مواد کا کوڈ۔: 46
ہٹس: 99
تاریخ اشاعت : 03 September 2023 - 22: 23
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (7)
یہ مقالہ حضرت علی علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی کا اہم ترین حصہ اور بہترین و حیرت انگیزحالات پرمشتمل ہے اور امام علیہ السلام کی زندگی کے مہم اور حساس امور زندگی اسی دور سے وابستہ ہیں۔

مدینہ منورہ میں حضرت علی علیہ السلام کی زندگی


یہ مقالہ حضرت علی علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی کا اہم ترین حصہ اور بہترین و حیرت انگیزحالات پرمشتمل ہے اور امام علیہ السلام کی زندگی کے مہم اور حساس امور زندگی اسی دور سے وابستہ ہیں جسے ہم دو مرحلوں میں خلاصہ کررہے ہیں:


1-  میدان جنگ میں آپ کی فداکاری اور جانبازی


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کی اپنی پوری زندگی میں مشرکوں، یہودیوں اورفتنہ و فساد کرنے والوں کے ساتھ ستائیس غزوات میں جنگ یا مقابلہ کیا۔ مسلمانوں کی تاریخ لکھنے والے مورخین کی نظر میں جنہوں نے ان غزوات کے حالات اورشجاعتوں کا تذکرہ کیا ہے کہتے ہیں کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی لشکرکی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی اور خود سپاہیوں کے ہمراہ میدان جنگ میں گئے اور انہیں کے ساتھ مدینہ واپس آئے اور چونکہ آنحضرت بنفس نفیس ان جنگوں میں موجود تھے لہذا انہیں "غزوہ " کہا جاتا ہے ،اس کے علاوہ پچپن مواقع ایسے بھی ہیں جنہیں فوج کے سرداروں میں سے کسی ایک نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے دشمنوں سے جنگ کی لیکن خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان میں شریک نہیں تھے مورخین کی اصطلاح میں اس طرح کی جنگو ں کو " سریہ" کہا جاتا ہے۔ (سریہ سے مراد وہ جنگ ہے جس میں اسلامی فوج کے کچھ سپاہی و جانباز دشمنوں کو شکست دینے اوران سے لڑنے کے لئے مدینہ سے روانہ ہوئے اور لشکر کی سپہ سالاری اسلامی فوج کے برجستہ شخص کے ہاتھوں میں تھی)
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات میں سے چھبیس غزوات میں شرکت کی اور صرف "جنگ تبوک" میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے مدینہ منورہ میں رہے اور جنگ تبوک میں شریک نہ ہوئے کیونکہ اس بات کا خوف پایا جارہا تھا کہ مدینے کے منافقین پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدم موجودگی میں مدینہ منورہ میں سازش کرکے حملہ کردیں اور مدینہ منورہ میں اسلامی امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ حضرت علی علیہ السلام بے شمار" سریہ" میں شریک ہوئے جس کی تعداد معین نہیں ہے لیکن جو چيز تاریخ کے صفحات پردرج ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے بہت ہی کم جنگوں میں آپ شریک رہے اور شاید ان تمام سری جنگوں میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہو کہ حضرت علی علیہ السلام چاہتے تھے کہ ہمیشہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہیں اور پیغمبراسلام بھی آپ کے وجود کو اپنے لئے بہت ہی اہم سمجھتے تھے۔


2۔ قرآن کریم کی جمع آوری اور اسے لکھنا


کتابت وحی اور بہت سی تاریخی اورسیاسی سندوں کا منظم کرنا اور تبلیغی اور دعوتی خطوط لکھنا حضرت علی علیہ السلام کی زندگي کا ایک عظیم اورحساس ترین کارنامہ تھا۔
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے قرآن کریم کی تمام آیتوں کو چاہے وہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں ہوں یا مدینہ منورہ میں یا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں نازل ہوئیں ہوں بہت ہی عمدہ طریقے سے اسے تحریر کیا ہے اور اسی وجہ سے آپ کاتب وحی اور محافظ قرآن کے نام سے مشہورہوئے اسی طرح سیاسی و تاریخی اسناد کے منظم کرنے اور تبلیغی خطوط لکھنے میں نہایت ہی اہم کردار ادا کیا ہے جو آج بھی تاریخ اور سیرت کی بہت سی کتابوں میں موجود ہے اسی وجہ سے آپ سب سے پہلے کاتب مشہور ہوئے یہاں تک کہ حدیبیہ کا تاریخی صلح نامہ پیغمبراسلام کے املاء بھی آپ ہی  کے ہاتھوں سے لکھا گیا جسے تاریخ نے " صلح نامہ حدیبیہ" کے عنوان سے شمار کیا ہے ۔


جنگ بدر حضرت علی علیہ السلام کی بہادری کی ایک جھلک


مدینہ منورہ کے قریب میں واقع " بدر" نامی علاقہ قریش کے تاجروں کا اہم راستہ تھا قریش کے سرداروں نے اس مقام پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےمتعدد مرتبہ جنگ کی جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے یثرب کی جانب ہجرت کرنے پرمجبور کردیا اورمکہ مکرمہ کے اکثرعوام خصوصا نوجوان نسل  اسلامی معارف کی سیرابی سے محروم ہوگئے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کہ جن کے کاندھے پر پوری کائنات کی تبلیغ و ہدایت کی ذمہ داری عائد تھی ضروری تھا کہ جزیرۃ العرب اور شہر مکہ سے کہ جو آپ کی جائے پیدائش تھا اپنی تبلیغ وہدایت کا آغاز کرتے مگر آپ کی اس راہ میں بہت زيادہ رکاوٹیں موجود تھیں اور وہ قریش کے بڑے بڑے سرداروں کی کہ جوپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامیابی کو دولت و ثروت میں دیکھ رہے تھے اور خوف و ہراس میں مبتلا تھے اور ان کی دولت و ثروت اور جاہ و حشم خطرے سے دوچارتھا لہذا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے ضروری تھا کہ اس رکاوٹ کو راستے سے دورکرتے، یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے مدینہ منورہ میں کچھ دن قیام کیا اور لوگ مستقل مزاج ہوگئے تو آپ نے قریش سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا اور اس سلسلے میں جو بہترین کام آپ نے مناسب سمجھا وہ یہ تھا کہ مکہ مکرمہ کے تاجروں کے قافلے کے راستے کو بند کردیں کہ جو تمام مال قریش کے سرداروں سے مخصوص تھا۔
اس بنیاد پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہ مبارک رمضان سنہ دوہجری قمری کو تین سو تیرہ افراد کے ہمراہ مدینہ منورہ کے باہر تشریف لائے اور بدر کے کنویں کے پاس ٹھہرگئے، قریش کا تجارتی لشکر شام سے مکہ کی طرف واپس جا رہا تھا اورراستے میں اسے''بدر'' نامی دیہات سے ہوکرگذرنا تھا۔ قافلے کا سرپرست ابوسفیان آںحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارادے سے باخبرہوگيا لہذا اس نے مکہ کے سرداروں کو آگاہ کردیا، ابوسفیان کی جانب سے جو نمائندہ " ضمضم" مکہ مکرمہ گيا وہ اپنے امور میں بہت ہی چالاک تھا اس نے قریش کے نوجوانوں کو ورغلانے کے لئے نہایت ہی مکارانہ چال چلی لہذا اس نے  اپنے اونٹ کے کان کو کاٹ ڈالا، اس کی ناک کو شگافتہ کرڈالا، کوہان کو موڑدیا، اونٹ کو الٹا کئے ہوئے تھا، اس نے ایسے عالم میں اپنی دلسوزآواز سے قریش کو اپنی طرف متوجہ کیا اس نے اپنے پیراہن کوآگے سے پیچھے تک پھاڑدیا اوراونٹ کی پیٹھ پر سوار جس کے کان اور دماغ سے خون ٹپک رہا تھا کھڑا ہوا اور چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اے لوگوں جس اونٹ کے ناف میں مشک ہے محمد اور ان کے ساتھیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے وہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان تمام اونٹوں کو سرزمین بدر کا تاوان قراردیں، میری مدد کو پہنچو اورقافلے والوں کی مدد کرو۔
 اس کے مسلسل چیخنے اوراستغاثہ کرنے کا سبب یہ ہوا کہ قریش کے تمام بہادراور نوجوان گھر، کارخانہ اوردوکانوں سے نکل کر اس کے پاس جمع ہوگئے زخمی اونٹ کی حالت اور ضمضم کی آہ و بکاء نے ان لوگوں کی عقلوں کو حیرت میں ڈال دیا اور لوگوں کو احساس کی وادی میں ڈال دیا، اکثر لوگوں نے یہ ارادہ کرلیا کہ شہر مکہ کو کاروان قریش سے نجات دینے کے لئے ''بدر'' کی طرف چلے جائیں آخرکار اس کی مکارانہ چال کامیاب ہوگئی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے باعظمت اور برتر تھے کہ کسی کے مال و دولت پر نگاہ کرتے اور کسی گروہ کے مال و متاع کو بغیر کسی سبب کے تاوان قرار دیتے تو پھر کیا ہوا تھا کہ آپ نے اس طرح کا ارادہ بنا لیا تھا؟ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کا مقصد اس کام سے فقط دو چیز تھا۔
1۔ قریش کواس بات کا علم ہوجائے کہ ان کے تجارت کرنے کا طریقہ اسلام کے ہاتھوں میں قراردیا گیا ہے اوراگر وہ لوگ اسلام کی نشر واشاعت اور تبلیغ کے مانع ہوں گے اورآزادی بیان کو مسلمانوں سے چھین لیں گے تو ان کے حیات کی رگوں کواسلامی طاقتوں کے ذریعہ کاٹ دیا جائے گا کیونکہ بولنے والا جتنا بھی قوی ہواور چاہے جتنا بھی خلوص واستقامت دکھائے لیکن اگر آزادیٔ بیان و تبلیغ سے استوار نہ ہو تو شائستہ طور پر اپنے وظیفے کو انجام نہیں دے سکتا۔
مکہ مکرمہ میں قریش اسلام کی تبلیغ واشاعت اورلوگوں کی توجہ کو خداوندعالم کی طرف سے دور کرنے میں سب سے زیادہ مانع تھے ان لوگوں نے تمام قبیلے والوں کواجازت دیدیا تھا کہ حج کے زمانے میں مکہ آجائیں لیکن اسلام اورمسلمانوں کے عظیم المرتبت رہبرکو مکہ اور اطراف مکہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی یہاں تک کہ اگر ان کو پکڑ لیتے تو قتل کردیتے تھے اس وقت جب لوگ حج کے زمانے میں حجاز کے تمام شہروں سے خانہ کعبہ کے اطراف جمع ہو رہے تھے وہ وقت قوانین اسلام و توحید کے پیغام کو پہنچا نے کا بہترین وقت تھا۔
2۔ مسلمانوں کے بعض گروہ جو کسی بھی وجہ سے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہیں کرسکے تھے وہ ہمیشہ قریش کے عذاب میں مبتلا تھے وہ اپنا مال و متاع اورجو لوگ ہجرت کرگئے تھے ان کے مال و متاع کوآج تک حاصل نہ کرسکے تھے اور قریش کی طرف سے ہمیشہ ڈارئے اور دھمکائے جاتے تھے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کاروان قریش سے تجارت کے سامانوں کا تاوان لینےکے لئے قدم اٹھایا اورارادہ کیا کہ سختی سے ان کی تنبیہ کی جائے جنہوں نے مسلمانوں سے ہر طرح کی آزادی کو چھین لیا تھا اور مسلسل انہیں اذیت وتکلیف دیتے رہتے تھے اور ان کے اسباب کی پرواہ تک نہیں کرتے تھے۔ اس کام کے لئے آپ نے جو مناسب مقام دیکھا وہ بدر کا علاقہ تھا دوسری جانب ابوسفیان کے مکار شاگرد نے جو ڈرامائی سازش رچی اس کی بناء پرقریش نے ایسے نو سو سپاہیوں کا لشکر تیار کیا جوجنگ کے امور میں پختہ اورمحکم طریقے سے لڑائی کرنے والے اور بہترین اسلحوں کے ساتھ اسی دن ''بدر'' کی طرف روانہ ہوگئے لیکن مقصد پر پہچنے سے پہلے ہی راستے میں ابوسفیان کے دوسرے ایلچی نے اس خبر سے آگاہ کیا کہ قافلے نے اپنا راستہ بدل دیا ہے اور ایک دوسرے راستے سے مسلمانوں کی تیروں سے بچ کر نکل گئے اور اپنے کو محفوظ کرلیا ہے لیکن ان لوگوں نے اسلام کہ جو ابھی جوانی کی منزل پر پہنچا تھا اس کی سرکوبی کے لئے اپنے ہدف کی طرف سفر جاری رکھا اور سترہ رمضان المبارک سنہ دو ہجری قمری کی صبح کو ایک پہاڑ کے پیچھے سے بدر کے میدان میں وارد ہوئے۔
مسلمانوں نے بدر کے شمالی طرف سے گذرنے والے درہ کی ڈھلان کو پناہ گاہ بنائے ہوئے قافلہ کے گذر نے کا انتظارکررہے تھے کہ اچانک یہ خبر پہنچی کہ قریش کے جانبازوں کا ایک لشکر اپنے تجارتی سامان کی حفاظت کے لئے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوچکا ہے اور بدر کی بلندی سے نیچے اتر آئے ہیں۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن تک انصاراور مدینے کے عوام سے کسی بھی طرح کا کوئی عہد و پیمان نہیں لیا تھا بلکہ انہوں نے عقبہ میں پیغمبراسلام کے ساتھ عہد کیا تھا کہ اگر دشمن نے مدینہ پرحملہ کیا تو وہ وجود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دفاع کریں گے نہ یہ کہ ان کے ساتھ مدینہ کے باہردشمنوں سے جنگ کریں گے لہٰذا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سپاہیوں کی ایک میٹنگ جوکچھ جوانان انصار اور کچھ مہاجرین کے نوجوانوں پر مشتمل تھی بلائی اور اس میں لوگوں کا نظریہ جاننا چاہا اس میٹنگ میں جونظریات وجود میں آئے وہ یہ کہ کچھ لوگوں نے شجاعت و بہادری کی بات کی اور کچھ لوگوں نے بزدلی اور عاجزی وبے چارگی کی باتیں کیں۔
سب سے پہلے ابوبکر اٹھے اورکہا:
قریش کے بزرگان اورنوجوان نے اس قافلے سے مقابلے کے لئے شرکت کی ہے اور قریش آج تک کسی بھی قانون پر ایمان نہیں لائے اور ایک لمحہ کے لئے بھی ذلیل و رسوا نہیں ہوئے ہیں اور ہم لوگ مکمل تیاری کے ساتھ بھی یہاں نہیں آئے ہیں(1) یعنی مصلحت اسی میں ہے کہ ہم یہاں سے مدینہ واپس چلے جائیں۔
عمربھی اپنی جگہ سے اٹھے اوراپنے دوست ابوبکر کی بات کی مزید وضاحت کی۔ اسی وقت مقداد اٹھے اور انہوں نے کہا کہ :
خدا کی قسم: ہم بنی اسرائیل کی طرح ںہیں جو موسیٰ سے کہیں کہ: ''اے موسیٰ تم اپنے خدا کے ساتھ جاؤ جہاد کرو اورہم لوگ یہاں بیٹھے ہیں'' بلکہ ہم اس کے برعکس کہتے ہیں کہ آپ پروردگارکے زیر سایہ جہاد کیجئے ہم بھی آپ کے ہمراہ جہاد کریں گے۔
مشہورمورخ طبری لکھتے ہیں کہ جس وقت مقداد اٹھے اورچاہا کہ گفتگو کریں تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے سے غیض و غضب (جو عمر وابوبکر کی باتیں سن کر ہوا تھا) کے آثار نمودار تھے لیکن جب مقداد کی گفتگو اور مدد کرنے کی خوشخبری کوسنا تو آپ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔(2)
سعد معاذ بھی اپنی جگہ سے اٹھے اورکہا کہ جب بھی تم اس دریا (بحراحمر کی طرف اشارہ) کی طرف قدم بڑھاؤ گے تو ہم بھی تمہارے پیچھے پیچھے اپنے قدم کو بڑھائیں گے اورجہاں پر بھی تم مصلحت سمجھنا ہمیں راستہ دیدینا، اس موقع پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس پر خوشی اورمسرت کے آثارآشکار ہوئےاور خوشخبری کے طور پر ان سے کہا: میں قریش کے قتل عام کی وجہ سے نگران ہوں پھر اسلام کی فوج پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سپہ سالاری میں وہاں سے روانہ ہوگئی اور دریائے بدر کے کنارے مستقر ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوالات:


1- کن جنگوں کو "غزوہ" کہا جا تا ہے۔؟
2- کن جنگوں کو " سریہ " کہا جاتا ہے۔؟
3- جنگ بدر سےرسول خدا کا مقصد کیا تھا۔؟


منابع:


1- مغازی واقدی ج1 ص 48
2- تاریخ طبری ج2  ص 140
       
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: