مواد کا کوڈ۔: 39
ہٹس: 1820
تاریخ اشاعت : 27 August 2023 - 11: 49
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (1)
قارئین ہم پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلے جانشین کی پاکیزہ زندگی کے فضائل و مناقب سے سرشارصفحات آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف حاصل کررہے ہیں وہ عظیم الشان شخصیت کہ جسے قرآن کریم نے جان رسول اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام میں آپ کو بھائي اور وصی و ولی کے عنوان سے یاد کیا گيا ہے۔"

ولادت سے ہجرت تک


" قارئین ہم پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلے جانشین کی پاکیزہ زندگی کے فضائل و مناقب سے سرشارصفحات آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف حاصل کررہے ہیں وہ عظیم الشان شخصیت کہ جسے قرآن کریم نے جان رسول اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام میں آپ کو بھائي اور وصی و ولی کے عنوان سے یاد کیا گيا ہے۔"


مقدمہ


ہم نے اپنے گذشتہ مقالوں میں تاریخ اسلام پرطائرانہ نظرڈالی تھی اورتاج بشریت کی عظیم فرد اشرف المخلوقات حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بابرکت و با افتخارحیات طیبہ کے کچھ پاکیزہ نقوش کو مختصرطورپر بیان کیا تھا اورتاریخ انسانیت کے زرین صفحات کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذکر جمیل سے آراستہ کرکے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔
اس عظیم المرتبت نورانی شخصیت کے حالات زندگی پیش کرنے کے بعد اب ہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلے جانشین کی پاکیزہ زندگی کے فضائل و مناقب سے سرشار صفحات آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف حاصل کررہے ہیں وہ عظیم الشان شخصیت کہ جسے قرآن کریم نے جان رسول اسلام اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام میں آپ کو بھائي اور وصی و ولی کے عنوان سے یاد کیا گيا ہے یعنی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات پیش کررہے ہیں۔ البتہ ہم مولی الموحدین کے فضائل و مناقب کے چند ابواب کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سوانح حیات میں بیان کرچکے ہیں اور اب ان مستقل مقالوں میں آپ کی خیر و برکت سے سرشار زندگی کے دوسرے فضائل و مناقب کو بیان کریں گے۔
جس عظیم المرتبت شخصیت کی سوانح حیات کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں وہ اسلام کی ایسی بابرکت ذات والا صفات ہے کہ خود آپ کے قول کے مطابق " میں ہمیشہ مظلوم تھا اور ہوں" اور اگر تاریخ انسانیت میں آپ کو سب سے بڑا مظلوم قرار دیاجائے تو اس میں کو‏‏‏ئی قباحت نہیں ہوگی ۔
کچھ افراد ایسے بھی ہیں جومولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں متضاد فکررکھتے ہیں. ایک گروہ کم ظرف اور تنگ نظر ہے اور دوسرا گروہ کچھ زیادہ ہی الفت و محبت کی وجہ سے خدا کے مطیع و فرماں بردارکو مقام الوہیت تک پہنچا دیا ہے  اورجو کرامتیں اور معجزات حضرت کی پوری زندگی میں ظاہر ہوئے اس کی وجہ سے وہ خدا مان بیٹھے ہیں، افسوس کہ اس گروہ نے اپنے کو اس مقدس نام" علوی" سے منسوب کررکھا ہے اور آج بھی اس نظرئیے پر چلنے والے اوران کی پیروی کرنے والے افراد کثرت سے موجود ہیں۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ شیعیت کی تبلیغ کرنے والوں نے آج تک اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تا کہ حضرت علی علیہ السلام کے حقیقی چہرے کو ان کے سامنے ظاہرکریں اور ان لوگوں کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کریں جس راستے پر خود حضرت علی علیہ السلام افتخار کررہے ہیں ۔ اس گروہ کے مقابلے میں ایک اورگروہ  جس نے خلافت  ظاہری کے ابتدائی دنوں سے ہی امام علیہ السلام سے بغض و عداوت اپنے دل میں بٹھا رکھی اور پھر کچھ مدت کے بعد خوارج اورنواصب نامی گروہ کی شکل میں ابھر کر سامنے آگئے ۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کے زمانہ حکومت میں ان دونوں گروہوں کے ظہور کے سلسلے میں بخوبی آگاہ تھے اسی وجہ سے آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے ایک موقع پر فرمایا تھا: " هَلَکَ فیَّ اِثنان مُحِبٌّ غال وَ مُبغِضٌ قال»'' تمہارے ماننے والوں میں سے دوگروہ ہلاک ہوں گے ایک وہ گروہ جو تمہارے بارے میں غلو کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو تم سے دشمنی و عداوت رکھے گا۔  
قارئین محترم ہمارا ارادہ ہے کہ تاریخ بشریت کی اس عظیم المرتبت شخصیت کے بارے میں مفید معلومات فراہم کریں جس کے مقدس نام نے تاریخ انسانیت کے تمام صفحات کو زینت بخشا ہے اورعرفاء و بزرگان اور نیک لوگوں نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی ہے آپ کے فضائل و مناقب کو بیان کریں اور اپنی اپنی توانائی کے مطابق ان فضائل و کمالات سے اپنے قلوب کو جلا بخشیں۔
اس سے پہلے کہ اس سلسلے میں کچھ تحریرکریں  آیت اللہ العظمی شیخ جعفر سبحانی دام ظلہ کی نفیس و معتبراور شہرہ آفاق کتاب"فروغ ولایت" کے معتبر مطالب سے مدد حاصل کریں جس میں مولف محترم نے حق مطلب کو خوب ادا کیا ہے لیکن چونکہ ان مقالوں میں ہماری روش اختصار ہے لہذا  اس کتاب کے مختصر مطالب کو قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ (خداوندعالم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مترجم کواس عظیم کتاب کے ترجمہ کا شرف بخشا ہے جسے مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام کے شعبہ ترجمہ نے شائع کیا ہے۔ رضوی)


بعثت پیغمبر سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت


ماہرین نفسیات کی نظر میں ہر انسان کی شخصیت تین اہم عوامل پرمشتمل ہوتی ہے جس میں سے ہرایک شخصیت سازی میں مؤثر ہوتی ہیں گویا انسان کی روح اورصفات اور فکر کرنے کا طریقہ مثلث کی طرح ہے اور یہ تینوں پہلو ایک دوسرے سے ملنے کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور وہ تینوں عامل یہ ہیں۔
١۔ وراثت (ملکیت)
٢۔ تعلیم و تربیت
٣۔ محیط زندگی
انسان کے اچھے اوربرے صفات اوراس کی عظیم و پست خصلتیں ان تینوں عامل کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں اوررشد و نمو کرتی ہیں۔ ان تینوں عوامل کے پیش نظرحضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
وراثت کے اعتبارسے حضرت علی علیہ السلام کی ولادت حضرت ابوطالب علیہ السلام  کے صلب سے ہوئی، حضرت ابوطالب علیہ السلام مکہ مکرمہ کے بزرگ اور بنی ہاشم کے رئیس تھے آپ کا پورا وجود مہربانی وعطوفت، جانبازی اورفداکاری اور جود و سخا میں آئین توحیدی کے مطابق تھا جس دن پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب علیہ السلام کا انتقال ہوا اس وقت آپ صرف آٹھ سال کے تھے اور اس دن سے بیالیس برس تک آپ نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت چاہے سفر ہو یا حضرسب کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی تھی اور بے مثال عشق و محبت سے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقدس مقصد میں کہ جو وحدانیت پروردگار تھا خوب فداکاری کی اوریہ حقیقت آپ کے بہت سے اشعار ''دیوان ابوطالب'' سے واضح ہوتی ہیں۔ ایک ایسی قربانی کہ جس میں تمام بنی ہاشم ایک خشک اور تپتی ہوئی غار میں قید ہوگئے اور یہ چیز مقصد سے عشق ومحبت کے علاوہ ممکن نہیں ہے کہ اتنا گہرا معنویت سے تعلق ہو، رشتہ کی الفت ومحبت اور تمام مادی عوامل اس طرح کی ایثار وقربانی کی روح انسان کے اندر پیدا نہیں کرسکتیں۔
حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان کی دلیل اپنے بھتیجے کے آئین وقوانین پر اس قدر زیادہ ہے جس نے محققین کی نظروں کواپنی طرف جذب کر لیا ہے مگرافسوس کہ ایک گروہ نے تعصب کی بنیاد پر حضرت ابوطالب علیہ السلام پر شک کیا اور دوسرے گروہ نے تو بہت ہی زیادہ جسارت کی اور آپ کوغیرمومن تک کہہ ڈالا ہے حالانکہ وہ دلیلیں جوحضرت ابوطالب علیہ السلام کے لئے تاریخ وحدیث کی کتابوں میں موجود ہیں اگراس میں سے تھوڑا بہت کسی اورکے متعلق تحریرہوتا تو اس کے ایمان و اسلام کے متعلق ذرہ برابر بھی شک و تردید نہ کرتے، اختصار کو مد نظررکھتے ہوئے ہم یہاں پر حضرت ابو طالب علیہ السلام کی شخصیت اور ایمان کے بارے میں اسی پر اکتفاء کرتے ہیں ورنہ اسلام و مسلمین اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سلسلے میں جس قدر قربانیاں آپ نے پیش کی ہیں اس کے لئے ایک مفصل کتاب کی ضرورت ہے۔
آپ کی مادر گرامی فاطمہ بنت اسد ہاشم کی بیٹی ہیں آپ وہ پہلی خاتون ہیں جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لائیں اور بعثت سے پہلے آئین ابراہیمی پرعمل پیرا تھیں وہ وہی پاکیزہ ومقدس خاتون ہیں جو درد زہ کی شدت کے وقت مسجدالحرام کے پاس آئیں اور دیوار کعبہ کے قریب آکر کہا:
پروردگارا: ہم تجھ پراورپیغمبروں پراورآسمانی کتابوں پرجو تیری طرف سے نازل ہوئی ہیں اور اپنے جد ابراہیم کے آئین پر جنھوں نے اس گھر کو بنا یا ہے ایمان کامل رکھتی ہوں.
" پروردگارا: میں تجھ پراور تیرے پیغمبروں اور تیری کتابوں پر کہ جو تونے نازل کیا ہے اور اپنے جدامجد حضرت ابراہیم علیہ السلام پرکہ جس نے اس گھر کو تعمیر کیا اس کی عظمت اور اس مولود کے حق کا واسطہ جومیرے رحم میں ہے اس بچے کی پیدائش کو مجھ پر آسان فرما۔"
ابھی کچھ دیر بھی نہ گزری تھی کہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا معجزاتی طریقے سے خدا کے گھر میں داخل ہوگئیں اور مولائے کائنات کی ولادت ہوئی۔(1)          
اس عظیم فضیلت کو مذہب شیعہ کے معتبرمحدثین و مورخین اور علم انساب کے معتبر دانشمندوں نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اہل سنت کے اکثر دانشمندوں اور بہت زیادہ گروہوں نے اس حقیقت کو صراحت سے بیان کیا ہے اوراس کو ایک بے مثال فضیلت کے نام سے تعبیرکیا ہے۔ مشہور مورخ حاکم نیشاپوری کہتے ہیں :"خا نہ کعبہ میں علی کی ولادت کی خبر حدیث تواترکے ذریعے ہم تک پہنچی ہے ۔(2)      
 تفسیر معروف  کے مولف آلوسی بغدادی لکھتے ہیں :
" کعبہ میں علی کی ولادت کی خبردنیا کے تمام مذہبوں کے درمیان مشہورومعروف ہے اور آج تک کسی کو بھی یہ فضیلت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ (3)      

    
حضرت علی علیہ السلام کی تعلیم و تربیت


امام علیہ السلام کی زندگی کے حساس ترین واقعات اسی دور میں رونما ہوئے یعنی حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے توسط سے ابھری،عمرکا یہ حصہ ہرانسان کے لئے اس کی زندگی کا سب سے حساس اور کامیاب واہم حصہ ہوتا ہے ایک بچے کی شخصیت اس عمر میں ایک سفید کاغذ کے مانند ہوتی ہے اوروہ ہرشکل کو قبول کرنے اور اس پر نقش ہونے کے لئے آمادہ ہوتا ہے اس کی عمر کا یہ حصہ پالنے والوں اور تربیت کرنے والوں کے لئے سنہری موقع ہوتا ہے تا کہ بچے کی روح کو فضائل اخلاقی سے مزین کریں کہ جس کی ذمہ داری خداوندعالم نے ان کے ہاتھوں میں دی ہے تاکہ ان کی بہترین تربیت کرکے اسے انسانی اور اخلاقی اصولوں سے روشناس کرائیں اوراسے بہترین اورکامیاب زندگی گذارنے کا طورطریقہ سکھائیں۔
 پیغمبرعظیم الشان نے اسی عظیم مقصد کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کے بعد ان کی تربیت کی ذمہ داری خود لے رکھی تھی، جس وقت حضرت علی علیہ اسلام کی والدہ نو مولود بچے کولے کر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو پیغمبر اسلام نے والہانہ عشق ومحبت کے ساتھ اس بچے کودیکھا اور فرمایا:اے چچی جان علی کے جھولے کو میرے بستر کے قریب رکھ دیجئے،اس جہت سے امام علی علیہ السلام کی زندگی کا آغاز پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لطف خاص سے ہوا،اس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک تیس برس تھی آپ صرف سوتے وقت ہی حضرت علی علیہ السلام کے گہوارہ کو جھلاتے نہیں تھے بلکہ آپ کے بدن کو بھی دھوتے تھے اوران کے منھ میں دودھ بھی ڈالتے تھے اور جب علی علیہ السلام بیدار ہوتے تھے تو خلوص والفت کے ساتھ ان سے بات کرتے تھے اور کبھی کبھی انہیں سینے سے لگا کرفرماتے تھے ''یہ بچہ میرا بھائی ہے اور مستقبل میں میرا ولی وناصر اور میرا وصی اور میرا داماد ہوگا۔''
 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کو اتنا عزیز رکھتے تھے کہ کبھی بھی ان سے جدا نہیں ہوتے تھے اور جب بھی مکہ مکرمہ سے باہر عبادت خدا کے لئے جاتے تھے تو حضرت علی علیہ السلام کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ (4)
 امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے خطبے میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمات کو سراہتے ہوئے ارشاد فرما تے ہیں:
" وَ قَد عَلِمتُم مَوضِعی مِن رُسُولِ الله بِالقَرابَۀِ القَریبَۀ وَالمَنزِلۀِ الخَصیصَۀ وَضَعَنَی فی حِجرَۀ وَاَنَا وَلَدٌ یَضُمُّنی اِلَی صِدره وَیَکنفی فی فِراشِه وَیُمِسُّنی جَسَدَه وَیُشِمّنی عَرَفَه وَ کانَ یَمضغُ الشَیَء ثُمَ یُلقمنیه.(5)            
" اے پیغمبرکے صحابیوں! ہمارے اور پیغمبر کے درمیان رشتہ اخوت اورجو احترام ومقام حضرت کے نزدیک میرا تھا اس سے تم لوگ بخوبی واقف ہواورتم لوگ یہ بھی جانتے ہو کہ ہم ان کی آغوش محبت میں پروان چڑھے ہیں جس وقت میں کمسن تھا آپ نے ایک مہربان باپ کی طرح مجھے سینے سے لگایا اور اپنے بسترکے قریب میرے گہوارے کو رکھا اور اپنے ہاتھوں کو میرے بدن پر پھیرا اور میں نے خوشبوئے رسالت کو استشمام کیا اور آپ نے اپنے ہاتھوں سے مجھے کھانا کھلایا ۔"
 اور پھر ایسے حالات پیش آئے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کو ان کے گھر سے اپنے گھر لائے کیونکہ اس وقت مکہ مکرمہ میں قحط پڑا تھا اور حضرت ابوطالب علیہ السلام کے کاندھوں پر سنگین ذمہ داری بھی عائد تھی اخراجات بڑھ گئے تھے، اس وقت چونکہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے چچا حضرت عباس کی مالی حالت قدرے بہتر تھی لہذا اس وقت آپس میں طے کیا کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایک ایک بچے کو اپنے گھر لے جائیں گے تاکہ اس قحط کے زمانے میں حضرت ابوطالب علیہ السلام کو کچھ راحت مل سکے اس بناء پر حضرت عباس جعفر کو اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کو اپنے اپنے گھر لائے۔ (6)   
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال:

حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کا سب سے حساس دور کون سا تھا اور کیسے بسر ہوا۔؟


منابع:


1-   کشف الغمہ ج 1ص 90
2-   مستدرک حاکم  ج3 ص 483
3-   شرح قصیدہ عبدالباقی آفندی ص 15
4-   کشف الغمہ ج1 ص 90
5-   نہج البلاغہ ج2  ص 182 خطبۂ قاصعہ
6-     سیرہ ابن ہشام ج 1 ص 236
  
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: