مواد کا کوڈ۔: 53
ہٹس: 93
تاریخ اشاعت : 12 September 2023 - 10: 34
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (14)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی رسالت کے تیئس سالہ دور میں کبھی کنایہ کے طورپرتو کبھی اشارے کے ذریعے اور کبھی واضح کرکے حضرت علی علیہ السلام کی لیاقت و شائستگی کو امت کی رہبری اورحکومت کے لئے لوگوں کو متوجہ کرتے رہے۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مخصوص نمائندہ و سفیر


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رسالت کے تیئس سالہ دورمیں کبھی کنایہ کے طورپرتو کبھی اشارے کے ذریعے اور کبھی واضح کرکے حضرت علی علیہ السلام کی لیاقت و شائستگی کو امت کی رہبری اورحکومت کے لئے لوگوں کو متوجہ کرتے رہے اور جن لوگوں کے متعلق ذرہ برابر بھی یہ احتمال پایا جاتا تھا کہ وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی مخالفت کریں گے ان کو نصیحت کرتے تھے اور انہیں عذاب الہی سے ڈراتے تھے۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جب قبیلۂ بنی عامر کے رئیس اورحاکم "یمامہ" نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ خواہش ظاہرکی کہ میں آپ کے قوانین کا بہت سختی سے دفاع کروں گا مگر شرط یہ ہے کہ آپ اپنے بعد حکومت کی ذمہ داری مجھے سونپ دیں تو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: ''الامر الی اللہ یضعہ حیث شاء '' یہ امر خدا کے اختیار میں ہے اورجس شخص کو بھی اس کام کے لئے منتخب کرے وہ میرا جانشین ہوگا۔
اس کےعلاوہ بھی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مقامات پرمختلف عبارتوں کے ذریعے حضرت علی علیہ السلام کو اپنی جانشینی کے عنوان سے پہچنوایا مثال کے طور پرآغاز بعثت میں جب خدا نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ اپنے اعزہ واحباب اوررشتہ داروں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں تو آپ نے اسی جلسہ میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بعد اپنا وصی و خلیفہ قرار دیا۔ اسی طرح سے غدیر خم کے میدان میں اور ایک لاکھ ( یا اس سے زیادہ) کے مجمع میں حضرت علی علیہ السلام کو ہاتھوں پر بلند کرکے لوگوں کو پہچنوایا اور لوگوں کو اس مسئلے سے آگاہ کیا۔
اس کے علاوہ اکثر مقامات پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیاسی کاموں کو حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کردیا اور اس طرح سے اسلامی معاشرے کی فکروں کو حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کے تحمل کرنے پرآمادہ کیا مثال کے طور پر اس واقعہ کی تحقیق کرتے ہیں۔
بیس سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہوگا کہ اسلام کی منطق نے شرک اوردوگانہ پرستی کے بارے میں حجاز کی سرزمین اورعرب کے مشرک قبیلوں میں رواج پیدا کرلیا تھا اوراکثر لوگوں نے اسلامی نظریہ کے اعتبار سے بتوں اوربت پرستوں کے بارے میں معلومات حاصل کرلیا تھا اور یہ بھی جانتے تھے کہ بت پرستی بزرگوں کے باطل عمل کی پیروی کےعلاوہ کچھ نہیں ہے اوران کے باطل خدا اتنا ذلیل و خوار ہیں کہ وہ صرف دوسروں کے امورانجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے ضرر کو بھی اپنے سے دور نہیں کرسکتے اور نہ خود کو ہی نفع پہنچاسکتے ہیں اور اس طرح کے عاجز و مجبور خدا تعریف و خضوع کے لائق نہیں ہیں۔
دوسرا گروہ جس نے صدق دل اور بیدار ضمیر کے ساتھ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام کو سنا تھا انہوں نے اپنی زندگی میں کافی مستحکم تبدیلیاں پیدا کرلی تھیں اوربت پرستی چھوڑکرخدا کی وحدانیت کو قبول کرلیا تھا خصوصاً جس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور مذہبی مقررین کو موقع مل گیا کہ وہ آزادی سے اسلام کی تبلیغ و نشرو اشاعت کریں تو کچھ لوگوں نے بتوں کو توڑ ڈالا اور توحید کی آواز حجاز کے اکثر مقامات پرگونج اٹھی۔
لیکن متعصب اوربیوقوف لوگ جنہیں اپنی دیرینہ عادتوں کے ختم کرنے میں بہت دشواری تھی وہ کشمکش کے عالم میں تھے اوراپنی بری عادتوں سے باز نہ آئے اور خرافات و بدبختی کی پیروی کرتے رہے۔ 
اب وہ وقت آگیا تھا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر طرح کی بت پرستی اور غیرانسانی کاموں کو اپنے سپاہیوں کے ذریعے ختم کردیں اوربہادروں و طاقتوروں کے ذریعے بت پرستی کو جومعاشرے کو برباد اوراجتماعی و اخلاقی اعتبارسے فاسد کر رہے ہیں اورحریم انسانیت کے لئے کل بھی نقصان دہ تھے (اور آج بھی ہیں) اسے جڑ سے اکھاڑ دیں اور خداوندعالم اوراس کے رسول سے بیزاری و دوری کو منیٰ کے میدان میں عید قربان کے دن اس عظیم و بزرگ اجتماع میں جس میں حجاز کے تمام افراد جمع ہوتے ہیں اعلان کریں اور خود پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا کوئی اور سورۂ برائت کے پہلے حصے کو جس میں خدا اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشرکوں سے بیزاری کا تذکرہ ہے اس بڑے مجمع میں پڑھے اور بلند ترین آواز سے حجاز کے بت پرستوں میں اعلان کرے کہ چار مہینے کے اندر اپنی وضعیت و حالت کو معین کرلیں کہ اگرمذہب توحید کو قبول کرلیں تو مسلمانوں کے زمرے میں شامل ہوجائیں گے اوردوسروں کی طرح یہ لوگ بھی اسلام کے مادی اورمعنوی چیزوں سے بہرہ مند ہو جائیں گے لیکن اگر اپنی دشمنی اورہٹ دھرمی پر باقی رہے تو چارمہینہ گزرنے کے بعد جنگ کے لئے آمادہ رہیں اور یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ جہاں بھی گرفتار ہوئے قتل کردیئے جائیں گے۔
سورۂ برائت " توبہ" اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج میں نہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا کیونکہ گذشتہ سال جو فتح مکہ کا سال تھا مراسم حج میں شرکت کیا تھا اورارادہ کیا تھا کہ آئندہ سال کہ جسے بعد میں ''حجة الوداع'' کہا جائے گا اس حج میں شرکت کریں. اس لئے ضروری تھا کہ کسی کو خدا کا پیغام پہنچانے کے لئے منتخب کریں سب سے پہلے آپ نے ابوبکر کو بلایا اورسورۂ برائت کے ابتدائی کچھ حصے کی تعلیم دی اورانہیں چالیس آدمیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ روانہ کیا تا کہ عید قربان کے دن لوگوں کے سامنے ان آیتوں کو پڑھیں۔
ابوبکر ابھی مکہ کے راستے ہی میں تھے کہ اچانک وحی الہی کا نزول ہوا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ہوا کہ اس پیغام کو خود یا جو انہیں میں سے ہے لوگوں تک پہنچائے اور ان دو آدمیوں کے علاوہ کسی کے اندر یہ صلاحیت موجود نہیں ہے۔(1)
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ شخص جو وحی کے اعتبار سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہے اور اتنی شائستگی و لیاقت رکھتا ہے وہ کون ہے؟!
تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو بلایا اورانہیں حکم دیا کہ مکہ کے لئے روانہ ہوجائیں اورابوبکر سے راستے میں ملاقات کریں اوران سے آیات برائت کو لے لیں اور ان سے کہہ دیں کہ اس کام کی انجام دہی کے لئے وحی الہی نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ہے ان آیتوں کو یا خود پیغمبریا ان کے اہل بیت کی ایک فرد لوگوں کو پڑھ کرسنائے اس وجہ سے یہ مسئولیت و ذمہ داری تبدیل ہوئی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اونٹ پر سوار ہوکرجابراور آپ کے دوسرے صحابیوں کے ہمراہ مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوگئے اورحضرت کے کلام کو ابوبکر تک پہنچایا انہوں نے بھی (سورۂ برائت کی) آیتوں کو حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کردیا۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام مکہ میں داخل ہوئے اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو جمرۂ عقبہ (2) کے اوپر کھڑے ہوکر بلند آواز سے سورۂ برائت کی تیرہ آیتوں کی تلاوت کی اور چار مہینے کی مہلت کہ جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دی تھی بلند آواز سے تمام شرکت کرنے والوں کے گوش گزارکیا. تمام مشرکین سمجھ گئے کہ صرف چارمہینے کی مہلت ہے جس کے اندر ہمیں اپنی وضعیت وحالات کو اسلامی حکومت کے سامنے پیش کرنا ہے قرآن کی آیتیں اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چار مہینے کے پیغام نے مشرکین کی فکروں پر عجیب اثر ڈالا اور ابھی چار مہینہ بھی مکمل نہ ہوا تھا کہ مشرکین کے گروہ با گروہ نے مذہب توحید کو قبول کرلیا اورابھی دسویں ہجری بھی تمام نہ ہوئی تھی کہ پورے حجاز سے شرک کا خاتمہ ہوگیا۔
اگر چہ بعض متعصب مورخین نے کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو تحلیل و تشریح کرنے میں بہت زیادہ منحرف ہوئے ہیں ابوبکر کے اس مقام سے معزول ہونے اوراسی مقام پر حضرت علی علیہ السلام کے منصوب ہونے کی اس طرح سے توجیہ کی ہے کہ ابوبکرشفقت و مہربانی کے مظہر اور حضرت علی علیہ السلام بہادری و شجاعت کے مظہر تھے اور الہی پیغام کے پہنچانے اور قطعنامہ کے پڑھنے میں بہادر دل اور قدرت مند روح کی ضرورت تھی اوریہ صفتیں حضرت علی علیہ السلام کے اندر بہت زیادہ پائی جاتی تھیں۔
لیکن واضح ہوتا ہے کہ یہ توجیہ ایک بے جا تعصب کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عزل و نصب کی علت کی دوسرے انداز سے تفسیر بیان کی ہے اورفرمایا ہے کہ اس کام کے لئے میرے اوروہ شخص جو مجھ سے ہے کے علاوہ کوئی بھی صلاحیت نہیں رکھتا۔
جو چیزپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام سے واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ حضرت علی علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان بلکہ خود انہیں میں سے تھے لہذا آپ نے حکم خداوندی سے آپ کو اس کام کے لئے معین فرمایا اگر ہم چاہیں کہ اس واقعہ کا غیر جانبدارانہ فیصلہ کریں تو ضروری ہے کہ یہ کہا جائےکہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم الہی سے یہ ارادہ تھا کہ اپنی زندگی میں ہی حضرت علی علیہ السلام کو سیاسی مسائل اورحکومت اسلامی سے مربوط مسئلوں میں آزاد رکھیں تا کہ تمام مسلمان آگاہ ہوجائیں اورعادت کرلیں کہ خورشید رسالت کے بعد سیاسی اور حکومتی امور میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف رجوع کریں اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ان تمام امور میں حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ شائستہ کوئی نہیں ہے کیونکہ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ تنہا خداوندعالم کی طرف سے وہ شخص مشرکین مکہ سے امان میں رہنے کے لئے جو حکومت کے شایان شان ہے منصوب ہوا وہی حضرت علی علیہ السلام تھے۔
…………………………….


سوالات:


1- پیغام آیات برآت کی ذمہ داری کو پیغمبراسلام نے ابوبکر سے کیوں لے لیا آخرکیا وجہ تھی۔؟
2- آیات سورہ برآت سے مشرکین مکہ کے اوپر کیا اثرات مرتب ہوئے۔؟


منابع:


1- سیرہ ابن ہشام ج 4 ص 545
2- میدان منی کے بیچ میں آخری ستون ہے اور عید الاضحی کے دن حاجیوں پر واجب ہے کہ اس پر پتھر ماریں۔

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: