مواد کا کوڈ۔: 54
ہٹس: 67
تاریخ اشاعت : 13 September 2023 - 10: 44
امیرالمومنین حضرت علی علیہ علیہ السلام کی سوانح حیات (15)
شیعہ دانشمندوں کی نظر میں خلافت ایک الہی منصب ہے جو خداوندعالم کی طرف سے امت اسلامی کے شائستہ اورعقلمند شخص کو دیا جاتا ہے امام اور نبی کے درمیان واضح اور روشن فرق یہ ہے کہ پیغمبر شریعت لے کر آتا ہے اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔

پیغمبر اسلام کی جانشینی


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خلافت و جانشینی کے بارے میں دو نظرئیے پائے جاتے ہیں:
شیعہ دانشمندوں کی نظر میں خلافت ایک الہی منصب ہے جو خداوندعالم کی طرف سے امت اسلامی کے شائستہ اورعقلمند شخص کو دیا جاتا ہے امام اور نبی کے درمیان واضح اور روشن فرق یہ ہے کہ پیغمبر شریعت لے کر آتا ہے اس پر وحی نازل ہوتی ہے اوروہ  صاحب کتاب ہوتا ہے جب کہ امام اگرچہ ان چیزوں کا حقدارنہیں ہے لیکن حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے علاوہ دین کی ان چیزوں کا بیان اور تشریح کرنے والا ہوتا ہے جو پیغمبر وقت کی کمی یا حالات کے صحیح نہ ہونے کی بنا پر اسے بیان نہیں کرپاتا اوران تمام چیزوں کے بیان کو اپنے وصیوں کے ذمہ کردیتا ہے اس بنا پر شیعوں کی نظر میں خلیفہ صرف حاکم وقت اور اسلام کا ذمہ دار، قوانین کا جاری کرنے والا اور لوگوں کے حقوق کا محافظ اور ملک کی سرحدوں کا نگہبان ہی نہیں ہوتا بلکہ مذہبی مسائل اور مبہم نکات کا واضح اور روشن کرنے والا ہوتا ہے اور اس احکام و قوانین کا مکمل کرنے والا ہوتا ہے جو کسی وجہ سے دین کی بنیاد رکھنے والا بیان نہیں کرپاتا ہے۔
لیکن خلافت اہل سنت کے دانشمندوں کی نظر میں ایک معمولی اورمشہور منصب ہے اوراس مقام کا مقصد صرف ظاہری چیزوں اورمسلمانوں کی مادیات کی حفاظت کے علاوہ کچھ نہیں ہے. خلیفۂ وقت عمومی رائے مشوروں سے سیاسی اقتصادی اور قضائی امور کو چلانے کے لئے منتخب ہوتا ہے اور وہ شئون و احکامات جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں بطور اجمال تشریع ہوئے ہیں اور پیغمبراسلام کسی علت کی بنا پراسے بیان نہ کرسکیں ہوں، اس کے بیان کرنے کی ذمہ داری علماء اور اسلامی دانشمندوں پر ہے کہ اس طرح کی مشکلات کو اجتہاد کے ذریعے حل کریں۔
حقیقت خلافت کے بارے میں اس مختلف نظریہ کی وجہ سے دو مختلف گروہ مسلمانوں کے درمیان وجود میں آگئے اور وہ بھی دو حصوں میں بٹ گئے اور آج تک یہ اختلاف باقی ہے۔
پہلے نظریہ کے مطابق، امام پیغمبر کے بعض چیزوں میں شریک و برابر ہے اور جو شرائط پیغمبر کے لئے لازم ہیں وہی شرائط امام کے لئے بھی لازم ہیں. ان شرائط کو ہم یہاں بیان کر رہے ہیں:
1۔ پیغمبر کے لئے ضروری ہے کہ وہ معصوم ہو یعنی اپنی پوری عمر کے دوران گناہ کے قریب نہ جائے اور دین کے حقائق و احکام بیان کرنے، لوگوں کے اسلامی و مذہبی سوالوں کے جوابات دینے میں خطا اور اشتباہ کا مرتکب نہ ہو، امام کو بھی ایسا ہی ہونا چاہئے اوردونوں کے لئے ایک ہی دلیل ہے۔
2۔ پیغمبر شریعت کی بہ نسبت سب سے عقلمند انسان ہو اور مذہب کی تمام چیزوں میں سے کوئی بھی چیز اس سے پوشیدہ نہ ہو اور امام بھی جو کہ شریعت کی ان چیزوں کو مکمل کرنے اور بیان کرنے والا ہے جو پیغمبر کے زمانے میں بیان نہیں ہوئی ہیں ضروری ہے کہ دین کے احکام و مسائل کے بہ نسبت سب سے عقلمند شخص ہو۔
3۔ نبوت ایک انتصابی مقام ہے نہ انتخابی اور پیغمبر کے لئے ضروری ہے کہ خدا اس کی پہچنوائے اور اسی کی طرف سے مقام نبوت پر منصوب ہو کیونکہ تنہا اسی کی ذات ہے جو معصوم کو غیر معصوم سے جدا کرتا ہے اور صرف خدا ان لوگوں کو پہچانتا ہے جو غیبی عنایتوں کی وجہ سے اس مقام پر پہنچے ہیں اور دین کی تمام جزئیات سے واقف و آگاہ ہیں۔
یہ تینوں شرطیں جس طرح سے پیغمبر کے لئے معتبر ہیں اسی طرح امام اور اس کے جانشین کے لئے بھی معتبر ہیں لیکن دوسرے نظریہ کے مطابق، نبوت کی کوئی بھی شرطیں امامت کے لئےضروری نہیں ہیں نہ معصوم ہونا ضروری ہے نہ عادل ہونا اورنہ عالم ہی ہونا ضروری ہے نہ شریعت پر مکمل دسترسی ضروری ہے نہ انتصاب ہونا اور نہ عالم غیب سے رابطہ ہونا ضروری ہے بلکہ بس اتنا کافی ہے کہ اپنے ہوش و حواس اور تمام مسلمانوں کے مشورے سے اسلام کی شان و شوکت کی حفاظت کرے اور قانون کے نفاذ کے لئے امنیت کو جزا قرار دے اورجہاد کی دعوت کے زیر نظر اسلام کو پھیلانے کی کوشش کرے۔
ابھی ہم اس مسئلہ کو (کہ کیا مقام امامت ایک انتصابی مقام ہے یا ایک انتخابی مقام اور کیا پیغمبر کے لئے ضروری تھا کہ وہ خود کسی کو اپنا جانشین معین کریں یا امت کے حوالے کردیں؟) اسے ایک اجتماعی طریقے سے حل کرتے ہیں اور قارئین محترم کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اجتماعی اور ثقافتی حالات خصوصاً پیغمبر کے زمانے کے سیاسی حالات سبب بنے کہ خود پیغمبر اپنی زندگی میں جانشینی کی مشکلات کو حل کریں اور اس کے انتخاب کو امت کے حوالے نہ کریں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مذہب اسلام، عالمی مذہب اور آخری دین ہے اور جب تک رسول خدا زندہ رہے امت کی رہبری کو اپنے ذمے لئے رہے اور آپ کی شہادت کے بعد ضروری ہے کہ امت کی رہبری امت کے بہترین فرد کے ذمے ہو، ایسی صورت میں پیغمبر کے بعد رہبری ،کیا ایک مقام تنصیصی ہے یا مقام انتخابی؟
یہاں پر دو نظریے ہیں:
تمام شیعوں کا عقیدہ ہے کہ مقام رہبری، مقام تنصیصی ہے اور ضروری ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین خدا کی طرف سے معین ہو جب کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ یہ مقام انتخابی ہے اورامت کے لئے ضروری ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ملک و امت کے نظام کو چلانے کے لئے کسی شخص کو منتخب کریں اور ہر گروہ نے اپنے نظریوں پر دلیلیں پیش کی ہیں جو عقائد کی کتابوں میں ہیں یہاں پر جو چیز بیان کرنے کی ضرورت ہے وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں حاکم کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرنا ہے تاکہ دونوں نظریوں میں سے ایک نظریہ کو ثابت کرسکیں۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اسلام کی داخلی اور خارجی سیاست اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین خداوندعالم کے ذریعے خود پیغمبر کے ہاتھوں معین ہو کیونکہ اسلامی معاشرے کو ہمیشہ ایک خطرناک مثلث (سہ گوشہ) یعنی روم، ایران، اور منافقین کی وجہ سے جنگ، فساد اوراختلاف کے لئے ہمیشہ ڈرایا گیا اسی طرح امت کی مصلحتوں نے ثابت کردیا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیاسی رہبر معین کرکے تمام امتیوں کو خارجی دشمن کے مقابلے میں ایک ہی صف میں لاکر کھڑا کردیا اور دشمن کے نفوذ اور اس کے تسلط کو (کہ جس کی اختلاف باطنی بھی مدد کرتا ہے) ختم کردے اب ہم اس مطلب کی وضاحت کر رہے ہیں۔
 اس مثلث کا ایک خطرناک حصہ امپراتوری روم کی طرف سے تھا، یہ ایک بہت بڑی طاقت شبہ جزیرہ کے شمال میں واقع تھی اور پیوستہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فکر کو اپنی طرف مشغول کئے رہی اور آنحضرت بھی زندگی کے آخری لمحہ تک اس فکر سے دور نہ رہ سکے. سب سے پہلی لڑائی مسلمانوں کی روم کے عیسائی فوج کے ساتھ  سنہ آٹھ ہجری قمری میں فسلطین میں ہوئی. اس جنگ میں اسلام کے تین عظیم سپہ سالار، یعنی جعفرطیار، زید بن حارثہ اورعبد اللہ بن رواحہ شہید ہوگئے اور اسلامی فوج کی بہت بڑی شکست ہوئی۔
کافروں کی فوج کے مقابلے سے جب اسلام کی فوج پیچھے ہونے لگی تو قیصرروم کی فوج سامنے آگئی اورہر لمحہ یہ خطرہ بنا رہا کہ نئی نئی اسلامی حکومت کا مرکز مورد حملہ قرا رنہ پائے۔اسی وجہ سے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنہ نو ہجری میں ایک بڑی فوج کے ساتھ شام کے اطراف کی طرف روانہ ہوئے تاکہ ہر طرح کی فوجی لڑائی میں خود رہبری کریں.اس سفر میں اسلامی فوج نے زحمت و رنج برداشت کرکے اپنی دیرینہ حیثیت کو حاصل کرلیا اور اپنی سیاسی زندگی کو دوبارہ زندہ کیا لیکن اس نسبی کامیابی نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قانع نہیں کیا اور اپنی بیماری سے چند دن پہلے اسلامی فوج کو اسامہ بن زید کی سپہ سالاری میں دے کر حکم دیا کہ شام کے اطراف میں جائیں اور جنگ میں شرکت کریں۔
اس مثلث کا دوسرا خطرناک حصہ امپراتوری ایران تھا اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ایران کے خسرو پرویز نے شدید غصہ کے عالم میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خط کو پھاڑدیا تھا اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سفیر کو ذلیل و خوار اور رسوا کرکے اپنے محل اور ملک سے نکالا تھا صرف یہی نہیں بلکہ یمن کے حاکم کو نامہ لکھا تھا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گرفتارکرلو اور اگر وہ گرفتاری نہ دیں توانہیں قتل کردو۔
خسرو پرویز، اگرچہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ہی مرگیا تھا لیکن یمن کو آزاد کرنے کا مسئلہ (جو مدتوں تک ایران کے زیر نظر تھا) خسرو ایران کی نظروں سے پوشیدہ نہ تھا اورغرور و تکبر نے ایران کے سیاست دانوں کو اس بات کی ہرگز اجازت نہ دی کہ اس طرح کی قدرت کو برداشت کرسکیں۔
اور اس مثلث کو تیسرا خطرہ گروہ منافقین کی طرف سے تھا جو ہمیشہ ستون پنجم (مدد و طاقت) کی طرح مسلمانوں کے درمیان تلاش کرتے تھے یہاں تک کہ ان لوگوں نے پیغمبراسلام کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا کہ جنگ تبوک میں جاتے وقت راستے میں انہیں قتل کردیں منافقین کے بعض گروہ آپس میں یہ کہتے تھے کہ رسول خدا کی موت کے بعد اسلامی تحریک ختم ہو جائے گی اور سب کے سب بے فکر ہو جائیں گے۔ ‍قرآن کریم نے سورہ طور میں اس جانب اشارہ کیا ہے۔ (1)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد ابوسفیان نے ایک سازش رچی اور حضرت علی علیہ السلام سے بیعت لینے کے بہانے مسلمانوں کو دوگروہوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کردے اور اپنی دیرینہ آرزو میں کامیاب ہوجائے یکن حضرت علی علیہ السلام کہ جو اس کی بدترین نیت سے باخبر تھے اس کے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا:خدا کی قسم فتنہ و فساد پیدا کرنے کے علاوہ تیرا کوئی اور مقصد نہیں ہے اور آج یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جو تو فتنہ کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے بلکہ تونے ہمیشہ شر بپا کرنا چاہاہے جان لے کہ مجھے تیری ضرورت نہیں ہے۔ (2)
منافقوں کی تخریب کاری (فتنہ و فساد) اس تک پہنچ گئی تھی کہ قرآن مجید نے سورہائے آل عمران، نساء، مائدہ، انفال، توبہ، عنکبوت، احزاب، محمد، فتح، مجادلہ، حدید، منافقون اورحشر میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
کیا ایسے سخت دشمنوں کے بعد جو اسلام کے کمین میں بیٹھے تھے صحیح تھا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے بعد نو بنیاد اسلامی معاشرے کے لئے دینی و سیاسی رہبرکو معین نہ کرتے؟ اجتماعی محاسبہ کی بنیاد سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر رہبر کا تعیین کرے اپنے بعد میں ہونے والے تمام اختلاف کو روک دیں اور ایک محکم اور بہترین راستے پر سب کو چلا کروحدت اسلامی کا رواج پیدا کرے اور ہر ناگوار حادثہ رونما ہونے سے پہلے اور یہ کہ رسول اسلام کے انتقال کے بعد ہر گروہ یہ کہے کہ رہبر ہم میں سے ہو سوائے رہبر معین ہونے کے ممکن نہ تھا۔
یہ احتمال محاسبہ ہمیں مستحکم اور صحیح نظریہ (پیغمبراسلام کے بعد مقام رہبری کا تنصیص ہونا) کی طرف ہدایت کرتا ہے شاید یہی وجہیں تھیں کہ پیغمبر بعثت کی ابتداء سے آخر عمر تک مسئلہ جانشینی کی ہمیشہ تکرارکرتے رہے اور اپنے جانشین کو آغاز رسالت میں بھی اور انجام رسالت میں بھی معین کیا یہ تھا  دونوں نظریوں کا بیان۔
اس کے علاوہ دلیل عقلی، فلسفی اوراجتماعی محاسبہ جو پہلے نظریہ کو مسلم طور پر حقیقت جانتے ہیں وہ حدیثیں اورروایتیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وارد ہوئیں ہیں علمائے شیعہ کے نظریہ کی تصدیق کرتی ہیں. پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے اپنی رسالت کے زمانے میں کئی دفعہ اپنے جانشین اور وصی کومعین کیا ہے اور امامت کے موضوع کو عمومی رائے سے انتخاب ہونے کی بحث کو ختم کردیا ہے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ صرف آغاز رسالت میں بلکہ مختلف مناسبتوں، سفر، حضر، میں حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و جانشینی کو صراحت سے بیان کیا ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ایک عظمت و صراحت قطعی اورعمومی ہونے کے اعتبار سے ''حدیث غدیر'' کی منزل تک نہیں پنچ سکتی۔
اب ہم واقعہ غدیر کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال:


1- پیغمبر اسلام صلی اللہ عیلیہ و آلہ وسلم کی جانشینی کے بارے میں شیعوں کا نظریہ کیا ہے۔؟
2- اہل سنت کے علماء کی نظر میں مسئلہ خلافت کیا ہے۔؟
3- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں خطرناک مثلث کس وجہ سے تھا۔؟


منابع:


1- سورۂ طور آیت 30-32
2- الکامل فی التاریخ ابن اثیر ج 2 ص 220

 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: