مواد کا کوڈ۔: 49
ہٹس: 101
تاریخ اشاعت : 08 September 2023 - 09: 18
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (10)
معاصرمصری مورخین جنہوں نے اسلام کے واقعات کی تحلیل کیا ہے حضرت علی علیہ السلام کے حق کو جیسا کہ آپ کے شایان شان تھا یا کم از کم جیسا کہ تاریخ نے لکھا ہے ادا نہیں کیا ہے اور امیر المومنین علیہ السلام کی جانثاری کو دوسرے کے حق میں قرار دیا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کی جانثاری کی تشریح


معاصرمصری مورخین جنہوں نے اسلام کے واقعات کی تحلیل کیا ہے حضرت علی علیہ السلام کے حق کو جیسا کہ آپ کے شایان شان تھا یا کم از کم جیسا کہ تاریخ نے لکھا ہے ادا نہیں کیا ہے اور امیر المومنین علیہ السلام کی جانثاری کو دوسرے کے حق میں قرار دیا ہے۔ اس بناء پرضروری ہے کہ مختصر طور پرحضرت علی علیہ السلام کی قربانیوں کو انہیں کے مأخذ سے بیان کیاجائے ۔
1۔ مشہور مورخ ابن اثیر نے اپنی تاریخ(1) میں لکھا ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاروں طرف سے قریش کے لشکروں میں گھرگئے تھے ہرگروہ جب بھی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرحملہ کرتا تھا تو حضرت علی علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے ان پرحملہ کرتے اور ان کے بعض افراد کو قتل کرکے ان کے درمیان تفرقہ کی راہ ہموار کرتے تھے، یہ واقعہ احد میں کئی مرتبہ واقع ہوا۔ اس جانثاری کی بنیاد پرجبرئیل امین نازل ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام کے ایثار کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سراہا اورکہا:یہ ایک بلند ترین جانثاری ہے کہ جس کوانہوں نے کر دکھایا ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جبرئیل امین کی تصدیق کی اور فرمایا :'' میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہیں'' کچھ ہی دیر کے بعد میدان میں ایک آواز سنائی دی جس کا مفہوم یہ تھا: " لاسیف الا ذو الفقار ولا فتی الا علی" ذوالفقار کے جیسی کوئی تلوار نہیں اورعلی کے جیسا کوئی جوان نہیں ہے ۔
 شارح نہج البلاغہ مشہورمورخ ابن ابی الحدید معتزی اس واقعہ کی مزید تشریح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: وہ گروہ جس نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حملہ کیا تا کہ ان کوقتل کردیں اس میں پچاس آدمی تھے اورعلی علیہ السلام نے کہ جو پیدل جنگ کررہے تھے ان لوگوں کومتفرق کردیا۔ پھر جبرئیل امین کے نازل ہونے کے بارے میں کہتے ہیں:اس مطلب کے علاوہ جو کہ تاریخ کے اعتبار سے مسلم ہے میں نے محمد بن اسحاق کی کتاب ''غزوات'' کے بعض نسخوں میں جبرئیل امین کے نازل ہونے کے متعلق دیکھا ہے یہاں تک کہ ایک دن اپنے استاد عبدالوہاب سکینہ سے اس واقعہ کی صحت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا صحیح ہے میں نے ان سے کہا پھر کیوں اس صحیح روایت کو صحاح ستہ کے مولفین نے نہیں لکھا؟ تو انہوں نے جواب میں کہا: بہت سی صحیح روایتیں موجود ہیں جس کے لکھنے میں صحاح ستہ کے مولفین سے غفلت ہوئی ہے۔(2)
2۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے ''رأس الیہود'' کے متعلق اپنے اصحاب کے بعض گروہ کے سامنے جو تفصیلی تقریرفرمائی اس میں اپنی جانثاری کے بارے میں اس طرح اشارہ کرتے ہیں: جس وقت قریش کے لشکر نے طوفان کی طرح سے ہم پر حملہ کیا تو انصار اور مہاجرین اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگئے لیکن میں نے ستر زخم کھانے کے باوجود بھی حضرت کا دفاع کیا۔
پھر آپ نے قبا کواتارا اور زخم کے نشانات جوباقی تھے اس پر ہاتھ لگا کر دکھایا، یہاں تک کہ بنا بر نقل کتاب ''خصال شیخ صدوق'' حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع کرنے میں اتنی جانفشانی و جانثاری کی کہ آپ کی تلوار ٹوٹ گئی اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تلوار ذوالفقارکو حضرت علی علیہ السلام کے حوالے کیا تاکہ اس کے ذریعے سے راہ خدا میں جہاد کرتے رہیں۔(3)
3۔ شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی لکھتے ہیں:  جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اکثر صحابی و سپاہی میدان سے بھاگ گئے تو دشمنوں نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پراوربڑھ چڑھ کرحملہ کرنا شروع کردیا، بنی کنانہ قبیلہ کا ایک گروہ اور بنی عبد مناف قبیلے کا گروہ جن کے درمیان چار نامی پہلوان موجود تھے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف حملہ آور ہوئے، اس وقت علی علیہ السلام پیغمبراسلام کے چاروں طرف سے پروانہ کی طرح حفاظت کررہے تھے اور دشمن کو نزدیک آنے سے روک رہے تھے ایک گروہ جس کی تعداد پچاس آدمیوں سے بھی زیادہ تھی انہوں نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا اورصرف حضرت علی علیہ السلام کا شعلہ ور حملہ تھا جس نے اس گروہ کو منتشر کردیا لیکن وہ پھردوبارہ آگئے اور پھر سے حملہ شروع کردیا اور اس حملے میں وہ چار نامی پہلوان اور دس دوسرے افراد کہ جن کا نام تاریخ نے معین نہیں کیا ہے قتل ہوگئے ،جبرئیل امین نے حضرت علی علیہ السلام کی اس جانثاری پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبارک باد دی اور پیغمبراسلام نے فرمایا: علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔(4)
 قریش مسلمانوں کی بہادری اورجانثاریوں سے جنگ بدرمیں باخبرتھے اسی وجہ سے اپنے بہت زیادہ سپاہیوں کو لشکرکاعلمبرداربنایا تھا، قریش کا سب سے پہلا علمبردار طلحہ بن ابی طلحہ تھا وہ پہلا شخص تھا جو حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں مارا گیا، اس کے قتل کے بعد قریش کے پرچم کو اس کے بعد والے نے سنبھالا اور تمام کے تمام حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں مارے گئے، جارث بن ابی طلحہ، عزیزبن عثمان،عبد اللہ بن جمیلہ، ارطاة بن شراجیل اورصوأب تھے۔ان لوگوں کے مارے جانے کی وجہ سے قریش کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ گئی اوراس طرح سے مسلمانوں نے حضرت علی علیہ السلام کی جانثاری کی وجہ سے جنگ فتح کرلی۔(5)
عظیم فقیہ و محدث علامہ شیخ مفیدعلیہ الرحمہ اپنی کتاب ''ارشاد'' میں فرزند رسول حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ قریش کے علمبرداروں کی تعداد نوآدمیوں پر مشتمل تھی اورتمام کے تمام یکے بعد دیگرے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں مارے گئے۔(6) مشہور مورخ ابن ہشام نے اپنی کتاب ''سیرہ'' میں ان افراد کے علاوہ اور بھی نام ذکر کئے ہیں جو حضرت علی علیہ السلام کے پہلے ہی حملہ میں قتل ہوگئے تھے۔ (7)


حضرت علی علیہ السلام کی جانثاری کا ایک اورزرین صفحہ


اسلام کی تیسری سنگین جنگ کہ جو کفار قریش اورمدینے کے مسلمانوں کے درمیان ہوئی تھی وہ جنگ خندق یا احزاب تھی، جنگ خندق کے حالات کو ہم تاریخ اسلام کے پہلے حصے میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں اوراس حصے میں بیان کرنے کا ہمارا مقصد صرف حضرت علی علیہ السلام کی حکمت عملی اور فداکاری کو پیش کرنا ہے ۔
عرب کے بت پرستوں یعنی مشرکین مکہ اور مدینے کے اطراف میں رہنے والے یہودیوں کی فوج چیونٹی اور ٹڈی کی طرح ایک گہرے خندق کے کنارے آکر رک گئی جسے مسلمانوں نے چھ دن میں کھودا تھا ان لوگوں نے سوچا پچھلی مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی احد کے جنگل میں مسلمانوں سے مقابلہ کریں گے لیکن اس مرتبہ وہاں مسلمانوں کی فوج موجود نہ تھی بہرحال وہ لوگ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ شہر مدینہ کے دروازے تک پہنچ گئے وہ لوگ مدینے کے نزدیک ایک گہری اور خطرناک خندق دیکھ کرحیران و پریشان ہوگئے دشمن کی فوج کے سپاہیوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی جب کہ اسلام کے مجاہدوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی۔
تقریباً ایک مہینے تک مدینہ کا محاصرہ کئے رہے اورقریش کے سپاہی ہر لمحہ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح سے خندق کو پارکرجائیں. دشمن کے سپاہی خندق کے سپاہیوں سے مقابلے کے لئے جنہوں نے تھوڑے سے فاصلے پر اپنے دفاع کے لئے سنگربنایا تھا روبروہوئے اور دونوں طرف سے تیر چلنے کا سلسلہ شب و روزجاری رہا اور کسی نے بھی ایک دوسرے پر کامیابی حاصل نہ کی۔
دشمن کی فوج کا اس حالت پر باقی رہنا بہت دشواراورمشکل تھا چونکہ ٹھنڈی ہوا اور غذا کی کمی انہیں موت کی دعوت دے رہی تھی اورعنقریب تھا کہ جنگ کا خیال ان کے ذہنوں سے نکل جائے اورسستی اور تھکن ان کی روح میں رخنہ پیدا کردے اس وجہ سے فوج کے بزرگوں کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا مگر یہ کہ کسی بھی صورت سے ان کے بہادرودلیر سپاہی خندق کو پارکرجائیں،قریش کی فوج کے چھ پہلوان و بہادراپنے گھوڑے کو دوڑاتے ہوئے خندق کے پاس گئے اوردھاوا بول دیا اور بہت ہی احتیاط سے خندق پارکرکے میدان میں داخل ہوگئے ان چھ پہلوانوں میں عرب کا نامی گرامی پہلوان عمرو بن عبدود بھی تھا جو شبہ جزیرہ کا قوی اور بہادر جنگجو مشہور تھا اورلوگ اسے ایک ہزار بہادروں پر بھاری سمجھتے تھے،وہ اندر سے لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھا اورمسلمانوں کی صفوں کے سامنے آکر شیر کی طرح غرایا اور تیز تیز چلا کر کہنے لگا کہ بہشت کا دعوی کرنے والے کہاں ہیں؟ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جومجھے جہنم واصل کردے یا میں اس کو جنت میں بھیج دوں؟ اس کے کلمات موت کی آواز تھے اوراس کے مسلسل نعروں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اس طرح خوف بیٹھ گیا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ سب کے کان بند ہوگئے ہوں اور سب کی زبانیں جواب نہ دینے کی صلاحیت رکھتی ہو؟
ایک مرتبہ پھرعرب کے بوڑھے پہلوان نے اپنے گھوڑے کی لگام کو چھوڑ دیا اور مسلمانوں کی صفوں کے درمیان پہنچ گیا اور ٹہلنے لگا اور پھر اپنا مقابل مانگنے لگا۔ جتنی مرتبہ بھی اس عرب کے نامی پہلوان کی آواز جنگ کے لئے بلند ہوتی تھی فقط ایک ہی جوان اٹھتا تھا اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت طلب کرتا تھا مگر ہر بار پیغمبراسلام اسے منع کردیتے تھے۔ (8) اور وہ جوان کوئی اور نہیں بلکہ حضرت علی علیہ السلام تھے، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی درخواست کے متعلق فرمایا کہ تم بیٹھ جاؤ یہ عمرو ہے۔ عمرو نے تیسری مرتبہ پھر آوازدی اورکہا میری آواز چیختے چیختے بیٹھ گئی، کیا تمہارے درمیان کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو میدان جنگ میں قدم رکھے؟ اس مرتبہ بھی حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبراسلام سے بہت اصرارکیا کہ جنگ میں جانے کی اجازت دیدیں. پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: یہ لڑنے والا عمرو ہے، حضرت علی علیہ السلام خاموش ہوگئے بالآخر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی درخواست کو قبول کرلیا. پھر اپنی تلوارانہیں عطا کی اوراپنا عمامہ ان کے سر پر باندھا اور ان کے حق میں دعا کی اور فرمایا: خداوندا! علی کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھ. پروردگارا: جنگ بدر میں عبیدہ اور جنگ احد میں شیر خدا حمزہ کو تونے مجھ سے لے لیا، خدایا! علی کو مشکلات سے دور رکھ. پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: " رَبَّ لا تَذَرْ نی فَرْداً و اَنْت خَيرُ الوارِثينَ" (9)
اس کے بعد آپ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: '' بَرَزَ الايمانُ کلُّهُ اِلَی الشِرکِ کُلِّه" یعنی ایمان و شرک کے دو مظہر ایک دوسرے کے روبرو ہوئے ہیں۔(کنزالفوائد ص 137) حضرت علی علیہ السلام ایمان کے مکمل مظہر اورعمرو شرک وکفر کا کامل پیکر تھا۔ شاید پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس جملے سے مقصد یہ ہوکہ ایمان اور شرک کا فاصلہ کم ہوگیا ہے اور اس جنگ میں ایمان کی شکست شرک کی موقعیت کو پوری دنیا میں اجاگر کردے گی۔
امام علیہ السلام تاخیر کی تلافی کے لئے بہت تیزی سے میدان کے لئے روانہ ہوگئے اورعمرو کے پڑھے ہوئے رجز کے وزن اور قافیہ پررجز پڑھنا شروع کیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ جلدی نہ کر اے بہادر میں تجھے جواب دینے کے لئے آیا ہوں۔
حضرت علی علی السلام لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھے اور آپ کی آنکھیں مغفر (لوہے کی ٹوپی) کے درمیان سے چمک رہی تھیں، عمرو حضرت علی علیہ السلام کو پہچاننے کے بعد آپ سے مقابلہ کرنے سے بازآگیا اورکہا تمہارے باپ ہمارے دوستوں میں سے تھے اور میں نہیں چاہتا کہ اس کے بیٹے کے خون کوبہاؤں۔ مشہور مورخ ابن ابی الحدید کہتے ہیں :جب میرے استاد ابوالخیر نے تاریخ کے اس حصے کا درس دیا تو اس طرح بیان کیا کہ"عمرو نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور بہت ہی قریب سے حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت و بہادری کو دیکھا تھا اسی وجہ سے اس نے بہانہ بنایا اور بہت خوفزدہ تھا کہ کس طرح سے ایسے بہادر سے مقابلہ کریں۔ (10)
بالآخر حضرت علی علیہ السلام نے اس سے کہا: تو موت کی وجہ سے ناراض نہ ہو میں چاہے قتل ہوجاؤں چاہے فتح حاصل کرلوں،خوش نصیب رہوں گا اورمیری جگہ جنت میں ہے لیکن ہرحالت میں جہنم تیرا انتظارکر رہا ہے اس وقت عمرونے ہنس کرکہا:اے میرے بھتیجے یہ تقسیم عادلانہ نہیں ہے جنت اور جہنم دونوں تمہارا مال ہے۔(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج2 ص 148)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال:

جنگ خندق میں حضرت علی علیہ السلام کی جاں نثاری کی وضاحت فرمائیں۔؟  


منابع:


1- الکامل فی التاریخ جلد 2 ص 107
2-  شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج14 ص 251
3- خصال شیخ صدوق ج2 ص 15
4- شرح نهج البلاغه  إبن أبی الحدید ج 14 ص 250
5- تفسیر قمی ص 103 ارشاد مفید 115 بحار الانوار ج20 ص 15
6- الارشاد شیخ مفید ص 115
7- سیرہ ابن ہشام ج1 ص 81،84
8- المغازی واقدی ج2 ص 470
9- سورۂ انبیاء آیت 89
10- رح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ح 19 ص 64

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: