مواد کا کوڈ۔: 31
ہٹس: 1895
تاریخ اشاعت : 28 November 2022 - 12: 00
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (23)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان اس طرح فرمایا: تم لوگ ہمارے نہایت ہی غیرمعقول ہم وطن تھے، تم لوگوں نے ہماری رسالت کو جھٹلایا اور مجھے خود میرے گھر سے باہر نکال دیا اور بہت ہی دور دراز کے علاقے کہ جہاں میں نے پناہ لی تھی مجھ سے جنگ کرنےکے لئے آمادہ ہوئے لیکن تمہارے ان تمام جرائم کے باوجود ہم نے تمہیں معاف کردیا اور تمہیں غلامی کی زندگی سے آزاد کررہا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ " اِذْهَبُوا فَاَنْتُمُ الطُّلَقاءُ " جاؤ تم لوگ اپنے اپنے اعتبار سے زندگی بسر کرو آج سے تم سب آزاد ہو

 عام معافی کا اعلان 


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان اس طرح فرمایا:
" تم لوگ ہمارے نہایت ہی غیرمعقول ہم وطن تھے، تم لوگوں نے ہماری رسالت کو جھٹلایا اور مجھے خود میرے گھر سے باہر نکال دیا اور بہت ہی دور دراز کے علاقے کہ جہاں میں نے پناہ لی تھی مجھ سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوئے لیکن تمہارے ان تمام جرائم کے باوجود ہم نے تمہیں معاف کردیا اور تمہیں غلامی کی زندگی سے آزاد کررہا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ " اِذْهَبُوا فَاَنْتُمُ الطُّلَقاءُ " جاؤ تم لوگ اپنے اپنے اعتبار سے زندگی بسر کرو آج سے تم سب آزاد ہو" (1)


مکہ اور اطراف کے بت خانوں کی ویرانی


مکہ مکرمہ کے اطراف میں بے شمار بت خانے موجود تھے جس کا قبیلوں کے لوگ بہت زیادہ احترام کرتے تھے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سرزمین ام القری مکہ مکرمہ سے بت پرستی کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے بہت سے گروہوں کو اطراف مکہ کی جانب روانہ کیا تاکہ اطراف و جوانب میں موجود بت کدوں کو نابود کردیں اوراسی طرح خود مکہ مکرمہ میں بھی اعلان کیا گیا کہ جس کے گھر میں بھی بت موجود ہے اسے فورا توڑ کر پھینک دے۔
اسی درمیان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے خالد بن ولید کو بھی یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ قبیلہ حزیمہ بن عامرجائے اور وہاں کے عوام کو اسلام کی جانب آنے کی دعوت دے مگر یہ خیال رہے کہ وہاں پر خونریزی نہ ہونے پائے اور نہ ہی جنگ رونما ہو، دوسری جانب اسلام سے پہلے اس قبیلے کے لوگوں نے خالد بن ولید کے باپ کو قتل کیا تھا اور ان کے مال و دولت کو برباد کردیا تھا اسی لئے خالد بن ولید کے دل میں ان لوگوں کی طرف سے بغض و کینہ بھرا ہوا تھا۔
مگرجب خالد بن ولید قبیلے والوں کے درمیان پہنچا تودیکھا کہ تمام لوگ ہتھیاروں سے لیس اور دفاع کے لئے آمادہ ہیں خالد بن ولید بلند آواز سے پکارا تم لوگ اپنے اپنے ہتھیاروں کوزمین پر رکھ دو کیونکہ بت پرستی کا زمانہ ختم ہوگيا اور ام القری سے بت پرستی اپنے اختتامی مرحلے تک پہنچ گئ ہے اور تمام لوگ اسلامی فوج کے سپرد ہوگئے ہیں، قبیلے کے سرداروں کا کہنا ہے کہ اپنے اپنے ہتھیاروں کو جمع کراکر اپنے آپ کو سپرد کردیں، عوام میں سے ایک شخص نے اپنی ذکاوت اور علم سے سمجھ لیا کہ اسلامی فوج کا کمانڈر برائی کا ارادہ رکھتا ہے اور اس نے قبیلے کے سردار کو انتباہ دیا اور آخر کار قبیلے کے سرداروں نے اپنے اپنے ہتھیار جمع کرادئیے اور خود کو اس کے سپرد کردیا، اس موقع پر خالد نے اسلام کے صریحی قانون کے برخلاف نہایت ہی متکبرانہ انداز میں حکم دیا کہ اس قبیلے کے مردوں کے ہاتھوں کو پیٹھ کی طرف کرکے باندھ دیا جائے اورسب کو گرفتار کرلیا جائے اس کے بعد دوسرے دن صبح کو ان میں سے بعض گروہوں کو خالد بن ولید کے حکم سے تختہ دار پر لٹکادیا گيا اور باقی افراد کو آزاد کردیا گيا۔
جب خالد بن ولید کے ظلم و ستم کی خبر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کانوں تک پہنچی توآپ بہت سخت ناراض ہوئے اور فورا ہی حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ اس قبیلے میں جائیں اور جنگ میں جو اخراجات ہوئے ہیں اسے دیہ کے عنوان سے تمام نقصانات کو دقیق طور پر ادا کریں۔ آپ نے وہاں پہنچ کر اس حد تک دقیق اخراجات ادا کئے یہاں تک کہ اس لکڑی کے ظرف کی قیمت بھی ادا کی کہ جس میں قبیلے کے کتے میں پانی پیتے تھے اور خالد کی وجہ سے ٹوٹ گئے تھے پھر آپ نے تمام مصیبت برداشت کرنے والوں کو ایک جگہ جمع کیا اور ان سے فرمایا: کیا تم نے جنگ میں ہونے والے نقصانات کا معاوضہ حاصل کرلیا ؟ جب سب نے ایک آواز ہوکر کہا ہاں اے علی، آپ نے دوبارہ کچھ معاوضے کے عنوان سے پیسہ دیا کہ ممکن ہے جنگ کی وجہ سے کچھ اور بھی نقصانات ہوئے ہوں اور انہیں خبر نہ ہو پھر آپ ان امور کی انجام دہی کے بعد مکہ مکرمہ واپس آگئے اور جو امور آپ نے انجام دیتے تھے اس کی پوری رپورٹ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کے کاموں کی تعریف کی اس کے بعد قبلہ کی جانب رخ کرکے کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھوں کو آسمانوں کی طرف بلند کیا اور استغاثہ کی حالت میں فرمایا:
" اللّهُمَّ اِنّی اَبْرَءُ اِلَیکَ مِمّا صَنَعَ خالِدُ بْنُ الوَلیدِ۔"
" خدایا تو جانتا ہے کہ میں خالد بن ولید کی خیانتوں سے بیزار ہوں اور اسے جنگ کے لئے حکم نہیں دیا تھا۔ (2)
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی اس سفر میں ان افراد کو بھی پیسے دئیے جو خالدبن ولید کے حملوں سے خوفزدہ تھے آپ نے بھرپور طریقے سے ان کی دلجوئی بھی کی، جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کی منصفانہ روش سے آگاہ ہوئے تو فرمایا: اے علی میں تمہارے اس کام کو بے شمار اونٹوں اور اس کے سرخ بالوں کے عوض میں بھی ہرگزنہیں دوں گا، اے علی تم نے میری رضایت حاصل کرلیا اور خداوندعالم بھی تم سے راضی ہوگیا ، اے علی تم مسلمانوں کے رہنما ہو ۔ سعادت مند ہے وہ شخص جو تمہیں دوست رکھے اور تمہارے بتائے ہوئے راستوں پر چلے اور شقی و بدبخت وہ شخص ہے جو تمہاری مخالفت کرے اور تمہاری پیروی نہ کرے، تمہاری نسبت مجھ سے ایسے ہی ہے جیسے ہارون کو موسی سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔


جنگ حنین


پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں پندرہ روز قیام کرنے کے بعد مکہ مکرمہ کے عوام کو تعلیم، موعظہ اور نصیحت کے لئے معین فرمایا اور شہر کے امور کو چلانے اور مسجد کی امامت کی ذمہ داری" عتاب بن اسید " کو سونپی جو ایک بہترین انسان تھے اورپھر آپ سرزمین " ہوازن " اورحنین درہ کی جانب سے روانہ ہوگئے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ بارہ ہزار سپاہی تھے جن میں سے دس ہزار سپاہی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ مدینہ منورہ سے آئے تھے اوردوہزارسپاہی قریش کے نوجوان تازہ مسلمان تھے جو ابوسفیان کی سربراہی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لشکر میں شامل ہوئے تھے۔
اسلامی فوج میں بے شمار سپاہیوں کا وجود اس بات کا باعث بنا کہ مسلمان بہت ہی مغرور ہوگئے اور جنگ کی حکمت عملی کو فراموش کردیا جس کی وجہ سے وہ لوگ شکست سے دو چار ہوگئے ۔
اسلامی فوج علاقے کی جانب روانہ ہوئی درمیان راہ میں ایک بہت ہی خطرناک درہ تھا جہاں دشمنوں نے ایک خاص حکمت عملی کے مطابق اپنے سپاہیوں کو پہاڑوں کے پیچھے چھپا کر بٹھایا تھا جب مسلمانوں کا لشکر درہ میں داخل ہوا تو اچانک دشمن کے لشکر کے سپاہیوں کہ جو پہاڑیوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے کہ تیر برسانے اور چیخنے چلانے کی آواز بلند ہوگئی جس کی بناء پر مسلمانوں کے دلوں پر عجیب خوف و ہراس چھا گیا اور سنسناتے ہوئے تیر ان کے چہروں اور سروں پر برستے رہے۔
دشمن کے غافلگیر کرنے والے حملوں نے مسلمانوں کو بہت زيادہ وحشت زدہ کردیا تھا لہذا ان لوگوں نے بے اختیار بھاگنا شروع کردیا اورخود دشمن سے پہلے ہی اپنی صفوں کو بے نظمی کا شکار کردیا ۔ مسلمانوں کے لشکر میں موجود منافقین اس کام سے بہت زیادہ خوشحال ہوئے یہاں تک کہ ابوسفیان نے کہا کہ مسلمان دریا کے کنارے تک بھاگتے رہیں گے ان میں سے ایک اور منافق نے کہا: جادوگری باطل ہے، تیسرے منافق نے ارادہ کیا کہ اسلام کا نام ہمیشہ کے لئے ختم کردے اور پیغمبر کو یہیں پر قتل کردے۔


پیغمبر اسلام کی پائداری اور جانثار گروہ


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے محسوس کیا کہ اگر تھوڑی دیر بھی تاخیر کیا تو تاریخ کا معیار بدل جائے گا اور مشرکین کا لشکر توحیدی لشکر کو درہم برہم کردے گا لہذا اس بناء پر اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے فرمایا:  " یا اَنصارَ اللهِ وَ اَنصارَ رَسولِهِ! اَنَا عَبْدُاللهِ وَ رَسُولُهُ۔" (3)
" اے خدا اور اس کے رسول کے ساتھیوں میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔"
آپ نے یہ جملہ فرمایا اوراپنی سواری پر سوار ہوکر میدان جنگ ( کہ جسے دشمنوں نے اپنے گھڑ سواری کا میدان بنا رکھا تھا اور بعض گروہوں کو قتل کرچکے اور باقی کو قتل کررہے تھے) کی طرف روانہ ہوگئے، آپ کے لشکر کے بہادر و جانباز سپاہی جیسے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ، عباس، فضل بن عباس اور اسامہ وغیرہ جنہوں نے جنگ شروع کے وقت سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ذرہ برابر بھی غفلت نہیں برتی تھی اور آپ کی جان کے سرسخت محافظ تھے آپ کے ہمراہ چل رہے تھے۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے بلند آواز میں یہ نعرہ لگا رہے تھے اے گروہ انصار تم نے پیغمبراعظم کی مدد کی ہے اور اے وہ لوگو کہ جنہوں نے درخت رضوان کے نیچے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیعت کی ہے تم لوگ کہاں جارہے ہو ؟ پیغمبر اسلام تو یہاں موجود ہیں۔
جیسے ہی جناب عباس بن عبدالمطلب کی آواز بلند ہوئی ان کے اندر دینی حمیت و غیرت بیدار ہوگئی اور فورا ہی سب نے ایک آواز ہوکرکہا: لبیک لبیک اور نہایت ہی بہادر و دلیری کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب واپس پلٹ آئے۔
جناب عباس بن عبد المطلب کی مسلسل آواز جو پیغمبراسلام کی سلامتی کی خوشخبری سنا رہی تھی اس بات کا باعث بنی کہ جو گروہ بھاگ رہے تھے وہ عجیب و غریب ندامت و شرمندگی اور پشیمانی کے ساتھ پیغمبر اسلام کے پاس واپس آگئے اور دشمنوں کے مقابلے میں اپنی صفوں کو منظم کرنے لگے ، مسلمانوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم اور آپ کو چھوڑ کر میدان سے بھاگنے کے دامن پر لگے داغ کو صاف کرنے کے لئے عمومی حملہ کردیا اور بہت ہی کم وقت میں دشمنوں کو پیچھے ہٹنے اور بھاگنے پر مجبور کردیا ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو جوش و ولولہ دلانے کے لئے فرمایا: میں خدا کا پیغمبر ہوں اور ہرگز جھوٹ نہیں بول رہا ہوں جان لو کہ خداوندعالم نے ہمیں دشمنوں کے مقابلے میں کامیابی کا وعدہ دیا ہے۔ مسلمانوں کی فوج کی یہ تدبیر سبب بنی کہ ہوازن اور ثقیف کے نوجوانوں اور ان کے بہادر جنگجو مردوں نے اپنی عورتوں اور بچوں اور مویشیوں کو چھوڑ دیا ( کیونکہ یہ لوگ اپنی عورتوں اور بچوں کے ساتھ اپنے مویشیوں کو بھی اپنے اپنے پیچھے رکھا تھا تاکہ ان کی وجہ سے لوگوں میں جوش و ولولہ بڑھے اور میدان جنگ سے فرار نہ کریں۔) اور کچھ لوگوں کے قتل ہونے کے بعد اوطاس، نخلہ اور طائف کے قلعوں کی طرف بھاگ گئے۔
اس جنگ میں مسلمان شہداء کی تعداد آٹھ ہزار افراد تک جا پہنچی اور دشمن کے مقابلے میں کچھ افراد کے قتل ، چھ ہزار اسیر ، چھبیس ہزار اونٹ ، چالیس ہزار بکریاں اور چار ہزار وقیہ ( ایک وزن کا نام کہ تقریبا چالیس درم کا ہوتا ہے اور درم ساڑھے تین ماشے کا) چاندی کہ جو تقریبا آٹھ سو باون کلو گرام ہوتا ہے نقصان اٹھا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا کہ تمام اور اسیروں اور مال غنیمت کو جعرانیہ علاقے میں لے جائیں اور کچھ افراد کو اس کی حفاظت کے لئے معین کریں اور اسیروں کو ایک مخصوص گھر میں رکھیں اور یہ بھی حکم دیا کہ تمام مال غنیمت کو بغیر ہاتھ لگائے ہوئے ویسے ہی رکھ دیں تاکہ خود آنحضرت دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے کہ جو اوطاس، نخلہ اور طائف علاقوں کی جانب بھاگے تھے ان کو دیدیں۔


سوالات:


1- خالد بن ولید نے لوگوں پر کیا ناروا سلوک کئے۔؟
2- جنگ حنین میں کن لوگوں نے جانثاری کی ۔؟  


منابع:


1- سیرت ابن ہشام ج 2 ص 412
2- السیرۃ الحلبیہ ج 2 ص 277
3- البدایہ و النہایہ ج 4 ص 168  

 
دفترنشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف: علی ریختہ گرزادہ تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: