مواد کا کوڈ۔: 42
ہٹس: 89
تاریخ اشاعت : 31 August 2023 - 23: 37
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (4)
بعثت کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں نے بہت زیادہ شکنجے اور ظلم و بربریت کواپنی کامیابی کی راہ میں برداشت کیا تھا اورظلم وستم کا یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی رہا۔ مسلمانوں پرقریش کا زور اور ظلم وستم سبب بنا کہ ان میں سے کچھ گروہ حبشہ اور کچھ گروہ مدینہ کی طرف ہجرت کرگیا۔

بے مثال فداکاری


بعثت کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں نے بہت زیادہ شکنجے اور ظلم و بربریت کواپنی کامیابی کی راہ میں برداشت کیا تھا اورظلم وستم کا یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی رہا۔ مسلمانوں پرقریش کا زور اور ظلم وستم سبب بنا کہ ان میں سے کچھ گروہ حبشہ اور کچھ گروہ مدینہ کی طرف ہجرت کرگیا اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام جنہیں خاندان بنی ہاشم خصوصاً حضرت ابوطالب علیہ السلام کی مکمل حمایت حاصل تھی یہاں تک کہ بعثت کے دسویں سال پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حامی و پشت پناہ و مربی اورعظیم المرتبت چچا کا انتقال ہوگیا ابھی حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات کو چند ہی دن گزرے تھے کہ آپ کی عظیم و مہربان شریکہ حیات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا بھی انتقال ہوگیا جس نے اپنی پوری زندگی جان و مال کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم ہدف پرقربان کرنے پر کبھی دریغ نہیں کیا، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دو باعظمت حامیوں کی رحلت کی وجہ سے بہت زیادہ غمگین تھے اورمکہ کے مسلمانوں پربہت زیادہ ظلم و زورو زبرستی ہونے لگی، یہاں تک کہ بعثت کے تیرہویں سال تمام قریش کے سرداروں نے ایک میٹنگ کی جس میں یہ طے کیا کہ توحید کی آواز کو ختم کرنےکے لئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو زندان میں ڈال دیا جائے یا انہیں قتل کردیا جائے یا پھر کسی دوسرے ملک میں قید کردیا جائے تاکہ یہ آواز توحید ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے، قرآن مجید نے ان کے اس تینوں ارادوں کا تذکرہ کیا ہے ارشاد قدرت ہوتا ہے:
" وَإِذْ يَمْكُرُبِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُاللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ" (1)       
" اور پیغمبر آپ اس وقت کو یاد کریں جب کفار تدبیریں کرتے تھے کہ آپ کو قید کر لیں یا شہر بدر کر دیں یا قتل کر دیں اور ان کی تدبیروں کے ساتھ خدا بھی اس کے خلاف انتظام کررہا تھا اوروہ بہترین انتظام کرنے والا ہے۔"
قریش کے سرداروں نے یہ طے کیا کہ ہر قبیلے سے ایک شخص کو چنا جائے اور پھر یہ منتخب افراد نصف شب میں یکبارگی محمد کے گھر پرحملہ کریں اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیں اور اس طرح سے مشرکین بھی ان کی تبلیغ اور دعوت حق سے آسودہ ہو جائیں گے اوران کا خون پورے عرب کے قبیلوں میں پھیل جائے گا اور بنی ہاشم کا خاندان ان تمام قبیلوں سے جو اس خون کے بہانے میں شامل تھے جنگ و جدال نہیں کرسکتے۔
 فرشتۂ وحی نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مشرکوں کے اس برے ارادے سے باخبرکیا اورحکم خدا کو ان تک پہنچایا کہ جتنی جلدی ممکن ہو مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر یثرب چلے جائیں۔ ہجرت کی رات آگئی مکہ اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا گھررات کے اندھیروں میں چھپ گیا قریش کے مسلح سپاہیوں نے چاروں طرف سے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا اس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ضروری تھا کہ گھر کو چھوڑ کر نکل جائیں اوراس طرح سے جائیں کہ لوگ یہی سمجھیں کہ پیغمبر گھر میں موجود ہیں اور اپنے بستر پرآرام فرمارہے ہیں لیکن اس کام کے لئے ایک ایسے بہادراور جانباز شخص کی ضرورت تھی جو آپ کے بستر پر سوئے اور پیغمبر کی سبز چادر کو اس طرح اوڑھ کر سوئے تاکہ جو لوگ قتل کرنے کے ارادے سے آئے ہیں وہ یہ سمجھیں کہ پیغمبراسلام ابھی تک گھر میں موجود ہیں اور ان کی نگاہیں صرف پیغمبر کے گھر پر رہے اور گلی کوچوں اور مکہ سے باہر آنے جانے والوں پر پابندی نہ لگائیں۔
 لیکن ایسا کون ہے جو اپنی جان کو نچھاورکرے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر پر سوجائے؟ یہ بہادر شخص وہی ہے جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لایا اورابتدائے بعثت سے ہی اس شمع حقیقی کا پروانہ کی طرح محافظ رہا جی ہاں یہ عظیم المرتبت انسان حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اورنہ تھا اور یہ افتخار بھی اسی کے حصہ میں آیا، یہی وجہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا: مشرکین قریش مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں اور ان کا یہ ارادہ ہے کہ یکبارگی مل جل کر میرے گھر پرحملہ کریں اور مجھے بستر پر ہی قتل کردیں،خداوندعالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں مکہ سے ہجرت کرجاؤں،اس لئے ضروری ہے کہ آج کی شب تم میرے بستر پر سوجاؤ اور اس سبز چادر کواوڑھ کر سوجاؤ تاکہ وہ لوگ یہ تصورکریں کہ میں ابھی بھی گھر میں موجود ہوں اور اپنے بستر پر سورہا ہوں تا کہ یہ لوگ میرا پیچھا نہ کریں حضرت علی علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے ابتداء شب سے پیغمبر اسلام کے بستر پرسوگئے اس وقت آپ کی زبان پر صرف ایک ہی جملہ تھا کہ کیا میرے سو رہنے سے آپ کی جان بچ جائے گی؟ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔
ادھرچالیس آدمی ننگی تلواریں لئے ہوئے رات بھرپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھرکا محاصرہ کئے رہے اور دروازے کے جھروکوں سے گھر کے اندرنگاہیں جمائے تھے اور گھر کے حالات کا سرسری طور پر جائزہ لے رہے تھے ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے بستر پرآرام کررہے ہیں یہ جلاد صفت انسان مکمل طریقے سے گھر کے حالات پر قبضہ جمائے ہوئے تھے اور کوئی چیز بھی ان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں تھی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دشمنوں کے اتنے سخت پہروں کے باوجود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کس طرح سے اپنے گھر کو چھوڑ کر ہجرت کرگئے۔
 بہت سے مورخین (2)کا نظریہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب گھر سے نکلے تو سورۂ یٰسن کی تلاوت کر رہے تھے۔(3) اورمحاصرین کی صفوں کوتوڑتے ہوئے ان کے درمیان سے اس طرح نکلے کہ کسی کو بھی احساس تک نہ ہوا یہ بات قابل انکارنہیں ہے کہ مشیت الہی جب بھی چاہے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطوراعجاز اورغیرعادی طریقے سے نجات دے کوئی بھی چیزاس سے منع نہیں کرسکتی لیکن یہاں پربات یہ ہے کہ بہت زیادہ قرینے اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ خداوندعالم اپنے پیغمبرکو معجزے کے ذریعے سے نجات نہیں دینا چاہتا تھا کیونکہ اگرایسا ہوتا تو ضروری نہیں تھا کہ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر پرسوتے اور خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار ثور میں جاتے اور پھر بہت زیادہ زحمت و مشقت کے ساتھ مدینے کا راستہ طے کرتے۔
بعض مورخین(4) کہتے ہیں کہ جس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے گھر سے نکلے اس وقت تمام دشمن سورہے تھے اور پیغمبراسلام ان کی غفلت سے فائدہ اٹھا کرچلے گئے لیکن یہ نظریہ حقیقت کے برخلاف ہے کیونکہ کوئی بھی عقلمند انسان یہ قبول نہیں کرسکتا کہ چالیس جلاد صفت انسانوں نے گھر کا محاصرہ صرف اس لئے کیا تھا تاکہ پیغمبر گھر سے باہر نہ جاسکیں تاکہ مناسب وقت اورموقع دیکھ کر انہیں قتل کریں اوروہ لوگ اپنے فریضےکو اتنا نظر اندازکردیں کہ سب کے سب آرام سے سوجائیں لیکن بعید نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ پیغمبراسلام محاصرین کے درمیان سے ہوکر نکلے تھے۔(5)


خانۂ وحی پر حملہ


قریش کے سپاہی اپنے ہاتھوں کو قبضۂ تلوار پررکھے ہوئے اس وقت کے منتظر تھے کہ سب کے سب اس خانہ وحی پر حملہ کریں اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کردیں جو بستر پر آرام کررہے ہیں وہ لوگ دروازے کے جھروکے سے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بسترپرنگاہ رکھے ہوئے تھے اور بہت زیادہ ہی خوشحال تھے اوراس فکر میں غرق تھے کہ جلدی ہی اپنی آخری آرزؤں تک پہنچ جائیں گے مگر علی علیہ السلام بہت ہی مطمئن نہایت اطمینان سے پیغمبراسلام کے بستر پرسورہے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خداوندعالم نے اپنے حبیب پیغمبراسلام کودشمنوں کے شر سے نجات دیا ہے، دشمنوں نے پہلے یہ ارادہ کیا تھا کہ آدھی رات کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر پرحملہ کریں گے لیکن کسی وجہ سے اس ارادے کو بدل دیا اوریہ طے کیا کہ صبح کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں داخل ہوں گے اور اپنے مقصد کی تکمیل کریں گے، رات کی تاریکی ختم ہوئی اور صبح صادق نے افق کے سینے کو چاک کیا دشمن برہنہ تلواریں لئے ہوئے یکبارگی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر پرحملہ آورہوئے اوراپنی بڑی اوراہم آرزوؤں کی تکمیل کی خاطر بہت زیادہ خوشحال پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں وارد ہوئے لیکن جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر کے قریب پہنچےتو پیغمبر کے بجائے حضرت علی علیہ السلام کوان کے بستر پرپایا ان کی آنکھیں غصے سے لال ہوگئیں اور تعجب نے انہیں قید کرلیا حضرت علی علیہ السلام کی طرف رخ کرکے پوچھا محمد کہاں ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیا تم لوگوں نے محمد کو میرے حوالے کیا تھا جو مجھ سے طلب کررہے ہو؟وہ لوگ اس جواب کو سن کرغصے سے آگ بگولہ ہوگئے اور حضرت علی علیہ السلام پر حملہ کردیا اور انہیں مسجد الحرام لے آئے لیکن تھوڑی دیرجستجو و تحقیق کرنے کے بعد مجبورہوکر آپ کوآزاد کردیا، وہ غصے میں بھنے جارہے تھے کہ ارادہ کیا کہ جب تک پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل نہ کرلیں گے آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔(6)
قرآن مجید نے اس عظیم اور بے مثال  فداکاری کو ہمیشہ اور ہرزمانے میں باقی رکھنے کے سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام کی جانبازی کو سراہا ہے اور انہیں ان افراد میں شمار کیا ہے جو لوگ خدا کی مرضی کی خاطراپنی جان تک کو نچھاورکردیتے ہیں۔ارشاد الہی ہوتا ہے:
" وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ "(7)
" اورلوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال:


1- حضرت علی علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کس طرح سے بچائی۔؟


منابع:


1- سورۂ انفال آیت 30
2-  منجملہ ابن کثیر نے بدایہ و نہایہ میں اور شوکانی نے فتح القدیر میں بھی لکھا ہے۔
3-  یہاں پر سورہ یس سے مراد اس سورے کی آٹھویں اور نویں آيتیں ہے۔
4-  تفسیر قمی علی ابن ابراہیم ج 1 ص 276
5-  السیرۃ الحلبیہ ابو الفرج حلبی ج 2 ص 32
6- تاریخ طبری ج٢2 ص 97
7- سورۂ بقرہ آیت 207

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: