مواد کا کوڈ۔: 6
ہٹس: 637
تاریخ اشاعت : 26 June 2022 - 23: 03
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سوانح حیات (4)
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کو دین اسلام کی دعوت دینے کے بعد عرب کے سارے قبیلوں تک اپنے پیغام کو پہنچانے کےلئے اعلانیہ تبلیغ کا  اہتمام کیا اور تمام لوگوں کو توحید و یکتا پرستی کی دعوت دی.

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (4)


اعلانیہ تبلیغ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منصب رسالت پر فائز ہونے اور اعلانیہ تبلیغ  کا حکم ملنے سے پہلے تک مختلف افراد خصوصا نوجوانوں اور مظلوموں کو خصوصی طورپردین اسلام کی دعوت دی اور انہیں ایک صف میں جمع کیا،ان افراد کا تعلق مختلف قبیلوں سے تھا جس کی وجہ سے مکہ مکرمہ کے کفر وشرک سے آلودہ ماحول میں ایک انقلابی آواز بلند ہوگئی اورکفار و مشرکین اپنے لئےخطرہ محسوس کرنے لگے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کو دین اسلام کی دعوت دینے کے بعد عرب کے سارے قبیلوں تک اپنے پیغام کو پہنچانے کےلئے اعلانیہ تبلیغ کا  اہتمام کیا اور تمام لوگوں کو توحید و یکتا پرستی کی دعوت دی ۔
اس عظیم کام کے آغاز کے لئے ایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ  علہ و آلہ وسلم کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور ایک اونچے پتھر پر کھڑے ہوکر بلند آواز سے فرمایا: " وا صباحاہ" (عام طور پر عرب اس کلمہ کو خطرے کی گھنٹی( سائرن) سمجھتے ہیں اور وحشتناک باتوں کا آغاز اسی کلمہ سے کیا جاتا ہے۔)
کوہ صفا سے بلند ہونے والی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آواز لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی قریش کے قبیلے والے اپنے اپنے گھروں سے نکل کر جوق در جوق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آنے لگے جب مجمع  اکٹھا ہوگيا تو پیغمبراسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان لوگوں سے فرمایا: اے لوگو، اگر ہم تم سے یہ کہیں کہ اس کوہ صفا کے پیچھے تمہارے دشمن نے  پڑاؤ ڈالا ہے اور تمہارے جان و مال پر حملہ کرنے والے ہیں  تو کیا تم میرے قول کی تصدیق کروگے۔؟ سب نے ایک زبان ہوکر کہا: ہاں اے رسول خدا، ہم نے آج تک آپ کی زبان سے جھوٹ نہیں سنا ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے  گروہ قریش، اپنے کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، میں خدا کی بارگاہ میں تمہارے لئے کچھ نہیں کرسکتا، میں تمہیں خدا کے عذاب سے ڈراتا ہوں، اس کے بعد فرمایا: تمہارے درمیان میری حیثیت اس نگہبان جیسی ہے جو دشمن کو دور سے دیکھ رہا ہے اوراپنی قوم کو پیش آنے والے خطروں سے آگاہ کررہا ہے کیا ایسا شخص اپنی قوم سے غلط بیانی کرسکتا ہے؟(1)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلنشیں اور منطقی باتوں نے لوگوں کے قلوب کو متاثرکیا وہ گروہ جو مکہ مکرمہ کی بے عدالتی اوربدترین حالات کا شکار تھا ان میں صبح نوید و امید کے دریچے کھول دئیے اور ان کے نیم مردہ جسم میں تازہ روح پھونک دی لیکن قریش کے کج فکر سرداروں نے جب اپنی دولت و ثروت پر خطرات کے بادل منڈلاتے ہوئے دیکھا تو ارادہ کیا کہ جیسے بھی ممکن ہو ڈرا دھمکا کر لوگوں کو منتشر کردیں اور ایک میٹنگ کی اور قریش کے تمام سردار پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت ابوطالب علیہ السلام کے گھر  گئے اور آپ سے کہا: کہ آپ کا بھتیجا ہمارے خداؤں کو برا  بھلا کہہ رہا ہے ،ہمارے آئين کو برے الفاظ سے یاد کرتا ہے ، ہمارے عقائد و افکار کا مذاق اڑاتا ہے اور ہمارے آباؤ واجداد  کو گمراہ  شمار کرتا ہے آپ سے درخواست ہے کہ یا تو انہیں اس کام سے منع کردیں یا پھر ان کو ہمارے حوالے کردیں اوران کی حمایت و مدد سے دستبردار ہوجائیں۔محسن اسلام حضرت ابوطالب علیہ السلام نے نہایت ہی پیار و الفت سے قریش کے سرداروں کی باتوں کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بیان کیا لیکن ابھی چند ہی دن گذرے تھے کہ اسلام کے چاہنے والے نوجوانوں، غلاموں اور ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والوں نے قریش کے سرداروں کی ناک میں دم کردیا ، وہ لوگ دوبارہ حضرت ابوطالب علیہ السلام کے پاس آئے اور اپنی پرانی باتیں دہرائیں،حضرت ابوطالب علیہ السلام نے قریش کے سرداروں کی باتیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بیان کی آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا: اے چچا جان، خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیں ( یعنی کائنات کی تمام دولت وسلطنت میرے قدموں میں ڈال دیں) تا کہ میں اپنے مشن سے  پیچھے ہٹ جاؤں جب بھی میں ایک قدم بھی اسلام کی تبلیغ سے باز نہیں آؤں گا  مگر یہ کہ اس راہ میں اپنی جان قربان کردوں یا پھر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤں۔اس کے بعد آپ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور وہاں سے اٹھ کر چلے گئے، آپ کی باتوں نے سربراہ مکہ کے دل پر اس قدر اثرات مرتب کئے کہ خطرات کے بادل جو منڈلارہے تھے ان کا خیال کئے بغیر اپنے بھتیجے سے کہا:خدا کی قسم میں تمہاری حمایت و نصرت سے ہرگز دستبردار نہیں ہوؤں گا یہاں تک کہ تم اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا دو۔ (2)
کچھ عرصہ کے بعد قریش کے سردارلالچ و حرص دکھا کر حضرت ابوطالب علیہ السلام کے پاس آکر کہنے لگے: اے ابوطالب اپنے بھتیجے سے کہیں کہ اگر اس کام کے ذریعے انہیں کچھ ضرورت ہے اور مال و ثروت چاہیئے تو ہم بے شمار مال و دولت انہیں عطا کردیں اور اگر مقام و منصب اور سرداری چاہیئے تو ہم انہیں اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں اور ہمیشہ ان کی باتوں پر عمل کریں گے۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام نے کہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تھے جس وقت ان باتوں کو سنا تو پیغمبر اسلام کی طرف رخ کرکے فرمایا: اے میرے لال تمہاری قوم کے بہت سے بزرگ آئے تھے اور انہوں نے درخواست کی ہے کہ ہمارے بتوں کے عیوب بیان کرنے سے بعض آجائیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچاجان سے فرمایا : میں ان لوگوں سے کوئی چیز نہیں چاہتا اور جو ان لوگوں نے پیشکش کی ہے تو وہ میری ایک بات مان لیں تاکہ اس کے زیرسایہ عربوں پر حکومت کریں اور غیر عرب کو اپنا مطیع و پیرو قرار دیں۔ اس وقت ابوجہل نے اپنی جگہ سے اٹھ کر کہا: ایک بات کیا ہم توآپ کی دس باتیں سننے کے لئے تیار ہیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا: میری ایک بات یہ ہے کہ وحدانیت پروردگار کا اعتراف کرو یعنی " لاالہ الہ اللہ (خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے) کہو،یہ سن کر قریش کے سردار ناراض ہوگئے اور کہا: ہم تین سو ساٹھ خداؤں کو چھوڑ دیں اور ایک خدا کی عبادت کریں۔(3) اس واقعہ کے بعد جب قریش کے سرداروں کو بخوبی اندازہ ہوگیا کہ ان کی گفتگو بے نتیجہ ہے اور اس کا کوئی بھی اثر نہیں ہے تو سخت موقف اپنانے کا ارادہ کرلیا اور پھر آنحضرت اور آپ کے ساتھیوں کو آزار و اذیت اور ایذائیں پہچانے لگے۔ قریش کی جانب سے پیغمبراسلام اور آپ کے ساتھیوں پر ہونے والی ایذائیں اورتکلیفوں کو معتبرکتابوں نے تفصیل سے تحریر کیا ہے لیکن چونکہ ان مقالوں میں ہماری روش اختصار کو مد نظر رکھنا ہے لہذا تفصیلی مطالب تحریر کرنے سے پرہیز کررہے ہیں۔


حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت ابوطالب علیہ السلام  نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت کی ذمہ داری اس وقت سے اپنے ذمہ لی جب کہ آپ کی عمرمبارک صرف آٹھ برس تھی اور آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کی وفات ہوگئی تھی۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام نے بیالیس برس تک آپ کی سرپرستی اور کفالت کی ذمہ داریوں کو بہترین طریقے سے انجام دیا اور آنحضرت کی ہرمقام پر مدد و حمایت کی خصوصا آپ کی زندگی کے زرین دس برس کہ جس میں آپ کی بعثت اور اور اسلام کی دعوت تھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی راہ میں بہت زيادہ محنت و جانفشانی اور جانثاری کا جذبہ پیش کیا اور یہ فطری امر ہے کہ اس ایثار و قربانی اور حمایت کا مقصد صرف اور صرف ایمان خالص اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیغمبری پر ایمان و ایقان تھا( اگر چہ تمام دشمنان اسلام یا بعض سودہ لوح افراد کہ جو دشمنان اسلام کی باتوں سے متاثر ہوئے ہیں حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان کے منکر ہوگئے لیکن ہماری اور ہمارے مذہب کی نظر میں حضرت ابوطالب علیہ السلام کا ایمان کامل و اکمل ہے اس بات کی مزيد وضاحت اور حضرت ابوطالب علیہ السلام کے کامل الایمان ہونے کے سلسلے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے ایک اہم ترین کتاب آیت اللہ العظمی شیخ جعفرسبحانی حفظہ اللہ کی معرکۃ الاراء کتاب " تاریخ پیامبر اسلام" ہے جس کی طرف قارئین کرام رجوع کرسکتے ہیں) حضرت ابوطالب علیہ السلام کا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اس قدر مستحکم ایمان تھا کہ آپ اس بات پر راضی تھے کہ آپ کے تمام فرزند قتل کردیئے جائیں مگر پیغمبر اسلام زندہ رہیں۔ آپ حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بسترپرسلاتے تھے تاکہ اگر دشمن کی جانب سے کوئی اچانک حملہ ہوجائے تو آنحضرت کو کوئی گزند نہ پہنچے، اس سے بھی اہم بات یہ کہ آپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دشمنوں کے ذریعے قتل ہونے سے محفوظ رکھنے کے لئے اس بات پر راضی ہوگئے کہ تمام قریش کے سردار قتل ہوجائیں ( یہ واقعہ اس مذاکرات سے متعلق تھا جو حضرت ابوطالب علیہ السلام اور قریش کے سرداروں کے درمیان میں ہوا تھا اور درمیان گفتگو بعض قریش کے سرداروں نے دھمکی دی تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کردیں گے مذاکرات ہوئے دو دن گذر چکے تھے اور حضرت ابوطالب علیہ السلام نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نہیں دیکھا تو یہ گمان کیا کہ شاید قریش کے سرداروں نے پیغمبر کو قتل کردیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی مسلمان کے گھر میں موجود تھے)اور فطری بات ہے کہ اگر قریش کے سرداروں پر حملہ ہوتا تو قبیلہ بنی ہاشم کے تمام لوگ قتل کردئیے گئے ہوتے۔
حضرت ابوطالب علیہ السلام بیالیس برس تک پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشفقانہ اور بے دریغ ہمراہی اور نصرت و مدد کرتے ہوئے سن دس بعثت میں اس دنیائے فانی سے راہی ملک ارم ہوگئے آپ نے رحلت کے وقت اپنے فرزندوں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت و حمایت کے بارے میں بہت زيادہ تاکید کی اورگفتگوکے آخرمیں فرمایا:اے میرے اعزہ و احباب تم لوگ پیغمبراسلام کے بہترین دوست و حامی رہنا ، جو شخص بھی ان کا حامی و مددگار اور ان کی پیروی کرے گا وہ سعادت مند ہوگا، اگر موت مجھے مہلت دیتی تو میں خود ان کی تمام مشکلات اوررونما ہونے والے واقعات کو رفع و گذر کرتا ۔


منابع:
1۔ سیره حلبیة ،ابوالفرج حلبی، ج 1، ص 405
2۔ البدایـة والنهایـة ،ابن کثیر، ج 3 ص 48
3۔ تفسیر علی ابن ابراهیم قمی، ج 2، ص 229،228
 
دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف: علی ریخته گرزاده تهرانی  

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: