مواد کا کوڈ۔: 44
ہٹس: 83
تاریخ اشاعت : 02 September 2023 - 08: 06
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (5)
اکثرمفسرین نے اس آیت کریمہ کے شان نزول کو ''لیلة المبیت'' سے مخصوص کیا ہے یعنی جس دن علی علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر پر سوئے تھے اورکہا ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہے۔

 

بنی امیہ کے زمانے کے مجرم


اکثرمفسرین نے اس آیت کریمہ کے شان نزول کو ''لیلة المبیت'' سے مخصوص کیا ہے یعنی جس دن علی علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر پر سوئے تھے اورکہا ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہے۔
لیکن سمرہ بن جندب نے کہ جو بنی امیہ کے زمانے کا بدترین مجرم تھا صرف چار لاکھ درہم کی خاطراس بات پرراضی ہوگیا کہ اس آیت کریمہ کے شان نزول کو حضرت علی علیہ السلام کی شان میں بیان نہ کرکے لوگوں کے سامنے اس سے انکارکردے اور مجمع عام میں یہ اعلان کردے کہ یہ آیت عبد الرحمن بن ملجم کی شان میں نازل ہوئی ہے اس نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ اس آیت کو علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہونے سے انکار کیا بلکہ ایک دوسری آیت جو منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی اس کو حضرت علی علیہ السلام سے منسوب کردیا(1)
سمرہ بن جندب عراق میں ابن زیاد کی حکومت کے وقت بصرہ کا گورنرتھا اورخاندان اہل بیت علیہم السلام سے بغض و عداوت رکھنے کی وجہ سے آٹھ ہزار آدمیوں کو صرف اس جرم میں قتل کر ڈالا تھا کہ وہ علی علیہ السلام کی ولایت و دوستی پر زندگی بسر کر رہے تھے جب ابن زیاد نے اس سے باز پرس کی کہ تم نے کیوں اورکس بنیاد پراتنے لوگوں کو قتل کر ڈالا، کیا تو نے اتنا بھی نہ سوچا کہ ان میں سے بہت سے افراد بے گناہ بھی تھے تواس نے بہت ہی تمکنت سے جواب دیا ''لو قتلت مثلھم ما خشیت'' میں اس سے دو برابر قتل کرنے میں بھی کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا۔ (2)
سمرہ کے شرمناک کارناموں کا تذکرہ یہاں پر ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ وہی شخص ہے جس نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا جب بھی اپنے کھجور کے پیڑ کی شاخیں صحیح کرنے کے لئے کسی کے گھر میں داخل ہو تو ضروری ہے کہ صاحب خانہ سے اجازت لے لیکن اس نے ایسا نہیں کیا یہاں تک کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس درخت کو بہت زیادہ قیمت دے کرخریدنا چاہ رہے تھے پھر بھی اس نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ نہیں بیچا اور کہا کہ اپنے درخت کی دیکھ بھال کے لئے کبھی بھی اجازت نہیں لے گا۔ گھر کے مالک نے پیغمبراسلام سے شکایت کیا اس کی باتوں کو سن کرپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صاحب خانہ کو حکم دیا کہ جاؤ اس شخص کے درخت کو جڑ سے اکھاڑ کر دور پھینک دو اور سمرہ سے فرمایا:'' اِنَكَ رَجُلٌ مُضارّ وَ لا ضَرَرَ وَ لا ضِرارَ فِی الاِسلام۔ "(3) یعنی تو لوگوں کونقصان پہنچاتا ہے اور اسلام نے کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچائے۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسی فرمان کے بعد ایک فقہی قاعدہ " لا ضرر ولا ضرار" بنایا گيا جس کی بنیاد پرفقہاء فتوی دیتے ہیں۔
کچھ ہی زمانہ گذرا تھا تعصب کی چادریں ہٹتی گئیں اور تاریخ اسلام کے محققین نے شک و شبہات کے پردے کو چاک کرکے حقیقت کو واضح و روشن کردیا ہے اور بے شمارمحدثین ومفسرین قرآن نے ثابت کردیا کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے،یہ تاریخی واقعہ اس بات پرشاہد ہے کہ شام کے لوگوں پر اموی حکومت کی تبلیغ کا اثراتنا زیادہ ہوچکا تھا کہ جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی بات سنتے تواس طرح یقین کرلیتے گویا لوح محفوظ سے بیان ہورہی ہو، جب شام کے افراد سمرہ بن جندب جیسے کی باتوں کی تصدیق کرتے تھے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ تاریخ اسلام سے ناآشنا تھے کیونکہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت عبدالرحمن پیدا بھی نہ ہوا تھا اور اگر پیدا ہو بھی گیا تھا تو کم از کم حجاز کی زمین پر قدم نہیں رکھا تھا اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا کہ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوتی۔
اس تاریخی واقعہ کی مناسبت سے امام علیہ السلام نے جو اشعارکہے ہیں اورسیوطی نے ان تمام اشعارکو اپنی تفسیردرالمنثورج3 ص 18 پرنقل کیا ہے آپ کی جانبازی اور فداکاری پر واضح دلیل ہے۔
وَقُیْتُ بِنَفسی خَیرَمَن وَطَأَ الحَصی         محمّد لَمّا خافَ اَنْ یَمْکُرُوا به
وَ بِتُّ اُراعیهم مَتی یَنْشُرُونَنی        وَ مَنْ طافَ بِاْلبَیتِ العَتیق وَ بِاْلحِجرِ
فَوقَاهُ رَبّی ذوُ اْلجَلالِ مِنَ المَکِر    وَ قَدْ وَطَّنتُ نَفسی عَلی القَتل وَالاَسِر
 
" میں نے اپنی جان کوروئے زمین کی بہترین اور سب سے نیک شخصیت جس نے خدا کے گھراورحجراسماعیل کا طواف کیا ہے اسی کے لئے سپر (ڈھال) قرار دیا ہے۔"
" وہ عظیم شخص محمد ہے اور میں نے یہ کام اس وقت انجام دیا جب کفاران کو قتل کرنے کے لئے آمادہ تھے لیکن میرے خدا نے انہیں دشمنوں کے مکر و فریب سے محفوظ رکھا۔"
" میں ان کے بستر پر بڑے ہی آرام سے سویا اور دشمن کے حملہ کا منتظر تھا اور خود کو مرنے یا قید ہونے کے لئے آمادہ کر رکھا تھا۔"
شیعہ اورسنی مورخین نے نقل کیا ہے کہ خداوندعالم نے اس رات اپنے دو بزرگ فرشتوں، جبرئیل و میکائیل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میں تم میں سے ایک کے لئے موت اور دوسرے کے لئے حیات مقررکروں تو تم میں سے کون ہے جوموت کو قبول کرے اور اپنی زندگی کو دوسرے کے حوالے کردے؟ اس وقت دونوں فرشتوں میں سے کسی نے بھی موت کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ فداکاری کرنے کا وعدہ کیا، پھر خداوندعالم نے ان دونوں فرشتوں سے فرمایا کہ: زمین پرجاؤ اور دیکھو کہ علی نے کس طرح سے موت کو اپنے لئے خریدا ہے اور خود کو پیغمبر پر فدا کردیا ہے جاؤ علی کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھو۔(4)
چھ آدمیوں پر مشتمل شوریٰ جو عمربن خطاب کے حکم سے خلیفہ معین کرنے کے لئے بنائی گئی تھی حضرت علی علیہ السلام نے اپنی اس عظیم فضیلت کا ذکرکرتے ہوئے شرکائے شوریٰ پر اعتراض کیا اور فرمایا: میں تم سب کوخداوندعالم کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ کیا میرے علاوہ کوئی اور تھا جوغار ثور میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے کھانا لے گیا؟
کیا میرے علاوہ کوئی ان کے بستر پر سویا؟ اورخود کو اس بلا میں ان کی سپر قرار دیا؟ سب نے ایک آواز ہوکر کہا: خدا کی قسم آپ کے علاوہ کوئی نہ تھا۔(5)
حضرت علی علیہ السلام کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ جس رات حضرت علی السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بسترپرسوئے اس رات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ مکرمہ سے نکلے اور غار ثور میں پناہ لی۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین رات غار ثور میں قیام کیا ایک رات حضرت علی علیہ السلام ہند بن ابی ہالہ کے ساتھ غار ثور میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو چند چیزوں کا حکم دیا۔
1۔ دواونٹ ہمارے اور ہمارے ہمسفر کے لئے مہیا کرو اس وقت ابوبکر نے کہا میں نے  پہلے ہی سے دو اونٹ اس کام کے لئے مہیا کر لئے ہیں، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اس وقت تمہارے ان دونوں اونٹوں کوقبول کروں گا جب تم ان دونوں کی قیمت مجھ سے لے لو پھر علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ ان اونٹوں کی قیمت اداکردو۔(6)
2۔ میں قریش کا امانتدار ہوں اورابھی لوگوں کی امانتیں میرے پاس گھر میں موجود ہیں کل مکہ کے فلاں مقام پر کھڑے ہوکر بلند آواز سے اعلان کرنا کہ جس کی امانت محمد کے پاس ہے وہ آئے اور اپنی امانت مجھ سے لے جائے۔
امانتیں واپس کرنے کے بعد تم بھی ہجرت کے لئے تیاررہنا اور جب بھی تمہارے پاس میرا خط پہنچے تو میری بیٹی فاطمہ اور اپنی مادر گرامی فاطمہ بنت اسد اور زبیر بن عبدالمطلب کی بیٹی فاطمہ کو اپنے ہمراہ لے آؤ اور اگر بنی ہاشم میں سے کوئی شخص ہجرت کے لے آمادہ ہو تو اس کے لئے مقدمات سفر آمادہ کرنا پھرفرمایا: اب تمہارے لئے جو بھی خطرہ یا مشکلات تھیں وہ دورہوگئیں ہیں اور تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔
حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایک مناسب مقام پرجہاں کافی مجمع تھا حاضر ہوئے اور بلند آواز سے فرمایا: جس کی امانت بھی پیغمبراسلام صی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس ہے وہ آکر مجھ سے لے لے، صاحبان امانت آپ کے پاس آئے اور اپنی اپنی امانتیں واپس لے لیں اور اس کے بعد مسلمانوں میں سے جو لوگ مدینہ ہجرت کرنا چاہتے تھے ان کی مدد فرمائی اور پھر فواطم( یعنی تینوں فاطمہ) کو لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ (7)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت کے بعد امام علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خط کے منتظر تھے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ابو واقد لیثی حضرت کا خط لے کر مکہ مکرمہ پہنچا اورحضرت علی علیہ السلام کے سپرد کیا۔امام علیہ السلام لوگوں کی امانت ادا کرنے کے سلسلے میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت پر صد در صد عمل کرچکے تھے اور اب صرف ایک کام باقی تھا کہ خود اور خاندان رسالت کی عورتوں کو مدینہ لے جانے کے اسباب فراہم کریں لہٰذا مومنین کا وہ گروہ جو ہجرت کے لئے آمادہ تھا اسے حکم دیا کہ خاموشی سے مکہ مکرمہ سے باہر نکل جائیں اور چند کیلو میٹر دور " ذو طویٰ " مقام پر قیام کریں تاکہ امام کا قافلہ وہاں پہنچ جائے، حضرت علی علیہ السلام نے مومنین کوخاموشی سے جانے کا حکم دیا تھا مگر خود دن کے اجالے میں سفر کے لئے آمادہ ہوئے اورعورتوں کو ام ایمن کی بیٹی ایمن کے ذریعے عماریوں پر سوار کرایا اور ابوواقد سے کہا اونٹوں کو آہستہ آہستہ لے جاؤ کیونکہ عورتیں تیز تیز جانے کی قدرت نہیں رکھتیں۔
مشہورمورخ ابن شہر آشوب لکھتے ہیں کہ جب پیغمبراسلام کے چچا عباس حضرت علی علیہ السلام کے اس ارادے سے باخبر ہوئےکہ وہ دن کے اجالے میں دشمنوں کے سامنے سے مکہ سے ہجرت کررہے ہیں اورعورتوں کو بھی اپنے ساتھ لے جارہے ہیں تو فوراً حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور کہا کہ محمد پوشیدہ طور سے مکہ سے گئے تو قریش ان کو پورے مکہ اور اطراف مکہ میں ڈھونڈتے رہے تو تم کس طرح سے دشمنوں کے سامنے عورتوں کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے باہر نکلو گے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ دشمن تمہیں مکہ سے باہر نہیں جانے دیں گے؟
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے اپنے چچا کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: کل رات جب میں نے غار ثور میں پیغمبراسلام سے ملاقات کی اور پیغمبراسلام نے حکم دیا کہ ہاشمی عورتوں کے ساتھ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرو تو اسی وقت مجھے خوشخبری بھی دی کہ اب مجھے کوئی بھی تکلیف نہیں پہنچے گی،میں اپنے پروردگار پراعتماد اور احمد کے قول پر ایمان رکھتا ہوں اوران کا اور میرا راستہ ایک ہی ہے اسی لئے میں دن کے اجالے اور دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے سے مکہ مکرمہ سے ہجرت کروں گا۔ پھرامام علیہ السلام نے کچھ اشعار پڑھا جس کا مفہوم وہی ہے جو ہم بیان کرچکے ہیں۔(8)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوالات:


1- بنی امیہ نے حضرت علی علیہ السلام سے کیا خیانت کی ۔؟
2- رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غارثور میں امیرالمومنین علیہ السلام کو کیا حکم دیا ۔؟
3- حضرت علی علیہ السلام نے مکہ مکرمہ سے دن کے اجالے میں کیوں ہجرت کی ۔؟


منابع:


1۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج1 ص 73
2-  تاریخ طبری ج 6 ص 132
3-  فروع الکافی محمد بن یعقوب کلینی ج 1 ص 414
4- الفضائل، ابن شاذان ص ،124  بحارالانوار ج١٩ ص 39، احیاء العلوم غزالی ج3 ص 238
5- الخصال شیخ صدوق ج 2 ص ،123  احتجاج طبرسی ص 74
6- سیرت ابن ہشام ج 2 ص 98
7- مناقب ابن شہر آشوب ج 1 ص 183
8- مناقب ابن شہر آشوب ج 1 ص 184

             
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: