مواد کا کوڈ۔: 47
ہٹس: 101
تاریخ اشاعت : 06 September 2023 - 10: 08
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (8)
مسلمان اور قریش دونوں گروہوں نے جنگ کے لئے صف بندی شروع کردی اور چند چھوٹے چھوٹے حادثوں نے آتش جنگ کو شعلہ ور کردیا،ابتدا میں ایک ایک شخص لڑنے کو آمادہ ہوئی۔

 

قارئین اب وقت آگیا ہے کہ اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت و عظمت کے بارے میں تحقیق و جستجو کیا جائے۔


مسلمان اور قریش دونوں گروہوں نے جنگ کے لئے صف بندی شروع کردی اور چند چھوٹے چھوٹے حادثوں نے آتش جنگ کو شعلہ ورکردیا،ابتدا میں ایک ایک شخص لڑنے کو آمادہ ہوئے تین افراد بنام "عتبہ" ہندہ سفیان کی بیوی کا باپ اوراس کا بڑا بھائی شیبہ اورعتبہ کا بیٹا ولید میدان جنگ میں آکر کھڑے ہوگئے اور اپنا مقابل طلب کیا سب سے پہلے انصار میں سے تین آدمی ان سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں وارد ہوئے اور اپنا تعارف کرایا لیکن مکہ کے بہادروں نے ان سے جنگ کرنے سے انکار کردیا اور آواز دی'' يا مُحَمَّدْ اَخرِجْ اِلَينا اَکْفائَنا مِنْ قَوْمِنا" یعنی اے محمد! جو لوگ ہماری قوم اور ہمارے شایان شان ہیں انہیں ہمارے ساتھ جنگ کے لئے بھیجو۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبیدہ بن حارث بن عبد المطلب اورحمزہ اورعلی علیہ السلام کوحکم دیا کہ اٹھ کر دشمن کا جواب دیں، اسلام کے تین عظیم سپہ سالار چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے ہر ایک نے اپنا اپنا تعارف کرایااورعتبہ تینوں افراد سے لڑنے کے لئے تیار ہوگیا اورکہا کہ یہ سب کے سب ہمارے شایان شان ہیں۔ (1)
یہاں پر بعض مورخین مثلاً واقدی لکھتے ہیں کہ:
جس وقت انصارکے تین بہادرجانبازمیدان جنگ میں جانے کے لئے تیار ہوئے تو خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں جنگ کرنے سے روکا کیونکہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہیں چاہتے تھے کہ اسلام کی سب سے پہلی جنگ میں انصار شرکت کریں اور اسی کے ساتھ ساتھ تمام افراد کو اس بات سے بھی باخبرکردیا کہ آئین توحید میری نگاہ میں اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ آپ نے اپنے عزیز ترین اورنزدیک ترین افراد کو بھی اس جنگ میں شریک کریں اسی وجہ سے بنی ہاشم کی طرف رخ کر کے فرمایا کہ اٹھواورباطل کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ نور خدا کوخاموش کردیں۔(2)
مورخین تحریرکرتے ہیں کہ علی علیہ السلام اور حمزہ نے اپنے حریف و مقابل کو فوراً ہی زمین پر گرادیا لیکن عبیدہ اوران کے مقابل کے درمیان بہت دیرتک زور آزمائی ہوتی رہی اور ان میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کو مجروح کردیا اور کسی نے بھی ایک دوسرے پرغلبہ حاصل نہیں کیا علی علیہ السلام اورحمزہ اپنے رقیبوں کو قتل کرنے کے بعد عبیدہ کی مدد کی لئے دوڑے اور ان کے مقابل کو قتل کردیا۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام معاویہ کو خط لکھتے ہوئے اسے یاد دلاتے ہیں کہ'' وَ عِنْدی السَّيْفُ الَّذِی اَغْضَضتُهُ بِجَدِّکَ وَ خالِکَ وَ اَخيکَ فی مَقامٍ واحِدٍ ۔''(3)
 " یعنی وہ تلوار جسے میں نے ایک دن تیرے نانا (عتبہ، ہندہ کا باپ اورہندہ معاویہ کی ماں) اور تیرے ماموں (ولید بن عتبہ) اورتیرے بھائی (حنظلہ) کے سر پر چلائی تھی اب بھی میرے پاس موجود ہے یعنی ابھی بھی اسی قدرت پر باقی ہوں۔
ایک اورمقام پرحضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ'' قَدْعَرِفتَ مَواقِعَ نَضالِها فی اَخيکَ وَ خالِکَ وَجَدِّکَ وَ ما هِیَ مِنَ الظالِمينَ بِبَعيدٍ ''۔(4)
   " یعنی تواے معاویہ! مجھے تلوارسے ڈراتا ہے؟ جب کہ میری تلوارجو تمہارے بھائی، ماموں اورنانا کے سرپر پڑی تھی تو اس سے خوب باخبر ہے اورتو یہ بھی جانتا کہ میں نے ان سب کو ایک ہی دن میں قتل کردیا تھا۔
امام علیہ السلام کے ان دونوں خطوط سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے معاویہ کے دادا کو قتل کیا تھا۔
قارئین محترم ہم جنگ بدر کے بارے میں تاریخ اسلام کے ابتداء ہی میں تحریرکر چکے ہیں اور یہاں پرہمارا مقصد صرف حضرت علی علیہ السلام کی جنگ بدر میں فدا کاری کا ذکر کرنا تھا۔


حضرت علی علیہ السلام کی شادی


حضرت علی علیہ السلام سے پہلے بہت سے دوسرے افراد مثلاً ابوبکراورعمر نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ شادی کے لئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رشتہ دیا تھا اور دونوں نے پیغمبراسلام سے ایک ہی جواب سنا تھا آپ نے فرمایا تھا کہ میں فاطمہ زہرا کی شادی کے سلسلے میں وحی الہی کا منتظر ہوں۔
ان دونوں نے جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے شادی کے سلسلے میں نا امید ہوچکے تھے رئیس قبیلہ اوس سعد معاذ کے ساتھ گفتگو کی اورآپس میں سمجھ لیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی زہرا کا کفو نہیں بن سکتا اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر انتخاب بھی علی کے علاوہ کسی پر نہیں ہے اسی بناء پریہ لوگ ایک ساتھ حضرت علی علیہ السلام کی تلاش میں نکلے اور بالآخر انہیں انصار کے ایک باغ میں پایا جو اپنے اونٹ کے ساتھ کجھور کے درختوں کی سینچائی و سیرابی میں مصروف تھے ان لوگوں نے علی علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: قریش کے شرفاء نے پیغمبراسلام کی بیٹی سے شادی کے لئے رشتہ دیا تو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے جواب میں کہا کہ فاطمہ کی شادی کے سلسلے میں میں حکم خدا کا منتظرہوں، ہمیں امید ہے کہ اگر تم نے فاطمہ سے شادی کی درخواست کی تو تمہاری درخواست ضرور قبول ہوجائے گی اور اگر تمہاری مالی حالت اچھی نہیں ہے تو ہم سب تمہاری مدد کریں گے۔ اس گفتگو کو سنتے ہی حضرت علی علیہ السلام کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے اور فرمایا: میری بھی یہی آرزو ہے کہ میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی سے شادی کروں. اتنا کہنے کے بعد آپ کام چھوڑ کر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے اس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ام سلمہ کے گھرپر تشریف رکھتے تھے، جس وقت آپ نے دروازے پر دستک دی تو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فوراً ام سلمہ سے کہا جاؤ اور دروازہ کھولو کیونکہ یہ وہ شخص ہے جسے خدا اور اس کا رسول دوست رکھتے ہیں۔
حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ اس شخص کودیکھنے کے لئے میرا دل بے چین ہوگیا کہ جس شخص کی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ستائش کی جس وقت میں اٹھی کہ دروازہ کھولوں عنقریب تھا کہ میرے پیر لڑکھڑا جاتے. میں نے دروازہ کھولا حضرت علی علیہ السلام داخل ہوئے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھ گئے لیکن پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عظمت و جلالت کی وجہ سے حیا مانع بن رہی تھی کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو کریں اس لئے سرکو جھکائے بیٹھے تھے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خاموشی کوختم کیا اور فرمایا: شاید کسی کام سے آئے ہو؟ حضرت علی علیہ السلام نے جواب میں عرض کیا: ہماری رشتہ داری ومحبت خاندان رسالت سے ہمیشہ ثابت و پائدار رہی اور ہمیشہ دین و جہاد کے ذریعے اسلام کو ترقی کے راستے پرلگاتے رہے ہیں یہ تمام چیزیں آپ کے لئے روشن و واضح ہیں. پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جوکچھ تم نے کہا ہے اس سے بلند و بالا ہو۔ حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا کیا آپ میری شادی فاطمہ زہرا سے کرسکتے ہیں۔ ؟
حضرت علی علیہ السلام نے اپنا پیغام دیتے وقت تقویٰ اور اپنے گذرے ہوئے روشن سابقہ اوراسلام پراعتماد کیا اور اس طرح سے دنیا والوں کویہ پیغام دیدیا کہ معیار فضیلت یہ ہیں نہ کہ خوبصورتی دولت اور منصب وغیرہ۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نےعورت کی اصلی آزادی کو شوہر کے انتخاب میں استفادہ کیا ہے اورحضرت علی علیہ السلام کے جواب میں فرمایا: تم سے پہلے کچھ لوگ اور بھی میری بیٹی سے شادی کی درخواست لے کر آئے تھے اور میں نے ان کی درخواست کو اپنی بیٹی کے سامنے پیش کیا لیکن اس کے چہرے پران لوگوں کے لئے عدم رضایت کوبہت شدت سے احساس کیا اب میں تمہاری درخواست کو اس کے سامنے پیش کروں گا پھر جو بھی نتیجہ ہوگا تمہیں مطلع کروں گا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ کے پاس آئے اور وہ ان کی تعظیم کے لئے اٹھیں آپ کے کاندھے سے ردا اٹھایا اورآپ کے پیرسے جوتے اتارے اور پائے اقدس کودھلایا پھر وضو کرکے آپ کے پاس بیٹھ گئیں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بیٹی سے اس طرح گفتگو شروع کی:
حضرت ابوطالب علیہ السلام کے نورنظر علی جن کی فضیلت ومرتبہ اسلام میں اور ہم پر واضح وروشن ہیں میں نے خدا سے دعا کی تھی کہ خداوندعالم کی بہترین مخلوق سے تمہاراعقد کروں اور اس و قت وہ تم سے شادی کی درخواست لے کر آئے ہیں اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اس وقت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے مکمل خاموشی اختیارکرلی لیکن اپنے چہرے کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے نہیں ہٹایا اور معمولی سی ناراضگی کے آثار بھی چہرے پر رونما نہ ہوئے رسول اسلام اپنی جگہ سے اٹھے اور فرمایا: '' الله اَکبَر سُکوتُها اِقرارُها"یعنی خدا بہت بڑا ہے میری بیٹی کی خاموشی اس کی رضایت کی دلیل ہے۔(5)
بے شک شادی کا سب سے عمدہ مقصد، پوری زندگی میں سکون واطمینان کا ہونا ہے اوربغیر اس کے یہ چیز ممکن نہیں ہے یہاں تک کہ اخلاقی مشابہت اور روحی حکایتیں پوری زندگی پر سایہ فگن نہیں ہوتیں اور ایسی شادی عبث اور بیکار ہوجاتی ہے۔ اس حقیت کے بیان کرنے کے بعد خداوندعالم کے اس کلام کی حقیقت روشن ہوجاتی ہے جو اس نے اپنے پیغمبر سے فرمایا تھا کہ:
" لَوْ لَمْ اَخْلُقْ عَليّاً لَما کانَ لِفاطِمَۀ اِبْنَتِکَ کُفُوٌ عَلَی الْاَرْض" (6)
 " اگر میں نے علی کو پیدا نہ کیا ہوتا توزمین پرہرگز تمہاری بیٹی فاطمہ کا کفو نہ ہوتا۔"


شادی کے اخراجات


حضرت علی علیہ السلام کے پاس مال دنیا میں صرف تلوار اور زرہ تھی جس کے ذریعے سے آپ راہ خدا میں جہاد کرتے تھے اور ایک اونٹ بھی تھا کہ جس کے ذریعے سے مدینہ کے باغوں میں کام کرکے خود کوانصار کی مہمانی سے بے نیاز کرتے تھے۔
منگنی اورعقد وغیرہ کی رسم کے بعد وہ وقت بھی آپہنچا تھا کہ حضرت علی علیہ السلام اپنی شریک زندگی کے لئے کچھ سامان آمادہ کریں اوراپنی نئی زندگی کو پیغمبر اسلام کی بیٹی کے ساتھ شروع کریں. پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبول کرلیا کہ حضرت علی علیہ السلام اپنی زرہ کو بیچ دیں اوراس کی قیمت سے کچھ فاطمہ کی مہر کے عنوان سے پیغمبرکو ادا کریں، زرہ چار سودرہم میں فروخت ہوئی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس میں سے کچھ درہم بلال کو دیا تاکہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لئے عطرخریدیں اور اس میں سے کچھ درہم عمار یاسر اور اپنے کچھ دوستوں کودیا تاکہ علی و فاطمہ کے گھر کے لئے کچھ ضروری سامان خریدیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے جہیز کودیکھ کراسلام کی عظیم خاتون کی زندگی کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بھیجے ہوئے افراد بازار سے واپس آگئے اور جو کچھ بھی سامان انہوں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لئے آمادہ کیا تھا وہ یہ ہیں:
 1۔ پیراہن سات درہم 2۔ روسری ایک درہم 3۔ کالی چادرجو پورے بدن کوچھپا نہیں سکتی تھی۔4۔ ایک عربی تخت جو لکڑی اور کھجور کی چھال سے بنا تھا۔ 5۔ دو مصری کتان سے بنی ہوئی توشک جس میں ایک ریشمی اوردوسری کھجور کی چھال سے بنی تھی۔ 6۔ چار مسند دو ریشم اور دو کھجور کی چھال سے بنی ہوئی ۔ 7۔ پردہ۔ 8۔ ہجری چٹائی ۔ 9۔ چکی۔ 10۔ بڑا طشت۔ 11۔ چمڑے کی مشک۔ 12۔ دودھ کے لئے لکڑی کا پیالہ۔ 13۔ پانی کے لئے چمڑے کے کچھ برتن۔14۔ لوٹا۔ 15۔ پیتل کا بڑا برتن (لگن) 16۔ چند پیالے۔17۔ چاندی کے بازو بند۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چاہنے والوں نے جو کچھ بھی بازار سے خریدا تھا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے کیا اورپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیٹی کے گھر کا سامان دیکھ کر فرمایا:'' اللّهُمَّ بارَکْ لِقَومٍ جُلّ آنيَتِهمُ الخَزَف'' یعنی خداوندا جولوگ زیادہ ترمٹی کے برتن استعمال کرتے ہیں ان کی زندگی کو مبارک قراردے۔(7)
صاحب کشف الغمہ کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر کے تمام سامان کل ترسٹھ درہم میں خریدے گئے تھے۔


سوال:


1- حضرت علی علیہ السلام سے شادی کے متعلق حضرت فاطمہ زہرا نے کیا کہا۔


منابع:


1- السیرۃ الحلبیۃ ابو الفرج حلبی ج 2 ص 219
2- مغازی واقدی ج1 ص 62
3- نہج البلاغہ، نامہ 64
4- نہج البلاغہ نامہ 28
5- کشف الغمہ ج1 ص 50
6- بحار الانوار ج43  ص 9
7- بحار الانوار ج43 ص 94، کشف الغمہ ج1 ص 359
 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: