مواد کا کوڈ۔: 45
ہٹس: 91
تاریخ اشاعت : 03 September 2023 - 08: 52
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (6)
امام علیہ السلام کی سرپرستی میں مختصرسا قافلہ روانہ ہوا اورمکہ مکرمہ سے باہر نکلا امام علیہ السلام کا قافلہ ابھی سرزمین ''ضجنان'' پہنچنے ہی والا تھا کہ سات نقاب پوش سوارسامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے اور اپنے گھوڑوں کو بہت تیزی کے ساتھ قافلے کی طرف دوڑائے ہوئے تھے.

قریش نے حضرت علی علیہ السلام کا تعاقب کیا


امام علیہ السلام کی سرپرستی میں مختصرسا قافلہ روانہ ہوا اورمکہ مکرمہ سے باہر نکلا امام علیہ السلام کا قافلہ ابھی سرزمین ''ضجنان'' پہنچنے ہی والا تھا کہ سات نقاب پوش سوارسامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے اور اپنے گھوڑوں کو بہت تیزی کے ساتھ قافلے کی طرف دوڑائے ہوئے تھے. امام علیہ السلام نےعورتوں کو ہرطرح کی مشکلات سے بچانے اوران کی حفاظت کے لئے واقد اور ایمن کوحکم دیا کہ فوراً  اونٹوں کو بٹھادو اوران کے پیروں کو باندھ دو پھر عورتوں کو اونٹوں سے اتارنے میں مدد فرمائی، جیسے ہی یہ کام ختم ہوا تمام نقاب پوش سوار برہنہ تلواریں لئے ہوئے قافلے کے قریب آگئے اور چونکہ وہ غصے سے بھرے ہوئے تھے لہذا برا و ناسزا کہنا شروع کردیا کہ کیا تم یہ سوچ رہے ہو کہ ان عورتوں کے ساتھ ہمارے سامنے فرار کرسکتے ہو؟ حتماً اس سفر سے باز آجاؤ!حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اگر واپس نہ گیا تو کیا کرو گے؟
انہوں نے کہا: زبردستی تم کو اس سفر سے روکیں گے یا تمہارے سر قلم کردیں گے۔ اتنا کہنے کے بعد وہ لوگ اونٹوں کی طرف بڑھے تاکہ ان کو واپس لے جائیں اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے اپنی تلوارنکال کران کو اس کام سے روکا ان میں سے ایک شخص نے اپنی برہنہ تلوارحضرت علی علیہ السلام کی طرف چلائی،حضرت ابوطالب علیہ السلام کے بہادر لال نے اس کی تلوار کے وار کو روکا اوراس پر شدید حملہ کردیا اور اپنی تلوار سے ''جناح'' نامی شخص پر وار کیا. قریب تھا کہ تلوار اس کے شانے کو کاٹتی کہ اچانک اس کا گھوڑا پیچھے کی طرف ہٹا اورامام کی تلوار گھوڑے کی پشت پر جالگی،اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے ان سب کو متوجہ کرتے ہوئے بآواز بلند فرمایا:
" میں عازم مدینہ ہوں اور میرا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ملاقات کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں ہے جو شخص بھی یہ ارادہ رکھتا ہے کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کریں اور ان کا خون بہائیں وہ میرے ساتھ یا میرے نزدیک آئے۔" اتنا کہنے کے بعد آپ نے ایمن او رابوواقد کو حکم دیاکہ فوراً اٹھ کر اونٹوں کے پیر کھول دیں اور چلنے کے لئے آمادہ ہوجائیں۔
دشمنوں نے یہ احساس کرلیا کہ حضرت علی علیہ السلام جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں اورانہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص عنقریب موت کی آغوش میں پہنچنے ہی والا تھا اس لئے اپنے ارادے سے باز آگئے اور مکہ مکرمہ کے راستے کی طرف چل پڑے. امام علیہ السلام نے بھی اپنے سفر کو مدینے کی طرف جاری رکھا آپ نے کوہ ضجنان کے نزدیک ایک دن اورایک رات قیام کیا تاکہ وہ لوگ جو ہجرت کے لئے آمادہ تھے وہ بھی آجائیں . تمام افراد میں سے جو حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے ہمراہیوں سے ملحق ہوئیں وہ ام ایمن تھیں جوایک پاکدامن عورت تھیں جنہوں نے آخرعمر تک خاندان رسالت کو نہیں چھوڑا۔ تاریخ کا بیان ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے یہ پورا راستہ پیدل چل کرمکمل کیا اور ہر ہر منزل پر خدا  کا ذکر کرتے رہے اور پورے سفر میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نماز پڑھی۔
جب حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے ہمراہی مدینہ منورہ پہنچے تو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے دیدار کے لئے فوراً ان کی طرف گئے جس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہ حضرت علی علیہ السلام پر پڑی تو آپ نے دیکھا کہ ان کے پیر ورم کی وجہ سے پھول گئے ہیں اور ان سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں.آپ نے فوراً ہی حضرت علی علیہ السلام کو گلے سے لگایا اس وقت آپ کی چشم مبارک سے آنسوؤں کے قطرات جاری ہوگئے۔(1)


اتحاد اور بھائی چارگی


آئین اسلام کا ایک اہم اور اجتماعی اصول ''اخوت و برادری'' ہے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مختلف صورتوں سے اخوت و برادری کو عام کرنے میں بہت زیادہ کوشاں رہے ہیں۔ مہاجرین کے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد پہلی مرتبہ اخوت وبرادری کا رشتہ انصار کے دو گروہ یعنی اوس و خزرج کے درمیان پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعے قائم ہوا۔ یہ دو قبیلے جومدینہ منورہ ہی کے رہنے والے تھے اور عرصۂ دراز سے آپس میں جنگ وجدال کرتے تھے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوششوں کے نتیجے میں ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اور ارادہ کرلیا کہ ہم لوگ پرانی باتوں کو کبھی نہیں دہرائیں گے.اس اخوت و برادری کا ہدف و مقصد یہ تھا کہ اوس و خزرج جو اسلام کے دوعمدہ گروہ مشرکوں کے مقابلے میں تھے وہ آپس میں ظلم وبربریت، لڑائی جھگڑا اور ایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے باز آجائیں اور پرانی دشمنی کی جگہ صلح و صفا کویاد رکھیں۔ مشہور فارسی شاعرجناب مولوی کے بقول
دو قبیله که اوس و خزرج نام داشت   یک زدیگر جام خون آشام داشت
کینه‏ های کهنه شان از مصطفی            محو شد در نور اسلام و صفا
اولاً اخوان شدند آن دشمنان                  همچو اعداد عنب در بوستان
دردم المومنون اخوۀ به ‏پند                      در شکستند و تن واحد شدند
آفرین بر عشق کل اوستاد                        صدهزار ذره را داد اتحاد
همچو خاک مغترق در رهگذر                یک سبوشان کرد دست کوزه گر
دوسری مرتبہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابیوں اوردوستوں چاہے مہاجرین سے ہوں یا انصار میں سے حکم دیا کہ آپس میں ایک دوسرے کو اپنا بھائی بنالیں اوردوسرے کے بھائی بن جائیں،کتنی عمدہ بات ہے کہ دومہاجرایک دوسرے کے بھائی یا ایک مہاجر میں سے اور ایک انصار میں سے ایک دوسرے کے بھائی بن گئے اور بھائی چارگی کے عنوان سے ایک دوسرے کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا اور اس طرح سے ایک سیاسی اور معنوی قدرت و طاقت ابھر کر ان کے سامنے آگئی۔
اسلامی مورخین ومحدثین لکھتے ہیں کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم بارہ رمضان المبارک سن ایک ہجری قمری کو اپنے دوستوں سے فرمایا: "تَـآخُوا فِی اللهِ اَخَوَیْنْ اَخَویْنُ" یعنی خدا کی راہ میں آپس میں دو دو آدمی بھائی بن جاؤ۔
تاریخ اسلام نے اس موقع پران افراد کا نام ذکر کیا ہے جن لوگوں نے اس دن پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم سے ایک دوسرے کے ساتھ رشتۂ اخوت کو قائم کیا مثلاً ابوبکر اور عمر، عثمان اور عبدالرحمن بن عوف، طلحہ اور زبیر، ابوذر اور ابن مسعود، عمار اور مقداد اور سلمان اور ابوخذیفہ وغیرہ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بنے اور ان افراد کی بھائی چارگی کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تائید کیا یہ برادری اور بھائی چارگی جو چند افراد کے درمیان قائم ہوئی اس برادری اور اسلامی برادری کے علاوہ ہے کہ جسے قرآن کریم نے اسلامی معاشرے میں معیار ومیزان قرار دیا ہے اور تمام مومنین کوایک دوسرے کا بھائی کہا ہے۔


حضرت علی علیہ السلام پیغمبراسلام کے بھائی ہیں


رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جتنے افراد بھی مسجد نبوی میں حاضر تھے انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنایا،صرف علی علیہ السلام ان کے درمیان تنہا بچے جن کے لئے بھائی کا انتخاب نہیں کیا،اس وقت حضرت علی علیہ السلام آنکھوں میں آنسوؤں کی سوغات لئے ہوئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ نے اپنے تمام دوستوں کے لئے ایک ایک بھائی کا انتخاب کردیا لیکن میرے لئے کسی کو بھائی نہیں بنایا۔ اس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا تاریخی کلام جو حضرت علی علیہ السلام کی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قربت و منزلت، نسبت اور آپ کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
" اَنتَ اَخی فِی الدُّنیا وَ الاخِرَۀ وَ الَّذی بَعَثَنی بِاْلحَقِ ما اَخَّرتُکَ اِلّا لِنَفسی اَنتَ اَخی فِی الْدُنیا وَ الْاخِرَۀ ''(2)
" تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو وہ خدا جس نے ہمیں حق پر مبعوث کیا ہے میں نے تمہاری برادری کے سلسلے میں خود تاخیر سے کام لیا ہے تاکہ تمہیں اپنا بھائی قرار دوں ایسی بھائی چارگی جو دونوں جہاں یعنی دنیا و آخرت میں باقی رہے۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ کلام حضرت علی علیہ السلام کی عظمت اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نسبت کو معنوی و پاکیزگی اور دین کے اہداف میں خلوص کو بخوبی واضح و روشن کرتا ہے خود اہل سنت کے دانشمندوں میں سے الریاض النضرة کے مولف نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔
یہاں پر آیت مباہلہ (3) کی تفسیر کا مبنٰی سمجھ میں آتا ہے اور تمام علمائے تفسیر کا اتفاق ہے کہ " انفسنا و انفسکم" سے مراد علی بن ابی طالب علیہما السلام ہیں جنہیں قرآن کریم نے ''نفس پیغمبر'' کے خطاب سے یاد کیا ہے۔


ایک اہم وضاحت


مباہلے کے واقعے میں کہ جس میں طے پایا تھا کہ رسول خدا صلی علیہ و آلہ وسلم نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کریں گے اور ہر ایک اپنی اپنی باتوں کو پیش کرے گا اورجھوٹوں پر لعنت کرے گا خداوندعالم حکم دیتا ہے کہ دونوں گروہ آمادہ ہوجائیں اور اپنے اپنے بیٹوں، عورتوں اور مردوں کو لائیں اور جھوٹوں پر نفرین کریں، قابل غور بات یہ ہے کہ اس آيت کریمہ میں تین الفاظ ہیں ایک لفظ "ابناء" ہے جو امام حسن اور امام حسین علیہماالسلام پر اطلاق ہوتا ہے اور ایک لفظ "نساء" ہے جس کا اطلاق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر آتا ہے اور تیسرا لفظ "انفسنا" ہے جس کا اطلاق حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی پرنہیں ہوتا ہے کیونکہ جو لوگ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گروہ میں تھے حضرت کے علاوہ چارافراد تھے، حضرت امام حسن اورامام حسین علیہما السلام ہیں جو ابناء کے زمرے میں آتے ہیں اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کہ جو نساء کے ذيل میں آتی ہیں اور اب باقی صرف پیغمبراسلام اور حضرت علی علیہ السلام بچتے ہیں اور چونکہ پیغمبراسلام خود بلانے والے تھے اور خداوندعالم کی طرف سے یہ ذمہ داری عائد تھی کہ ان افراد کو دعوت دیں، مفسرین کے قول کے مطابق یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ خود آنحضرت انفسنا کے زمرے میں قرار پائيں اور اس ترتیب سے صرف حضرت علی علیہ السلام باقی بچتے ہیں اور چونکہ آپ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس موجود تھے لہذا انفسنا کے زمرے میں آتے ہیں، خود قرآن کریم اور مفسرین کے قول کے مطابق اس آیت کریمہ میں نفس سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔  
آیت مباہلہ سے یات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام جان پیغمبر اور قانون اخوت کے مطابق آنحضرت کے بھائی ہیں یہ وہی فکر اور روحی تجربے ہیں جو ان دونوں کے درمیان موجود ہے دو آدمی کہ جس نے فکری اعتبار سے ایک دوسرے کو مکمل طور پر درک کیا ہے نہ یہ کہ صرف دو فکروں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں بلکہ کبھی کبھی دو انسان کو ایک ہی شخص بتاتی ہیں۔ مشہور فارسی شاعر مولوی کے بقول:
             من کیم لیلی و لیلی کیست من    ما یکی روحیم اندر دو بدن
اور اس سے بھی زیادہ لطیف یہ مضمون ہے جسے اس کے بعد میں بیان کیہ ہے کہتے ہیں:
اَنَا مَنْ اَهْوی وَ مَنْ اَهْوی اَنا              نَحْـنُ رُوحـانِ حَلَلْنـا بَـدَنــا
" میں وہ ہوں جو اس کو دوست رکھتا ہوں اور وہ شخص کہ جسے میں دوست رکھتا ہوں"
حضرت علی علیہ السلام کی ایک اور فضیلت
جب مسجد نبوی کی تعمیر ہوچکی تو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابیوں نے مسجد کے اطراف میں اپنے اپنے لئے گھر بنایا اور ہرگھر کا ایک دروازہ مسجد کی طرف کھلتا تھا. پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بحکم خدا فرمایا: تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے ہیں انہیں بند کردیا جائے سوائے علی بن ابی طالب کے دروازے کے، یہ بات رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بہت سے صحابیوں پر ناگوارگذری لہٰذا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ: خداوندعالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے ہیں اسے بند کردوں سوائے حضرت علی کے دروازے کے اور خود میں نے اپنی طرف سے دروازہ بند کرنے یا کھولنے کا حکم نہیں دیا ہے اور میں اس مسئلے میں خدا کے حکم کا پابند ہوں۔(4)
اس دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام صحابیوں نے اس فضیلت کو حضرت علی علیہ السلام سے منسوب کردیا یہاں تک کہ بہت زمانے کے بعد خلیفۂ دوم نے کہا کہ کاش وہ تین فضیلتیں جوعلی علیہ السلام کو نصیب ہوئیں وہ مجھے بھی نصیب ہوتیں اور وہ تین فضیلتیں یہ ہیں:
1۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیٹی کا عقد علی علیہ السلام سے کیا۔
2۔ تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے تھے وہ بند ہوگئے صرف علی علیہ السلام کے گھر کا دروازہ کھلا رہا۔
3۔ جنگ خیبر میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علم کوعلی علیہ السلام کے ہاتھوں میں دیا۔(5)
حضرت علی علیہ السلام اور لوگوں کے درمیان جو فرق ہے وہ اسی لئے کہ آپ کا مسجد سے کسی وقت بھی رابطہ منقطع نہیں ہوا وہ خداوندعالم کے گھر میں پیدا ہوئے اورکعبہ میں آنکھ کھولی تھی اس بناء پر پہلے ہی دن سے مسجد آپ کا گھرتھا اوریہ تمام فضیلتیں کسی دوسرے کے لئے نہ تھیں، اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام ہمیشہ اور ہرحالت میں مسجد کے احکام کی رعایت کرتے تھے لیکن دوسرے افراد بہت کم مسجد کے آداب و احکام کی رعایت کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوالات:


1- قانون اخوت کیا ہے۔؟
2۔ مفسرین کے قول کے مطابق آیت مباہلہ میں " انفسنا و انفسکم" سے مراد کون ہے۔؟
3- کیا چیزسبب بنی کہ حضرت علی علیہ السلام رسول خدا کے بھائی قرار پائے۔؟


منابع:


1-  اعلام الوریٰ ص 192 ، تاریخ کامل  ج2 ص 75
2- مستدرک حاکم ج3 ص 14، استیعاب ابن عبد البر ج3 ص 35
3- سورہ آل عمران آیت 61
4- مسند احمد بن حنبل ج3 ص 349، مستدرک حاکم ج3 ص 125، الریاض النضرة، ج3 ص 192
5- فضائل الصحابہ ج 2 ص 659
 


 دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: