مواد کا کوڈ۔: 25
ہٹس: 1891
تاریخ اشاعت : 28 November 2022 - 08: 35
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات(17)
کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ تلخ واقعات نے قریش کو اس بات پر اکسایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخوات کریں کہ صلح نامہ کی دوسری شق کو حذف کردیں وہی شق جس نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابیوں کو غضبناک کردیا تھا۔

قریش کا صلح نامہ کی دوسری شق کو حذف کرنے پر اصرار


کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ تلخ واقعات نے قریش کو اس بات پر اکسایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخوات کریں کہ صلح نامہ کی دوسری شق کو حذف کردیں وہی شق جس نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابیوں کو غضبناک کردیا تھا اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سہیل کی سختیوں کی بناء پر اور مصلحت کو دیکھتے ہوئے اسے قبول کرلیا تھا وہ شق یہ تھی کہ مسلمانوں پرلازم ہے کہ مسلمان قریش میں سے جو شخص راہ فرار اختیارکرے اسے مکہ واپس بھیج دیں، لیکن قریش پر لازم نہیں ہے کہ وہ بھاگنے والے مسلمان کو واپس کریں۔ اس شق نے اس دن مسلمانوں کے گروہ کو غضبناک کردیا تھا لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خوشحال چہرے کے ساتھ اس کو قبول کرتے ہوئے فرمایا:
خداوندعالم اسلام کے ماننے والے کمزور افراد کو کہ جو قریش کی قید میں ہیں راہ نجات فراہم کرے گا ابھی کچھ ہی وقت گذرا تھا کہ نجات کا راستہ نظر آگیا اور قریش نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست کی کہ اس شق کو حذف کردیں، اس شق کو حذف کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ابوبصیر نامی ایک مسلمان کہ جو عرصہ دراز سے مشرکوں کے قید میں مقید تھا ایک خاص تدبیر کے ساتھ مدینہ منورہ بھاگ گیا ، ادھر دو بزرگ شخصیتوں نے کہ جن کا نام ازہر اور اخنس تھا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خط لکھا اوریاد دہانی کرائی کہ شق نمبر دو کے مطابق ضروری ہے کہ ابوبصیر کو واپس بھیج دیجئے ان لوگوں نے بنی عامرکے ایک شخص اور اس کے غلام کو خط سپرد کرکے کہا کہ اسے پیغمبراسلام صی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچا دو۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق ابوبصیر سے فرمایا: تم اپنی قوم کے پاس واپس چلے جاؤ کیونکہ یہ کسی بھی اعتبارسے صحیح نہیں ہے کہ ہم ان کے ساتھ دھوکہ و فریب سے کام لیں، میں مطمئن ہوں کہ خداوندعالم تمہاری آزادی کا سامان ضرور فراہم کرے گا، ابوبصیر نے عرض کیا: اے پیغمبر کیا آپ ہمیں مشرکوں کے سپرد کریں گے تاکہ وہ ہمیں دین خدا سے دور کردیں؟ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوبارہ پہلے والے جملے کی تکرار کی اور اسے قریش کے نمائندوں کے سپرد کردیا اور وہ لوگ  مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
جب وہ لوگ " ذوالحلیفہ" نامی مقام پر پہنچے کہ جو مدینہ منورہ سے تقربیا چھ یا سات میل کی دوری پر واقع تھا تو ابوبصیر تھکاوٹ کی بناء پر دیوار پر ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا اور عامری شخص سے نہایت ت ہی محبت بھرے انداز میں کہا: ذرا سا اپنی تلوار مجھے دینا تاکہ میں کچھ سرگرم ہوجاؤں جیسے ہی تلوار اس کے ہاتھ میں پہنچی اس نے تلوارکو نیام سے نکالا اور پلک جھپکتے ہی اس عامری شخص کو قتل کردیا اور اس کا غلام خوف و ہراس سے کانپتا ہوا مدینہ منورہ آگيا اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر پورا ماجرا بیان کیا ابھی کچھ ہی دیر گذری تھی کہ ابوبصیر بھی آگیا اور تمام حالات کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بیان کیا اور عرض کیا اے پیغمبر خدا، آپ نے عہد و پیمان پر عمل کیا لیکن میں اس بات کے لئے تیار نہیں ہوں کہ اس گروہ کے ساتھ ملحق ہوجاؤں جو ہمارے مذہب سے کھلواڑ کرتے ہیں یہ کہنے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر باہر نکل آیا اور دریا کے کنارے کہ جہاں سے قریش گذرتے ہیں آگیا اور "عیص" نامی مقام پر رہنے لگا ، ادھر مکہ مکرمہ کے مسلمان ابوبصیر کے واقعے سے آگاہ ہوئے تو قریش کی قید سے تقریبا ستر افراد بھاگ کر ابو بصیرسے ملحق ہوگئے اور یہ منصوبہ بنایا کہ جب قریش کا تجارتی قافلہ یہاں سے گذرے گا تو اسے غارت کردیں گے یا ان میں سے جس کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئے اسے قتل کردیں گے کیونکہ یہ تھوڑے سے مسلمانوں کے پاس نہ زندگی بسر کرنے کا کوئی راستہ تھا اور نہ ہی آزادی، ان لوگوں نے اپنے منصوبے کو اس طرح ماہرانہ انداز سے عملی جامہ پہنایا کہ قریش عاجز آگئے اس لئے قریش نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خط لکھا کہ اس شق کو طرفین کی رضایت سے حذف کردیں اور ان لوگوں کو مدینہ منورہ واپس بھیج دیں ۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس شق کو دونوں گروہوں کی رضایت سے حذف کردیا اوران فراری افراد کو کہ جنہوں نے مقام عیص پرسکونت اختیار کی تھی واپس مدینہ بلوا لیا۔ (1)
اور اس طرح سے تمام افراد کے لئے آزادانہ طور پر رفت و آمد کا زمینہ فراہم ہوگيا اور قریش کو بھی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ اب اس سے زیادہ مسلمانوں پر سختی اور دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ ہی زور و زبردستی کی جاسکتی ہے۔  


مسلمان عورتوں کو قریش کے حوالے نہیں کیا جا سکتا


بہرحال حدیبیہ کے صلح نامہ پر دستخطیں ہوگئيں۔ عقبہ بن ابی معیط کی بیٹی ام کلثوم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئی، اس کے بھائیوں یعنی عمارہ اور ولید نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اے رسول خدا دوسری شق کے مطابق میری بہن کو واپس بھیج دیجئے ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اس شق میں عورتیں شامل نہیں ہیں کیونکہ یہ شق مردوں سے متعلق ہے اور قرآن کریم کی سورہ ممتحنہ نے بھی عورتوں کی ذمہ داریوں کے بارے میں اشارہ کیا ہے(2) ارشاد رب العزت ہوتا ہے:  ایمان والو جب تمہارے پاس ہجرت کرنے والی مومن عورتیں آئیں تو پہلے ان کا امتحان کرو کہ اللہ ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے پھر اگر تم بھی دیکھو کہ یہ مومنہ ہیں تو خبردار انہیں کفاّر کی طرف واپس نہ کرنا ۔)3)
ایسے سکون و اطمینان کے ماحول میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دنیا کے بادشاہوں اور سلاطین کو خطوط لکھے اور اپنی نبوت اور اسلام کی دعوت پوری دنیا میں بسنے والی انسانیت کے کانوں تک پہنچا دیا۔


بادشاہوں اور قبائل کے سرداروں کو اسلام کی دعوت


صلح حدیبیہ کے معاہدے کے بعد بعض عرب سربراہوں کی آئين اسلام اور مسلمانوں کے عظیم رہبر و پیشوا سے انسیت و رغبت کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس عظیم موقع سے استفادہ کرتے ہوئے بادشاہوں، قبیلے کے سرداروں اور دنیا بھر کے اس زمانے کے عیسائی رہنماؤں کے نام خطوط تحریر کئے، وہ خطوط جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بادشاہوں، سلاطین، قبیلوں کے سرداروں اور معنوی اور سیاسی برجستہ و معتبر شخصیتوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے لکھا ہے وہ آپ کی دعوت دینے کی روش کو بیان کرتے ہیں۔
اس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک سو پچاسی خطوط موجود ہیں جنہیں محدثین اور مورخین نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ان خطوط کی عبارت میں جو جگہ جگہ پر نصیحتیں ، موعظے،اخلاقی نمونے اور مختلف اقوام وملل سے عہد و پیمان باندھتے وقت جو اخلاقی مظاہرے پیش کئے تھے وہ سب کے سب مستشرقین کے نظریات کے خلاف بہترین گواہ ہیں جو اسلام کے چہرے کو ہمیشہ داغدار کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں، اسلام پر ہمیشہ ناروا تہمتیں لگاتے رہتے ہیں اور اسلام کی ترقی و پیشرفت کو نیزہ و تلوار سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔


دربارایران کے نام پیغمبر اسلام کا خط


ہجرت کے ساتویں برس کے آغاز میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک معتبر سردار یعنی عبداللہ سہمی قریشی کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ آپ کا خط لے کر دربارایران جائے اور نوشیروان عادل کے بعد کہ جو نہایت ہی متکبر، بے تدبیرو ناسمجھ ، عیاش اورعیش و نوش کی زندگی بسر کرتا تھا، ایران کے دوسرے بادشاہ خسرو پرویز تک پہنچائے اس خط کی عبارت یہ تھی :
خداوندعالم کے نام سے جو بخشنے والا اور نہایت ہی مہربان ہے۔
خدا کے رسول محمد کی طرف سے ایران کے بادشاہ کسری کے نام
"  سلام ہو سالکان ہدایت پر، خدا اور اس کے رسول کے ماننے والوں پر اور اس پر جو خدا کی یکتائی اور اس کے بندے محمد کی رسالت کی گواہی دے ، میں تمہیں خدا کے حکم سے اسلام کی دعوت دیتا ہوں، میں تمام لوگوں کے لئے خدا کا رسول ہوں تاکہ بیدار دلوں کو عذاب الہی سے ڈراؤں اور کافروں کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے، اسلام قبول کرلو تاکہ صلح و سلامتی کے حصار میں آجاؤ اور اگرروگردانی کروگے تو مجوسیوں کے گناہ کی تمہارے ذمہ ہوگی۔ "(4)
حکیم نظامی نے اس واقعے کو اپنے اشعار میں اس طرح سے نظم کیا ہے :
تو ای عاجز که خسرو نام داری                   وگر کیخسروی صد جام داری
مبین درخود که خودبین را بصرنیست        خدا بین شو که خود دیدن هنر نیست
گواهی ده که عالم را خدایی است               نه بر جا ونه حاجتمند جایی است
خدایی کآدمی را سروری داد                      مرا بر دمی پیغبمری داد
" اے عاجز شخص کہ تیرا نام خسرو ہے ورنہ خسرو کے پاس سو جام کہاں ہیں"
" اپنے کو نہ دیکھو کیونکہ خود بین آدمی کے پاس بصارت نہیں ہوتی بلکہ خدا بین بنو کیونکہ خود کو دیکھنا ہنر نہیں ہے۔"
" گواہی دو کہ کائنات میں ایک خدا ہے نہ جگہ اور نہ ہی ہر حاجتمند کے لئے کوئی جگہ ہے۔"
"ایک خدا ہے جیسے کہ ہر آدمی کا ایک سردارہوتا ہے ویسے ہی میرے پاس بھی ایک پیغمبر ہے۔"  
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سفیر نے دربارایران میں قدم رکھا خسرو پرویز نے حکم دیا کہ اس سے خط لے لیا جائے مگر سفیر نے کہا کہ میں خط کو خود ان کے ہاتھوں میں دینا چاہتا ہوں اور پھرخط کو خسرو پرویزکے سپرد کردیا ،خسرو پرویز نے مترجم کو بلوایا، مترجم نے خط کھول کر پڑھنا شروع کیا:
" یہ خط خدا کے رسول محمد کی طرف سے ایران کے بادشاہ کسری کے نام ہے۔"
ابھی مترجم خط کو پڑھ کر سنا ہی رہا تھا کہ بادشاہ کسری آگ بگولہ ہوگیا ، چيخنے لگا اور فورا ہی مترجم سے خط لے کر پھاڑ دیا اور چلا کر کہنے لگا کہ ذرا اس شخص کو دیکھو اس نے اپنا نام میرے نام سے پہلے لکھا ہے، فورا ہی حکم دیا کہ عبداللہ کو قصر سے نکال باہرکرو، عبداللہ قصر سے باہر آگیا اور اپنی سواری پر سوار ہوکر مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوگيا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کرپورے واقعے سے آپ کو باخبر کیا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خسرو پرویز کی اس بے احترامی سے بہت سخت ناراض ہوئے غیظ و غضب کے آثار آپ کے چہرہ انور پر نمایاں تھے آپ نے اس پر اس طرح لعنت و ملامت کی: خدایا اس کی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھنک دے۔ اس بارے میں حکیم نظامی اپنے اشعار میں کہتے ہیں: 
چو قاصد عرضه کرد آن نامه نو                بجوشید از سیاست خون خسرو
که را زَهره که با این احترامم                    نویسد نام خود بالای نامم
درید آن نامه‎ی گردن شکن را                   نه نامه بلکه نام خویشتن را
" جب قاصد نے خط کو پیش کیا تو خسرو پرویز اس روش کو دیکھ کر غضبناک ہوگيا۔" " کون ہے ایسا شخص جس نے میرا احترام نہ کرکے اپنے نام کو میرے نام کے اوپر لکھا ہے۔"
" اس نے آنحضرت کے خط کو پھاڑ دیا نہ صرف اس خط کو بلکہ خود اپنے نام کو بھی"  
لیکن خسرو پرویز نے صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ یمن کے کمانڈر باذان کے نام کہ جس کی حکومت ساسانی بادشاہوں کے ہاتھوں میں تھی ایک خط لکھا:
" مجھے خبر ملی ہے کہ قریش کے ایک شخص نے مکہ میں نبوت کا دعوی کیا ہے تم اپنے دو معتبرسرداروں کو ان کی طرف بھیجو تاکہ اسے گرفتارکرکے میرے پاس لائیں، یا ایک قول کے مطابق اس نے باذان کو حکم دیا کہ تمہارے یہ دونوں سردار ان کے پاس جائیں اور انہیں کسی نہ کسی طرح سے ان کے دین سے منحرف کردیں اور اگروہ قبول نہ کریں تو ان کا سر تن سے جد ا کرکے میرے پاس بھیج دیں۔
یہ خط اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ بادشاہ ایران دین اسلام کے آ‏ئین وقوانین اور اس کی ترقی و پیشرفت سے بے خبر تھا کیونکہ پہلے تووہ یہ سمجھ رہا تھا کہ پیغمبر اب بھی مکہ مکرمہ میں ہیں،حالانکہ چھ برس پہلے پیغمبراسلام صی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت کرچکے تھے دوسرے یہ کہ ایسا شخص کہ جس کی قدرت و جرات اس قدر ہے کہ وہ شاہ ایران کو خط لکھے تو وہ کبھی بھی دو سرداروں کے ہاتھوں گرفتار نہیں ہوسکتا۔ 
بادشاہ کے حکم کے مطابق یمن کے کمانڈر نے دو سرداروں کو حجاز روانہ کیا ان دونوں افسروں نے سب سے پہلے طائف میں رہنے والے ایک شخص سے رابطہ برقرار کیا اس نے ان دونوں کی راہنمائی کی اور کہا جس شخص کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو وہ اس وقت مدینہ منورہ میں ہے یہ دونوں مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور باذان کا خط آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا: ہم دونوں کو یمن کے کمانڈر نے حکم دیا ہے کہ آپ کو یمن کے حالات سے آگاہ کریں شاید باذان آپ کے بارے میں خسرو پرویز سے خط و کتابت کرے اور اس کی رضایت کو حاصل کرے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہمارے اور آپ کے درمیان بھیانک جنگ شروع ہوجائے گی اور ساسانی حکومت آپ کے گھروں کو جلا کر راکھ کردے گی اور آپ کے مردوں کو قتل کردے گی۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بہت ہی اطمینان کے ساتھ ان دونوں کی باتیں سنیں اور سب سے پہلے ان کو اسلام کی دعوت دی اوران کا چہرہ کہ جن پر بلند مونچھیں تھیں جو ان کے لبوں کو چھپائے ہوئے تھی دیکھ کر خوش نہ ہوئے۔ دوسری جانب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا رعب ، ہیبت اور عظمت و اطمینان نے انہیں اس قدر مرعوب کیا کہ جس وقت آپ نے ان دونوں کو اسلام کے قوانین و اصول سے آگاہ فرمایا تو ان کے جسم لرزنے لگے۔
اس کے بعد آپ نے ان دونوں سے فرمایا: آج تم لوگ واپس جاؤ کل میں تم لوگوں کو اپنے نظرئیے سے باخبر کروں گا، اس وقت وحی آسمانی نازل ہوئی اور فرشتہ وحی الہی حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خسرو پرویز کے قتل ہونے کی خبر دی، دوسرے دن کہ جس دن یمن کے کمانڈرکے بھیجے ہوئے دونوں سردار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خدمت میں جواب لینے کے لئے پہنچے تو آپ نے فرمایا: خداوندعالم نے ہمیں خبردی ہے کہ رات کو خسرو پرویز کو اس کے بیٹے "شیرویہ" نے قتل کردیا اور خود تخت سلطنت پر بیٹھ گيا، جس رات کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معین فرمایا تھا وہ رات دس جمادی الاول سن سات ہجری منگل کی رات تھی۔ باذان کے بھیجے ہوئے سردار یہ خبر سن کر بہت ہی زیادہ وحشت زدہ اور خوف و ہراس میں مبتلا ہوگئے اور کہنے لگے آپ کی یہ بات ادعای نبوت سے بالاتر ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ اس واقعے کی  خبر باذان تک پہنچائیں اور وہ خسرو پرویز کو اس خبر سے ضرور آگاہ کریں گے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میں خوش حال ہوؤں گا کہ تم لوگ اس واقعے سے اسے آگاہ کرنا اور اس کے ساتھ ہی اس سے  یہ بھی کہنا کہ اسلام کی آواز اورمیری قدرت اس جگہ تک پہنچے گی جہاں تک تند و تیز رفتار سواریاں پہنچی ہیں، اگر تم اسلام لاؤگے تو میں تمہیں اسی حکومت میں کہ جس میں تم موجود ہو باقی رکھوں گا، اس کے بعد پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان دونوں بھیجے ہوئے سرداروں کو تشویق و ترغیب کے لئے وہ گرانقدر کمربند کہ جوقبائل کے سرداروں نے آپ کو بطور تحفہ دیا تھا اور چاندی اور سونے سے تیار کیا گیا تھا باذان کے سرداروں کو دیدیا، دونوں خوشی خوشی پیغمبراسلام کی بزم سے رخصت ہوکریمن کی جانب روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچنے کے بعد تمام حالات سے آگاہ کیا تو باذان نے کہا: اگر یہ باتیں صحیح ہیں تو یقینا وہ پیغمبر برحق ہیں اور ضروری ہے کہ ان کی پیروی کیا جائے ابھی بہت زیادہ وقت نہ گذرا تھا کہ اسی موضوع پرشیرویہ کا خط یمن کے کمانڈر کے پاس پہنچا۔
" آگاہ ہوجاؤ، میں نے خسرو پرویزکو قتل کیا ہے اور قوم و ملت کی ناراضگی باعث بنی کہ میں انہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دوں چونکہ اس نے فارس کے بزرگوں کو قتل کیا اور بزرگوں کو ایک دوسرے سے دور کردیا ،جب میرا خط تم تک پہنچے تو لوگوں سے میرے لئے بیعت لے لو اور دیکھو اس شخص سے کہ جو نبوت کا دعوی کررہا ہے اور میرے بابا نے اس کے خلاف حکم دیا تھا، ان کے ساتھ بہت ہی نرم انداز سے گفتگو کرنا یہاں تک کہ میرا دوسرا حکم تم تک پہنچے۔
شیرویہ کا خط اس بات کا باعث بنا کہ باذان اورحکومت وقت میں موجود تمام کام کرنے والے کہ جو سب کے سب ایرانی تھے اسلام کے دامن سے متمسک ہوگئے اور اس سلسلے میں باذان نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خط و کتابت کی اور اپنے اور تمام کام کرنے والوں کے اسلام کے دامن سے وابستہ ہونے کی خبر دی۔(5)

سوال:  

صلح حدبیہ کی دوسری شق کو کیوں اور کس بنیاد پر حذف کیا گيا۔؟


منابع:

1- السیرۃ الحلبیہ  "ابوالفرج حلبی" ج 3 ص 39
2-  جوامع السیرۃ النبویۃ " ابن خرم اندلسی" ص 167
3- سورہ ممتحنہ آیت 10
4- البدایۃ و النہایۃ " ابن کثیر" ج 4 ص 269 
5-البدایۃ و النہایۃ " ابن کثیر" ج 4 ص 270     

دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف: علی ریخته گرزاده تهرانی     

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: