مواد کا کوڈ۔: 34
ہٹس: 1891
تاریخ اشاعت : 28 November 2022 - 15: 00
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (26)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھٹیں ہجری میں دوسرے ملکوں میں اپنے سفیر روانہ کئے اور ایک خط آپ نے مصر کے حاکم کو بھی لکھا اور اسے آئین توحید کی دعوت دی اس نے اگر چہ پیغمبر اسلام کی دعوت کو قبول نہیں کیا لیکن آپ کے خط کے احترام میں بہت سے تحائف کے ساتھ ایک کنیز بنام ماریہ کو بھی روانہ کیا ۔

پیغمبر اسلام اپنے بیٹے کے سوگ میں


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھٹیں ہجری میں دوسرے ملکوں میں اپنے سفیر روانہ کئے اورایک خط آپ نے مصر کے حاکم کو بھی لکھا اور اسے آئین توحید کی دعوت دی اس نے اگر چہ پیغمبر اسلام کی دعوت کو قبول نہیں کیا لیکن آپ کے خط کے احترام میں بہت سے تحائف کے ساتھ ایک کنیز بنام ماریہ کو بھی روانہ کیا ۔ یہ کنیزبعد میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریکہ حیات بن کر صاحب افتخار ہوئیں اور ان کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام " ابراہیم " رکھا گیا جسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہت زیادہ چاہتے تھے، ابراہیم کی ولادت نے پیغمبر اسلام کے دوسرے بچوں کی موت کے غم کو مندمل کرکے پیغمبرعظیم الشان کو خوشحال کردیا لیکن قابل افسوس بات تو یہ کہ اٹھارہ مہینے کے بعد ابراہیم بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس بیٹے کی موت نے بہت زیادہ متاثر کردیا اور آپ نے بہت زيادہ گریہ و زاری کی ۔ عبدالرحمن بن عوف کہ جو قبیلہ انصار میں سے تھا اس نے پیغمبراسلام کے گریہ و زاری پر بہت تعجب کیا اوراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے مرنے والوں پر رونے سے ہمیں منع کرتے ہیں لیکن اس وقت خود آپ اپنے بیٹے کی موت پر کیوں گریہ کررہے ہیں۔ ؟
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: میں نے ہرگز یہ بات نہیں کہی ہے کہ تم لوگ اپنے مرنے والوں پر گریہ نہ کروکیونکہ یہ گریہ و زاری رحمدلی اور دلسوز اور مہربان ہونے کے نشانی ہے بلکہ میں نے تو یہ کہا ہے کہ اپنے مرنے والوں کے غم میں چیخوں اور چلاؤ نہیں، کفرآمیز گفتگو نہ کرو اور نہ ہی اعتراض آمیز اور طنزیہ باتیں کرو اور شدت غم سے اپنے کپڑوں کو نہ پھاڑو۔
جس دن ابراہیم کا انتقال ہوا اس دن سورج کو گرہن لگا، ایک گروہ جو نوامیس ( ناموس کی جمع) اور عالم فطرت کے قوانین سے بے خبر تھا اس نے اس طرح کہا کہ سورج گرہن ابراہیم کے مرنے کی وجہ سے گا تھا یہ بات اگر چہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نفع میں تھی اور اگر پیغمبراسلام ایک عام اور مادی رہبر ہوتے تو ممکن تھا کہ اس بات کی تائید کرتے اور اس چیز کو اپنی عظمت و بزرگی قرار دیتے ۔ لیکن اس تصور کے برخلاف آپ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: "  اِنَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ ایَتانِ مِنْ آیاتِ اللهِ یَجْرِیانِ بِاَمْرِهِ مُطیعانِ لَهُ(1) لایَنْکَسِفانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلا لِحَیاتِهِ. " سورج اور چاند خداوندعالم کی قدرت کی نشانیاں ہیں یہ دونوں فطری سنتوں اور قوانین کے مطابق کہ جسے خدا نے ان پر مقرر کیا ہے اپنے خاص محور پر چلتے ہیں اور ہرگز کسی کی موت یا کسی کی پیدائش پر اپنا سفر نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ تمہارا فریضہ ہے کہ جب سورج گرہن یا چاند گرہن ہو تو نمازآیات پڑھو اور خدا کے بارے میں غور و فکر کرو اور اس طرح سے کہ جو پیغمبران الہی اور پیغمبروں کی روش تھی اور ہے کے ذریعے اس باطل اور بیہودہ باتوں سے مقابلہ کیا ۔


نجران کے نمائندوں کا وفد


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کے مذہبی مراکز، بادشاہوں اور سربراہان مملکت کے ساتھ ہی اسقف نجران ابوحارثہ کے نام ایک خط لکھا اور ساکنین نجران کو آئين توحید کی دعوت دی۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندے نجران پہنچے اور اسقف نجران کو پیغمبراسلام کا خط دیا اس نے خط کھولا اور بہت ہی دقت کے ساتھ خط پڑھا اور اس کے بعد ایک گروہ تشکیل دیا اورپھر اس گروہ کے درمیان پیغمبراسلام کے خط کو پڑھ کر سنایا، اس گروہ کے ایک شخص نے کہا مجھے مذہبی امور کے بارے میں بہت زيادہ معلومات نہیں ہے لیکن اپنے مذہبی پیشوا سے متعدد مرتبہ سن چکا ہوں کہ ایک دن نبوت کا منصب نسل اسحاق سے اسماعیل کے بچوں میں منتقل ہوجائے گا اور بعید نہیں ہے کہ یہ محمد اسماعیل کی اولاد سے ہوں اوریہ  وہی پیغمبر موعود ہوں۔
اس گروہ نے مشورہ کے بعد اپنا نظریہ پیش کیا کہ ایک گروہ نجران کے وفد کے عنوان سے مدینہ منورہ جائے تا کہ قریب سے حضرت محمد سے ملاقات کرے اور ان کے نبی ہونے کے بارے میں تحقیق کرے اور اس طرح نجران کے ساٹھ معتبر اور پڑھے لکھے افراد کو منتخب کیا گيا جن میں تین افراد بنام ابوحارثہ، عبدالمسیح اور ایہم سرفہرست تھے۔ نجران کے نمائندوں کا وفد خوبصورت و ریشمی لباس اور ہاتھوں میں سونے کی انگوٹھیاں پہنے اور گردنوں میں صلیب لٹکائے ہوئے عصر کے وقت مسجد نبوی میں داخل ہوا اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا لیکن ان کی وضع و قطع اورغیرمناسب صورتحال دیکھ کروہ بھی مسجد میں پیغمبراسلام کو سخت رنجیدہ کردیا، ادھر ان لوگوں کو بھی یہ محسوس ہوگيا کہ پیغمبر اسلام ہم سے ناراض ہوگئے ہیں لیکن انہیں ناراض ہونے کی وجہ نہیں معلوم ہے، اس وقت ان لوگوں نے اپنے بعض دیرینہ جاننے والے مسلمانوں سے پورا واقعہ بیان کیا ان لوگوں نے کہا کہ اس مشکل کا حل صرف علی بن ابی طالب علیہما السلام کے ہاتھ میں ہے، جب نجران کے وفد نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضری دی تو آپ نے ارشاد فرمایا: تم لوگوں کو چاہیئے کہ اپنے زرد برق کپڑوں کو تبدیل کردو اورسادہ اور بغیر کسی زيور پہنے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں جاؤ اس وقت تمہیں بہت ہی احترام و اکرام سے سراہا جائے گا ، نجران کے نمائندوں نے اپنے لباس تبدیل کردئیے اور نہایت ہی سادگی کے ساتھ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اورسلام کیا، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان لوگوں کا بہت ہی محبت سے جواب دیا اور یہ لوگ جو تحفہ آںحضرت کے لئے اپنے ہمراہ لائے تھے اسے قبول کرلیا، اس سے پہلے کہ نجران کے نمائندے اپنی اصل گفتگو کا آغازکرتے کہا کہ ہماری عبادت کا وقت آن پہنچا ہے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں اجازت دی کہ وہ لوگ اپنی عبادت مسجد مدینہ میں ہی بجالائیں ۔


نجران کے نمائندوں سے گفتگو


نجران کے نمائندوں نے نماز پڑھنے کے بعد پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے گفتگو شروع کی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کے بارے میں دلائل پیش کئے مگر ان لوگوں نے قبول نہیں کیا اور کہا کہ آپ کی گفتگو ہمیں قانع نہیں کرسکتی اب بہترین مشورہ یہی ہے کہ ہم لوگ آپس میں ایک معین وقت پر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر لعنت کریں، اسی وقت فرشتہ وحی جبرئيل امین آيت مباہلہ لے کرنازل ہوئے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ ذمہ داری سونپی کہ جو لوگ آپ سے مجادلہ کررہے ہیں اور حق کی باتوں کو قبول نہیں کررہے ہیں ان کے ساتھ مباہلہ کیجئے۔ مباہلہ یعنی ایسے وقت کہ جب طرفین ایک دوسرے کو قانع نہ کرسکیں اورایک دوسرے کی باتوں کو نہ مانیں تو ہر ایک گروہ خداوندعالم کی بارگاہ میں جھوٹوں پر لعنت کریں تاکہ خداوند عالم کی رحمت سے وہ گروہ دور ہوجائے۔ آخر کار طرفین مباہلہ کرنے پر راضی ہوگئے اور یہ طے پایا کہ دوسرے دن ہر ایک مباہلے کے لئے آمادہ ہوجائے۔


واقعہ مباہلہ


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مباہلے کا واقعہ یہ ہے کہ نصارائے نجران کے نمائندوں کا ایک وفد پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے گفتگو کرنے کے لئے مدینہ منورہ آیا جو نہایت ہی عمدہ اور تاریخ اسلام کا ایک حیرت انگيز واقعہ ہے اور محدثین و مورخین نے اسے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ہم یہاں پر مفسربزرگ علامہ زمخشری کی تفسیر کا اقتباس بیان کررہے ہیں جسے انہوں نے اپنی مشہور تفسیر "کشاف" میں نقل کیا ہے وہ تحریر کرتے ہیں۔
" مباہلے کا وقت آن پہنچا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نصارائے نجران کے وفد سے طے کیا تھا کہ مباہلہ شہر مدینہ سے باہر صحرا میں انجام پائے گا ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں اور اپنے رشتہ داروں کے درمیان سے صرف چارافراد کا انتخاب کیا جنہوں نے اس تاریخی واقعے میں شرکت کی اور یہ چارافراد علی بن ابی طالب، فاطمہ زہرا،حسن اور حسین علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مباہلے کے لئے نہایت ہی عظیم الشان طریقے سے اس طرح نکلے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام آپ کی آغوش مبارک میں اور حضرت امام حسن علیہ السلام آپ کی انگلیاں پکڑے ہوئے تھے، آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا آپ کے نشان قدم پر قدم رکھتے ہوئے اورحضرت علی علیہ السلام آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے آپ نے میدان مباہلہ میں پہنچنے سے پہلے اپنے ہمراہ آنے والوں سے فرمایا: دیکھو جب میں دعا کروں گا تو تم لوگ آمین کہنا۔ دوسری جانب نصارائے نجران کے نمائندہ وفد کے افراد اس سے پہلے کہ پیغمبراسلام کے روبرو ہوتے ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اگر تم لوگ یہ مشاہدہ کرنا کہ محمد میدان مباہلہ میں اپنے افسروں اور سپاہیوں کے ساتھ آرہے ہوں اور اپنی مادی قدرت و توانائی کا مظاہرہ کررہے ہوں تو سمجھ لینا کہ وہ سچے آدمی نہیں ہیں اور اپنی نبوت پر اعتقاد نہیں رکھتے لیکن اگر محمد اپنے بچوں اور جگر پاروں کے ساتھ آرہے ہوں تو یہ سمجھ لینا وہ خدا کے حقیقی پیغمبر ہیں اور اپنی نبوت پر اس قدر ایمان رکھتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ خود کو موت کی وادی میں قراردے رہے ہیں بلکہ اپنے عزیزترین اور محترم اعزہ کو بھی فنا اور نابودی میں ڈال رہے ہیں۔
اچانک نصارائے نجران کی آنکھوں نے مشاہدہ کیا کہ پیغبمراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور چاردوسرے نورانی چہرے ظاہر ہوئے یہ منظر دیکھ کر نصارائے نجران ایک دوسرے کے چہرے کی جانب دیکھنے لگے اور نورانی چہروں کو دیکھ کرسخت حیرت میں پڑ گئے اور سمجھ گئے کہ محمد اپنی دعوت پر یقین مستحکم رکھتے ہیں۔
اسقف نجران نے کہا: میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ دعا کے لئے اپنے ہاتھوں کو بلند کردیں اورخدا کی بارگاہ میں دعا کریں کہ سب سے بڑا پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو فورا ہی وہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا اس لئے ہمارے لئے مناسب نہیں ہے کہ ہم ان نورانی اور بافضيلت چہرے والوں کے ساتھ مباہلہ نہ کریں کیونکہ اگر ہم ان سے مقابلہ کریں گے تو سب کے سب نابود ہوجائیں گے اور ممکن ہے عذاب کا دائرہ وسیع ہوجائے اور دنیا کے تمام عیسائیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور روئے زمین پر ایک بھی عیسائي باقی نہ بچے۔
اس گفتگو اور آپسی رائے مشورہ کرنے کے بعد وفد نے بالاتفاق فیصلہ کیا کہ ہم محمد سے ہرگز مباہلہ نہیں کریں گے اور ہر سال کچھ رقم ٹیکس کے عنوان سے ادا کریں گے اور اس کے مقابلے میں اسلامی حکومت ہمارے جان و مال کی حفاظت اور دفاع کرے گی اور ہم اپنے مذہبی امور کی ادائیگی میں آزاد رہیں گے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی ان کی باتوں کو قبول کرلیا ۔( 2)
  پیغمبراسلام کی شریکہ حیات جناب عائشہ سے منقول ہے کہ مباہلے کے دن  پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی سیاہ عبا کے نیچے چارافراد کو رکھا اور اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی: (3)
 " انما یُریدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهیراً۔" (4)
" بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اے اہل بیت تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔"
اس کے بعد علامہ زمخشری نے واقعہ مباہلہ اور اس کے اہم نکات کو بیان کیا اور پھر بحث کے آخر میں تحریرکرتے ہیں: مباہلے کا واقعہ اور اس آیت کریمہ کا مفہوم اصحاب کساء کی فضیلت پر بہت بہترین دلیل ہے اورآئين اسلام کی حقانیت پر بہترین اور مستحکم سند و دلیل ہے۔


 سوالات:


1- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نجران کے نمائندہ وفد کو پہلی مرتبہ کیوں قبول نہیں کیا ۔؟
2- واقعہ مباہلہ کیا تھا اور کیوں رونما ہوا ۔؟


منابع :


1- تفسیرقمی ج 2 ص 342
2- تاریخ یعقوبی ج 2 ص 82،83
3- صحیح مسلم ج 7 ص 130
4- سورہ احزاب آیت 33

دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت

مولف:علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: