر حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے گوشت اور دودھ کھانے کے لئے آمادہ کیا اور بنی ہاشم کی مشہور ومعروف شخصیتوں کو کھانے اور پیغمبر کی گفتگوسننے کے لئے دعوت دی، تمام مہمان اپنے معین وقت پر حاضر ہوئے اور کھانے وغیرہ کی فراغت کے بعد پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی گفتگو کا آغازیوں کیا۔
" خداوندعالم کی قسم کہ جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں میں تمہاری طرف اور تمام عالم اسلام کی ہدایت کے لئے اسی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں، کوئی بھی شخص اپنے اہل وعیال کے لئے مجھ سے اچھی چیز نہیں لایا ہے ہم تمہاری دنیا وآخرت کے لئے بھلائی لے کرآئے ہیں میرے خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم کو اس کی وحدانیت اور اپنی رسالت کی طرف دعوت دیں تم میں سے کون ہے جو اس راہ میں میری مدد کرے گا تا کہ وہ میرا بھائی، وصی اور تمہارے درمیان میرا نمائندہ ہو؟
آپ نے یہ جملہ فرمایا اور تھوڑی دیر خاموش رہے تاکہ دیکھیں کہ حاضرین میں سے کون ہمیشہ مدد ونصرت کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے مگر اس وقت خاموشی نے ان پر حکومت کررکھی تھی اور سب کے سب اپنے سروں کوجھکائے فکروں میں غرق تھے کہ اچانک حضرت علی علیہ السلام نے کہ جن کی عمر ابھی پندرہ برس سے زیادہ نہ تھی اس خاموشی کے ماحول کو شکست دے کراٹھے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مخاطب ہوکرعرض کیا اے پیغمبرخدا میں آپ کی اس راہ میں مدد و نصرت کروں گا پھراپنے ہاتھوں کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھایا تاکہ اپنے عہد و پیمان کی وفاداری کا ثبوت پیش کریں۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا کہ اے علی بیٹھ جاؤ اور پھر اپنے سوال کو ان لوگوں کے سامنے دہرایا،دوبارہ علی علیہ السلام اٹھے اورنصرت پیغمبر کا اعلان کیا،اس مرتبہ بھی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ علی بیٹھ جاؤ،تیسری مرتبہ پھر مثل سابق علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی دوسرا نہ اٹھا اور صرف علی علیہ السلام نے اٹھ کر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت اور محافظت کا اعلان کیا،اس موقع پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو علی کے ہاتھ میں دیا اور حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بزرگان بنی ہاشم کی بزم میں اپنے تاریخی کلام کا آغاز اس طرح سے کیا۔
اے ہمارے رشتہ داروں اوردوستوں،جان لو کہ علی میرے بھائی میرے وصی اور تمہارے درمیان میرے جانشین وخلیفہ ہیں۔(6)
سیرہ حلبی کی نقل کی بنا پر رسول اسلام صلی الہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملے کے علاوہ دو اور بھی مطلب اس کے ساتھ بیان کیا ہے کہ  وہ میرا وزیر اور میرا وارث بھی ہے ۔(7)
اس بناء پرخاتم النبین کے توسط سے اسلام کے سب سے پہلے وصی کا تعیّن اوراعلان رسالت کے آغاز اس وقت ہوا جب بہت ہی کم لوگ اس قانون الہی کے پیرو تھے۔
یعنی پیغمبراسلام نے ایک ہی موقع پر اپنی نبوت اور حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا اعلان کردیا یہاں امامت کے مقام اور منزلت کی روشن اور واضح طور پر تحقیق وجستجو کرسکتے ہیں اور یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ نبوت وامامت دو ایسے مقام ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اور امامت تکمیل نبوت ورسالت ہے ۔
شیعہ اور غیر شیعہ گروہ کے بعض محدثین اورمفسرین نے اس سند تاریخی کے مفہوم وسند کو بغیر کسی کمی و زیادتی کے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اورامام علیہ السلام کا مستند اور معتبر فضائل ومناقب جانا ہے ان لوگوں میں سے صرف ایک اہل سنت کے مشہورمورخ و محقق اسکافی نے اپنی مشہورو معروف کتاب میں اس تاریخی فضیلت کا تذکرہ کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے ہمارے باپ، چچا اور بنی ہاشم کی بزرگ شخصیتوں کے سامنے پیغمبر اسلام سے عہد و پیمان باندھا کہ ہم آپ کی مدد کریں گے اور پیغمبراسلام نے انہیں اپنا بھائی، وصی اورخلیفہ قراردیا ہے اس کے متعلق کہتا ہے:" وہ افراد جو یہ کہتے ہیں کہ امام بچپن میں ہی صاحب ایمان تھے یہ وہ زمانہ ہوتا ہے کہ جب بچہ اچھے اوربرے میں تمیز نہیں کرپاتا،اس تاریخی فضیلت کے سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟!
کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کثیر تعداد میں موجود افراد کے کھانے کا انتظام ایک بچے کے حوالے کریں؟ یا ایک چھوٹے بچے کو حکم دیں کہ بزرگان کو کھانے پر مدعو کریں؟ کیا یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبراسلام ایک نابالغ بچے کو راز نبوت بتائیں اور اپنے ہاتھ کو اس کے ہاتھ میں دے اور اسے اپنا بھائی، وصی اور اپنا خلیفہ لوگوں کے لئے معین کریں؟!
بالکل نہیں! بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اس دن جسمانی قوت اور فکری لحاظ سے اس حد پر پہنچ چکے تھے کہ ان کے اندر ان تمام کاموں کی صلاحیت موجود تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس بچے نے کبھی بھی دوسرے بچوں سے انسیت نہ رکھی اور نہ ان کے گروہ میں شامل ہوئے اور نہ ہی ان کے ساتھ کھیل کود میں مشغول ہوئے بلکہ جس وقت سے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نصرت و مدد اور فداکاری کا پیمان باندھا تو اپنے کئے ہوئے وعدے پر قائم و مستحکم رہے اور ہمیشہ اپنی گفتارکو پیغمبراسلام کے کردار میں ڈھالتے رہے اور پوری زندگی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مونس و ہمدم رہے۔ (8)


سوالات:


1- حدیث یوم الدار کیا ہے۔؟
2- دعوت ذوالعشیرہ کے لئے خداوندعالم نے کون سی آیت نازل فرمائی ہے۔؟


منابع:


1-  شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 11 ص 44، 45
2-  شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج11 ص44،45
3-  شرح نہج البلاغہ ج13 ص221
4-  فرحة الغری، مولف مرحوم سیدابن طاؤوس طبع نجف ص 13،14
5-  سورہ شعراءآیت 214
6-  تاریخ طبری، ابن جریر طبری ج 2 ص 319
7-  السیرۃ الحلبیہ، ابوالفرج حلبی ج 1 ص 406
8-   شرح نہج البلاغہ ابن ابی ابی الحدید ج 13 ص 244

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: