مواد کا کوڈ۔: 50
ہٹس: 215
تاریخ اشاعت : 09 September 2023 - 10: 07
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (11)
حضرت علی علیہ السلام نے اس وقت عمرو بن عبدود کواس نذر کی طرف متوجہ کیا جو اس نے خدا کے ساتھ کیا تھا کہ اگرقریش کا کوئی شخص اس سے دو چیزوں کا تقاضا کرے گا تو وہ ایک چیزکو قبول کرلے گا۔

عمرو بن عبدود واصل جہنم


حضرت علی علیہ السلام نے اس وقت عمرو بن عبدود کواس نذر کی طرف متوجہ کیا جو اس نے خدا کے ساتھ کیا تھا کہ اگرقریش کا کوئی شخص اس سے دو چیزوں کا تقاضا کرے گا تو وہ ایک چیزکو قبول کرلے گا۔ عمرونے کہا: بالکل ایسا ہی ہے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میری پہلی درخواست یہ ہے کہ اسلام قبول کرلے، عرب کے نامی پہلوان نے کہا: یہ درخواست مجھ سے نہ کرو کیونکہ میں تمہارے دین کا محتاج نہیں ہوں. پھر علی علیہ السلام نے فرمایا:جا اور جنگ کرنے کا خیال اپنے دل سے نکال دے اور اپنے گھر کی طرف چلا جا اور پیغمبراسلام کے کام کو دوسروں کے حوالے کردے کیونکہ اگر کامیاب ہوگیا تو قریش کے لئے سعادت و خوشبختی ہوگی اور اگر قتل ہوگیا تو تیری آرزو تو بغیر جنگ کے معلوم و معین ہے۔ عمرو نے جواب میں کہا: قریش کی عورتیں اس طرح گفتگو نہیں کرتیں کس طرح واپس چلا جاؤں،جب کہ محمد میرے قبضے میں ہیں اور اب وہ وقت پہنچ چکا ہے کہ جو میں نے نذر کی تھی اس پرعمل کروں؟ کیونکہ میں نے جنگ بدر کے بعد نذر کی تھی کہ اپنے سر پر تیل اس وقت تک نہیں رکھوں گا جب تک محمد سے اپنے بزرگوں کا انتقام نہ لے لوں گا۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اب تو جنگ کے لئے آمادہ ہوجا! اوررکے ہوئے کام کی گرہوں کو تلوار سے کھول ڈال، اس وقت بوڑھا پہلوان سخت غصے کی وجہ سے جلتے ہوئے لوہے کی طرح ہوگیا اورجب حضرت علی علیہ السلام کو پیادہ دیکھا تو خود گھوڑے سے اتر آیا اور ان کی طرف بڑھا اوراپنی تلوار سے حضرت علی علیہ السلام پرحملہ کردیا اور پوری قوت سے حضرت کے سر پرمارا، حضرت علی علیہ السلام نے اس کی ضربت کو اپنی سپر کے ذریعے دفاع کیا لیکن سپر دو ٹکڑے ہوگئی اور ٹوپی بھی ٹوٹ گئی اور آپ کا سر زخمی ہوگیا اس وقت امام علیہ السلام نے اس فرصت کو غنیمت سمجھا اور ایک محکم ضربت سے حملہ کیا اوراسے زمین پر گرادیا، تلوار کے چلنے کی آواز اورمیدان میں گرد و غبار کی وجہ سے دونوں طرف کے سپاہی اس منظر کو نزدیک سے دیکھنے سے عاجز رہے لیکن اچانک جب حضرت علی علیہ السلام کی تکبیر کی آواز بلند ہوئی تومسلمان خوش ہوکر چیخنے اور شور و غل کرنے لگے اور ان کو یقین ہوگیا کہ حضرت علی علیہ السلام نے عرب کے پہلوان پرغلبہ پیدا کرلیا اور مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ کردیا ہے۔
عرب کے اس نامی و مشہور پہلوان کے قتل ہونے کی وجہ سے پانچ اورنامی پہلوان عکرمہ ، ہبیرہ، نوفل، ضرار اور مرداس کہ جنہوں نے عمرو کے ساتھ خندق پار کیا تھا حضرت علی علیہ السلام اورعمرو کی جنگ کے نتیجے کے منتظر تھے وہاں سے بھاگ گئے۔ اس میں سے چار پہلوان خندق سے پار ہوگے تا کہ قریش کو عمرو کے مرنے کی خبر سنائیں مگر نوفل بھاگتے وقت اپنے گھوڑے سے خندق میں گرگیا اور حضرت علی علیہ السلام جو ان سب کا پیچھا کر رہے تھے خندق میں گئے اور اس کو ایک ہی حملے میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔( تاریخ الخمیس ج1 ص 487)
اس نامی پہلوان کی موت کی وجہ سے جنگ کا شوروولولہ ختم ہوگیا اورعرب کے ہر قبیلے والے اپنے اپنے قبیلے واپس جانے لگے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ دس ہزارکا لشکر ٹھنڈک اوربھوک کی وجہ سے اپنے گھروں کی طرف چلا گیا اوراسلام کی اساس و بنیاد جسے عرب کے نامی اور قوی دشمن نے دھمکی دی تھی حضرت کی جانثاری کی وجہ سے محفوظ ہوگئی۔


حضرت علی علیہ السلام کی جانثاری کی اہمیت وعظمت


جو لوگ اس جنگ کی جزئیات اورمسلمانوں کے رقت طلب حالات اورقریش کے نامی پہلوان کی دھمکیوں کے خوف و ہراس سے مکمل باخبر نہیں ہیں اوراس اصطلاح کے مطابق کہ '' اپنے ہاتھوں کوآگ سے دوررکھے ہیں'' وہ اس جانثاری اورقربانی کی واقعی حقیقت کو کبھی بھی سمجھ نہیں سکتے لیکن ایک محقق جس نے تاریخ اسلام کے اس باب کا دقیق مطالعہ کیا ہے اور بہترین روش اور طریقے سے اس واقعہ کی تجزیہ و تحلیل کی ہے تو اس کے لئے اس واقعے کی اہمیت و حقیقت پوشیدہ نہیں ہوگی۔ اس حقیقت کا جاننا بھی ضروری ہے کہ اگر حضرت علی علیہ السلام میدان جنگ میں دشمن سے مقابلے کے لئے نہ جاتے تو پھر کسی بھی مسلمان میں اتنی جرأت نہ تھی کہ وہ عمرو کے مقابلے میں جاتا اور ایک فوج کے لئے سب سے بڑی ذلت و رسوائی کی بات یہ ہے کہ دشمن مقابلے کے لئے بلائے اورکوئی نہ جائے اور سپاہیوں پر خوف چھا جائے. یہاں تک کہ اگر دشمن جنگ کرنے سے باز آجائے اور محاصرے کو ختم کرکے اپنے گھرواپس چلا جائے تب بھی اس ذلت کا داغ تاریخ اسلام کی پیشانی پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہے گا۔
اگر حضرت علی علیہ السلام اس جنگ میں شرکت نہ کرتے یا شہید ہوجاتے تو قریب تھا کہ کوہ ''سلع'' میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہنے والے سپاہی جو عمرو کی غراہٹوں سے بید کے درختوں کی طرح لرزرہے تھے میدان چھوڑ کرچلے جاتے اورکوہ سلع سے اوپر جاتے اور پھر وہاں سے بھاگ جاتے جیسا کہ جنگ احد اورحنین میں ہوا جوتاریخ کے صفحات پر آج بھی درج ہے کہ سب کے سب فرار ہوگئے سوائے چند افراد کے، جنہوں نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان بچائی اور سب کے سب جان بچا کر بھاگ گئے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو میدان میں تنہا چھوڑ دیا۔
اگرامام علیہ السلام اس مقابلے میں ہارجاتے تو نہ صرف یہ کہ جتنے بھی سپاہی کوہ ''سلع'' کے دامن میں اسلام کے زیر پرچم اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کھڑے تھے بھاگ جاتے بلکہ وہ تمام سپاہی جو پوری خندق کے کنارے پر حفاظت اورمورچے کے لئے کھڑے تھے وہ مورچے کو چھوڑ دیتے اور ادھراُدھر پناہ لے لیتے۔
اگر حضرت علی علیہ السلام نے قریش کے پہلوانوں کا مقابلہ کرکے ان کوآگے بڑھنے سے روکا نہ ہوتا یا اس راہ میں قتل ہوجاتے تو دشمن بڑی آسانی سے خندق کو پار کرجاتے اور پھر دشمن کی فوج اسلام کی فوج کی طرف بڑھتی اور پورے میدان میں بڑھ بڑھ کر حملہ کرتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آئین توحیدی پر شرک کامیاب ہوجاتا اور اسلام خطرے میں پڑجاتا،ان تمام چیزوں کو دیکھنے کے بعد پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے الہام اوروحی الہی سے اس دن حضرت علی علیہ السلام کی جانثاری کی اس طرح سے نتیجہ گيری کی اور فرمایا:
'' ضَربَۀُ عَليٍّ يَوْمَ الْخَنْدَق اَفْضَلُ مِنْ عِبادَۀ الثَقَلَيْن۔ "(1)
"اس ضربت کی عظمت و رفعت جو علی علیہ السلام نے خندق میں دشمن پر ماری تھی دونوں جہان کی عبادتوں سے بہتر ہے۔"
اس نتیجہ گیری کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر یہ جانثاری واقع نہ ہوتی توقانون شرک پوری دنیا پرچھا جاتا اور پھرکوئی بھی ایسی شمع باقی نہ رہتی جس کے ارد گرد ثقلین طواف کرتا اور اس کی نورانیت کے زیر سایہ خدا کی عبادت و پرستش کرتا۔
ہم یہاں پر بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی بے نظیر اورعظیم فداکاری کی وجہ سے اس دنیا کے مسلمانوں اورتوحید کے متوالوں کو رہین منت قرار دیدیا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اتنا زمانہ گزرجانے کے بعد بھی اسلام و ایمان امام علی علیہ السلام کی فداکاری وجانثاری کے صدقے میں آج تک باقی ہے۔
جی ہاں، حضرت علی علیہ السلام کی فداکاری و جانثاری کے علاوہ آپ کی سخاوت و فیاضی کا یہ عالم تھا کہ عمرو بن عبدود کو قتل کرنے کے بعد اس کی قیمتی زرہ اور لباس کواس کی لاش کے پاس چھوڑ کر میدان سے واپس آگئے جب کہ عمرو نے اس کام کی وجہ سے آپ کی ملامت و سرزنش کی لیکن امام علیہ السلام نے اس کی ملامت و سرزنش پر کوئی توجہ نہ دی اورجب عمرو ابن عبدود کی بہن اس کی لاش کے سراہنے پہنچی تو اس نے کہا کہ ہرگز میں تم پر گریہ نہ کروں گی کیونکہ تم کسی کریم و شریف کے ہاتھوں قتل ہوئے ہو کہ جس نے تیرے قیمتی لباس اور قیمتی اسلحوں تک کو ہاتھ نہیں لگایا ہے۔(2)       


جنگ خیبر اور تین اہم امتیازات


کس طرح سے دشمن کی زبان حضرت علی علیہ السلام کی عظمت و افتخار کوبیان کرنے لگیں اور وہ اجتماع جو آپ کو برا و ناسزا کہنے کے لئے ہوا تھا وہ مدح و ستائش میں تبدیل ہوگیا؟
فرزند رسول حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ کو فرصت ملی کہ خود اپنی زندگی میں اپنے بیٹے یزید کی خلافت کے لئے زمینہ ہموارکرے اور بزرگ صحابیوں اوررسول خدا کے دوستوں سے کہ جو مکہ اور مدینہ میں زندگی بسر کر رہے تھے یزید کی بیعت لے تاکہ اس کا بیٹا خلیفہ مسلمین اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین معین ہوجائے۔
اسی مقصد کے لئے معاویہ سرزمین شام سے خدا کے گھر کی زیارت کے لئے روانہ ہوگیا اوراپنے قیام کے دوران میں حجاز کے دینی مراکز اوررسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوستوں سے ملاقاتیں کیں اورجب کعبہ کے طواف سے فارغ ہوا تو ''دار الندوہ'' میں جس میں جاہلیت کے زمانے میں قریش کے بزرگ افراد جمع ہوتے تھے تھوڑی دیر آرام کیا اور سعد وقاص اور دوسری اسلامی شخصیتوں سے ملاقات کی جن کی مرضی کے بغیر اس زمانے میں یزید کی خلافت و جانشینی کا ثابت ہونا ممکن نہ تھا لہٰذا اس سلسلے میں گفتگو کی۔
وہ اس تخت پر بیٹھا جو دارالندوہ میں اسی کے لئے رکھا گیا تھا اور سعد وقاص کو بھی اپنے ساتھ بیٹھایا اس نے جلسہ کے ماحول کو دیکھا اورامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو برا اور ناسزا کہنے لگا یہ برا کام اور وہ بھی خدا کے گھر کے پاس اوروہ بھی اس صحابی پیغمبرکے سامنے جس نے حضرت علی علیہ السلام کی جانثاریوں اور قربانیوں کو بہت نزدیک سے دیکھا تھا اور جس کے فضائل و کمالات سے مکمل آگاہ تھا ایسی حرکت کرنا آسان کام نہ تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کچھ ہی دنوں پہلے کعبہ کے سامنے کعبے کے اندر اورباہر بہت سے باطل خدا پناہ لئے ہوئے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں ہی وہ ہمیشہ کےلئے سرنگوں ہوئے تھے اور اس نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے پیغمبراسلام کے کاندھوں پر قدم رکھا اور ان بتوں کوکہ جس کی خود معاویہ اور اس کے باپ دادا بہت زمانے تک پوجا کیا کرتے تھے اسےعزت کے منارے سے ذلت کے گڑھے میں گرایا اور سب کو توڑ ڈالا۔(مستدرک حاکم ج2 ص 367، تاریخ الخمیس ج2 ص 95)اس وقت معاویہ کی خواہش یہ تھی کہ توحید اوروحدانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے راہ توحید کے بزرگ جانثارکہ جس کی قربانیوں اور فداکاریوں کے صدقے میں توحید کے درخت نے لوگوں کے دلوں میں وحدانیت کی بنیاد رکھی اور اس کے اثرات مرتب ہوگئے، ایسی شخصیت پر تنقید کرے اور اسے برا اورناسزا کہے۔ سعد وقاص باطنی طور پر امام علیہ السلام کے دشمنوں میں سے تھا اور آپ کے معنوی مقامات اور ظاہری افتخارات سے حسد کرتا تھا۔
جس دن عثمان مصریوں کے ہجوم کی وجہ سے قتل ہوئے تو تمام لوگوں نے یقین کامل اورمعتبرخواہشات کے ساتھ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کو خلافت اور زعامت کے لئے انتخاب کیا علاوہ چند افراد کے جنہوں نے ان کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تھا سعد وقاص بھی انہیں میں سے ایک تھا جس وقت عمار نے اسے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کے لئے دعوت دی تو اس نے بہت خراب جواب دیا عمار نے اس واقعے کو امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کی حسد نے میری بیعت اور میرے ساتھ ہماہنگی کرنے کو روک دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال:

سعد بن وقاص کی نظر میں حضرت علی علیہ السلام کی تین بڑی فضیتلتیں کیا تھیں۔ ؟


منابع:


1- کشف الیقین علامہ حلی ص ،83 مستدرک حاکم ج3 ص 32، بحار الانوار ج20 ص 216
2- مستدرک حاکم ج3 ص32، بحار الانوار ج20 ص 216

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: