مواد کا کوڈ۔: 28
ہٹس: 1877
تاریخ اشاعت : 28 November 2022 - 09: 30
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (20)
آٹھویں ہجری کے آغاز میں کہ جب حجاز کے زيادہ تر علاقوں میں امن و سکون کی فضا قائم ہوچکی تھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شام کے قریب کی سرحدوں پر رہنے والوں کو اسلام کی دعوت دینے کے بارے میں غور وفکرکرنے لگے اور ان افراد کے قلوب کہ جو ان دنوں قیصر روم کے زیر تسلط زندگی بسر کررہے تھے انہیں اسلام کی دعوت دیں۔

 

جنگ موتہ

            
آٹھویں ہجری کے آغاز میں کہ جب حجاز کے زيادہ تر علاقوں میں امن و سکون کی فضا قائم ہوچکی تھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شام کے قریب کی سرحدوں پر رہنے والوں کو اسلام کی دعوت دینے کے بارے میں غور وفکرکرنے لگے اور ان افراد کے قلوب کہ جو ان دنوں قیصر روم کے زیر تسلط زندگی بسر کررہے تھے انہیں اسلام کی دعوت دیں اور اس کے لئے آپ نے حارث بن عمیر کو ایک خط لکھ کر شام کے سردار کے پاس روانہ کیا۔
ان دنوں شامات(یعنی مغربی ایشیا کا جنوب میں واقع شام، اردن، لبنان، فلسطین اور قبرس ممالک اور ترکی اور مشرقی مصر شامل ہے)  کے تمام علاقوں کا سربراہ حارث بن ابی مثمر غسانی تھا جو قیصرروم کی جانب سے وہاں حکومت کررہا تھا ۔ جس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سفیر شام کے سرحدی علاقوں میں داخل ہوا تو اس وقت شام کے سرحدی شہروں کے حاکم شرحبیل کو پیغمبر اسلام کے سفیر کی آمد کی خبر ملی تو اس نے حارث بن عمیرکو "موتہ" نامی دیہات میں گرفتار کروا لیا اور مکمل طریقے سے اس کی تلاشی لی اور ان سے یہ اعتراف کرالیا کہ وہ پیغمبر اسلام کا خط لے کر شامات( شام کے تمام علاقہ جات) میں آیا ہے۔ شرحبیل بن عمرو نے تمام انسانی اور عالمی اصول و قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکم دیدیا کہ سفیر پیغمبر کے ہاتھ پاؤں کو باندھ کر قتل کردو۔
ادھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوجب اپنے سفیر کے قتل ہونے کی خبر ملی تو آپ بہت سخت ناراض ہوئے اور مسلمانوں کو اس کے قتل کا بدلہ لینے کی دعوت دی ۔
اسی واقعے کے دوران یعنی ماہ ربیع الاول سنہ آٹھ ہجری میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بہت سے افراد کو سپاہ کے عنوان سے سرزمین " ذات الصلاح" پر تبلیغ کے لئے روانہ کیا تاکہ لوگوں کو توحید و یگانگت کی دعوت دیں ، مبلغین کا یہ گروہ اس سرزمین پر وارد ہوا اور بہترین منطق اور اسلامی استحکام کے ذریعے انہیں توحید کی دعوت دی ، دعوت توحید کا یہ نورانی سلسلہ ایسے ہی جاری و ساری رہا کہ اچانک لوگوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہوا اور لوگوں نے ان پر حملہ کردیا اور ان میں سے ایک شخص کے علاوہ کہ جو زخمی حالت میں تھا سب کے سب شہید ہوگئے وہ زخمی شخص رات کے سناٹے میں شہداء کے درمیان سے اٹھا اور کسی طرح سے لوگوں کی نظروں سے خود کو بچاتے ہوئے وہاں سے اپنے آپ کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچایا اور پورا واقعہ بیان کیا، یہ دونوں واقعات(یعنی سفیر کا قتل اور اس گروہ کی شہادت) اس بات کا باعث بنا کہ ماہ جمادی الاول میں آپ نے جہاد کا حکم دیدیا اور ان سرکشوں اور اس گروہ کو قتل کرنے والوں کی سرکوبی کے لئے آپ نے تین ہزار کا لشکرروانہ کیا ۔
جہاد کا حکم جاری ہوا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بذات خود چھاؤنی پر تشریف لائے اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا:
" تم لوگ اس مقام پر جاؤ جہاں پر سفیر اسلام کو شہید کیا گيا ہے اور وہاں کے لوگوں کو دوبارہ اسلام اور توحید کی دعوت دو اگر وہ لوگ ایمان لائے تو سفیر کے خون کا بدلہ نہ لینا لیکن اگر انہوں نے اسلام کی دعوت پر لبیک نہیں کہا تو خداوندعالم سے نصرت و مدد طلب کرکے ان سے جنگ کرنا ، اے اسلام کے سپاہیو، خدا کے نام سے جہاد کرنا اور سرزمین شام پر جو دشمنان خدا اور تمہارے دشمن ہیں انہیں ادب سکھانا اور یہ بھی یاد رہے کہ اس علاقے سے دور جو راہب یا راہبا‏ئیں اپنے اپنے کلیساؤں میں زندگی بسر کرتے ہیں ان سے کوئی سروکار نہ رکھنا اور شیطانوں کے خیمے کہ جو ان کے گروہ کے درمیان موجود ہیں انہیں اپنی تلواروں سے ویران کردینا اور یہ بھی یاد رہے کہ ان کی عورتوں ، بچوں اور ان کے بے حد ضعیف افراد کو قتل نہ کرنا اسی طرح سے دیکھو جو کجھور کے باغات ہیں انہیں بھی نہ کاٹنا اور ان کے گھروں کو بھی ویران نہ کرنا ، اے میرے جانباز سپاہیوں اس لشکر کے سردار میرے چچا زاد بھائی جعفر بن ابی طالب ہیں اگر وہ قتل ہوجائیں تو ان کے بعد زيد بن حارثہ پرچم کو اپنے ہاتھوں میں لیں گے اور لشکر کی سربراہی کریں گے اور اگر وہ بھی مارے گئے تو لشکر کے علمبردار عبد اللہ بن رواحہ ہوں گے اور اگر یہ بھی قتل کردیئے گئے تو تم لوگ خود ہی کسی کو اپنا سردار منتخب کرلینا اس کے بعد آپ نے لشکر روانہ ہونے کا حکم دیا ۔ 
دوسری جانب اس زمانے کا روم جس نے مسلمانوں کی شہامت و بہادری کا چرچا سن رکھا تھا مگر جب روم کی حکومت کو لشکراسلام کی روانگی کے بارے میں خبر دی گئی تو اس وقت روم کے بادشاہ ہرقل نے شام میں اپنی کٹھ پتلی حکومت کی مدد کے لئے اپنی قوی ترین فوج کو تین ہزارمسلمانوں سے مقابلے کے لئے آمادہ کیا ۔ صرف سرزمین شام کے سربراہ شرحبیل نے شام کے مختلف قبیلوں سے ایک لاکھ سپاہیوں کو اکٹھا کیا اور اسلامی لشکر کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے اسلامی سرحدوں پر روانہ کیا یہاں تک کہ قیصرروم بھی ایک لاکھ فوجیوں کے ساتھ روم سے شام کی جانب روانہ ہوا اور " بلقا " کے ایک شہر " مآب " پہنچا اور ان افراد کو امدادی فوج کے عنوان سے بعنوان ذخيرہ قیام کیا ۔
اسلامی فوج شام کی سرحدوں پر پہنچی تو اسے دشمنوں کی آمادگی اور اس کی فوج کی طاقت و قدرت کا علم ہوا لہذا انہوں نے فورا ہی مقابلے کے بارے میں کہ کس طرح سے دشمن کی فوج سے مقابلہ کیا جائے فوجی کونسل کا ایک ہنگامی جلسہ منعقد کیا ، ایک گروہ نے کہا: ہمیں ایک خط لکھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس واقعہ سے آگاہ کرنا چاہیئے اور آپ سے راہ حل معلوم کرنا چاہیئے قریب تھا کہ اس مشورے کو قبول کیا جاتا کہ عبداللہ بن رواحہ (یہ وہی شخص تھا جس کو پیغمبر اسلام نے تیسرے مرحلے میں فوج کی باگ ڈور سنبھالنے کی تلقین کی تھی اور مدینہ منورہ سے نکلتے وقت خداوندعالم سے شہادت کی دعا کی تھی) اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک پرجوش اور ولولہ انگیز خطبہ دیا جس میں کہا کہ " خدا کی قسم ہم نے اب تک دشمنوں سے افراد کی کثرت ، اسلحوں کی زيادتی اور گھوڑوں کی زيادتی کی بنیاد پر جنگ نہیں کی ہے بلکہ ہم نے اپنے عقیدے اور ایمان پر اعتماد کرکے دشمنوں سے مقابلہ کیا ہے لہذا تم سب لوگ اٹھو اور اپنی راہ کو جاری و ساری رکھو دشمن سے مقابلہ آرائی شروع کرو اور یہ بات ذہن نشین کرلو کہ جنگ بدر میں ہمارے پاس دو گھوڑے اور جنگ احد میں ایک گھوڑے سے زيادہ نہ تھے اور اس جنگ میں بھی ہم دو ہی چیزوں کے منتظر ہیں یا ان کو شکست دے کر جیت کا سہرا اپنے سر باندھ لیں گے اور یہ وہی وعدہ ہے جس کا پروردگار عالم اور اس کے رسول نے ہم سے کیا ہے اور یہ وعدہ کبھی بھی برخلاف نہیں ہوگا یا یہ کہ ہم مقام شہادت پر فائز ہوجائيں گے اور اس طرح اپنے بھائیوں کے ساتھ ملحق ہوجائیں گے۔
عبداللہ بن رواحہ کے خطبے نے اسلام فوج کی روح جہاد کو مزيد تقویت و مستحکم کردیا اور وہ لوگ اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ ہوگئے۔
دونوں فوجیں منزل " شارف" پر ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہوگئیں لیکن فوجی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی فوج نے کچھ عقب نشینی کیا اور سرزمین موتہ پر قیام کیا ۔
اسلامی فوج کے سردار حضرت جعفربن ابی طالب علیہما السلام نے اپنے سپاہیوں کو مخلتف گروہوں میں تقسیم کیا اور حماسہ آفریں رجز پڑھتے ہوئے دشمنوں پر حملہ کیا لیکن اچانک انہوں نے اپنے کو دشمنوں کے محاصرے میں دیکھا اور جب اپنی شہادت کا مکمل یقین ہوگيا تو یہ سوچ کر کہ دشمن آپ کے گھوڑے سے استفادہ نہ کریں اور اسی طرح سے دشمنوں کو یہ سمجھانے کے لئے کہ مادی دنیا سے ہر طرح کا رابطہ منقطع کرلیا ہے اپنے گھوڑے سے اترے اور اپنے دشمن پر ایک ضربت ماری اور اسے آگے بڑھنے سے روک دیا اور اپنا دفاع کرتے ہوئے حملے کو جاری رکھا اسی اثناء میں ایک شقی نے آپ کے داہنے بازو کو قلم کردیا اور آپ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پرچم کو زمین پر گرنے سے بچانے کے لئے پرچم کو بائیں ہاتھ میں لیا لیکن جب بایاں ہاتھ  بھی قلم ہوگیا تو آپ نے شانوں سے پرچم کو گرنے سے بچایا بالآخر اس سے زيادہ زخم کھا کر زمین پر گر پڑے اور اپنی جان راہ خدا میں قربان کردی۔
جب جعفربن ابی طالب علیہما السلام شہید ہوگئے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق اسلامی لشکر کی باگ ڈور " زید بن حارثہ " کے ہاتھوں میں آگئی انہوں نے پرچم اسلام کو اپنے کاندھوں پر رکھا اور پوری شجاعت و بہادری اور شہامت کے ساتھ اپنے فرائض کو ادا کیا اورنیزوں کے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی جان جانان آفریں کے نام سپرد کردی، ان کے بعد ان کے معاون "عبد اللہ بن رواحہ" نے پرچم اسلام کو اپنے ہاتھوں میں لیا، اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے حماسہ آفریں اشعار کو پڑھنا شروع کیا، جنگ کے دوران انہیں اس قدر بھوک ستانے لگی کہ برداشت نہیں کرپارہے تھے لہذا انہیں روٹی کا ایک ٹکڑا دیا گيا تاکہ اپنی بھوک مٹا سکیں ابھی انہوں نے روٹی تناول بھی نہیں تھی کہ دشمنوں کی جانب سے بلند ہونے والی آوازیں ان کے کانوں سے ٹکرائیں تو انہوں نے روٹی کا ٹکڑا وہیں پر چھوڑ دیا اور خود دشمنوں کے قریب پہنچ گئے اور گھمسان کی جنگ کی اور راہ خدا میں اپنی جان قربان کردی ۔


اسلامی لشکر کی حیرانی


جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے معین ہونے والے اسلامی لشکرکے تین کمانڈرشہید ہوگئے تو چونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے بعد کی فوج کی سردار کے انتخاب کی ذمہ داری فوج کے سپرد کردیا تھا لہذا ثابت بن ارقم نے پرچم کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور سپاہیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تم لوگ جتنی جلدی ممکن ہو اپنے لئے ایک سردار کا انتخاب کرو، سب نے ایک آواز ہوکر کہا: تم ہی ہمارے سردار رہو ثابت بن ارقم نے کہا: میں ہرگز اس عظیم ذمہ داری کو قبول نہیں کروں گا اس لئے تم لوگ کسی اور شخص کو سرداری کے لئے منتخب کرو، اس کے بعد ثابت بن ارقم اور تمام مسلمانوں نے " خالد بن ولید " کو کہ جس نے کچھ ہی دن پہلے اسلام قبول کیا تھا اور وہاں موجود تھے اپنا سردار منتخب کرلیا ۔
جب اس نئے سردار نے محسوس کیا کہ مسلمان بہت ہی خوف و ہراس میں مبتلا ہوگئے ہیں تو ایک نئی حکمت عملی اپنائی اور آدھی رات میں کہ جب ہر جگہ تاریکی چھائی ہوئی تھی پورے شور و غل کے ساتھ اپنے سپاہیوں کو وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا حکم دیدیا یعنی میمنہ سے میسرہ اور میسرہ سے میمنہ اور سب سے آگے رہنے والے فوجیوں کو قلب لشکر میں قرار دیا اور سپاہیوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا یہ سلسلہ سپیدی سحر تک جاری رکھا پھر "خالد بن ولید" نے حکم دیا کہ مسلمانوں کے لشکر کا ایک گروہ کچھ فاصلے پر جائے اور جب صبح نمودارہوجائے تو " لاالہ الا اللہ " کا نعرہ بلند کرکے مسلمانوں سے ملحق ہوجائے۔
یہ کام خالد بن ولید نے اس لئے کروایا تھا تا کہ دشمن کی فوج کو یہ یقین ہوجائے کہ مسلمانوں کی نصرت و مدد کے لئے ایک اور نئی فوج آگئی ہے اور تازہ نفس افراد معرکہ جنگ میں داخل ہوئے ہیں، اتفاق سے یہی بات سبب بنی کہ روم کی فوج نے اس پر یقین کرلیا اورجب روم کی فوج کا سردار بھی مارا گیا تو روم کی فوج کے تمام  سپاہی منتشر ہوگئے اور خاموشی اختیار کرلی دوسری جانب مسلمانوں نے بھی موقع غنیمت جانا اور نہایت ہی سکون و آرام کے ساتھ جنگ کو چھوڑ کر اپنے وطن واپس آگئے۔(1)


حضرت جعفرطیار کی شہادت پر پیغمبر اسلام کا شدید گریہ


 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جعفرطیار بن ابی طالب علیہما السلام کی خبر شہادت سن کر بہت زیادہ گریہ و زاری کی اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس کو شوہر کی وفات کی خبر دینے اور ان کی خدمت میں تعزیت پیش کرنے کے لئے خود بنفس نفیس ان کے گھر تشریف لے گئے اور اسماء بنت عمیس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میرے بچے کہاں ہیں؟ اسماء نے جعفرطیارکے بچوں کو یعنی عبد اللہ، عون اور محمد کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا، اسماء بچوں کے ساتھ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والہانہ اخلاق و محبت کو دیکھ کرسمجھ گئيں اور عرض کیا ایسا لگتا ہے میرے بچے یتیم ہوگئے ہیں؟ کیونکہ آپ بچوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کررہے ہیں جیسے یتیموں کے ساتھ کیا جاتا ہے یہ سن کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس قدر گریہ کیا کہ آپ کے آنسو آپ کی داڑھی پر گررہے تھے اس کے بعد آپ نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو حکم دیا کہ کھانے پینے کا سامان فراہم کریں اور تین دنوں تک جعفر کے گھروالوں کی خدمت میں پیش کریں ۔
حضرت جعفرطیار اور زید بن حارثہ کی موت نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دل پر بہت زيادہ اثر کیا اورجب بھی آپ کو ان لوگوں کی یادآتی تھی تو آپ بہت زیادہ گریہ و زاری کیا کرتے تھے۔ (2)
 

سوال:

جنگ موتہ کا واقعہ کیا ہے۔؟


منابع :

   
1- طبقات الکبری " ابن سعد" ج 2 ص 99
2- السیرۃ النبویہ " ابن ہشام " ج 2 ص 380
          
دفترنشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف: علی ریختہ گرزادہ تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: