مواد کا کوڈ۔: 57
ہٹس: 450
تاریخ اشاعت : 16 September 2023 - 10: 42
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (18)
حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے تین مرحلوں نے آپ کی عمرعزیز کے تینتیس برس لے لئے اورامام علیہ السلام اس مختصرسی مدت میں اسلام کے سب سے بڑے شجاع و بہادر اوراسلام کے عظیم الشان رہبر کی حیثیت سے پہچانے گئے۔

 

حضرت علی علیہ السلام کی پچیس سالہ خاموشی


حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے تین مرحلوں نے آپ کی عمرعزیز کے تینتیس برس لے لئے اورامام علیہ السلام اس مختصرسی مدت میں اسلام کے سب سے بڑے شجاع و بہادر اوراسلام کے عظیم الشان رہبر کی حیثیت سے پہچانے گئے اور پوری تاریخ اسلام میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی بھی شخص فضیلت، تقویٰ، علم و دانش، خدا کی راہ میں جہاد کوشش، برادری و مواسات، غریبوں یتیموں کی دیکھ بھال وغیرہ میں آپ کے ہم رتبہ نہ تھا اورتمام جگہوں پر خصوصاً حجاز و یمن میں آپ کی شجاعت و بہادری، فداکاری، جانبازی اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہر و محبت علی علیہ السلام کے ساتھ مشہور تھی۔
ان تمام شرائط و کمالات کے بعد ضروری تھا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام کا محوراورجامعہ اسلامی کی باگ ڈور حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں ہوتی لیکن جب تاریخ کے صفحات پر نظر پڑتی ہے تو اس کے برخلاف نظر آتا ہے کیونکہ امام علیہ السلام اپنی زندگی کے چوتھے مرحلے میں جو ایک چوتھائی صدی تھی اوروہ شرائط و حالات جو رونما ہوئے تھے اس عمومی جگہ سے اپنے آپ کو کنارے کرکے خاموشی اختیار کرلی تھی نہ کسی جنگ میں شرکت کی نہ کسی عمومی جلسے میں رسمی طورپرتقریرفرمائی، تلوارکو نیام میں رکھ لیا تھا اور تنہائی کی زندگی بسر کرنے لگے۔
اس خاموشی کے زمانے میں امام علیہ السلام چند چیزوں میں مصروف تھے جو درج ذیل ہیں:
1۔ خداوندعالم کی عبادت: وہ بھی ایسی عبادت جو حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کے شایان شان تھی یہاں تک کہ امام سجاد علیہ السلام اپنی تمام عبادت و تہجد کو اپنے دادا کی عبادت کے مقابلے میں بہت ناچیز جانتے ہیں۔
2۔ قرآن کریم کی تفسیر، آیتوں کی مشکلات کو حل اورشاگردوں کی تربیت کرتے تھے وہ بھی ابن عباس جیسے شاگرد کہ جو امام علیہ السلام کے بعد سب سے بڑے مفسر قرآن کے نام سے مشہور ہوئے۔
3۔ تمام فرقوں اور مذہبوں کے دانشمندوں کے سوالات کے جوابات دیتے تھے، خصوصاً وہ تمام یہودی اورعیسائی جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام کے سلسلے میں تحقیق کرنے کے لئے مدینہ آئے تھے، ان لوگوں نے ایسے ایسے سوالات کئے تھے کہ جس کا جواب حضرت علی علیہ السلام جو توریت اور انجیل پر مکمل تسلط رکھتے تھے اورجیسا کہ ان کی گفتگو سے بھی واضح تھا،کوئی بھی صلاحیت نہیں رکھتا، اگر یہ فاصلہ امام علیہ السلام کے ذریعے پر نہ ہوتا تو جامعہ اسلامی شدید شکست کھا جاتا اور جب امام علیہ السلام نے تمام سوالوں کا محکم اور مدلل جواب دیدیا تو وہ خلفاء جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جگہ پر بیٹھے تھے ان کے چہرے پر مسکراہٹ اورعظیم خوشی کے آثار نظر آئے اور بے اختیار فریاد بلند کی کہ اگر آپ نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوجاتا۔
4۔ بہت زیادہ ایسے نئے واقعات کا حکم بیان کرنا جس کا اسلام میں وجود نہ تھا اور اس کے متعلق قرآن مجید اورحدیث پیغمبرموجود نہ تھی یہ امام علیہ السلام کی زندگی کا ایک حساس امرہے اوراگرصحابیوں کے درمیان حضرت علی علیہ السلام جیسی شخصیت موجود نہ ہوتی،جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کے مطابق امت کی سب سے عقلمند اورآشنا اور قضاوت و فیصلہ کرنے میں سب سے اہم شخصیت تھی توصدراسلام کے بہت سے ایسے مسائل بغیر جواب کے رہ جاتے اور بہت سی گتھیاں نہ سلجھتی۔
یہی نئے نئے رونما ہونے والے حادثات و واقعات ثابت کرتے ہیں کہ پیغمبراسلام  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رحلت کے بعد ایک ایسے آگاہ اور معصوم، مثل پیغمبر کے لوگوں کے درمیان موجود ہو جو اسلام کے تمام اصول وفروغ پر کافی تسلط رکھتا ہو اور اس کا علم و کمال امت کو غیر شرعی اور بے جا عمل اور وہم و گمان سے دور کردے اور یہ تمام عظیم خصوصیتں پیغمبر کے تمام دوستوں صحابیوں کی تصدیق کی بنیاد پر حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور میں نہ تھی۔
امام علیہ السلام کے کچھ فیصلے اور قرآن مجید کی آیتوں سے ان کو ثابت کرنا وغیرہ حدیث و تاریخ کی کتابوں میں تحریر ہے ۔ مثال کے طورپر ایک نوجوان نے خلیفہ کے پاس آکر کہا کے میری فریاد کو پہنچئے، میری ماں نے مجھے نو مہینے تک اپنے شکم میں رکھا اور پھر مجھے پیدا کیا لیکن پیدا کرنے کے بعد مجھے اپنے سے یہ کہہ کردور کردیا کہ تم میری اولاد نہیں ہو اور میں نے تو شادی بھی نہیں کی ہے خلیفہ نے اس عورت کوبلوایا جب بھی وہ عورت اس بچے کو اپنا بچہ کہنے سے انکار کررہی تھی خلیفہ نے اس سے گواہ طلب کیا اس نے چالیس گواہ پیش کئے جنہوں نے ایک زبان ہوکر کہا کہ ہاں اس عورت نے تو ابھی شادی بھی نہیں کی ہے اور یہ جوان جھوٹ بول رہا ہے آخر کار خلیفہ نے جوان کو قید میں ڈال دیا جب کہ وہ بلند آواز سے رورہا تھا لیکن اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا اسی اثناء میں اس کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی اس نے روتے ہوئے حضرت کا دامن پکڑ لیا اور پورا واقعہ بیان کردیا امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ اسے واپس لے کر خلیفہ کے پاس چلوتا کہ میں بھی پہنچ جاؤں، جب امام علیہ السلام وہاں پہنچے اورعورت، اس کے بھائيوں اور جھوٹے گواہوں کی زبانی تمام واقعات سنے تو حقیقت کو بیان کردیا اور ایسا فیصلہ کیا کہ خلیفہ نے بلند آواز سے کہا " لولا علی لھلک عمر"  اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔" (1)
قارئين محترم پریشان نہ ہوں اس لئے امام علیہ السلام نے کیسے فیصلہ کیا اسے یہاں بیان کررہے ہیں۔
امام علیہ السلام نے نوجوان کی بات سننے،عورت کے دفاع کرنے اور جھوٹے گواہوں کی باتیں سننے کے بعد عورت کے بھائیوں کی طرح رخ کرکے فرمایا: اس وقت تمہاری بہن دوشیزہ ہے اور اب تک اس نے شادی نہیں کیا ہے ان لوگوں نے کہا ہاں، امام علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا تم لوگ مجھے اس بات کی اجازت دوگے کہ میں اس کی شادی کردوں اوراس کا نکاح کسی سے پڑھ دوں؟ ان لوگوں نے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے پھر آپ نے اس عورت سے اجازت لی اس کے بعد فرمایا: چونکہ اس عورت کا اس جوان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں تو میں اس عورت کا عقد اس جوان سے پڑھ رہا ہوں اورصیغہ عقد جاری ہوجانے کے بعد یہ دونوں میاں اور بیوی ہوجائیں گے جب حضرت نے صیغہ عقد جاری کرنا چاہا تو اچانک عورت نے فریاد بلند کی اے ابو الحسن کیا آپ میری شادی میرے بیٹے سے کرنا چاہتے ہیں؟ خدا کی قسم وہ میرا ہی بیٹا ہے۔
اس عورت کی فریاد سن کرتمام لوگ محو حیرت ہوگئے اور اس سے دریافت کیا کہ اصلی واقعہ کیا ہے؟ اس نے کہا ہم نے کچھ برس پہلے ایک چرواہے سے کہ جو ہمارے شایان شان نہیں تھا شادی کیا تھا اور اس شادی کا ثمرہ یہ بیٹا تھا لیکن جب یہ بچہ پیدا ہوا تو ہمارے بھائيوں نے ہم پر بہت سختی کی اورکہا کہ اس بچے اور اس کے باپ کو چھوڑ دو میں نے ان لوگوں کے اصرار پر اپنے شوہر اور بیٹے کو چھوڑ دیا ۔(2)
اب آپ خود غور فرمائيں کہ ایک اہل علم نے اپنے وجدان کے ذریعے عورت کو حقیقت بتانے پر مجبور کردیا اور نہایت ہی آسانی سے اس مشکل مرحلے کو حل کردیا۔
5۔ جب خلافت پر بیٹھنے والے سیاسی مسائل یا مشکلات کی وجہ سے مجبور و لاچار ہوتے تو ان کی نگاہ میں صرف امام علیہ السلام مورد اعتماد تھے جوان کے سروں پر منڈلاتی ہوئی مشکلات کو حل کرتے اوران کی راہ ہموارکرتے تھے اوران میں سے بعض مشورے  نہج البلاغہ اور تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں۔
6۔ تربیت اور پرورش: وہ گروہ جو سیرو سلوک کے لئے پاک ضمیراور پاکیزہ روح رکھتے تھے وہ امام علیہ السلام کی رہبری اورمعنوی تصرف کے زیر نظرمعنوی کمالات کی بلندیوں کو فتح کرسکیں اوروہ چیزیں جسے آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے وہ دل کی نورانی آنکھوں اور باطنی آنکھوں سے دیکھ سکیں ۔
7۔ بہت زیادہ بیوہ اور یتیموں کی زندگی کے روز مرہ کے امور کے لئے کوشش وتلاش کرنا یہاں تک کہ امام علیہ السلام نے خود اپنے ہاتھوں سے باغ لگائی اور آب پاشی کے لئے زمیں دوز نالی نکالی پھر اسے خدا کی راہ میں وقف کر دیا۔
یہ تمام سرگرمیاں اور امورکا انجام دینا امام علیہ السلام کا وہ کارنامہ تھا جو آپ نے اس پچیس سالہ دور میں انجام دیا تھا لیکن یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کے بڑے بڑے مورخین نے امام علیہ السلام کی زندگی کی ان خدمات کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور امام علیہ السلام کی زنذگی کے اس دور کی خصوصیات و جزئیات کو صحیح طریقے سے نہیں لکھا ہے جب کہ یہی تاریخ داں جب بنی امیہ اور بنی عباس کے سپہ سالاروں کے حالات لکھتے ہیں تو اتنا دقیق اور تفصیلی گفتکو کرتے ہیں کہ کوئی بھی چیز باقی نہ رہ جائے۔
کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ امام علیہ السلام کی پچیس سالہ زندگی کی خصوصیات مبہم اورغیر واضح ہوں مگر ظالموں کی تاریخ، جنایت و بدبخت محققین اورمعاویہ، مروان اور خلفاء بنی عباس کے بیٹوں کی عیاشی و شرابخوری کی تاریخ بہت ہی دقت و محنت سے لکھی جائے اور ان محفلوں میں پڑھے جانے والے اشعار وہ باتیں جو خلفاء اورناچ و رنگ کی مجلس منعقد کرنے والوں کے درمیان ہوئی اوروہ راز و نیاز جو رات کے اندھیرے میں طے ہوئے تھے وہ تاریخ اسلام کے نام سے اپنی اپنی کتابوں میں لکھیں ؟ نہ ان کی زندگیوں کا صرف یہ حصہ لکھا بلکہ ان کے حاشیہ نشینوں، نوکروں اور ان کے علاوہ خادموں اوربکریوں اورزیور وآلات نمائش،عورتوں اور محبوباؤں کے آرائش وسنورنے اوران کی زندگی کے خصوصیات تک کو اپنی اپنی کتابوں میں بیان کیا لیکن جب اولیاء خدا اور حق شناس افراد کی بات آتی ہے تو وہی، اگر ان کی جانثاری اور فدا کاری نہ ہوتی تو ہرگز یہ نالائق گروہ خلافت وسرداری کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں نہ دیتے گویا ان کی فکریں زنجیروں سے بندھی ہوں اور تاریخ کے ان ابواب سے اتنی تیزی سے گزرنا چاہتے ہیں کہ جلد ازجلد تاریخ کا یہ حصہ ختم ہو جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال:

حضرت علی علیہ السلام نے پچیس سالہ خاموشی کے زمانے میں کیا کیا سرگرمیاں انجام دیں۔؟


منابع:


1- اصول کافی  شیخ کلینی ج 7 ص 423
2- تہذیب الاحکام ج 6 ص 305

 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: