مواد کا کوڈ۔: 33
ہٹس: 1863
تاریخ اشاعت : 28 November 2022 - 14: 00
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات (25)
پورے مدنیہ منورہ پر اضطراب و بے چینی کی فضا چھائی ہوئی تھی گھر کے اندر سے جو خبریں باہر آرہی تھیں وہ نہایت ہی رنج و الم سے بھری ہوئی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض عقیدت مندوں کی یہ آرزو تھی کہ اے کاش اپنے رہبرو پیشوا کی قریب سے زيارت کرتے لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جسمانی کیفیت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ لوگ اندر جاتے اور جس حجرے میں آنحضرت موجود تھے وہاں سوائے اہل بیت علیہم السلام کے کسی کو آمد ورفت کی اجازت نہیں تھی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت  


پورے مدنیہ منورہ پر اضطراب و بے چینی کی فضا چھائی ہوئی تھی گھر کے اندر سے جو خبریں باہر آرہی تھیں وہ نہایت ہی رنج و الم سے بھری ہوئی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض عقیدت مندوں کی یہ آرزو تھی کہ اے کاش اپنے رہبرو پیشوا کی قریب سے زيارت کرتے لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جسمانی کیفیت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ لوگ اندر جاتے اور جس حجرے میں آنحضرت موجود تھے وہاں سوائے اہل بیت علیہم السلام کے کسی کو آمد ورفت کی اجازت نہیں تھی۔


غزوہ تبوک


غزوہ تبوک حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غزوات میں سے آخری غزوہ ہے۔ یہ غزوہ نو ہجری قمری کو رجب اور شعبان میں تبوک کے مقام پر انجام پایا۔
ملک روم کہ جس نے اس زمانے میں اپنے طاقتور حریف ایران کو شکست سے دوچار کردیا تھا نہایت ہی تکبر اورغرور کے ساتھ شام کی سرحدوں پر اپنے فوجیوں کو تعینات کردیا جن کے ساتھ قریب میں رہنے والے قبیلوں کے افراد بھی شامل ہوگئے تھے اور تقریبا ایک عظيم لشکر تیارہوگیا تھا۔ وہ قافلے کہ جو حجاز و شام کے راستے سے ہوکر اپنی تجارت کے لئے جاتے تھے انہوں نے اس خبر کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچایا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی ذکاوت کی بناء پر سمجھ گئے کہ رومیوں نے یہ فوج جو مسلمانوں کے قریب میں تشکیل دی ہے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہے لہذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ نہ صرف یہ کہ ان کے اچانک حملوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں بلکہ اس سے پہلے کہ روم کی فوج ان پر حملہ کرے ایک عظيم ہجوم کرکے انہیں ان کے گھروں کی جانب واپس پلٹا دیں، اس لئے حجاز کے تمام مسلمانوں کو دعوت دی گئی اور سواریوں پر سوار تقریبا تیس ہزار افراد مدینہ منورہ کی چھاؤنی " ثنیۃ الوداع" پر اکٹھا ہوگئے جن میں دس ہزار سوار فوجی اور بیس ہزار پیدل فوجی موجود تھے جن کے اخراجات کے لئے زکات سے مدد لی گئی اور حکم دیا گیا کہ ہر قبیلے والے اپنے لئے ایک پرچم کا انتخاب کریں۔
اس بات کے پیش نظر کہ تبوک ایک ایسا دور دراز علاقہ تھا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہاں تک کا سفر کیا لہذا لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ ممکن ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عدم موجودگی میں مکار و فرصت طلب منافقین  قریش کے بعض افراد کے ساتھ سازباز کرکے آشوب برپا کردیں.
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس نکتہ نے اس بات پر مجبور کردیا کہ آپ حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ منورہ میں اپنے جانشین کے طور پر چھوڑ کرجائیں یہی وجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام تمام غزوات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمرکاب رہے سوائے جنگ تبوک کے جس میں آپ شریک نہیں ہوئے۔ جب منافقین اورسازشیں رچنے والوں کو یہ خبر ملی کہ حضرت علی علیہ السلام مدینہ منورہ میں موجود ہیں اور ان کی موجودگی میں وہ کوئی بھی سازش یا حملہ نہیں کرسکتے تو ایک دوسرے انداز سے مدینہ میں داخل ہوئے اور یہ پروپگنڈہ کرنا شروع کردیا کہ طویل مسافت اور شدید گرمی کی وجہ سے علی(علیہ السلام) نے اس جنگ میں شرکت نہیں کی یہ سن کر آپ بڑی ہی تیزی کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور تمام واقعات سے آپ کو باخبر کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی دشمنوں کو یہ یقین کرانے کے لئے کہ حضرت علی علیہ السلام مدینے میں آپ کے جانشین ہیں اپنے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ جو آپ کے بعد علی علیہ السلام کی امامت اور خلیفہ بلا فصل ہونے پر واضح و روشن دلیل ہے۔
" اے میرے بھائی مدینہ منورہ واپس چلے جاؤ کیونکہ مدینے کے حالات کو سنبھالنے اور اس کو کنٹرول کرنے کے لئے میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی صلاحیت نہیں رکھتا ہے اور تم اہل بیت اور میرے اعزہ و اقرباء کے درمیان میرے نمائندے ہو۔" اَما تَرْضی اَنْ تَکُونَ مِنّی بِمَنْزِلَۀِ هارُونَ مِنْ مُوسی اِلاّ انَّهُ لا نَبیَّ بَعْدی۔"
" کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوگے کہ میں تمہیں خوشخبری سناؤں کہ تمہاری نسبت مجھ سے ایسے ہی ہے جیسے ہارون کو موسی سے تھی سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جس طرح سے وہ موسی کے بلا فصل جانشین تھے تم بھی میرے بعد میرے بلا فصل خلیفہ و جانشین ہو۔" (1)
اسلامی لشکر نے مدینہ منورہ سے تبوک کا راستہ نہایت ہی سختی اور پریشانی کے ساتھ طے کیا اسی وجہ سے اس لشکر کا نام " جیش العسرہ یعنی وہ  لشکر جس نے بہت زیادہ سختی و پریشانی برداشت کیا، رکھا گيا دوسری جانب درمیان راہ میں جناب ابوذر غفاری کا اونٹ چلنے سے معذور ہوگيا جس کی وجہ سے وہ لشکر سے پیچھے رہ گئے جناب ابوذر غفاری نے اونٹ کو چلانے کی بہت کوشش کی مگر وہ ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا اور رکنے کا کوئی فائدہ نہ ہوا اس لئے آپ نے اونٹ کو وہیں پر چھوڑدیا اور سامان سفر اپنی پیٹھ پر رکھ کر آگے کی جانب بڑھ گئے تاکہ جتنی جلدی ممکن ہو قافلے سے ملحق ہوجائیں،ادھردوسری جانب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے مسلمانوں نے ایک منزل پر قیام کیا تا کہ کچھ دیرآرام کریں، اچانک دور سے ایک مضطرب و پریشاں حال مسافر آتا ہوا دکھائی دیا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی نے اس بات کی خبر آںحضرت کی خدمت میں پہنچائی تو آپ نے فرمایا: وہ میرے صحابی ابوذر غفاری ہیں۔ " رَحِمَ اللهُ اَباذَرَ یَمْشی وَحْدَهُ وَ یَمُوتُ وَحْدَهُ وَ یُبْعَثُ وَحْدَهُ ۔" (2) "اللہ ابوذر پر رحم کرے جنہوں نے تنہا راستہ طے کیا اور تنہائی میں انہیں موت واقع ہوئی اور اکیلے ہی اٹھائے جائیں گے۔ "  
کافی عرصے کے بعد پتہ چلا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو پیشنگوئی فرمائی تھی کہ ابوذرغفاری آبادی سے دور ربذہ نامی صحرا میں نہایت ہی کسمپرسی کے عالم میں وفات پائيں گے اور ان کی بیٹی ان کے سراہنے موجود ہوگی اورویسا ہی ہوا ۔   


لشکر اسلام کی سرزمین تبوک پر آمد  


اسلامی لشکر نے ماہ شعبان المعظم نویں ہجری قمری کے شروع میں سرزمین تبوک پر قدم رکھا لیکن وہاں پرنہ تو روم کا کوئی لشکرنظر آیا اور نہ ہی کوئی اجتماع، گویا روم کی فوج کے سردار اسلامی فوج کی عظمت وشہامت ، بے مثال جانثاری اور بڑھتی ہوئی تعداد کو کہ جس کا ایک معمولی سا نمونہ جنگ موتہ میں نہایت ہی قریب سے مشاہدہ کیا تھا باخبرہوگئے تھے اورمصلحت اسی میں سمجھی کہ اپنی فوج کو اپنے ملک واپس لیتے جائيں اورعملی طور پر مسلمانوں کے خلاف اجتماع کی خبر کو جھٹلاکراور یہ ظاہر کرنا چاہا کہ ہم لوگ ہرگز حملہ کرنے کی فکر میں نہیں تھے بالآخر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی فوج کے سرداروں سے مشورہ کرکے اس نتیجے پر پہنچے کہ مدینہ منورہ واپس چلے جائیں چونکہ تمام مسلمان اپنے اصلی مقصد کہ روم کی فوج کا تتر بتر ہونا تھا پہنچ گئے ہیں۔
اور اس طرح سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے مشورے کا احترام کرتے ہوئے فرمایا: اس مقام سے مدینہ منورہ واپس چلے جائیں۔
تبوک، اسلام کا آخری غزوہ تھا کہ جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شرکت فرمائی تھی ۔


مسجد ضرار کا واقعہ


جس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبوک کی جانب روانہ ہونے والے تھے اس وقت گروہ منافقین کے نمائندوں نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملاقات کی اور یہ بہانہ بنایا کہ بارش اور اندھیری رات کی بناء پر ہمارے بیمار اور بوڑھے افراد اپنے گھر سے مسجد قبا کے درمیان کا راستہ طے نہیں کرسکتے لہذا آپ اجازت فرمائيں کہ ہم اپنے محلے میں ہی ایک مسجد کی تعمیر کرلیں، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیا اور فرمایا کہ ہم اس بارے میں سفر سے واپس آنے کے بعد گفتگو کریں گے۔
منافقین نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عدم موجودگی سے استفادہ کیا اور جتنی جلدی ممکن ہوسکا ایک مسجد بنا ڈالا ۔ جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ واپس آئے تو وہ لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آئے اوردرخواست کی کہ اس نئی مسجد میں دورکعت نماز پڑھ کر باقاعدہ اس میں نمازجماعت کی راہ ہموار فرما دیجئے، عین اسی وقت فرشتہ وحی جناب جبرئيل امین نازل ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پورے ماجرے سے آگاہ فرمایا اور اس جگہ کو " مسجد ضرار" قرار دیا کہ جس کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و اختلافات اور لوگوں کو گروہ میں باٹنا بیان کیا ۔
منافقین اوراس مسجد کے بانی ابوعامر کہ جو جنگ احد کے مشہور شہید حنظلہ کے والد تھے آخرکار پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسجد کو منہدم کرکے اسے جلانے کا حکم دیا کچھ ہی دنوں بعد وہاں کوڑا کرکٹ پھینکا جانے لگا۔
مسجد ضرار کو ویران کرنے کی وجہ سے گروہ منافقین کو بہت بڑا دھچکہ لگا اور اس کے بعد منافقین کے تمام گروہ ختم ہوگئے۔


منی کے دن کی قرارداد


نویں ہجری کے اواخر میں فرشتہ وحی سورہ توبہ کی چند آیتیں لے کر نازل ہوئے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ ذمہ داری سونپی کہ ایک شخص کو مکہ مکرمہ روانہ کریں تاکہ وہ مکہ جاکر ان آیات الہیہ کی تلاوت کرے اور ساتھ ہی ساتھ چار شقوں پر مشتمل قرارداد بھی پڑھ کر سنائے۔ ان آیتوں میں مشرکین سے امان کو اٹھا لیا گيا اور تمام کے تمام معاہدوں ( سوائے ان معاہدوں کے جن کے ماننے والے اس پر عمل کرتے تھے اور کبھی بھی ان کی مخالفت نہیں کی تھی) کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اور مشرکین کے سرداروں اور ان کی پیروی کرنے والوں تک یہ بات پہنچا دیں کہ صرف اور صرف چار مہینے کے اندر اپنے فرائض کو اسلامی حکومت کے ساتھ (کہ جس کی بنیاد یکتا پرستی تھی) واضح کریں اور اگر چار مہینے کے اندر شرک اور بت پرستی سے اپنا رشتہ نہیں توڑیں گے تو ان کی حفاظت کی ذمہ داری کو سلب کرلیا جائے گا۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر کو بلایا اور سورہ توبہ کی چند آیتوں کو انہیں سکھایا اورحکم دیا کہ ایک گروہ کے ساتھ کہ مورخین کے مطابق جن کی تعداد چالیس سے تین سو افراد پر مشتمل تھی مکہ جائیں اور ان آیتوں کو کہ جو مشرکین سے برائت و بیزاری پر مشتمل ہے اس کی عید قربان کے دن تلاوت فرمائیں۔
ابوبکرپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ملتے ہی مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوگئے ابھی کچھ ہی دیر گذری تھی کہ فرشتہ وحی دوبارہ نازل ہوئے اور خداوندعالم کی جانب سے پیغام لائے کہ اے پیغمبرمشرکین سے بیزاری کا موضوع یعنی یہ برائت نامہ آپ خود لے کرجائیں یا جوآپ جیسا ہو اس کے ذریعے روانہ کریں تاکہ عوام کو سنائیں اسی وجہ سے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو بلایا اور آپ کو تمام واقعات سے آگاہ کیا اور اپنی مخصوص سواری آپ کوعطا کی اور حکم دیا کہ جتنی جلدی ممکن ہو مدینہ منورہ کو چھوڑ دیں اور راستے میں ابوبکر سے ملاقات کرکے برائت نامہ ان سے لے لیں اور عید قربان کے دن عوام کے اجتماع میں قرارداد کے ساتھ ساتھ اس برائت نامہ کو بھی پڑھ کرعوام کو سنائیں ۔
اس قرارداد کی شقیں یہ تھیں:
1-      بت پرستوں کو کعبہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
2-      برہنہ بدن کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف منع ہے۔
3-      اس اعلان کے بعد کو‏ئی بھی بت پرست انسان مناسک حج میں شریک نہیں ہوسکتا۔
4-      جن لوگوں نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عہد و پیمان باندھا اور اب  تک اس پر عمل پیرا رہے ہیں ان کا یہ عہد نامہ محترم شمار ہوگا اورجب تک قرارداد کی مدت باقی رہے گی اس وقت تک ان کی جان و مال محفوظ رہیں گے لیکن وہ مشرکین جنہوں نے مسلمانوں سے عہد و پیمان نہیں باندھا ہے یا جان بوجھ کر عہد کو توڑ دیا ہے انہیں ماہ ذی الحجہ کی دس تاریخ سے چار مہینے تک کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اسلامی حکومت سے اپنے روابط کو واضح و روشن کریں یا خدائے واحد کی پرستش کرنے والوں کے ساتھ ملحق اور ہر طرح کی بت پرستی اور شرک سے دور ہوجائیں یا پھر جنگ کے لئۓ آمادہ ہوجائیں۔
دوسری جانب مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام ایک گروہ منجملہ جابربن عبداللہ انصاری کے ہمراہ اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخصوص مرکب پر سوارہوکر مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے اور جحفہ نامی مقام پر ابوبکر سے ملاقات کی اور پیغمبراسلام کے پیغام کو ان تک پہنچایا اور انہوں نے برائت نامہ حضرت علی علیہ السلام کے حوالے کردیا۔
شیعہ محدثين اور اہل سنت کے تمام محدثين نقل کرتے ہیں کہ علی علیہ السلام نے فرمایا: کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمہیں اختیار دیا ہے کہ اگر چاہیں تو ہمارے ساتھ مکہ مکرمہ چلیں یا اگر چاہیں تو یہیں سے مدینہ منورہ پاس چلے جائيں ابوبکر نے واپس مدینہ جانے کو ترجیح دی اور مدینہ منورہ واپس آگئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کرعرض کیا: مجھے آپ نے ایک بہترین کام کے لئے لائق و ‎سزاوارقراردیا تھا کہ جس کی جانب سب کی نگاہیں اٹھی ہوئی تھیں اور ہر شخص اس کام کو انجام دینے کی دل میں خواہش رکھتا تھا مگرجب میں نے کچھ راستہ طے کرلیا تو آپ نے مجھے معزول کردیا کیا ہمارے بارے میں وحی الہی نازل ہوئی تھی ؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہایت ہی نرم لہجے میں فرمایا: ہاں جبرئيل امین نازل ہوئے اور یہ پیغام مجھ تک پہنچایا کہ اس کام کے لئے میں خود یا میرے جیسا ہی کہ جوانجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے روانہ کریں۔ ( 3)
لیکن اہل سنت کی بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ابوبکرحجاج کرام کے سرپرست تھے اورعلی علیہ السلام کو صرف یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ برائت نامہ اور قرارد اد کو منی کے میدان میں لوگوں کے سامنے بڑھ کر سنائیں۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور دس ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کے اوپر کھڑے ہوکرقرآنی آیتوں اور قرارداد کو پڑھا، ان آيتوں کی تلاوت اور قرارداد کے پڑھنے کا اثر یہ ہوا کہ ابھی چار مہینے بھی نہ گذرے تھے کہ مشرکین گروہ در گروہ اسلام کے دامن سے وابستہ ہونے لگے اور سن دس ہجری قمری کے وسط تک پورے شبہ جزيرہ سے بت پرستی کا جڑ سے خاتمہ ہوگيا۔


سوالات:


1- پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کس بناء پرحضرت علی علیہ السلام کو جنگ تبوک میں اپنے ہمراہ نہیں لے گئے۔؟
2- جنگ تبوک کے موقع پرمنافقین نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے کیا جھوٹا پروپگیںڈہ اڑایا ۔؟
3- منافقین نے مسجد ضرار کیوں بنوائی؟
4- پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے برائت نامہ ابوبکر سے لے کر علی علیہ السلام کو کیوں دیدیا۔؟
5- منی کی قرارداد کی شقیں کیا تھیں۔؟   


منابع:


1- البدايۃ و النہایۃ ج 5 ص 7
2- عیون الاثر ج 2 ص 270
3- الارشاد ج 1 ص 65 و مناقب حلبی ج 2 ص 126
 

دفتر نشر فرهنگ و معارف اسلامی مسجد هدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تهرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: