مواد کا کوڈ۔: 52
ہٹس: 120
تاریخ اشاعت : 11 September 2023 - 10: 23
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات(13)
اگرچہ بہت سے مورخین اورنقل کرنے والے جب امام علیہ السلام کی پاکیزگی اورعدالت کے متعلق گفتگو کرتے ہیں توغالباً آپ کی حکومت کے دوران رونما ہوئے حادثات پر بھروسہ کرتے ہیں کیونکہ آپ کی حکومت کے زمانے میں یہ عظیم انسانی فضیلت بہت زیادہ رائج تھی۔

زمانہ پیغمبر میں حضرت علی علیہ السلام کا عدل وانصاف


اگرچہ بہت سے مورخین اورنقل کرنے والے جب امام علیہ السلام کی پاکیزگی اورعدالت کے متعلق گفتگو کرتے ہیں توغالباً آپ کی حکومت کے دوران رونما ہوئے حادثات پر بھروسہ کرتے ہیں کیونکہ آپ کی حکومت کے زمانے میں یہ عظیم انسانی فضیلت بہت زیادہ رائج تھی مگرامام علیہ السلام کا عدالت و انصاف اور قوانین پرپابندی کے ساتھ مقید ہونا اور ان کی رعایت و پاسداری کرنا رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے ہی ہرخاص وعام کی زبان پرتھا، اس بناء پروہ لوگ جو امام علیہ السلام کی عدالت وانصاف کوبرداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے  گاہے بہ گاہے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی علیہ السلام کی شکایت کرتے تھے اور ہمیشہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے برعکس کہتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام قانون الہی کی رعایت میں سختی سے پابندی کرتے تھے اور اس کی خلاف ورزی کبھی بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔
امام علیہ السلام کی تاریخ زندگی میں عصر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں ہم یہاں بطور مثال دو حادثوں کو نقل کر رہے ہیں:
1۔  سن دس ہجری قمری میں جب کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خانہ خدا کی زیارت کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی علیہ السلام کو مسلمانوں کے ایگ گروہ کے ساتھ ''یمن'' بھیج دیا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کوحکم دیا تھا کہ جب یمن سے واپس آئیں تو وہ کپڑے جسے نجران کے عیسائیوں نے مباہلہ کے دن دینے کا وعدہ کیا تھا اسے اپنے ہمراہ لائیں اور اسے رسول خدا کے پاس پہنچادیں، آپ اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کے بعد متوجہ ہوئے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانۂ کعبہ کی زیارت کے لئے روانہ ہوگئے ہیں اس لئے آپ نے راستے کو بدل دیا اور مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوگئے آپ نے مکہ کے راستے کو بہت تیزی کے ساتھ طے کیا تا کہ جلد سے جلد پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں اور اسی وجہ سے ان تمام کپڑوں کو اپنے لشکر کے ایک سپہ سالار کے حوالے کردیا، اپنے سپاہیوں سے الگ ہوگئے اور مکہ مکرمہ سے نزدیک پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بھائی کے دیدار سے بہت زیادہ خوشحال ہوئے اورجب احرام کے لباس میں دیکھا تو آپ کی نیت کے متعلق پریشان ہوئے حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا: میں نے احرام پہنتے وقت بارگاہ خداوندی میں عرض کیا کہ خدایا میں اسی نیت پراحرام پہن رہا ہوں جس نیت پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احرام پہنا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے یمن اور نجران کے سفر کی روداد اوروہ کپڑے جو لے کر آئے تھے اس کی رواداد پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا اور پھر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے اپنے سپاہیوں کے پاس واپس چلے گئے تاکہ دوبارہ ان کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس جائیں۔
جب امام علیہ السلام اپنے سپاہیوں کے پاس پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کے جانشین سپہ سالار نے تمام کپڑوں کو سپاہیوں کے درمیان تقسم کردیا ہے اور تمام سپاہیوں نے اس کپڑے کا احرام بنا کر پہن لیا ہے حضرت علی علیہ السلام اپنے سپہ سالار کے اس عمل پر بہت سخت ناراض ہوئے اور اس سے فرمایا: ان کپڑوں کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کرنے سے پہلے تم نے کیوں سپاہیوں میں تقسیم کردیا؟ اس نے جواب دیا کہ آپ کے سپاہیوں نے بہت اصرار کیا کہ میں کپڑے کو ان لوگوں کے درمیان بطورامانت تقسیم کردوں اورحج کی ادائیگی کے بعد سب سے واپس لے لوں۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس کے عذر کو قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ تمہیں یہ اختیارکس نے دیا تھا؟ پھرآپ نے حکم دیا کہ تمام تقسیم ہوئے کپڑوں کو جمع کرو تاکہ مکہ مکرمہ میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سپردکریں۔(1)
وہ گروہ جنہیں عدالت و انصاف اور منظم و مرتب رہنے سے تکلیف ہوتی تھی وہ ہمیشہ تمام امورکو اپنے اعتبارسے جاری کروانا چاہتے تھے وہ لوگ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں آئے اورحضرت علی علیہ السلام کے انضباط اورسختی کی شکایت کی لیکن وہ لوگ اس نکتہ سے بے خبر تھے کہ اس طرح سے قانون شکنی اور بے جا خلاف ورزی ایک بڑی قانون شکنی اور خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے تمام کام اور آپ کے عدل و انصاف سے مکمل طور پر باخبرتھے اپنے کسی ایک صحابی کو بلایا اوراس سے فرمایا کہ اس شاکی گروہ (شکایت کرنے والوں) کے پاس جاؤ اور میرے اس پیغام کو ان تک پہنچادو۔
'' علی کی برائی کرنے سے باز آجاؤ کیونکہ وہ خداوندعالم کے احکام کو جاری کرنے میں بہت دقیق اور سخت ہیں اوران کی زندگی میں کبھی بھی چاپلوسی اور خوشامد نہیں پائی جاتی۔
2۔ خالد بن ولید قریش کا ایک بہادر سردارتھا اس نے سن سات ہجری قمری میں مکہ مکرمہ سے مدینے کی طرف ہجرت کی اور مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگا مگر اس سے پہلے کہ وہ قوانین الہی پر عمل پیرا ہوتا اسلام کی نو بنیاد حکومت کو گرانے کے لئے قریش کی طرف سے جتنی بھی جنگیں ہوئیں اس میں شریک رہا، یہ وہی شخص تھا جس نے جنگ احد میں مسلمانوں پررات میں چھپ کرحملہ کیا تھا اور ان کی فوج کی پشت سے چھپ کرمیدان جنگ میں وارد ہوا تھا اور اسلام کے مجاہدوں پر حملہ کیا اس شخص نے اسلام لانے کے بعد بھی حضرت علی علیہ السلام سے عداوت و دشمنی کو فراموش نہیں کیا اورامام علیہ السلام کی قدرت و طاقت اور بہادری سے ہمیشہ حسد کرتا رہا، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کے بعد خلیفہ وقت سے حضرت علی علیہ السلام کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی لیکن کسی علت کی بناء پر کامیاب نہ ہوسکا۔
مشہور مورخ احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند میں تحریر کرتے ہیں:
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اسی گروہ کے ساتھ  کہ جس میں خالد بھی موجود تھا یمن بھیجا، اسلام کی فوج سے یمن کے ایک مقام پر قبیلۂ بنی زید سے جنگ ہوئی اور دشمنوں پر کامیابی حاصل کرلی اور کچھ مال غنیمت ہاتھ لگا. امام علیہ السلام نے عدالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مال غنیمت تقسیم کردیا یہ روش خالد بن ولید کی رضایت کے برخلاف تھی اس نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورحضرت علی علیہ السلام کے درمیان سوء تفاہم پیدا کرنے کے لئے پیغمبراسلام کو خط لکھا اوراسے بریدہ کے حوالے کیا تاکہ جتنی جلدی ممکن ہو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دے۔
بریدہ کہتا ہے: میں بہت تیزی کے ساتھ مدینہ پہنچا اوراس خط کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کیا حضرت نے اس خط کو اپنے کسی ایک صحابی کو دیا تا کہ وہ پڑھے اور جب وہ خط پڑھ چکا تو میں نے اچانک پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پرغیظ و غضب دیکھا۔ بریدہ کہتا ہے کہ میں اس طرح کا خط لاکر بہت شرمندہ ہوا اورعذر خواہی کے لئے کہا کہ خالد کے حکم سے میں نے یہ کام کیا ہے اور میرا اس کے حکم کی پیروی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
وہ کہتا ہے کہ جب میں خاموش ہوگیا تو کچھ دیر کے لئے سکوت طاری رہا، اچانک پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خاموشی کو ختم کیا اورفرمایا: " علی کے بارے میں بری باتیں نہ کہو'' فَاِنَّهُ مِنّی وَ اَنَا مِنهُ وَ هُوَ وَليّـکُم بَعدی '' وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد تمہارے ولی و حاکم ہیں۔"
بریدہ کہتا ہے کہ میں اپنے کئے ہوئے پر بہت نادم تھا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تک علی نہ آئیں اوراس کام کے لئے رضایت نہ دیں اس وقت تک میں تیرے لئے استغفار نہیں کروں گا. اچانک حضرت علی علیہ السلام پہنچے اور میں نے ان سے درخواست کی کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میری سفارش کردیں کہ وہ میرے لئے استغفار کریں۔(2)
اس روداد کی وجہ سے بریدہ نے اپنی دوستی کو خالد سے ختم کرلیا اور صدق دل سے حضرت علی علیہ السلام سے محبت کرنے لگا اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اس نے ابوبکر کی بیعت بھی نہ کی اوریہ ان بارہ آدمیوں میں سے ایک تھا جنہوں نے ابوبکرکے اس مورد پر اعتراض کیا اور اسے رسمی طور پر نہ پہچانا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں حضرت علی علیہ السلام کے دل وانصاف کے کچھ نمونے بیان کریں۔؟


منابع:


1- بحار الانوارج21 ص 385
2- اسد الغابہ ج1 ص 176، والدرجات الرفیعہ ص 401

 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: