مواد کا کوڈ۔: 48
ہٹس: 72
تاریخ اشاعت : 07 September 2023 - 12: 31
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (9)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم المرتبت بیٹی کا عقد بہت زیادہ سادگی اور بغیرکسی عیب و نقص کے ساتھ ہوا عقد ہوئے ایک مہینے سے زیادہ گزرگیا، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عورتوں نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: اپنی بیوی کو اپنے گھرکیوں نہیں لے جاتے؟

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مہر


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی کی مہر پانچ سو درہم تھی اورہر درہم ایک مثقال چاندی کے برابر تھا اور ہرمثقال کا وزن ١٨ چنے کے برابر ہے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم المرتبت بیٹی کا عقد بہت زیادہ سادگی اور بغیرکسی عیب و نقص کے ساتھ ہوا عقد ہوئے ایک مہینے سے زیادہ گزرگیا، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عورتوں نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: اپنی بیوی کو اپنے گھرکیوں نہیں لے جاتے؟ حضرت علی علیہ السلام نے ان لوگوں کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: فاطمہ کواپنے گھرضرورلے جاؤں گا، ام ایمن پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت حاضر ہوئیں اورعرض کیا اگر حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا زندہ ہوتیں توان کی آنکھیں فاطمہ کی شادی دیکھ کرروشن ہوجاتیں۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا نام سنا تو آنکھیں آنسوؤں سے ترہوگئیں اور فرمایا: انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی تھی جب سب نے مجھے جھٹلا دیا تھا اورخدا کے دین کو دوام بخشنے کے لئے میری مدد کی اور اپنے مال کے ذریعے اسلام کے پھیلانے میں مدد کی۔(1)
ام ایمن نے کہا: فاطمہ کو ان کے شوہر کے گھر بھیج کر ہم سب کی آنکھوں کوروشن کیجئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ایک کمرہ کو فاطمہ زہرا کے زفاف کے لئے آمادہ کرو اورانہیں آج کی رات کے لئے سجاؤ۔(2)
جب دلہن کی رخصتی کا وقت قریب آیا توپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اپنے پاس بلایا، حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا پیغمبر کے پاس آئیں جب کہ ان کے چہرے پرشرم و حیا کا پسینہ تھا اور بہت زیادہ شرم کی وجہ سے پیر لڑکھڑا رہے تھے اورممکن تھا کہ زمین پرگرجائیں اس موقع پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے حق میں دعا کی اور فرمایا:
'' اَقالَکِ اللهُ العَثرَۀ فی الدُّنيا وَ الآخِرَۃ۔"
" خداوندعالم تمہیں دونوں جہان کی لغزش سے محفوظ رکھے،پھر فاطمہ زہرا کے چہرے سے حجاب ہٹایا اور ان کے ہاتھ کوعلی کے ہاتھ میں دیا اور مبارکباد پیش کرکے فرمایا: " بارَکَ لَکَ فی ابنۀ رَسُولِ الله يا عَلِیّ نِعْمَتِ الزَّوْجَۀ فاطِمَۃ'' اے علی پیغمبرکی بیٹی سے شادی تمہیں بہت بہت مبارک ہو فاطمہ بہترین شریکہ حیات ہے۔" پھر فاطمہ سلام اللہ علیہا کی طرف رخ کرکے فرمایا: " نِعمَ البَعل عَلیٌ '' علی بہترین شوہر ہیں۔"
اس کے بعد دونوں کوحکم دیا کہ اپنے گھرجائیں اوربزرگ شخصیت مثلاً سلمان فارسی کوحکم دیا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اونٹ کی مہار پکڑیں اور اس طرح اپنی باعظمت بیٹی کی جلالت کا اعلان کیا۔
جس وقت دولہا و دولہن حجلہ عروسی میں گئے تو دونوں شرم وحیا سے زمین کی طرف نگاہ کئے ہوئے تھے پیغمبراسلام ان کے کمرے میں داخل ہوئے اورایک برتن میں پانی لیا اورتبرک کے طورپراپنی بیٹی کے سراور بدن پرچھڑکا، پھر دونوں کے حق میں اس طرح سے دعا کی:
" اَللّهُمَ هذِهِ اِبنَتی وَاَحَبُّ الخَلق اِلَیَّ اَللّهُمَ وَهذا اَخی وَ اَحَبُّ الخلَق اِلَیَّ۔" (3)
" پروردگار! یہ میری بیٹی فاطمہ لوگوں سے زیادہ تیرے نزدیک محبوب ہے پروردگار! علی بھی تمام لوگوں سے زیادہ میرے نزدیک محبوب ہیں خداوندا ان دونوں کے رشتہ محبت کواستوار فرما۔"


جنگ احد میں حضرت علی علیہ السلام کی جانثاری


جنگ بدرمیں شکست کی وجہ سے قریش کے دل بہت زیادہ افسردہ اورمرجھائے ہوئے تھے ان لوگوں نے اس مادی اور معنوی شکست کی تلافی کے لئے ارادہ کیا کہ اپنے قتل ہونے والوں کا انتقام لیں، اسی وجہ سے انہوں نے عرب کے اکثرقبیلوں کے بہادر وجانباز اور جنگجو قسم کے افراد کا ایک منظم لشکرتیارکیا تا کہ اسے مدینہ کی طرف روانہ کریں لہٰذا عمروعاص اور بعض دوسرے افراد کو حکم دیا گیا کہ کنانہ اورثقیف قبیلوں کے افراد کو اپنا بنائیں اورمسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے میں ان سے مدد طلب کریں ان لوگوں نے کافی محنت و مشقت کرکے تین ہزار جنگجو افراد کو مسلمانوں سے مقابلے کے لئے آمادہ کرلیا۔
اسلام کے اطلاعاتی دستہ نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قریش کے ارادے اورمسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے وہاں سے روانہ ہونے کی خبرسے آگاہ کردیا. پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمنوں سے مقابلے کے لئے جانبازوں کی ایک کمیٹی بنائی جس میں سے اکثریت کا کہنا یہ تھا کہ اسلام کا لشکر مدینے سے نکل جائے اور شہر کے باہر جاکر دشمنوں سے مقابلہ کرے، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ایک ہزارسے زيادہ کا لشکر لے کر مدینہ سے کوہ احد کی طرف نکل پڑے۔
سات شوال سنہ تین ہجری قمری کی صبح کو دونوں لشکرصف بستہ ایک دوسرے کے روبروکھڑے ہوگئے اسلام کی فوج نے ایسی جگہ کو اپنی اردوگاہ بنایا کہ ایک طرف یعنی پیچھے سے فطری طورپر ایک محافظ یعنی کوہ احد موجود تھا لیکن کوہ احد کے بیچ میں اچھی خاصی جگہ کٹی ہوئی تھی اوراحتمال یہ تھا کہ دشمن کی فوج کوہ کو چھوڑ کر اسی کٹی ہوئی جگہ اور مسلمانوں کی اردوگاہ سے پیچھے کی طرف سے حملہ کردیں لہٰذا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاس خطرے کو ختم کرنے کے لئے عبداللہ بن جبیرکو پچاس تیر چلانے والوں کے ساتھ اسی پہاڑی پر بھیج دیا تاکہ اگر دشمن اس راستے سے داخل ہوں توان کا مقابلہ کریں اورحکم دیا کہ ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کو فتح نصیب ہوجائے اوردشمن بھاگنے بھی لگیں جب بھی اپنی جگہ چھوڑکر نہ جانا۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےعلم کو مصعب کے حوالے کیا کیونکہ وہ بنی عبد الدار قبیلے کے تھے اور قریش کے پرچمدار بھی اسی قبیلے کے رہنے والے تھے۔ جنگ شروع ہوگئی اور مسلمانوں کے جانبازاوربہادروں کی وجہ سے قریش کی فوج بہت زیادہ نقصان اٹھانے کے بعد بھاگنے لگی، پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تیر چلانے والوں نے یہ خیال کیا کہ اب اس پہاڑی پر رکنا ضروری نہیں ہے لہٰذا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مال غنیمت لوٹنے کے لئے مورچہ کو چھوڑ کر میدان میں اگئے، خالد بن ولید جو جنگ کرنے میں بہت ماہر و بہادر تھا جنگ کے پہلے ہی سے وہ جانتا تھا کہ اس پہاڑی کا دہانہ کامیابی کی کلید ہے اس نے کئی مرتبہ کوشش کی تھی کہ اس کے پشت پرجائے اوروہاں سے اسلام کے لشکر پرحملہ کرے مگر محافظت کرنے والے تیر اندازوں نے اسے روکا اور یہ پیچھے ہٹ گیا، اس مرتبہ جب خالد نے اس جگہ کو مخافظوں سے خالی پایا توایک زبردست اور غافلانہ حملہ کرتے ہوتے فوج اسلام کی پشت سے ظاہر ہوا اورغیر مسلح اور غفلت زدہ مسلمانوں پر پیچھے کی جانب سے حملہ کردیا، مسلمانوں کے درمیان عجیب کھلبلی مچ گئی اورقریش کی بھاگتی ہوئی فوج اسی راستے سے دوبارہ میدان جنگ میں اترآئی اوراسی دوران اسلامی فوج کے پرچم دار مصعب بن عمیر دشمن کے ایک سپاہی کے ہاتھوں قتل کردیئے گئے اور چونکہ مصعب کا چہرا چھپا ہوا تھا، ان کے قاتل نے یہ سوچا کہ یہ پیغمبرہیں لہٰذا چیخنے لگا ''الا قد قتل محمداً'' اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ محمد قتل ہوگئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قتل کی خبر مسلمانوں کے درمیان پھیل گئی اوران کی اکثریت میدان چھوڑ کر بھاگنے لگی اور میدان میں چند لوگوں کے علاوہ کوئی باقی نہ بچا۔
تاریخ اسلام کے بزرگ مورخ ابن ہشام رقمطراز ہیں کہ:
انس بن نضر، انس بن مالک کے چچا کہتے ہیں کہ: جس وقت اسلام کی فوج ذہنی دباؤ کا شکار ہوئی اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کی خبرچاروں طرف پھیل گئی تو اکثر مسلمان اپنی جان بچانے کی فکر کرنے لگے اور ہر شخص ادھرادھر چھپنے لگا، انس کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ انصار و مہاجر کا ایک گروہ جس میں عمر بن خطاب، طلحہ اورعبیداللہ بھی تھے ایک کنارے پر بیٹھا اپنی نجات کی فکر کر رہا ہے.میں نے اعتراض کے انداز میں ان سے کہا: کیوں یہاں بیٹھے ہو؟ ان لوگوں نے مجھے جواب دیا: پیغمبراسلام قتل ہوگئے ہیں اوراب جنگ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، میں نے ان لوگوں سے کہا کہ اگر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل ہوگئے تو کیا زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے تم لوگ اٹھواورجس راہ میں وہ قتل ہوئے ہیں تم بھی شہید ہوجاؤ اور اگر محمد قتل کردیئے گئے تو محمد کا خدا زندہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ میری باتوں کا ان پر ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا میں نے اسلحہ اٹھایا اور جنگ میں مشغول ہوگیا۔(4)
نامور مورخ شہیرابن ہشام مزید کہتے ہیں:
انس کو اس جنگ میں ستر زخم لگے اور ان کی لاش کو ان کی بہن کے علاوہ کوئی پہچان نہ سکا، مسلمانوں کے بعض گروہ اس قدر افسردہ تھے کہ انہوں نے خود ایک بہانہ تلاش کیا کہ عبد اللہ بن ابی منافق کا ساتھ کس طرح سے دیں تاکہ ابوسفیان سے ان کے لئے امان نامہ لیں اورپھر مسلمانوں کے بعض گروہ نے پہاڑی پر پناہ لی۔ (5)
مسلمانوں کے بعض گروہ کا اس جنگ سے بھاگنا اتنا پراثر تھا کہ مسلمانوں کی عورتیں جو اپنے بیٹوں کے ساتھ میدان جنگ میں آئیں تھیں اور کبھی کبھی زخمیوں کی خبر گیری کرتی تھیں اور پیاسے جانبازوں کو پانی سے سیراب کرتی تھیں اس بات پر مجبور ہوگئیں کہ پیغمبر کا دفاع کریں۔ جب " نسیبہ" نامی عورت نے ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا تو ہاتھ میں تلوار لے کر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دفاع کیا جس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت کی جانثاری کو بھاگنے والوں کے مقابلے میں مشاہدہ کیا تواس وقت آپ نے اس بہادر عورت کے بارے میں ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: " مَقامُ نَسیبَة بِنت کَعبٍ خَیرٌ مِن مقامِ فُلانٍ و فلانٍ'' (کعب کی بیٹی نسیبہ کا مقام و مرتبہ فلاں فلاں سے بہتر ہے) اہل سنت کے مشہورمورخ اورشارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ راوی نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خیانت کی ہے کیونکہ جن لوگوں کا نام پیغمبر نے صریحی طور پر ذکر کیا تھا اسے بیان نہیں کیا۔(6)
انہیں افراد کے مقابلے میں تاریخ ایک ایسے جانبازکا اعتراف کرتی ہے جو اسلام کی پوری تاریخ میں فداکاری اور جانثاری کا بہترین نمونہ ہے اورجنگ احد میں مسلمانوں کی دوبارہ کامیابی اسی جانثارکی قربانیوں کا نتیجہ تھی یہ عظیم المرتبت جانثار، یہ حقیقی فداکارمولائے متقیان امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی ذات والا صفات ہے۔ جنگ کی ابتدا میں قریش کے بھاگنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پرچم اٹھانے والے نوافراد ایک کے بعد ایک مولائے کائنات کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہٹ گئے اورنتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں میں شدید رعب بیٹھ گیا اور ان کے اندر ٹھہرنے اور مقابلے کرنے کی صلاحیت باقی نہ رہی۔(7)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوالات:


1- جنگ احد میں حضرت علی علیہ السلام نے کیا قربانی دی۔؟
2- جنگ احد میں شروع ہی میں قریش کے بھاگنے کی کیا وجہ تھی۔؟


منابع:


1- بحارالانوار ج43 ص 130
2- بحارالانوار ج43 ص 59
3- بحارالانوار ج43 ص 96
4- سیرۂ ابن ہشام ج3 ص 83،84
5- سیرۂ ابن ہشام ج3 ص 83،84
6- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج14 ص 266
7- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج14 ص 250

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: