مواد کا کوڈ۔: 56
ہٹس: 111
تاریخ اشاعت : 15 September 2023 - 10: 34
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (17)
خداوندعالم کاحکیمانہ ارادہ یہ ہے کہ عظیم تاریخی واقعہ غدیر ہرزمانے اور ہرصدی میں لوگوں کے دلوں میں زندہ اورکتابوں میں بطور سند لکھا رہے، ہر زمانے میں اسلام کے محققین، تفسیر، حدیث، کلام اور تاریخ کی کتابوں میں اس کے متعلق گفتگو کریں اور مقررین و خطباء اپنی تقریروں، وعظ و نصیحت اور خطابتوں میں اس واقعہ کا تذکرہ کریں۔

 

غدیرخم کا واقعہ کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا


 
خداوندعالم کاحکیمانہ ارادہ یہ ہے کہ عظیم تاریخی واقعہ غدیر ہرزمانے اور ہرصدی میں لوگوں کے دلوں میں زندہ اورکتابوں میں بطور سند لکھا رہے، ہر زمانے میں اسلام کے محققین، تفسیر، حدیث، کلام اور تاریخ کی کتابوں میں اس کے متعلق گفتگو کریں اور مقررین و خطباء اپنی تقریروں، وعظ و نصیحت اور خطابتوں میں اس واقعہ کا تذکرہ کریں اوراسے حضرت علی علیہ السلام کا ایسا فضائل شمار کریں جو غیر قابل انکار ہو نہ صرف مقررین اورخطباء بلکہ تمام شعراء اور دوسرے افراد نے بھی اس واقعے سے استفادہ کیا ہے اوراپنے ادبی ذوق کو اس واقعہ میں غور و فکر کرکے اور صاحب ولایت کے ساتھ حسن خلوص سے پیش آکر اپنی فکروں کو جلا بخشی ہے اورعمدہ و عالی ترین قصائد مختلف انداز اور مختلف زبانوں میں کہہ کر اپنی یادگاریں چھوڑی ہیں،اسی وجہ سے بہت کم ایسا تاریخی واقعہ ہے جو غدیر کے مثل تمام دانشمندوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوگا بلکہ تمام افراد خصوصاً محدثین، متکلمین، فلسفی، خطیب وشاعر،مورخ اور تاریخ لکھنے والے سب ہی اس کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور سب نے کچھ نہ کچھ اس سلسلے میں لکھا ہے۔
اس حدیث کے ہمیشہ باقی رہنے کی ایک علت، اس واقعہ کے بارے قرآن مجید کی دو آیتوں کا نازل ہونا ہے اورجب تک قرآن کریم باقی ہے یہ تاریخی واقعہ بھی باقی رہے گا اور کبھی بھی ذہنوں سے بھلایا نہیں جاسکتا۔
جامعہ اسلامی نے شروع سے ہی اسے ایک مذہبی عید شمار کیا ہے اورتمام شیعہ آج بھی اس دن عید مناتے ہیں اوروہ تمام رسومات اور خوشیاں جو دوسری عیدوں میں انجام دیتے ہیں اس عید میں بھی انجام دیتے ہیں۔
تاریخ کی کتابوں کے مطالعے سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ اٹھارہ ذی الحجہ کا دن مسلمانوں کے درمیان ''عید غدیر'' کے نام سے مشہور ہے یہاں تک کہ " ابن خلکان"  " مستعلی بن المتنصر" کے بارے میں کہتا ہے:
چارسو ستاسی ہجری میں اٹھارہ ذی الحجہ کوغدیر کے دن لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کیا اور"العبیدی " المستنصرباللہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ اس کا انتقال چار سو ستاسی ہجری قمری میں اس وقت ہوا جب ذی الحجہ مہینے کی بارہ راتیں باقی تھیں اور یہ رات اٹھارہ ذی الحجہ یعنی شب غدیر تھی۔ (1)
تنہا ابن خلکان نے ہی اس رات کو غدیر کی رات نہیں کہا ہے بلکہ مسعودی(2) اور ثعلبی (3) نے بھی اس رات کو امت اسلامی کی معروف و مشہور رات کہا ہے۔
اس اسلامی عید کی بازگشت خود عید غدیر کے دن ہوتی ہے کیونکہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن مہاجرین و انصاربلکہ اپنی بیویوں کوحکم دیا کہ علی کے پاس جائیں اوران کی اس عظیم فضیلت پرانہیں مبارکبادکہیں۔"زید بن ارقم" کہتے ہیں: مہاجرین میں سب سے پہلے جس نے علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی وہ ابوبکر،عمر،عثمان، طلحہ اور زبیر تھے اور بیعت اور مبارکبادی کا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا۔
 اس تاریخی واقعہ کی اہمیت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ایک سودس صحابیوں نے حدیث غدیر کو نقل کیا ہے البتہ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اتنے زیادہ گروہوں میں سے صرف اتنی تعداد میں لوگوں نے واقعہ غدیرکو نقل کیا ہے بلکہ صرف اہل سنت کے ایک سو دس دانشمندوں نے واضح طورپرنقل کیا ہے یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبے کو ایک لاکھ کے مجمع میں بیان کیا لیکن ان میں سے بہت زیادہ گروہ وہاں سے دورحجاز کے ہاتھ میں تھے اور ان سے حدیث نقل نہیں ہوئی ہے اور ان میں سے جن گروہوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے تاریخ نے اسے اپنے دامن میں جگہ تک نہیں دی ہے اور اگر لکھا بھی ہے تو ہم تک نہیں پہنچا ہے۔
دوسری صدی ہجری جو کہ '' تابعین''(4) کا زمانہ ہے نواسی افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس صدی کے بعد جتنے بھی حدیث کے راوی ہیں سب کے سب اہل سنت کے دانشمند اورعلماء ہیں اوراس میں تین سو ساٹھ افراد نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور بہت زیادہ گروہوں نے اس کی حقانیت اور صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
تیسری صدی میں بانوے دانشمندوں نے،چوتھی صدی میں تینتالیس دانشمندوں نے، پانچویں صدی میں چوبیس دانشمندوں نے چھٹی صدی میں بیس دانشمندوں نے، ساتویں صدی میں اکیس دانشمندوں نے، آٹھویں صدی میں اٹھارہ دانشمندوں نے، نویں صدی میں سولہ دانشمندوں نے، دسویں صدی میں چودہ دانشمندوں نے، گیارہویں صدی میں بارہ دانشمندوں نے، بارہویں صدی میں تیرہ دانشمندوں نے، تیرہویں صدی میں بارہ دانشمندوں نے اور چودہویں صدی میں بیس دانشمندوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
کچھ گروہوں نے صرف اس حدیث کے نقل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس کی سند اوراس کے مفاد و مفہوم کے بارے میں مستقل طور پر کتابیں بھی لکھیں ہیں۔
اسلام کے بزرگ مورخ طبری نے ایک کتاب بنام ''الولایة فی طریق حدیث الغدیر'' لکھا ہے اور اس حدیث کو سترسے زیادہ طریقوں سے پیغمبراسلام سے نقل کیا ہے۔(5)
ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ''ولایت'' میں اس حدیث کو ایک سو پانج  افراد سے نقل کیا ہے۔ (6)
ابوبکرمحمد بن عمربغدادی جو جعابی کے نام سے مشہور ہے اس حدیث کو پچیس طریقوں سے نقل کیا ہے۔(7) جن لوگوں نے اس تاریخی واقعہ کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں ان کی تعداد چھبیس ہے۔
شیعہ دانشمندوں نے اس اہم اورتاریخی واقعے کے متعلق بہت قیمتی کتابیں لکھیں ہیں اورتمام کتابوں میں سب سے جامع اورعمدہ کتاب ''الغدیر'' ہے جو اہل تشیع کے مشہور و معروف دانشمند علامہ مجاہد مرحوم آیت اللہ امینی علیہ الرحمہ کی تحریر کردہ ہے اور حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات زندکی لکھنے والوں نے اس کتاب سے ہمیشہ بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔
قارئين حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے عمدہ اوراہم واقعات جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں رونما ہوئے تھے ان کی تحقیق وجستجو تمام ہوگئی.اگرچہ اس حصے میں تفصیلی تحقیق اورمکمل معلومات حاصل نہ ہوسکی اور امام علیہ السلام کے بہت سے حالات و واقعات اس زمانے میں جب آپ اس سے روبرو ہوئے تھے لیکن اہمیت کے لحاظ سے دوسرے مرحلے میں تھے بیان نہیں ہوئے ہیں. لیکن وہ عظیم واقعات جو امام علیہ السلام کی شخصیت کو اجاگرکرتے ہیں یا آپ کے ایمان و عظمت کو واضح و روشن کرتے ہیں ترتیب سے بیان کئے جاچکے ہیں اور اس کی وجہ سے ہم آپ کے فضائل و کمالات اورحسن اخلاق سے ایک حد تک آشنا ہوچکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال:


1- غدیر کے دن کن مہاجرین نے سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔؟


منابع:


1- وفیات الاعیان ج1 ص 60 و ج٢ ص 223
2- التنبیہ و الاشراف ص 822
3-  ثمار القلوب، ثعالبی ص 511
4- تابعین ان افراد کو کہتے ہیں جو پیمغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھے اور آپ کو نہیں دیکھا تھا بلکہ صرف آپ کے اصحاب کو دیکھا تھا لہذا اصحاب انہیں کہا جاتا ہے جنہوں نے پیغمبراسلام کو دیکھا تھا اورآپ کے زمانے میں موجود تھے۔
5- الغدیر علامہ امینی ج 1 ص 131
6- الغدیر علامہ امینی ج 1 ص 315
7- الغدیر علامہ امینی ج 1 ص 316

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: