مواد کا کوڈ۔: 17
ہٹس: 1961
تاریخ اشاعت : 17 September 2022 - 10: 18
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (12)
سات شوال سن تین ہجری قمری کی صبح تھی لشکر اسلام کی فوج کفار قریش کی فوج کے مقابلے میں صف بستہ آمادہ جنگ تھی لشکر اسلام نے اپنی چھاؤنی کے لئے ایسا مقام منتخب کیا تھا کہ پشت کی جانب سے ایک بہترین رکاوٹ یعنی کوہ احد تھا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (12)
 


لشکر اسلام و لشکر کفار آمنے سامنے


سات شوال سن تین ہجری قمری کی صبح تھی لشکر اسلام کی فوج کفار قریش کی فوج کے مقابلے میں صف بستہ آمادہ جنگ تھی لشکر اسلام نے اپنی چھاؤنی کے لئے ایسا مقام منتخب کیا تھا کہ پشت کی جانب سے ایک بہترین رکاوٹ یعنی کوہ احد تھا لیکن کوہ احد کے درمیان میں ایک دراڑ تھی جس کی بناء پر یہ احتمال پایا جارہا تھا کہ ممکن ہے دشمن کی فوج کوہ احد کا محاصرہ کرکے اس دراڑ سے نکل کرمسلمانوں کی چھاؤنی کے پیچھے سے حملہ کردے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس خطرے سے محفوظ رہنے کے لئے تیراندازی کرنے والے دو گروہوں کو اس پہاڑ پر کھڑا کردیا اور ان کے کمانڈر عبداللہ بن جبیرسے اس طرح فرمایا:
اگر دشمن اس طرف بڑھے تو تم لوگ تیر اندازی کرکے دشمن کو بھگا دینا اور خیال رکھنا کہ کہیں دشمن پہاڑ کے پیچھے سے حملہ کرکے ہمیں غافل نہ کردیں، چاہے جنگ میں ہم ان پر مسلط ہوجائیں یا وہ ہم پر عالب آجائیں تم لوگ ہر گز اس مقام کو چھوڑکر نہ ہٹنا ۔ (1)
اور پھر آپ نے صف کو منظم کیا اگر چہ آپ پیدل چل رہے تھے اور صفوں کو منظم کرتے جارہے تھے اور ہرایک سپہ سالار کی جگہ معین کررہے تھے، ایک گروہ کو مقدم تو دوسرے گروہ کو موخر کررہے تھے۔آپ سپاہیوں کی صف کو اس قدر منظم کررہے تھے کہ اگر کسی فوجی کا شانہ دوسرے فوجی سے اونچا ہوتا تو اسے پیچھے کردیتے تھے۔


جنگ کا آغاز


ابوعامر کہ جو مدینہ منورہ سے بھاگنے والوں میں سے تھا کے ذریعے جنگ شروع ہوئی، ابو عامر کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا اور اسلام کی مخالفت کرنے کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں پناہ لے رکھا تھا جب وہ مدینہ سے بھاگ کر مکہ آیا تو قبیلہ اوس کے پندرہ افراد بھی اس کے ہمراہ تھے، ابو عامر یہ سوچ رہا تھا کہ اگرقبیلہ اوس والے اسے دیکھ لیں گے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدد کرنے سے باز آجائيں گے لہذا اس راہ میں پیشقدم ہوا لیکن جب وہ مسلمانوں کے روبرو ہوا تو طعنہ زنی اور بدگوئی سے دوچار ہوا لیکن کچھ ہی دیر میدان جنگ میں رہنے کے بعد میدان جنگ چھوڑ کر چلا گیا ۔ 
اس جنگ میں کفارقریش نے یہ روش اپنائی کہ جنگ میں اپنے ہمراہ عورتوں اور لڑکیوں کو لائے جو جنگ کے دوران میدان میں آکر رقص کرکے اپنی خوبصورت آواز سے مسلمانوں کے خلاف اپنے سپاہیوں اور جنگنوؤں کو تشویق و ترعیب دلائیں تاکہ جنگ جیتنے کے بعد ان لوگوں کو عہدوں پر فائز کردیں لیکن تھوڑی دیر بھی نہ گذری تھی کہ لشکر اسلام کے عظيم جیالوں جیسے حضرت علی علیہ السلام ،حضرت حمزہ علیہ السلام ، ابودجانہ رضوان اللہ علیہ اور زبیر وغیرہ کی شجاعت و بہادری و جانثاری کی بناء پر لشکر قریش اپنا اسلحہ اور غنائم جنگی میدان میں چھوڑ کر ذلت و رسوائي کے ساتھ بھاگ گئے اور اسلامی لشکر کے فخر و مباہات میں اضافہ کرگئے۔ 


کامیابی کے بعد شکست

 

ہم نے کوہ احد کے جغرافیائي حالات میں سے اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کوہ احد کے وسط میں دراڑ پڑی ہوئی تھی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس درہ کی حفاظت کی ذمہ داری عبداللہ بن جبیر کی سربراہی میں پچاس تیر اندازی میں ماہر افراد کے سپرد کی تھی اور اس کمانڈر کو حکم دیا تھا کہ اگر دشمن اس طرف بڑھے تو تم لوگ تیر اندازی کرکے دشمن کو بھگا دینا اور خیال رکھنا کہیں دشمن پہاڑ کے پیچھے سے حملہ کرکے ہمیں غافل نہ کردیں، چاہے جنگ میں ہم ان پر مسلط ہوجائیں یا وہ ہم پر غالب آجائیں تم لوگ ہر گز اس مقام کو چھوڑکر نہ ہٹنا ۔
جس وقت قریش کی فوج اپنا جنگی ساز و سامان اور اسلحہ میدان جنگ میں چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے راہ فرار اختیار کی تو اس وقت لشکر اسلام کے بعض سرداروں نے کہ جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر بیعت کی تھی دشمنوں کا پیچھا کرتے کرتے میدان جنگ سے بہت دور نکل گئے تھے مگر مسلمانوں کی بہت سی تعداد نے دشمنوں کا پیچھا نہیں کیا اور اپنے اسلحوں کواتار کرزمین پر رکھ دیا اور مال عنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے ادھر درہ پر متعین محافظوں نے بھی دل ہی دل میں کہا کہ اب ہمارا یہاں پرٹھہرنا عبث ہے لہذا ہمیں بھی مال غنیمت جمع کرنے کے لئے میدان جنگ میں جانا چاہیئے ان کے کمانڈر نے کہا: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ کر نہ ہٹنا چاہے لشکر اسلام فاتح ہو یا مغلوب، لیکن ان میں سے چالیس افراد نے کمانڈر کے سامنے استقامت کی اور کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے حالت جنگ میں اس درہ کی حفاظت کا حکم دیا تھا اور اب تو جنگ ختم ہوگئی ہے اور ہمارا یہاں پر ٹھہرنا بے کار ہے لہذا یہ کہہ کراس جگہ کو چھوڑ کر مال غنیمت لوٹنے جا پہنچے اور صرف دس افراد ہی وہاں پر باقی بچے۔ 
دوسری جانب دشمن کی فوج کے بہادر کمانڈر خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابو جہل کہ جو مسلمانوں کی کامیابی میں اس درہ کے کلیدی کردار کو بہت ہی اہم جانتے تھے اگر چہ شکست سے دو چار ہوگئے تھے لیکن اپنی ناکامی کی تلافی کے لئے کوشاں تھے اچانک انہوں نے درہ کو خالی پایا لہذا اپنے بعض فوجیوں کو مسلح کیا اور اسی درہ کے پشت پر آکر مسلمانوں پر حملہ کردیا اور مسلمانوں کے دس محافط فوجیوں کو قتل کردیا اور درہ سے اس طرح آکر مسلمانوں کی فوج کے سامنے آگئے ادھر مسلمان کہ جنہوں نے جنگ کے ختم ہونے کا احساس کرلیا تھا اور اپنے اسلحوں  کو اتار کر زمین پر رکھ دیا تھا وہ خالد بن ولید کے محاصرے میں آگئے خالد بن ولید نے قریش کے شکست سے دوچار ہونے والی فوج کو جو میدان چھوڑ کر بھاگ رہے تھے فورا ہی اپنی مدد کے لئے آواز دی ، کچھ ہی دیر گذری تھی کہ قریش کی فوج میدان جنگ میں واپس آگئی اور چاروں طرف سے اسلامی فوج کو اپنے محاصرے میں لے لیا اور پھر دوبارہ ان کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔  
اس دوبارہ جنگ میں اسلامی فوج کو بہت زيادہ اور حیرت انگیز نقصانات سے دوچار ہونا پڑا اور مسلمانوں کو مجبورا اپنے دفاع کے علاوہ کوئی راہ تدبیرنظر نہ آ‏ئی لیکن چونکہ اپنے کمانڈر سے ان کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا لہذا اسلامی فوج اپنے اس دفاع میں شکست سے دوچار ہوگئی صرف یہی نہیں بلکہ انہیں بہت زيادہ نقصان اٹھانا پڑا اور عدم توجہی کی بناء پر کچھ مسلمان فوجی مسلمانوں ہی کے ہاتھوں سے مارے گئے۔ 
دوسری جانب قریش کے ایک سپاہی نے احتمال دیا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم قتل کردئیے گئے یا مسلمانوں کی بہادری کو ضعیف ہوتے ہوئے دیکھ کر فریاد بلند کی" اَلا قَدْ قُتِلَ مُحَمَّدٌ اَلا قَدْ قُتِلَ مُحَمَّدٌ" اے لوگو، محمد قتل کردیئے گئے۔
اس جھوٹی خبرنے دشمنوں کومزید قوت و توانائی عطا کی اور اسلامی لشکر کی توانائیوں کو ضعیف کرنے میں نہایت ہی اہم کردار ادا کیا اور اس کا اثر یہ ہوا کہ بہت سے مسلمان فوجی میدان جنگ چھوڑ کر فرار ہوگئے اور میدان جنگ کو خالی کردیا۔ 
اسلام کے بزرگ مورخ ابن ہشام اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں: کہ انس بن مالک اپنے چچا نضر سے کہتے ہیں: جس وقت اسلامی فوج مصیبت میں گرفتار ہوئی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے قتل کی خبر ان کے درمیان پہنچی تو زيادہ تر مسلمانوں کو اپنی جان بچانے کی آن پڑی اور ہر شخص نے محفوظ گوشوں میں پناہ حاصل کی ۔ وہ مزيد لکھتے ہيں کہ میں نے دیکھا کہ مہاجر و انصار کا ایک گروہ کہ جس میں عمربن خطاب اور طلحہ بن عبیداللہ موجود تھے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے اپنے اپنے بارے میں فکر مند ہیں میں نے اعتراض والے انداز میں ان سے کہا: تم لوگ یہاں پر کیوں بیٹھے ہو؟ انہوں نے ہمارے جواب میں کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم تو قتل کردیئے گئے ہیں اب جنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہے تو میں نے ان لوگوں سے کہا اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قتل کردیئے گئے ہیں تو پھر زندگی میں کوئی لذت باقی نہیں رہی اس لئے اب اٹھ جاؤ اور جس راستے میں وہ قتل ہوئے ہیں تم لوگ بھی شہید ہوجاؤ۔(2)
ابن ہشام کہتے ہیں کہ انس اس گفتگو کے بعد کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ میری باتوں کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑا لہذا میں نے خود ہی اسلحہ اٹھایا اور نہایت خاضعانہ طور پرجنگ میں مشغول ہوگیا، ابن ہشام کہتے ہیں کہ انس کو اس جنگ میں ستر زخم برداشت کرنے پڑے اور ان کے جنازے کو ان کی بہن کے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا۔ مسلمانوں کے بعض گروہ بہت ہی افسردہ و رنجیدہ تھے انہوں نے اپنی جان بچانے کے لئے ایک منصوبہ بنایا تاکہ عبداللہ ابی سے متوسل ہوجائيں تاکہ وہ ابوسفیان سے ان کے لئے امان نامہ حاصل کرے۔ (3)
اگرچہ مسلمانوں کا میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنا نہایت ہی افسوس کا مقام اور دوسری جانب لشکراسلام کی فوج کی شکست کا باعث بنا لیکن بعض مسلمانوں کی استقامت و پائیداری نے تاریخ بشریت کے چہرے کی آبرو بڑھا دی منجملہ اس فرار اور ذلت و رسوائی کے درمیان ایک ایسے سردار کی فداکاری و استقامت بھی نظر آتی ہے جس کی بابرکت زندگی کی چھبیسویں بہاریں گذر چکی تھیں اور بچپن سے لے کر وفات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک آںحضرت کے ساتھ ساتھ رہا اور ایک لمحے کے لئے بھی آپ کی نصرت و مدد سے دریغ نہیں کیا، تاریخ اسلام کا یہ عظیم و حقیقی جانثار کوئی اور نہیں بلکہ مولائے متقیان امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں جنہوں نے اسلام کی ترویج میں وہ عظيم کارنامے انجام دیئے ہیں جو تاریخ کے صفحات پر سنہرے حروف میں تحریر ہیں۔  
بنیادی طور پر جنگ احد میں ملنے والی یہ دوسری کامیابی پہلی کامیابیوں کی طرح اس مرد شجاع کی گہر بار نصیحتوں اور استقامت کی مرہون منت تھی کیونکہ لشکر اسلام کے فوجیوں کے جنگ کی ابتداء میں ہی بھاگنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے بڑے بڑے سردار ایک کے بعد ایک حضرت علی علیہ علیہ السلام کی تلوار سے مارے گئے جس کے نتیجے میں قریش کی فوج میں بہت زیادہ رعب و وحشت طاری ہوگئی تھی جس کی وجہ سے ان کی استقامت و توانائی کمزور پڑگئی۔ ہم یہاں پر نہایت ہی اختصار کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کی فداکاری و جانثاری کو مورخین معتبر کتابوں سے نقل کررہے ہیں۔
عالم اسلام کے مشہور و معروف مورخ علامہ ابن اثیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وجود نازنین ہر طرف سے کفارقریش کے حملوں کی زد پر تھا اور جو بھی گروہ آپ پر حملہ کرتا تھا تو حضرت علی علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے اس پر حملہ کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے سپاہی منتشر ہوجاتے تھے اور یہ واقعہ جنگ احد میں متعدد مرتبہ پیش آیا، اس جانثاری کے جذبہ کو دیکھ کر امین وحی الہی نازل ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام کے ایثار و جانثاری کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے تعریف کی اور کہا: یہ بہت ہی عظیم الشان جانثاری و فداکاری ہے جسے اس عظیم اسلامی سردار نے پیش کیا ہے، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امین وحی کی تصدیق کی اور فرمایا: میں علی سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں،اس کے بعد میدان میں ایک آواز بلند ہوئی اور وہ یہ دو جملے تھے:
" لافَتی إِلاّ عَلی لاسَیفَ إِلاّ ذُوالفَقار." (4)
" علی جیسا کوئی جوان نہیں ہے اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں ہے۔"
تاریخ اسلام کے معتبر مورخ ابن ابی الحدید معتزلی اس واقعہ کی مزید تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں: کفار قریش کے وہ گروہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حملہ کرنے کے لئے آئے تھے ان کی تعداد تقریبا پچاس افراد پر مشتمل تھی حالانکہ علی علیہ السلام سواری پر نہ تھے مگر ان لوگوں کو متفرق کردیا اس کے بعد ابن ابی الحدید جناب جبرئيل امین کے نازل ہونے کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ اس کے علاوہ یہ کہ یہ مطالب تاریخ میں مسلم ہیں، میں نے محمد بن اسحاق کی کتابوں کے متفرق نسخوں میں جبرئیل امین کے نازل ہونے کے بارے میں دیکھا ہے کہ یہاں تک کہ ایک دن میں نے اپنے استاد محترم عبدالوہاب سکینہ سے اس واقعہ کے صحیح ہونے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: یہ واقعہ صحیح ہے، میں ان سے کہا: کہ آخرکیا بات ہے کہ صحاح ستہ کے مولفین نے اس صحیح خبر کو تحریر نہیں کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب میں کہا: بہت سی صحیح روایتیں موجود ہیں لیکن صحاح ستہ کے مولفین اسے تحریر کرنے میں غفلت کے شکار ہوئے ہیں۔ 
خود امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی تقریر میں راس الیہود کے لئے اپنے ساتھیوں کے ایک گروہ کے سامنے جنگ احد میں اپنی جانثاری کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
۔۔۔۔ جس وقت کفار قریش کی فوج ہماری جانب حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھی تو انصار و مہاجر اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگئے اور میں نے ستر زخم کھانے کے باوجود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا دفاع کیا اس کے بعد آنحضرت نے قبا ہٹائی اور زخموں پر ہاتھ پھیرا کہ جس کا نشان باقی تھا۔ (5)
ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں جس طرح سے اہل تشیع اور اہل تسنن کی کتابوں میں مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی خدمات اورایثار وقربانی تحریر ہیں اس طرح یہاں پر نقل نہیں کرسکے لیکن ان روایتوں اور حدیثوں کے مطالعے سے کہ جو اس بارے میں تحریر کی گئی ہیں ثابت ہوتا ہے کہ جنگ احد میں حضرت علی علیہ السلام کی طرح کوئی بھی فرد بشر ثابت قدم نہیں تھا۔ 

سوالات:  

 

1۔ جنگ احد کس شخص کے ذریعے اور اس کا آغاز کس مقصد کے تحت ہوا۔؟
2۔ جنگ احد میں کس طرح سے اسلامی فوج شکست سے دوچارہوئی۔؟
3۔ جنگ احد میں حضرت علی علیہ السلام نے کیا قربانیاں انجام دیں۔؟


منابع:


1۔ البدایہ و النہایہ ،ابن کثیر، ج 4 ص 14
2۔ سیرہ ابن ہشام ج 2 ص 83
3۔ الکامل ، ابن اثیر، ج 2 ص 109
4۔ الکامل ، ابن اثیر، ج 2 ص 107
5۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج 14 ص 251
 


دفترنشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف: علی ریختہ گرزادہ تہرانی

ٹیگس: پیامبر
آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: