پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (14)
مدینہ منورہ میں یہ خبرعام ہوگئی کہ جنگ احد میں پیمغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قتل کردیئے گئے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعزہ واقرباء اس خبر کی حقیقت جاننے کے لئے احد کی جانب روانہ ہوگئے
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (13)
"حضرت علی علیہ السلام کے بعد جس نے اس جنگ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وجود نازنین کا مکمل دفاع کیا وہ عظیم شخصیت جناب ابودجانہ کی تھی انہوں نے خود کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سپر قرار دیا اور دشمن کی جانب سے آنے والے تیر آپ کی پشت میں پیوست ہوتے رہے۔"
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (12)
سات شوال سن تین ہجری قمری کی صبح تھی لشکر اسلام کی فوج کفار قریش کی فوج کے مقابلے میں صف بستہ آمادہ جنگ تھی لشکر اسلام نے اپنی چھاؤنی کے لئے ایسا مقام منتخب کیا تھا کہ پشت کی جانب سے ایک بہترین رکاوٹ یعنی کوہ احد تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (11)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس علیہ السلام نے ایک خفیہ رپورٹ اپنی مہر اور دستخط کے ساتھ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا جس میں قریش کے منصوبوں اور سازشوں سے آگاہ کیا تھا جس وقت قاصد یہ نامہ لے کر پہنچا اس وقت آپ مدینہ منورہ کے باہر ایک باغ میں تشریف فرما تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (10)
میدان احد کا منظرراہ حق میں دی جانے والی قربانیوں اور جانثاریوں کا ایک نہایت ہی خوبصورت میدان اور عفو و بخشش اور حقیقت و ایثار کا بہترین مرکز ہے ،اس جنگ میں مسلمانوں کے سبق آموز واقعات نہایت ہی حیرت انگيزاورانسان کو اپنی جانب مجذوب کرنے والے ہیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (9)
جب سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تھے اسی وقت سے سرداران قریش، مکہ مکرمہ کے عوام ، جزیرۃ العرب میں رہنے والے یہودیوں اور منافقین نے آپ کی مخالفت کرنا شروع کردیا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (8)
" قبا " یثرب سے دو فرسخ کی دوری پر قبیلہ بنی عوف کا مرکز ہے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے ساتھ آنے والے ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو دوشنبہ کے دن اس سرزمین پر پہنچے اور قبیلہ کے بزرگ کے گھر کے پاس اپنی سواریوں سے اترے دوسری جانب مہاجر و انصار کے بہت سے گروہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتظار کررہے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (7)
ماہ ربیع الاول بعثت کے تیرہویں برس میں سرداران قریش کہ جو مسلمانوں کے یثرب کی جانب ہجرت کرنے سے بہت زيادہ خوف و ہراس میں مبتلا تھے "دارالندوہ " نامی مقام پر کہ جہاں اپنی مشکلات و پریشانیوں کے حل کے لئے ہمیشہ اکھٹا ہوتے تھے جمع ہوئے اور یثرب کی جانب مسلمانوں کے جوق در جوق ہجرت کرنے
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (6)
مکہ مکرمہ کے عوام بلکہ جزیزہ عرب کے تمام عرب حج کے زمانے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق کہ جو ان کے درمیان باقی تھیں حج کو اپنے آباؤواجداد کی باقیماندہ سنت کے عنوان سے بجا لاتے تھے.
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سوانح حیات (5)
بعثت کے گیارہویں سال کے آغاز سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں بے انتہا غم و الم کے پہاڑ ٹوٹنے لگے اور قریش کے سرداروں کی جانب سے ہونے والے کینوں اور عداوتوں سے تکلیفیں پہنچانا شروع کردیں ہر وقت خطرات کے بادل آپ پر منڈلاتے رہے اور تبلیغ دن کے ہر طرح کے امکانات و وسائل کو آپ سے سلب کرلیا گیا تھا ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سوانح حیات (4)
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کو دین اسلام کی دعوت دینے کے بعد عرب کے سارے قبیلوں تک اپنے پیغام کو پہنچانے کےلئے اعلانیہ تبلیغ کا اہتمام کیا اور تمام لوگوں کو توحید و یکتا پرستی کی دعوت دی.
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سوانح حیات (3)
ایک دن پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسب معمول پروردگارعالم کی عبادت میں مصروف تھے کہ فرشتہ وحی حضرت جبرئیل امین قرآن کریم کی بتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے، یہ آیتیں سورہ علق کی پانچ ابتدائی آيتیں ہیں،یہ وہی فرشتہ وحی ہیں جو ایک مخصوص شکل میں ظاہرہوئے اور کہا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سوانح حیات (2)
"میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ قریش کے تمام لوگوں سے افضل و برتر ہے اگر چہ مال و ثروت سے محروم ہے کیونکہ دولت و ثروت ایک ایسا سایہ ہے جو ختم ہونے والا ہے جب کہ اصل و نسب ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ "
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سوانح حیات (1)
یہ مسلم حقیقت ہے کہ جناب عدنان تک پیغمبر اسلام کی نسبت بالکل اسی ترتیب سے ہے لیکن جناب عدنان سے حضرت اسماعیل علیہ السلام تک ترتیب اور نام کے اعتبار سے اختلاف پایا جاتا ہے۔