مواد کا کوڈ۔: 40
ہٹس: 309
تاریخ اشاعت : 28 August 2023 - 09: 29
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (2)
حضرت علی علیہ السلام مکمل طور پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں تھے لہٰذا علی علیہ السلام نے انسانی اور اخلاقی فضیلتوں کے گلستان سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرپرستی میں کمالات کے بلندترین درجے پر فائز ہوئے۔

حضرت علی علیہ السلام کی تعلیم و تربیت


حضرت علی علیہ السلام مکمل طور پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں تھے لہٰذا علی علیہ السلام نے انسانی اور اخلاقی فضیلتوں کے گلستان سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرپرستی میں کمالات کے بلندترین درجے پرفائزہوئے،امام علیہ السلام اپنے خطبے میں اس زمانے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
''وَ لَقَد کُنتُ اَتَّبِعُهُ اِتِباعَ الفَصیلِ اَثَرَ اُمِّه یَرفَعُ لی کُلُّ یَومٍ مِن اَخلاقِهِ عَلَماً وَ یَأمُرُنی بِالاِقتِداءِ بِه " (1)              
"میں اونٹ کے اس بچہ کی طرح جو اپنے ماں کی طرف جاتا ہے، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف گیا،آپ روزانہ مجھے اپنے اخلاق حسنہ کا ایک پہلوسکھاتے تھے اورحکم دیتے تھےکہ اس کی پیروی کرو۔"
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسالت پرمبعوث ہونے سے پہلے تک سال میں ایک مہینہ غارحرا میں عبادت میں مصروف رہتے تھے اورجیسے ہی مہینہ ختم ہوتا تھا آپ پہاڑ سے نیچے اترتے تھے اور سیدھے مسجدالحرام کی طرف جاتے تھے اور اپنے ہمراہ حضرت علی علیہ السلام کو بھی لے جاتے تھے اس بارے میں خود مولائے متقیان ارشاد فرماتے ہیں:
" وَلَقَد کَانَ یُجاوِرُ فی کُلِّ سَنَۀٍ بِحَراء فَاَراهُ وَلایَراهُ غَیری اَری نُورَالوَحیِ وَالرِّسالَۀ وَاَشُمُّ ریحَ النَّبُوَّۀ " (2)
" پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر سال غار حرا میں عبادت کے لئے جاتے تھے اور میرے علاوہ کسی نے انہیں نہیں دیکھا ہم نے بچپن کے زمانے میں غار حرا میں پیغمبراسلام کے ساتھ وحی اوررسالت کے نورکو دیکھا جو پیغمبراسلام پر چمک رہا  تھا اور پاک وپاکیزہ نبوت کی خوشبو سے اپنے مشام کومعطر کیا۔"
ان جملوں کے بعد آپ مزید ارشاد فرماتے ہیں: جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی الہی نازل ہورہی تھی تو میں نے کسی کے نالہ و فریاد کی آواز سنی تو میں نے پیغمبراسلام کی خدمت میں عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ نالہ و فریاد کیسا ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: یہ شیطان کی آواز ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ میری بعثت کے بعد زمین والوں کے درمیان جو اس کی اطاعت وپرستش ہوتی اس سے یہ ناامید ہوگیا ہے پھر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی علیہ السلام سے فرماتے ہیں.
" اَّنَکَ تَسَمعُ ما أسمَع وَتُری ما أُری اِلّا اِنَّکَ لَستَ بِنَبیٍّ وَلکنِّک لَوزَیرا (3)
" اے علی! جس چیز کو میں نے سنا اور دیکھا تم نے بھی اسے دیکھا اورسنا مگر یہ کہ تم پیغمبر نہیں ہو بلکہ تم میرے وزیر اورمدد گار ہو ۔"
اور اس طرح حضرت علی علیہ السلام  کی شخصیت کو سنوارنے میں دو اہم عامل نے اہم کردار ادا کیا ایک پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے ہونے والی تعلیم اور دوسرے آپ کی تربیت و پرورش۔


 پہلا وہ شخص جو اسلام لایا


حضرت علی علیہ السلام کے بچپن کے زمانے کا تذکرہ ہوا جس میں آپ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زيرتربیت اور سرپرستی میں رہے جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منصب رسات پرفائز ہوئے تو سب سے پہلی فرد جو آپ پر ایمان لائی وہ حضرت علی علیہ السلام تھے۔
اکثر محدثین و مورخین نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوشنبہ کے دن منصب رسالت پر مبعوث ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام نے فورا ہی آپ کی رسالت کی تصدیق کی ۔ (4)
تمام لوگوں سے پہلے اسلام قبول کرنے میں حضرت علی علیہ السلام  نے سبقت کی اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تصریح کرتے ہوئے صحابہ کے عمومی مجمع میں فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے جو حوض کوثر پرمجھ سے ملاقات کرے گا اورجس نے اسلام لانے میں تم سب پرسبقت حاصل کی وہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں ۔(5)
پیغمبراسلام صلی آلہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام، بزرگان دین اور مورخین و محدثین سے منقول حدیثیں اورروایتیں مولائے کائنات کے اسلام قبول کرنے میں سبقت کے متعلق اس قدر زیادہ ہیں کہ سب کو اس کتاب میں نقل کرنا ممکن نہیں ہے۔ مرحوم علامہ امینی علیہ الرحمہ نے اس سلسلے کی تمام روایتوں اور حدیثوں اور مورخین کے قول کو الغدیر کی تیسری جلد ص 191 سے 213 تک نقل کیا ہے۔
اس سلسلے میں ہم امام علیہ السلام کا صرف ایک قول اور ایک تاریخی واقعہ پیش کررہے ہیں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اَنَاعَبدُاللهِ وَأخُو رَسُولِ الله وَ اَنَا الصّدیّقُ الاَکبَرُ لایقُولُها بَعدی اِلّا کاذِبُ مُفتَری وَ لَقَد صَلَّیتُ مَعَ رَسُولِ الله ‏قَبلَ الناسِ بِسَبعِ سِنینَ وَاَنَا اَوَّلُ مَن صَلّی مَعَهُ ۔(6)
" میں خدا کا بندہ پیغمبرکا بھائی اورصدیق اکبرہوں میرے بعد یہ دعوی صرف جھوٹا شخص ہی کرے گا تمام لوگوں سے سات برس پہلے میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں جس نے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑھی .
حضرت علی علیہ السلام ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:اس زمانے میں اسلام صرف پیغمبراسلام اور خدیجہ سلام اللہ علیہا کے گھر میں تھا اور میں اس گھر کا تیسرا فرد تھا۔(7)
اسی طرح سے ایک اور مقام پرامام علیہ السلام سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
" اَللهُمَّ اِنّی اَوَّلُ مَن اَنابَ وَسَمَعَ وَاَجابَ لَم یَسبِقنی اِلاّ رَسُولُ‏الله بالصَّلوۀ»''(8)
" پروردگارا، میں پہلا وہ شخص ہوں جو تیری طرف آیا اور تیرے پیغام کو سنا اور تیرے پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہا اور مجھ سے پہلے پیغمبر کے علاوہ کسی نے نماز نہیں پڑھی۔
اب ایک تاریخی واقعہ
مشہورمورخ عفیف کندی کہتے ہیں: ایک دن میں کپڑا اورعطر خریدنے کے لئے مکہ مکرمہ گیا اورمسجدالحرام میں عباس بن عبدالمطلب کے بغل میں جاکر بیٹھ گیا جب سورج اوج پر پہنچا تو اچانک میں نے دیکھا کہ ایک شخص آیا اور آسمان کی طرف نظر کی پھر کعبہ کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوا کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک نوجوان آیا اور اس کے داہنی طرف کھڑا ہوگیا پھرایک عورت مسجد میں داخل ہوئی اوران دونوں کے پیچھے آکر کھڑی ہوگئی پھروہ تینوں نمازوعبادت میں مشغول ہوگئے، میں اس منظر کو دیکھ کر بہت متعجب ہوا کہ مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کے درمیان سے ان لوگوں نے اپنے کو دور کررکھا ہے اور مکہ کے خداؤں کے علاوہ دوسرے خدا کی عبادت کررہےہیں میں حیرت میں تھا میں عباس کی طرف مخاطب ہوا اوران سے کہا .''اَمرعَظِیم ''،عباس نے بھی اسی جملے کو دہرایا اور فرمایا: کیا تم ان تینوں افراد کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا نہیں انہوں نے کہا سب سے پہلے جو مسجد میں داخل ہوا اور دونوں آدمیوں سے آگے گھڑا ہوا وہ میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ ہے اوردوسرا شخص جو مسجد میں داخل ہوا وہ میرا دوسرا بھتیجا علی ابن ابی طالب ہے اور وہ خاتون محمد کی بیوی ہیں اور اس کا دعوی ہے کہ اس کے تمام قوانین خداوندعالم کی طرف سے اس پر نازل ہوئے ہیں اوراس وقت کائنات میں ان تینوں کے علاوہ کوئی بھی اس دین الہی کا پیرو نہیں ہے ۔(9)

خلیفہ عباسی مامون کا اسحاق سے مناظرہ

عباسی خلیفہ مامون نے اپنی خلافت کے زمانے میں چاہے سیاسی مصلحت کی بنیاد پر یا اپنے عقیدے کی بنیاد پرمولائے کائنات حضرت علی السلام کی برتری کا اقرارکیا اور اپنے کو شیعہ ظاہرکیا،ایک دن ایک علمی گروہ جس میں اس کے زمانے کے چالیس بڑے دانشمند اور خود اسحاق بھی انہیں کے ہمراہ جمع تھے ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:جس دن پیغمبرخدا رسالت پر مبعوث ہوئے اس دن بہترین عمل کیا تھا؟
اسحاق نے جواب دیا: خدا اور اس کے رسول کی رسالت پر ایمان لانا۔
مامون نے دوبارہ پوچھا: کیا اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کرنا بہترین عمل نہ تھا ؟ اسحاق نے کہا: کیوں نہیں، ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں" وَالسّابِقونَ السّابِقُون اُولئِکَ المُقَربُون " اور اس آیت کریمہ میں سبقت سے مراد وہی اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنا ہے۔
مامون نے پھرسوال کیا: کیاعلی علیہ السلام سے پہلے کسی نے اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کی ہے؟ یاعلی علیہ السلام وہ پہلے شخص ہیں جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمپر ایمان لائے ہیں ؟
اسحاق نے جواب دیا: علی علیہ السلام ہی وہ ہیں جو سب سے پہلے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لائے لیکن جس دن وہ ایمان لائے وہ کمسن تھے اور بچے کے اسلام کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن ابوبکر اگر چہ وہ بعد میں ایمان لائے اور جس دن خدا پرستوں کی صف میں کھڑے ہوئے وہ بالغ وعاقل تھے لہٰذا اس عمر میں ان کا ایمان اور عقیدہ قابل قبول ہے۔
مامون نے پوچھا:علی علیہ السلام کس طرح ایمان لائے؟ کیا پیغمبراسلام نے انہیں اسلام لانے کی دعوت دی یا خداوندعالم کی طرف سے ان پرالہام ہوا کہ وہ آئین توحید اور اسلام کو قبول کریں؟
یہ بات کہنا بالکل صحیح نہیں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا اسلام لانا خداوندعالم کی طرف سے الھام کی وجہ سے تھا کیونکہ اگر ہم یہ فرض کرلیں تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ علی علیہ السلام کا ایمان پیغمبر کے ایمان سے زیادہ افضل ہوجائے گا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ علی علیہ السلام کا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وابستہ ہونا جبرئیل امین کے توسط اور ان کی رہنمائی سے تھا نہ یہ کہ خداوندعالم کی طرف سے ان پر الھام ہوا تھا ۔
بہرحال اگر حضرت علی علیہ السلام کا ایمان لانا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کی وجہ سے تھا تو کیا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود ایمان کی دعوت دی تھی یا خداوندعالم کا حکم تھا ؟ یہ کہنا بالکل صحیح نہیں ہوگا کہ پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو بغیرخداوندعالم کی اجازت کے اسلام کی دعوت دی تھی بلکہ ضروری ہے کہ یہ کہا جائے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اسلام کی دعوت خداوندعالم کے حکم سے دی تھی ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خداوندعالم اپنے پیغمبر کو حکم دے گا کہ وہ بچے کو جس کا ایمان لانا اور نہ لانا برابرہو اسلام کی دعوت دے ؟ ہرگزنہیں، بلکہ یہ ثابت ہے کہ امام بچپن میں ہی شعور و ادراک کی اس بلندی پر فائز تھے کہ ان کا ایمان بزرگوں کے ایمان کے برابر تھا۔( 10)
یہاں مناسب تھا کہ مامون اس کے متعلق دوسرا جواب دیتا کیونکہ یہ جواب ان لوگوں کے لئے مناسب ہے جن کی معلومات بحث ولایت وامامت میں بہت زیادہ ہواوراس کا خلاصہ یہ ہے کہ اولیاء الہی کا کبھی بھی ایک عام آدمی سے مقابلہ نہیں کرنا چاہئے اورنہ ان کے بچپن کے دورکو عام بچوں کے بچپن کی طرح سمجھنا چاہئے اور نہ ہی ان کے فہم و ادراک کو عام بچوں کے فہم و ادراک کے برابرسمجھے، پیغمبران الہی کے درمیان بعض ایسے بھی پیغمبرتھے جو بچپن میں ہی فہم وکمال اور حقایق کے درک کرنے میں منزل کمال پر پہنچے تھے اوراسی بچپن کے زمانے میں ان کے اندر یہ لیاقت موجود تھی کہ پروردگارعالم نے اپنی حکمت آمیز گفتگوؤں اور بلند معارف الہیہ کو ان کو سکھایا، قرآن مجید میں جناب یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بیان ہوا ہے کہ:
" یا یَحْیی خُذِ الکِتابَ بِقُوَّةٍ وَ آتَیناهُ الحُکمَ صَبیّا "  (11)
" اے یحییٰ کتاب کو مضبوتی سے پکڑلو اورہم نے انہیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی ۔ "
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس آیت کریمہ میں حکمت سے مراد نبوت ہے اور بعض لوگوں کا احتمال یہ ہے کہ حکمت سے مراد معارف الہیہ ہے بہرحال جو بھی مراد ہو لیکن آیت کریمہ کے مفہوم سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء الہی ایک خاص استعداد اور فوق العادہ قابلیت و صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اوران کا بچپن دوسروں کے بچپن سے الگ ہوتا ہے۔
حضرت عیسی مسیح علیہ السلام اپنی ولادت کے دن ہی خداوندعالم کے حکم سے لوگوں سے گفتگو کی اور فرمایا : " اِنیِ عَبدُالله آتانِیَ الکِتابَ وَ جَعَلَنی نَبیّا " (12)
" بے شک میں خدا کا بندہ ہوں، مجھ کو اسی نے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔ (13)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منابع:

1- نہج البلاغہ عبدہ ج2 ص 182       
2- نہج البلاغہ خطبہ 187 قاصعہ
3- نہج البلاغہ، خطبہ قاصعہ
4- ''بعث النبی یوم الاثنین و اسلم علی یوم الثلاثاء'' مستدرک حاکم ج2  ص112،  الاستیعاب ج3 ص 32
5- ''اولکم وارداً علی الحوض اولکم اسلاما علی بن ابیطالب'' مستدرک حاکم ج3 ص 136
6- تاریخ طبری ج2 ص 213، سنن ابن ماجہ ج 1 ص 57
7- نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ 187
8- نہج البلاغہ، خطبہ 127
9- تاریخ طبری ج2 ص212، کامل ابن اثیر ج2 ص٢22 ، استیعاب ج3 ص330
10- " عقد الفرید ج3 ص 43 اسحاق کے بعد جاحظ نے کتاب العثمانیہ میں اعتراض کیا ہے اور ابوجعفراسکافی نے کتاب نقض العثمانیہ میں اس اعتراض کا تفصیلی جواب دیا ہے اور ان تمام بحثوں کو ابن ابی الحدید نے اپنی نہج البلاغہ کی شرح ج13 ص 218 سے ص 295 تک میں لکھا ہے۔"
11- سورہ مریم آیت 12
12- سورہ مریم آیت 30
13- معصومین علیہم السلام کے حالات زندگی میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ ان لوگوں نے بچپن کے زمانے میں عقلی، فلسفی اور فقہی بحثوں کے مشکل سے مشکل مسئلوں کا جواب دیا ہے بطورمثال وہ مشکل سوالات جو ابوحنیفہ نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور یحییٰ ابن اکثم نے امام جواد علیہ السلام سے کیا تھا اورجوجوابات ان لوگوں نے سنا وہ آج بھی حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ اسی طرح حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "لایقاس بآل محمدٍ من ھذہ الامة احد" اس امت کے کسی بھی فرد کو پیغمبراسلام کے فرزندوں اور خاندان کی برابری نہ کرو۔ نہج البلاغہ، خطبہ دوم۔

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: