مواد کا کوڈ۔: 14
ہٹس: 2071
تاریخ اشاعت : 09 September 2022 - 19: 03
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (9)
جب سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تھے اسی وقت سے سرداران قریش، مکہ مکرمہ کے عوام ، جزیرۃ العرب میں رہنے والے یہودیوں اور منافقین نے آپ کی مخالفت کرنا شروع کردیا تھا۔

 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (9)
 

 

جنگ بدر


جب سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تھے اسی وقت سے سرداران قریش، مکہ مکرمہ کے عوام ، جزیرۃ العرب میں رہنے والے یہودیوں اور منافقین نے آپ کی مخالفت کرنا شروع کردیا تھا ، کبھی کبھی مخالفت کا یہ سلسلہ بہت تیز اور وسیع ہوجایا کرتا تھا اور اس حد تک بڑھ جاتا تھا کہ لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مقابلے کے لئے صف بستہ کھڑے ہوجاتےتھے بلکہ جنگ کا اعلان بھی کردیتے تھے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں جوجنگیں مسلمانوں اور دوسروں کے درمیان ہوئیں ان کی تعداد کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض نے لکھا ہے کہ کم سے کم  اکسٹھ جنگیں اور زيادہ سے زیادہ ترانوے جنگیں ہوئیں ہیں جن میں سے بعض جنگوں میں آںحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہ نفس نفیس موجود تھے اور دوسری جنگوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نمائندے مسلمان فوج کی رہبری کرتے تھے، وہ جنگیں کہ جس میں خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موجود تھے اسے اسلامی مورخین کے قول کے مطابق" غزوہ" کہتے ہیں لیکن جن جنگوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں تھے مورخین کے مطابق اسے "سریہ" کہتے ہیں۔ 
اسلام کی بڑی بڑی نمایاں جنگوں میں سے ایک اہم جنگ " جنگ بدر" ہے اور جن لوگوں نے اس جنگ میں شرکت کی تھی بعد میں مسلمانوں کے درمیان انہیں خصوصی امتیازات حاصل ہوئے اور جن واقعات میں جنگ بدر میں شرکت کرنے والے مجاہدین میں سے ایک یا چند افراد شرکت کرتے تھے یا کسی بات کی گواہی دیتے تھے تو وہ مطالب اہمیت کے حامل ہوجایا کرتے تھے اور جنگ بدر میں شرکت کرنے والے افراد تاریخ اسلام میں " اہل بدر"  کے نام سے اور ہمیشہ لائق احترام سمجھے جاتے تھے۔
"بدر" ایک وسیع و عریض علاقہ ہے جس کا جنوبی حصہ بہت ہی بلند اور شمالی حصہ پست اور نیچا ہے اس صحرا میں مختلف کنویں جو کھدے ہوئے ہیں ان کی وجہ سے یہاں زیادہ پانی موجود ہے اور یہاں پر بہت زيادہ قافلے قیام کرتے تھے، یہاں پرجنگ بدر کے واقع ہونے کی بہت سی وجہیں ہیں جسے ہم نہایت ہی محتصر طور پر یہاں ذکر کررہے ہیں۔ 
دوسری صدی ہجری جمادی الاول مہینے کے وسط میں قریش کا ایک قافلہ " ابوسفیان" کی سرپرستی میں مکہ مکرمہ سے شام کی طرف روانہ ہوا یہ ایک تجارتی قافلہ تھا اور اہل شام کی تمام ضروریات کے مطابق سامان کو وہاں پہچایا کرتا تھا ۔  
چنانچہ مدینہ منورہ میں رہنے والے مسلمان مہاجرین کی دولت و ثروت کو قریش نے ضبط کرلیا تھا لہذا یہ بہترین موقع تھا کہ مسلمان بھی ان کے تجارت کے سامان کو ضبط کرلیں،ادھر قریش کے افراد کو بھی اس بات کا خدشہ تھا اس لئے وہ بھی بڑی ہی ہوشیاری کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے یہاں تک کہ واپسی کے موقع پر " ابوسفیان"  نے مکہ مکرمہ کے عوام اور قریش کے سرداروں کو پیغام بھیجا کہ اپنے اموال کی حفاظت کے لئے مکہ مکرمہ سے باہر نکلیں اور مدینہ منورہ کے کچھ قریبی علاقوں تک اپنے تجارتی قافلے کی حفاظت کریں۔
قریش کے سردار جیسے ابوجہل اور مکہ کے بہت سے افراد مکہ مکرمہ کے باہر آئے اور گذرنے والے قافلوں پر نگاہ اور جانچ پڑتال کرنے لگے، دوسری جانب ابوسفیان نے انحرافی راستہ کا انتخاب کیا اور بہت ہی تیزی کے ساتھ مکہ مکرمہ اپنا قافلہ لے کر پہنچ گیا اورابوجہل کے پاس پیغام بھیجا کہ ہمارا تجارتی قافلہ خیر و عافیت سے مکہ مکرمہ پہنچ گيا ہے اور تم بھی جتنا جلدی ممکن ہو مکہ واپس آجاؤ، ابو سفیان کا پیغام ملتے ہی تمام مکہ کے رہنے والے افراد جس راستے سے گئے تھے اسی راستے سے واپس آگئے لیکن ابوجہل، ابوسفیان کے نظریہ کے برخلاف عمل کرنے پر اصرار کرنے لگا اور کہنے لگا کہ نہیں ہم لوگ بدر کی طرف سے ہی واپس مکہ مکرمہ واپس جائیں گے اور وہاں پر تین دن قیام کریں گے، اپنے اونٹوں کو نحر کریں گے، خوب شراب پئیں گے اور گانے والی عورتیں ہمارے سامنے رقص و سرور کی محفلیں سجائیں گی تاکہ ہماری قدرت و طاقت کی خبر تمام عرب والوں کے کانوں تک پہنچ جائیں اور وہ ہمیشہ ہم سے خوف زدہ رہیں۔ 
دوسری جانب جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے خاص افراد سے یہ خبر ملی تو آپ نے اس کی مکمل طور پر تحقیق کرائی اور مسلمانوں کو مدینہ منورہ سے باہر نکلنے کا حکم دیا، اسلامی فوج نے حکم ملتے ہی مدینہ منورہ سے باہرنکل کر  مورچہ سنبھالا اور سرزمین " ذفران" کہ جو "بدر" سے دو منزل کے فاصلے پر تھی صف بستہ ہوگئے اور دو رمضان المبارک سنہ دوہجری قمری کو قریش پہاڑ کے پیچھے سے صحرائے بدر میں داخل ہوگئے جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظر قریش پر پڑی تو آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا: خدایا قریش والے پورے غرور و تکبر کے ساتھ تجھ سے جنگ کرنے اور تیرے رسول کو جھٹلانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ،خدایا اس مدد و نصرت کا جس کا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے اس کو آج پورا کردے اور ان لوگوں کو آج ہی ہلاک کردے۔
قریش نے تمام مسلمانوں کی صحیح تعداد اور ان کے مقاصد کو جاننے کے لئے " عمربن وہب" کو لشکراسلام کی طرف بھیجا وہ بدر کے علاقے میں پہنچا اور اسلامی سپاہیوں کی چھاؤنی کا چکر لگا کر واپس آگیا اور کہا کہ مسلمانوں کی تعداد تقریبا تین سو افراد پر مشتمل ہے اس کے بعد ایک مرتبہ پھر مزید معلومات فراہم کرنے کے لئے لشکر اسلام کی جانب آیا اور واپسی پر آکر کہنے لگا کہ میں نے ایک گروہ کو دیکھا ہے جو اپنی تلواروں کے علاوہ کوئي پناہ گاہ نہیں رکھتے اور جب تم میں سے ایک ایک کو قتل نہیں کرے گا خود قتل نہیں ہوگا، اس سپاہی کی باتیں سن کر قریش میں ایک شور وغوغا اس طرح پرپا ہوگیا کہ مکہ کے بہت سے سپاہیوں نے ارادہ کیا کہ جس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے واپس چلے جائيں گے لیکن ابوجہل نے بہت سے سپاہیوں کو ورغلا کر منحرف ہونے والوں کی رائے اور ارادے کو تبدیل کردیا اور سب نے ایک ساتھ جنگی لباس پہنا اور لشکر اسلام سے لڑنے کے لئے تیار ہوگئے، شروع میں ہی لشکر کفار کا ایک سپاہی لشکر اسلام کے قلب میں اس مقام پر پہنچ گیا جہاں مسلمانوں نے ایک حوض تیار کررکھی تھی لیکن وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ علیہ السلام کے ہاتھوں مارا گیا،اس سپاہی کے مارے جانے کی بناء پر جنگ یقینی ہوگئی، یہ منظر دیکھ کر قریش کے لشکر سے تین شجاع و بہادر سپاہی نکلے اور مبارزہ طلب کرنے لگے۔ یہ تین افراد یہ تھے ربیعہ کا بیٹا "عتبہ" اور "شیبہ" اور عتبہ کا بیٹا " ولید" یہ تینوں سپاہی اسلحو ں سے  لیس دہاڑتے  اور غراتے ہوئے بیچ  میدان جنگ میں آئے اور مبارزہ طلب کرنے لگے۔ 
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان تینوں سپاہیوں سے لڑنے کے لئے سب سے پہلے انصار کے تین جوانوں کو بھیجا  مگر ان لوگوں نے قبول  نہیں کیا اور کہنے لگے کہ  ہم سے لڑنے کے لئے ایسے افراد کو  بھیجئے جو ہمارے  شان و شوکت کے مطابق ہوں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے " عبیدہ" ،"حمزہ علیہ السلام" اور علی علیہ السلام سے فرمایا  اٹھو اور ان سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان جنگ میں جاؤ ، ان افراد نے حکم پیغمبر کی  تعمیل کرتے ہوئے فورا ہی جنگی لباس زیب تن کیا  اور میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگئے جب ان تینوں افراد نے اپنے آپ کو پہچنوایا  تو " عتبہ" نے قبول کرلیا اور کہا ہاں یہ لوگ میری شان و ہم پلہ ہیں۔ مورخین تحریر کرتے ہیں کہ  حضرت علی علیہ السلام اور جناب حمزہ علیہ السلام نے پہلے ہی لمحے میں اپنے اپنے مقابل کو زمین پر پٹخ دیا  اور پھر "عبیدہ" کی مدد کے لئے ان کی سمت دوڑ پڑے  اور ان کے مقابل کو بھی قتل کردیا۔
قریش کے بہادروں کے قتل ہونے کی وجہ سے  عمومی حملے کا آغاز ہوگیا لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہیں سے اپنے سردار لشکر کو حکم دیا کہ مسلمانوں سے کہہ دو کہ حملہ نہ کریں اور تیراندازی کرکے دشمن کو آگے بڑھنے سے روکیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے پورے ایمانی وجود سے خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کیا: خدایا اگریہ گروہ آج ہلاک ہوجائے گا تو روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کو‏ئی نہیں بچے گا  اس کے بعد آپ مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوئے اور بلند آواز سے فرمایا: اس خدا کی قسم کہ جس کے دست قدرت میں محمد کی جان ہے آج کے دن جو شخص نہایت ہی بردباری کے ساتھ جنگ کرے گا اور اس کی جنگ خدا کے لئے ہو اور وہ اس جنگ میں شہید ہوجائے تو خداوندعالم اسے جنت میں داخل کرے گا۔ اور جب مشرکین کی طرف سے اجتماعی حملہ دیکھا  تو آپ نے بھی اجتماعی حملے کا حکم دیدیا، کچھ ہی دیر گذری تھی کہ مسلمانوں کی جیت کے آثار نمایاں ہونے لگے اور دشمن مکمل طور پر خوف و ہراس میں مبتلا ہوکر مرعوب ہوگئے اور راہ فرار اختیار کرلی اور اسلامی لشکر کے سپاہی جو خالصانہ طریقے سے جنگ میں مصروف تھے اور جانتے تھے کہ اس میں مارنا یہ مر جانا دونوں صورتوں میں سعادت  ہے لہذا ذرہ برابر بھی کسی چیز سے نہیں ڈرے اور کوئي بھی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن رہی تھی۔

 


جنگ بدر میں ہونے والے نقصانات

 

اس جنگ میں مسلمانوں میں سے چودہ افراد شہید اورقریش کے ستر افراد مارے گئے اور ان کے ستر لوگوں کو اسیر بھی کرلیا گیا ۔

 

 اسیروں کے بارے میں فیصلہ

 

اس جنگ میں اعلان ہوا کہ قیدیوں میں سے جو پڑھے لکھے لوگ ہیں اگر وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو وہ آزاد کردیئے جائیں گے اور اسی طرح سے دوسرے قیدی بھی اگر چار ہزار درہم سے دس ہزار درہم تک ادا کریں گے تو آزاد کردیئے جائيں گے اور فقیر و محتاج افراد بغیر کچھ ادا کئے ہوئے آزاد ہوجائیں گے ۔ (آزاد ہونے کے لئے جو چیز ادا کی جاتی ہے اسے "فدیہ" کہا جاتا ہے۔)
مکہ مکرمہ میں اس اعلان کے بعد اسیروں کے اعزہ و احباب میں خوشی  وشادمانی کی لہر دوڑ گئی ہرہر قیدی کے رشتہ داروں نے پیسے کا انتظام کیا اور مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوگئے اور فدیہ ادا کرکے اپنے اپنے قیدیوں کو آزاد کرالیا۔
"ابی العاص" حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی بہن کی بیٹی زینب کا شوہر کہ جو مکہ مکرمہ کے بڑے تاجروں میں سے ایک تھا جس کی زمانہ جاہلیت میں شادی ہوئی تھی اور بعثت کے بعد اپنی شریکہ حیات کے برخلاف دین اسلام سے وابستہ نہیں ہوا تھا اور جنگ بدر میں شریک تھا جسے اسیر کرلیا گیا تھا ،اس وقت اس کی بیوی زینب مکہ مکرمہ میں زند گي کے شب و روز گذاررہی تھی، اس نے اپنے شوہر کی آزادی کے لئے اپنا گردنبد(ہار) بھیجا کہ جسے شادی کے وقت حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے دیا تھا اچانک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظر زينب کے ہار پر پڑی تو آپ نے بہت زيادہ گریہ کیا کیونکہ آپ کو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے ایثار و فداکاری کا جذبہ یاد آگیا جنہوں نے سختی کے زمانے میں آپ کی مدد کی تھی اور اپنی تمام دولت و ثروت کو اسلام کی ترقی و پیشرفت کے لئے وقف کردیا تھا۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے اموال کی حفاظت و احترام کرتے ہوئے اپنے اصحاب کی جانب رخ کرکے فرمایا: یہ ہار تم سے متعلق ہے اور تمہارے اختیار میں ہے اگرتمہارا دل چلے تو اس ہار کو زینب کو واپس کردو اور ابی العاص کو بغیر فدیہ لئے ہوئے آزاد کردو، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ نے آپ کی درخواست کو قبول کرلیا ، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابی العاص سے عہد لیا کہ زینب کو رہا نہ کرے بلکہ انہیں مدینہ بھیج دے، اس نے بھی اپنے عہد پر عمل کیا اور اسلام کے دامن سے متمسک ہوگیا۔


سوال:

1. پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے جنگ بدر کے اسیروں کے بارے میں کیا فیصلہ کیا۔؟


دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف: علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: