مواد کا کوڈ۔: 51
ہٹس: 105
تاریخ اشاعت : 10 September 2023 - 10: 16
امیرالمومین حضرت علی علیہ السلام ک سوانح حیات (12)
سعد بن ابی وقاص، حضرت علی علیہ السلام کا اتنا شدید مخالف تھا کہ ایک دن خلیفۂ دوم نے شورائے خلافت تشکیل کرنے کا حکم دیا اور شوری کے چھ آدمیوں کا خود انتخاب کیا اور سعد وقاص اورعبد الرحمن بن عوف، سعد کا چچازاد بھائی اورعثمان کے بہنوئی کوشوری کے عہدہ داروں میں قراردیا۔

سعد بن ابی وقاص کی امیر کائنات سے دشمنی


سعد بن ابی وقاص، حضرت علی علیہ السلام کا اتنا شدید مخالف تھا کہ ایک دن خلیفۂ دوم نے شورائے خلافت تشکیل کرنے کا حکم دیا اور شوری کے چھ آدمیوں کا خود انتخاب کیا اور سعد وقاص اورعبد الرحمن بن عوف، سعد کا چچازاد بھائی اورعثمان کے بہنوئی کوشوری کے عہدہ داروں میں قراردیا۔ شوری کے علاوہ دوسرے افراد نے بڑی باریک بینی سے کہا کہ عمرشوری تشکیل دے کر کہ جس میں سعد و عبد الرحمن جیسے افراد بھی شامل ہیں چاہتا ہے کہ تیسری مرتبہ خلافت کو حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں سے چھین لے اور آخر میں نتیجہ بھی یہی ہوا کہ جس کی پیشنگوئی ہوئی تھی۔ سعد امام علیہ السلام سے عداوت و دشمنی اور مخالفت رکھنے کے باوجود جب اس نے دیکھا کہ معاویہ علی علیہ السلام کو برے اور نازیبا الفاظ سے یاد کررہا ہے تو تلملا اٹھا اور معاویہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
مجھے اپنے تخت پر بٹھایا اور میرے سامنے علی کو برا کہتا ہے ؟ خدا کی قسم اگر ان تینوں فضیلتوں میں سے جو علی کے پاس تھی ایک بھی فضیلت میرے پاس ہوتی اس سے بہتر تھا جو کہ سورج اس کے اوپر چمک رہا ہے میرا مال ہوتا۔
1۔ جس دن پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے میں انہیں اپنا جانشین بنایا اور خود جنگ تبوک چلے گئے اورعلی سے اس طرح فرمایا: تمہاری نسبت مجھ سے ایسی ہی ہے جیسے ہارون کو موسی سے تھی سوائے اس کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
2۔ جس دن نصارائے نجران کے ساتھ مباہلہ ہونا قرارپایا تو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: پروردگارا یہی میرے اہل بیت ہیں۔
3۔ جس دن مسلمانوں نے یہودیوں کے اہم ترین قلعہ خیبر کے بعض حصوں کو فتح کیا تھا لیکن قلعہ '' قموص'' جو سب سے بڑا قلعہ اور یہودیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا آٹھ دن تک اسلامی فوج کے محاصرے میں تھا اور اسلام کے مجاہدین کے اندر اسے فتح کرنے اورکھولنے کی صلاحیت موجود نہ تھی اوررسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر میں اتنا شدید درد تھا کہ وہ بہ نفس نفیس جنگ میں حاضر نہیں ہوسکتے تھے تا کہ فوج کی سپہ سالاری کو اپنے ہاتھوں میں لیتے، روزانہ آپ علم کو لیتے تھے اور فوج کے بزرگوں کو دیتے تھے اور وہ سب کے سب بغیرنتیجے کے واپس آجاتے تھے ایک دن علم کوابوبکر کے ہاتھ میں دیا پھردوسرے دن عمرکودیا لیکن دونوں بغیرکسی شجاعت و کامیابی کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آگئے. اسی طرح سلسلہ چلتا رہا یہ حالت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بہت سخت اوردشوار تھی لہٰذا آپ نے فرمایا:
'' کل میں علم ایسے شخص کودوں گا جو ہرگز جنگ کرنے سے فرار نہیں کرے گا اوردشمن کو اپنی پیٹھ بھی نہیں دکھائے گا اور اس شخص کو خدا اور رسول خدا دوست رکھتے ہیں اور خداوند عالم اس قلعہ کو اس کے ہاتھوں سے فتح کرائے گا''
جس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام کو حضرت علی علیہ السلام سے نقل کیا گیا تو آپ نے خدا کی بارگاہ میں عرض کیا اور فرمایا: " اللّهُمَّ لا مُعطِیَ لَمْا مَنَعت و لا مانِعَ لَما اَعطَيتَ '' یعنی پروردگارا جو کچھ عطا کرے گا اسے کوئی لینے والا نہیں ہے اور جو کچھ تو نہیں دے گا اس کا دینے والا کوئی نہ ہوگا۔
(سعد پھربیان کرتا ہے) جب سورج نکلا تو تمام دوستداران رسول اسلام آپ کے خیمے کے اطراف میں جمع ہوگئے تاکہ دیکھیں کہ یہ افتخار رسول کے کس صحابی کو نصیب ہوتا ہے جس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیمے سے باہر آئے تو سب سر اٹھا اٹھا کرآپ کی طرف دیکھنے لگے اور میں پیغمبراسلام کے بغل میں کھڑا تھا کہ شاید اس افتخار کا مصداق میں بن جاؤں اور شیخین سب سے زیادہ خواہشمند تھے کہ یہ افتخاران کو نصیب ہوجائے اسی اثناء میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سوال کیا علی کہاں ہیں؟ لوگوں نے حضرت سے کہا: وہ آشوب چشم کی وجہ سے استراحت و آرام کررہے ہیں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے سلمہ بن اکوع حضرت علی علیہ السلام کے خیمے میں گئے اور ان کے ہاتھ کو پکڑکر پیغمبراسلام کی خدمت میں لائے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے حق میں دعا کی اور آپ کی دعا ان کے حق میں مستجاب ہوئی پھر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زرہ حضرت علی علیہ السلام کو پہنایا، ذوالفقاران کی کمر پرباندھا اورعلم ان کے ہاتھوں میں دیا اور فرمایا کہ جنگ کرنے سے پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا اور اگر یہ قبول نہ کریں تو ان تک یہ پیغام پہنچانا کہ اگر وہ چاہیں تو اسلام کے پرچم تلے جزیہ دیں اوراسلحہ اتار کر آزادانہ زندگی بسرکریں اور اپنے مذہب پر باقی رہیں اور اگر کسی چیز کو قبول نہ کریں تو پھر ان سے جنگ کرنا اورجان لو کہ جب بھی خداوندعالم تمہارے ذریعے کسی کی راہنمایی کرے اس سے بہتر یہ ہے کہ سرخ بالوں والے اونٹ تمہارا مال ہوں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ کردو۔(1)
اس کے بعد سعد بن وقاص اس واقعہ کا خلاصہ بیان کرکے معاویہ کے پاس سے احتجاجاً اٹھ کر چلا گیا (2)(جب کہ ہم نے اس واقعے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔)


خیبر میں اسلام کی تابناک کامیابی


اس مرتبہ بھی مسلمانوں نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی جانثاریوں کے طفیل میں عظیم الشان کامیابی و فتح حاصل کرلیا اوریہی وجہ ہے کہ امام علیہ السلام کو '' فاتح خیبر'' کہتے ہیں،جب امام علیہ السلام ایک گروہ کے ساتھ جو آپ کے پیچھے پیچھے چل رہا تھے قلعہ کے پاس پہنچے تو آپ نے علم کو زمین (پتھر) میں نصب کردیا اس وقت قلعہ میں موجود تمام سپاہی باہر چلے گئے مرحب کا بھائی حارث عورتوں کی طرح نعرہ لگاتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کی طرف دوڑا اس کا نعرہ اتنا شدید تھا کہ جو سپاہی حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے وہ پیچھے ہٹ گئے اورحارث نے بھوکے شیر کی طرح حضرت علی علیہ السلام پر حملہ کیا لیکن کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ اس کا بے جان جسم زمین پر گرپڑا۔
بھائی کی موت نے مرحب کو بہت زیادہ متاثر کیا وہ اپنے بھائی کا بدلہ لینے کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے سامنے میدان میں آیا جب کہ وہ اسلحوں سے لبریز تھا، لوہے کی بہترین زرہ اور پتھر کی ٹوپی اپنے سر پر رکھے تھا اور اپنی ٹوپی اس کے اوپر سے پہن رکھا تھا دونوں طرف سے رجز پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا اسلام و یہودی کے دو بہادروں کی تلوار اور نیزہ چلنے کی آواز نے دیکھنے والوں کے دلوں میں عجیب وحشت ڈال رکھی تھی اچانک اسلام کے جانباز کی برق شرر بار تلوار مرحب کے سر سے داخل ہوئی اور اسے دو ٹکڑے کرتے ہوئے زمین پر گرا دیا، یہودیوں کے لشکر جو مرحب کے پیچھے کھڑے تھے وہ بھاگ گئے اور وہ گروہ جو حضرت علی علیہ السلام سے مقابلہ کرنا چاہتا تھا ان لوگوں نے فرداً فرداً جنگ کیا اور سب کے سب ذلت کے ساتھ قتل ہوگئے۔
اب وہ وقت آپہنچا کہ امام قلعہ میں داخل ہوں مگر بند دروازہ امام اور سپاہیوں کے لئے مانع ہوا کہ داخل ہوں. قدرتی طاقت سے آپ نے باب خیبرکو اپنی جگہ سے اکھاڑا اور سپاہیوں کے داخل ہونے کے لئے راستہ ہموارکردیا اوراس طرح سے فساد و بربریت کے آخری گھرکو اجاڑ دیا اور مسلمانوں کو اس شریراورخطرناک عناصر جو ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے دل میں دشمنی رکھتے یا رکھے ہیں آسودہ کردیا۔


سعد بن وقاص کے ایک اور کلام کی وضاحت


ابھی ہم نے حضرت علی علیہ السلام کی تین فضیلتوں میں سے ایک فضیلت جو سعد بن وقاص نے معاویہ کے سامنے بیان کی تھی اس کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے اس لئے بہتر ہے کہ باقی ان دو فضیلتوں کو بھی بطور خلاصہ بیان کردیں۔
تمام افتخارات میں سے ایک اہم افتخارامام علیہ السلام کے لئے یہ بھی ہے کہ تمام جنگوں میں آپ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ اورہمیشہ لشکر کے علمبردار رہے سوائے جنگ تبوک کے کیونکہ آپ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم سے مدینہ منورہ میں موجود تھے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منافقوں کے ارادے سے باخبر تھے کہ میرے مدینے سے نکلنے کے بعد یہ لوگ مدینہ پر حملہ کریں گے اسی وجہ سے آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: کہ تم میرے اہل بیت اور رشتہ داروں اور گروہ مہاجرین کے سرپرست ہو اورمیرے اور تمہارے علاوہ اس کام کے لئے کوئی دوسرا لیاقت نہیں رکھتا۔
حضرت علی علیہ السلام کے مدینے میں قیام کی وجہ سے منافقوں کے ارادوں پر پانی پھرگیا لہٰذا منافقوں نے ہر جگہ یہ پھیلا دیا کہ پیغمبراسلام اورحضرت علی علیہ السلام کے درمیان کشیدگی ہے اورحضرت علی علیہ السلام نے راستے کی دوری اور شدید گرمی کی وجہ سے خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے دوری اختیار کرلی ہے۔
ابھی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینے سے زیادہ دور نہیں ہوئے تھے کہ یہ خبر پورے مدینہ میں پھیل گئی، امام علی علیہ السلام ان کی تہمت کا جواب دینے کے لئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچنے اور حضرت سے پورا ماجرا بیان کیا. پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اس تاریخی جملے(کہ جس کی سعد بن وقاص نے خواہش کی تھی کہ کاش اس کے بارے میں کہا جاتا) سے امام علیہ السلام کو تسلی دی اور فرمایا:
'' اَما تَرضی اَن تَکُونَ منِّی بِمنزَلَۀِ هارُونَ مِن مُوسی اِلّآ اَنَّه لا نَبیَّ بَعدی۔" کیا تم راضی نہیں ہوکہ تمہاری نسبت مجھ سے ایسے ہی ہے جیسے ہارون کی نسبت موسی سے تھی؟ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(3)
عظیم عالم دین مرحوم علامہ شرف الدین عیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ''المراجعات'' میں اس حدیث کے تمام منابع وماخذ کو ذکر کیا ہے۔یہ حدیث اسلام کی متواتر حدیثوں میں سے ایک ہے جسے محدثین اور مورخین نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کی تیسری عظیم فضیلت جسے سعد بن و قاص نے بیان کیا ہے وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ تھا ان لوگوں نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عیسائيت کے باطل عقیدوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد بھی اسلام قبول نہیں کیا مگر مباہلے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کردیا۔
مباہلہ کا وقت آیا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اعزہ میں سے صرف چارآدمیوں کا انتخاب کیا تاکہ اس تاریخی حادثہ میں شرکت کریں اور یہ چار افراد سوائے حضرت علی اور آپ کی بیٹی فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کے کوئی اور نہ تھا کیونکہ تمام مسلمانوں کے درمیان ان سے زیادہ کوئی پاک و پاکیزہ اور نفس و ایمان میں محکم نہیں تھا۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس راستے اورمنزل کو طے کیا جس جگہ پر مباہلہ ہونا تھا اورعجب شان سےاس منزل تک آئے اپنی آغوش میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو لئے ہوئے، ایک ہاتھ سے امام حسن علیہ السلام کی انگلیاں پکڑے تھے اورحضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اورمباہلہ کی جگہ پر پہنچ گئے اور اس علاقے میں پہنچنے سے پہلے اپنے ہمراہیوں سے فرمایا: دیکھو جب میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نوارانی چہرے اورچاروں افراد کا چہرہ جس میں تین فرد آپ کے شجرہ مقدس کی شاخیں تھیں،ایسا ولولہ پیدا کردیا کہ نجران کے عیسائی مبہوت ہوگئے اسقف اعظم نے کہا کہ میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر مباہلے کے لئے بارگاہ خداوندی میں دعا کردیں تو یہ بیابان بھڑکتے ہوئے جہنم میں تبدیل ہوجائے گا اور یہ عذاب وادی نجران تک پہنچ جائے گا لہٰذا  انہوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا اور جزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔
ام المومنین عائشہ کہتی ہیں(4)
مباہلہ کے دن پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چار ہمراہیوں کو اپنی کالی عبا کے دامن میں چھپایا اوراس آیت کی تلاوت فرمائی:" انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیراً" (5)
مشہورمورخ زمخشری کہتے ہیں:
مباہلے کا واقعہ اوراس آیت کا مفہوم یہ دونوں اصحاب کساء کی فضیلت پربہت بڑے گواہ ہیں اورمذہب اسلام کی حقانیت پر ایک عمدہ سند اور زندہ مثال شمار ہوتی ہے۔(6)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منابع:


1-صحح بخاری ج 5 ص 22، صحیح مسلم ج 7 ص 120
2-المسترک الوسائل نیشاپوری ج 3 ص 107
3- سیرت ابن ہشام ج2 ص 520، بحارالانوار ج21 ص 207
4- صحیح مسلم ج 7 ص 130
5- سورہ احزاب آیت 33
6- تفسیرکشاف ج1 ص 282،283،  تفسیرفخر امام رازی ج2  ص 471
  
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: