مواد کا کوڈ۔: 19
ہٹس: 1969
تاریخ اشاعت : 22 October 2022 - 09: 17
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (13)
"حضرت علی علیہ السلام کے بعد جس نے اس جنگ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وجود نازنین کا مکمل دفاع کیا وہ عظیم شخصیت جناب ابودجانہ کی تھی انہوں نے خود کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سپر قرار دیا اور دشمن کی جانب سے آنے والے تیر آپ کی پشت میں پیوست ہوتے رہے۔"

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات  (13)


جناب ابودجانہ اور پیغمبراسلام کا دفاع  


"حضرت علی علیہ السلام کے بعد جس نے اس جنگ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وجود نازنین کا مکمل دفاع کیا وہ عظیم شخصیت جناب ابودجانہ کی تھی انہوں نے خود کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سپر قرار دیا اور دشمن کی جانب سے آنے والے تیر آپ کی پشت میں پیوست ہوتے رہے۔"
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے بعد جس نے اس جنگ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وجود نازنین کا مکمل دفاع کیا وہ عظیم شخصیت جناب ابودجانہ کی تھی انہوں نے خود کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سپر قرار دیا اور دشمن کی جانب سے آنے والے تیر آپ کی پشت میں پیوست ہوتے رہے۔ ابودجانہ نے تیروں کی بارش میں اس طرح سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے حفاظت فرمائی۔
بعض مورخین نے جناب ابودجانہ کے بارے میں اپنی کتابوں میں اس طرح سے لکھا ہے:
جس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام مشرکین کے محاصرے میں آگئے اچانک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظر ابودجانہ پر پڑی آپ نے فرمایا: ابودجانہ، میں نے تم سے اپنی بیعت اٹھالی ہے لیکن علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں۔ یہ سن کر ابودجانہ زاروقطار رونے لگے اور عرض کیا: اے پیغمبر میں کہاں جاؤں؟ اپنی شریکہ حیات کے پاس جاؤں کہ وہ کسی نہ کسی دن موت کی آغوش میں چلی جائے گی، اپنے گھر جاؤں تو وہ کبھی بھی خراب ہوسکتا ہے، اپنے مال و دولت کی طرف جاؤں کہ وہ نابود ہوجائے گا اور اپنی موت کی طرف جاؤں کہ وہ یقینا آنے والی ہے۔
جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظریں ابودجانہ کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں پر پڑی تو آپ نے انہیں جنگ کی اجازت دیدی اس وقت آپ اور حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قریش کے سخت ترین حملوں سے حفاظت کی ۔(1)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب عرب کے بڑے شجاع و بہادر اور اسلام کے عظیم سپہ سالار تھے اور جنگ احد میں اپنی پوری توانائی کے ساتھ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دفاع کیا حضرت حمزہ ایسی عظيم شخصیت تھے جنہوں نے اپنی پوری قدرت و طاقت کے ساتھ مکہ مکرمہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بت پرستوں کے شرسے محفوظ رکھا اور قریش کی سب سے بڑی انجمن میں ابوجہل نے جو پیغمبر اسلام کو اذیت و تکلیف پہنچائی اور توہین کیا تھا اس کا بدلہ لیا اور ابوجہل کے سر کو توڑ دیا اور کسی کے اندر بھی اتنی ہمت نہ ہوئی جو آپ کے مقابلے میں آتا۔
وہ اسلامی فوج کے عظیم و بہادر سردار اور ایسے جانباز تھے جنہوں نے جنگ بدر میں قریش کے سب سے بڑے پہلوان " شیبہ" کو قتل کیا تھا اور بہت سے گروہ کو زخمی اور بعض کو جہنم واصل کیا تھا۔
ابوسفیان کی بیوی اور عتبہ کی بیٹی ہندہ کہ جو حضرت حمزہ سے دل میں کینہ رکھتی تھی اور ارادہ کرچکی تھی کہ کسی نہ کسی طرح سے مسلمانوں سے اپنے باپ کا بدلہ ضرور لے گی۔ حبش کا وحشی بہادرکہ جو جبیر بن مطعم کا غلام تھا اور جبیر کے چچا بھی کہ جو جنگ بدر میں مارے گئے تھے اس پرھندہ کی طرف سے ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ حیلہ اور مکرو فریب کے ذریعے ان تینوں افراد یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، علی علیہ السلام اور حمزہ علیہ السلام میں سے کسی ایک کو اس کے باپ کا انتقام لینے کے لئے قتل کردے ، حبشی پہلوان نے جواب میں کہا: میں محمد تک ہرگز دسترسی پیدا نہیں کرسکتا کیونکہ ان کے اصحاب باوفا ہمیشہ ان کے اپنے احاطے میں لئے رہتے ہیں ، علی بن ابی طالب بھی میدان جنگ میں ہمیشہ ہوشیاررہتے ہیں لیکن میدان جنگ میں حمزہ کا غیظ و غضب اتنا زيادہ ہے کہ وہ جنگ کے دوان اپنے اطراف سے بے خبر رہتے ہیں شاید میں ان کو دھوکہ وفریب دے کرقتل کردوں ھندہ نے اسی پر اکتفاء کیا اور اس سے وعدہ کیا کہ اگر تم نے یہ کام کردیا تو تمہیں آزاد کردیں گے۔   
غلام حبشی کہتا ہے : احد کے دن قریش کی کامیابی کے وقت میں حمزہ کے فراق میں تھا انہوں نے دھاڑتے شیر کی طرح قلب سپاہ پر حملہ کیا جو شخص بھی ان کے سامنے آتا تھا اسے قتل کردیتے تھے میں نے خود کو درختوں اور پتھروں کے پیچھے اس طرح چھپا لیا کہ وہ ہمیں دیکھ نہ سکیں، حالانکہ گھمسان کی جنگ ہورہی تھی میں کمین گاہ سے باہر نکلا اور دوسرے حبشیوں کی طرح میں نے بھی اپنے نیزے کو ان کی طرف پیھنکا میرا نشانہ صحیح لگا اور ان کے دونوں پیروں کے درمیان سے ہوکر نکل گیا انہوں نے میری طرف حملہ کرنا چاہا لیکن درد کی شدت کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرسکے اور اسی حالت میں تڑپتے رہے یہاں تک کی ان کی روح بدن سے نکل گئی اس کے بعد میں نہایت ہی احتیاط کے ساتھ ان کی جانب بڑھا اور اپنے نیزے کو نکالا اور قریش کے لشکر کی سمت آکر آزادی کے انتظار میں آکر بیٹھ گيا۔
جنگ احد کے ختم ہوجانے کے بعد بھی میں بہت عرصہ تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہا یہاں تک کہ مسلمانوں نے مکہ مکرمہ کو فتح کرلیا تو میں طائف کی طرف بھاگ گیا ابھی کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ اسلام کی نورانی طاقت و قدرت کا اس حد تک بول بالا ہوگیا کہ میں نے سنا کہ جس شخص نے جتنا بھی جرم کیا ہے اگر اسلام کے قوانین کو قبول کرلے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی تمام غلطیوں کو معاف کردیں گے، میں نے اپنی زبان پر کلمہ شہادتین جاری کیا اور پیغمبر اسلام کی خدمت اقدس میں آگیا جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظرمبارک مجھ پر پڑی تو آپ نے فرمایا کہ تو وہی وحشی حبشی ہے ؟ میں نے عرض کیا ہاں اے اللہ کے رسول، آپ نے فرمایا: تو نے میرے چچا حضرت حمزہ کو کس طرح قتل کیا ہے؟ میں نے پورا واقعہ تفصیل سے بیان کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہایت محزون ہوئے اور فرمایا: جب تک تو زندہ ہے میرے سامنے نہ آنا کیونکہ میرے چچا پر جو بھی مصیبتیں پڑیں وہ تیرے ہی ہاتھوں سے پہنچیں اور تونے ہی انہیں قتل کیا ہے ۔ (2)
ام عامر، جنگ احد کی ایک بہادرو جانثار خاتون کا نام ہے اگر چہ اسلام میں ابتدائی جنگ حرام ہے لیکن کبھی کبھی باتجربہ خاتون میدان جنگ میں اسلامی سپاہیوں کی مدد کے لئے مدینہ منورہ سے باہر آتی تھیں اور پیاسوں کو سیراب کرنے، ان کے کپڑوں کو دھونے، زخمیوں کے زخموں کی دیکھ بھال کرنے جیسے امور کو انجام دیتی تھی اور مسلمانوں کی کامیابی کے لئے ہرممکنہ مدد کرتی تھیں۔  
ام عامر کہ جن کا نام نسیبہ ہے وہ کہتی ہیں: میں نے اسلامی فوج کے جانبازوں کو پانی پلانے کے لئے جنگ احد میں شرکت کی یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ مسلمانوں کی طرف کامیابی کی نسیم چلنے لگی لیکن اچانک مسلمانوں کی شکست کے آثار نمودار ہوئے اور راہ فرار اختیار کرنے لگے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرے میں ڈال دیا لہذا میں نے اپنا فریضہ منصبی سمجھا کہ آنحضرت کا دفاع کروں، میں نے مشک کو زمین پر رکھا اور ایک تلوار اٹھا کر دشمنوں کے حملوں کو روکتی اور کبھی تیراندازی کرتی تھی، وہ مزید کہتی ہیں کہ جس وقت لوگ دشمن کی طرف پشت کرکے بھاگ رہے تھے اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظر ایک شخص پر پڑی جو بھاگ رہا تھا آپ نے اس سے فرمایا: اب تم جب بھاگ ہی رہے ہو تو کم از کم اپنی سپر کو چھوڑ دو اس نے سپر چھوڑ دی، میں نے اس سپر کو اٹھایا اور استعمال کیا ۔اچانک میں نے دیکھا کہ دشمن کی فوج سے ایک شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حملہ کرنے کے لئے بڑھ رہا ہے اور اپنی برہنہ تلوار سے آپ کو قتل کرنا چاہتا ہے تو ہم نے اور مصعب نے اس کو آگے بڑھنے سے روک دیا تو اس نے جاتے جاتے میرے شانے پر ایک ضربت ماری اگر چہ ہم نے بھی اس پر پے در پے کئی ضربیں ماری مگر میری ضربت کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا  کیونکہ اس نے دو زرہ پہن رکھی تھی لیکن اس کی ضربت کا اثر ایک برس تک مجھ پر طاری رہا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہوں نے دیکھا کہ میرے شانے سے خون جاری ہے  یہ دیکھ کر آپ نے فورا میرے ایک بیٹے کو آواز دی اور فرمایا: اپنی ماں کے زخم پر پٹی باندھو ، اس نے میرے زخموں پر پٹی باندھی اس کے بعد میں آنحضرت کا دفاع کرنے میں مصروف ہوگئ ،کچھ دیر بعد ہی میں نے اپنے ایک بچے کو زخمی حالت میں دیکھا میں نے فورا ہی اپنے بیٹے کے زخموں پر پٹی باندھی اور چونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خطروں میں گھرے ہوئے تھے میں نے اپنے بیٹے کی طرف رخ کرکے کہا اے میرے لال اٹھو اور جنگ میں مشغول ہوجاؤ۔
 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بہادر و جانباز خاتون کی شہامت پر بہت زیادہ متعجب تھے اور جیسے ہی آپ کی نظر اس کے بیٹے " ضارب" پر پڑی تو فورا ہی نسیبہ سے فرمایا: یہ تمہارا بیٹا ضارب ہے اور یہ آدمی اس پر حملہ کرنا چاہتا ہے، دلسوز ماں نے کہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وجود نازنین پر پروانہ وار گھوم رہی تھی ایک بہادر شیر نر کی طرح اس مرد پر حملہ کردیا اور اس کی پنڈلیوں پر تلوار ماری جس سے وہ شخص زمین پر گرپڑا، یہ منظر دیکھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تعجب میں اس قدر اضافہ ہوا کہ آپ ہسنے لگے یہاں تک کہ آپ کے پیچھے کے دانت ظاہر ہوگئے اور آپ نے ارشاد فرمایا: اے نسیبہ تم نے اپنے بیٹے کا انتقام لے لیا ۔ اس بہادر خاتون نے تمام جانثاری اور قربانی کے مقابلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے لئے دعا کریں کہ پروردگار عالم جنت میں بھی مجھے آپ کی خدمت کرنے والا قرار دے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے حق میں دعا کی اور فرمایا: خدایا ان لوگوں کو جنت میں میرا ساتھی و رفیق قرار دے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظر میں اس شجاع و بہادر خاتوں کے دفاع کا منظر اتنا دلنشیں اوررضایت بخش تھا کہ آپ نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا:" لِمقامِ نَسیبَـۀِ بِنتِ کَعبٍ اَلیومُ خَیرٌ مِن فُلانٍ وَ فُلانٍ " آج اس خاتون کی حیثیت فلانے اور فلانے سے بہت زیادہ بہتر ہے۔ تاریخ اسلام کے مشہور و معروف مورخ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس میں خیانت کی ہے کیونکہ اس نے ان دونوں افراد کے نام کو کہ جن کو پیغمبر اسلام نے بیان کیا تھا جان بوجھ  کر ذکر نہیں کیا ہے۔(3)


جنگ کا خاتمہ 


گھمسان کی جنگ ختم ہوئی اور دونوں فوجیں ایک دوسرے سے دور چلی گئیں ، قریش کے افراد سے تین برابر زیادہ مسلمان اس جنگ میں قتل ہوئے تھے لہذا ضروری تھا کہ جتنی جلدی ممکن ہوتا اپنے عزیزوں کی لاشوں کو سپرد خاک کرتے مگر اس سے پہلے کہ مسلمان اپنے مرنے والوں کی لاشوں کو دفن کرنے کے لئے میدان جنگ میں پہنچتے قریش کی عورتوں نے وہاں پہنچ کر لاشوں کی ایسی بے حرمتی و جنایتیں کی کہ جس کی تاریخ انسانیت میں مثال نہیں ملتی، انہوں نے یہ سوچ کر کہ ان سے اپنا بدلہ لیں جو مسلمان قتل ہوکر خاک پر سوئے ہوئے تھے ان کے اعضاء بدن کان ،ناک کاٹ ڈالے جن میں سر فہرست ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے مسلمانوں کے اعضاء کو کاٹ کر اپنے لئے گلے کا ہار اور گوشوارہ بنا لیا اور اسلامی فوج کے عظیم جانثار سردار حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کے پیٹ کو پارہ کرکے آپ کے جگر کو باہر نکال کر چبا ڈالا۔
ابوسفیان کی بیوی ہندہ کا یہ کام اس قدر بدترین و شرم آور تھا کہ ابوسفیان نے کہا: میں اپنی بیوی کے اس برے عمل سے بیزار ہوں کیونکہ میں نے ایسا حکم نہیں دیا تھا مگر بہت زیادہ اس عمل سے ناراض بھی نہیں ہوں۔ یہ بدترین کردار اس بات کا باعث بنا کہ یہ عورت مسلمانوں کے درمیان " ہندہ جگر خوارہ " کے نام سے مشہور ہوگئی، جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہ لاشوں کے درمیان حضرت حمزہ علیہ السلام کے غم انگیز لاشہ اطہر پر پڑی تو بہت ہی زیادہ مغموم و محزون اور دشمن کی اس درندگی پر سخت ناراض ہوئے اور ارشاد فرمایا: اس وقت جو میں غم و غصہ اپنے اندر محسوس کررہا ہوں میری زندگی میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا۔
مورخین نے اپنی اپنی کتابوں میں تحریرکیا ہے کہ مسلمانوں نے یہ عہد کیا ( کبھی کبھی اس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی شامل کیا ہے) کہ اگر مشرکین ان کے ہاتھ لگ گئے تو ان کے مرنے والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں گے اور ایک آدمی کے بجائے ان کے تیس آدمیوں کو مثلہ( یعنی کان و ناک اور بدن کے ٹکڑے کرنا) کردیں گے لیکن ابھی کچھ ہی دیر گذری تھی کہ پروردگار عالم کی جانب سے یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی " وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ" اور اگر تم ان کے ساتھ سختی بھی کرو تو اسی قدر جس قدر انہوں نے تمہارے ساتھ سختی کی ہے اور اگر صبر کرو تو صبر بہرحال صبر کرنے والوں کے لئے بہترین ہے۔(4)
دوسری جانب حضرت حمزہ علیہ السلام کی بہن جناب صفیہ اپنے بھیا کے جنازے پر جانے کے لئے بہت زیادہ اصرار کررہی تھیں لیکن ان کے بیٹے زبیر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے باوجود اپنی ماں کو میدان جنگ میں آنے سے روک رہے تھے جناب صفیہ نے اپنے بیٹے سے کہا: میں نے سنا ہے کہ میرے بھیا کی لاش کو مثلہ کیا گیا ہے، خدا کی قسم میں اپنے بھیا کی لاش کے سراہنے پہنچ کر ذرہ برابر بھی ناراضگی کا اظہار نہیں کروں گی اور اس مصیبت عظمی کو راہ خدا میں بہ سر وچشم قبول کروں گی۔
آخرکار یہ عظيم المرتبت خاتون نہایت ہی وقار و کمال کے ساتھ بھیا کی لاش کے سرہانے پہنچیں ان کے جنازے پر نماز پڑھی اور بارگاہ خداوندی میں ان کی مغفرت کی دعائیں کی اور واپس آگئيں، اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہدائے اسلام کے جنازوں پر نماز پڑھی اور انہیں دفن کردیا گیا۔(5)


ایک باایمان عورت کا حیرت انگیز واقعہ


بنی دینار کی ایک خاتون کہ جس کا شوہر، باپ اور بھائی پہلے ہی قتل ہوچکے تھے عورتوں کے مجمع میں بیٹھی ہوئی گریہ و زاری میں مشغول تھی اور دوسری عورتیں بھی گریہ و زاری میں مشغول تھیں کہ اچانک ادھر سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا گذر ہوا جیسے ہی اس غمزدہ خاتون کی نظر پیغمبر اسلام پر پڑی تو اپنے تمام مصائب و آلام بھول کردل کی گہرائيوں سے بے اختیار آںحضرت کو آواز دی کہ جس سے ایک انقلاب برپا ہوگیا اس نے عرض کیا کہ اے رسول خدا آپ کی راہ میں ہر طرح کے مصائب و آلام بہت ہی آسان ہیں تاکہ آپ زندہ رہیں ہم پر جو بھی مصیبت آئے گی میں اسے کمتر شمار کروں گی اور اسے نظر انداز کردوں گی۔(6)
 


سوال:

1. حضرت حمزہ علیہ السلام کی شہادت کس طرح واقع ہوئی ۔؟


منابع:


    (1)  تاریخ التواریخ " محمد نقی سپہر" ج 1، ص 357
    (2)   سیره نبویة " ابن هشام"  ج 2 ص 72
    (3)  شرح نهج‎البلاغه، ابن ابی الحدید، ج 14 ص 256
    (4)  سوره نحل آیت 126
    (5)   بحارالانوار " مجلسی"  ج 20  ص 131
    (6) سیره حلبیۀ " ابوالفرج حلبی" ج 2 ص 342
 
 
دفترنشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت

مولف: علی ریختہ گرزادہ تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: