مواد کا کوڈ۔: 60
ہٹس: 459
تاریخ اشاعت : 19 September 2023 - 09: 48
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (21)
حقیقت میں فدک جو کہ خیبرکا جزء تھا اتنا وسیع وعریض نہ تھا بلکہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ صرف ہم سے فدک کو غصب نہیں کیا ہے بلکہ تمام اسلامی ممالک کی حکومت کو اتنی مقدار میں جتنے حدود امام علیہ السلام نے معین کئے ہیں اہل بیت علیہم السلام سے چھین لیا گيا۔

فدک کا حدود وعلاقہ


حضرت امام موسیٰ بن جعفرعلیہما السلام فدک کے حدود و علاقہ کو اس حدیث میں معین کرتے ہیں:'' فدک ایک سمت سے عدن اوردوسری طرف سے سمرقند اورتیسری طرف سے افریقہ اورچوتھی طرف سے بہت سی دریاؤں،جزیروں اورجنگلوں سے ملتے ہیں۔''(1)
حقیقت میں فدک جو کہ خیبرکا جزء تھا اتنا وسیع وعریض نہ تھا بلکہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ صرف ہم سے فدک کو غصب نہیں کیا ہے بلکہ تمام اسلامی ممالک کی حکومت کو اتنی مقدار میں جتنے حدود امام علیہ السلام نے معین کئے ہیں اہل بیت علیہم السلام سے چھین لیا گيا۔
مشہور و معروف مورخ قطب الدین راوندی لکھتے ہیں:
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک کو چوبیس ہزاردینار میں کرایہ پر دیدیا بعض حدیثوں میں ستر ہزار دینار نقل ہوا ہے اور یہ فرق سالانہ آمدنی کی وجہ سے تھا۔
جب معاویہ خلافت کی کرسی پربیٹھا تو فدک کو تین حصوں میں تقسیم کیا ایک تہائی مروان بن حکم اور ایک تہائی عمر بن عثمان اور ایک تہائی اپنے بیٹے یزید کو دیا اور جب مروان خلافت پر بیٹھا تو اس نے فدک کو اپنی جاگیر بنالی(2)
اوراس طرح کی تقسیم سے واضح ہوتا ہے کہ فدک ایک اہم ترین سرزمین ہے جسے معاویہ نے تین آدمیوں میں تقسم کیا اورتینوں افراد اس کے اہم رشتہ داروں میں سے تھے۔
جس وقت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ابوبکر سے فدک کے سلسلے میں گفتگو کی اوراپنی بات کی صداقت کے لئے گواہوں کو اس کے پاس لے گئیں۔ اس وقت اس نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کے جواب میں کہا: فدک پیغمبر کا مال نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کا مال تھا جس کی آمدنی سے سپاہیوں کے اخراجات پورے ہوتے تھے اوردشمنوں سے جنگ کے لئے بھیجے جاتے تھے اورخدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔(3)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فدک کی آمدنی سے سپاہیوں کو آمادہ کرتے تھے یا اسے بنی ہاشم اوردرماندہ لوگوں میں تقسیم کرتے تھے اوریہ زمین خیبرکی ایسی زمینوں میں سے تھی جس کی آمدنی بہت زیادہ تھی اور سپاہیوں کے خرچ کے لئے کافی تھی۔
جب عمر نے ارادہ کیا کہ شبہ جزیرہ کو یہودیوں سے پاک کرے تو ان لوگوں کو دھمکی دی کہ اپنی اپنی زمینوں کو حکومت اسلامی کے حوالے کردو اور اس کی قیمت لے لو اور فدک کو خالی کردو۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابتدا سے ہی فدک میں رہنے والے افراد سے معاہدہ کیا تھا کہ آدھی زمین ان کے اختیار میں رہے گی اور بقیہ آدھی زمین کو رسول خدا کے حوالے کریں. اسی وجہ سے خلیفہ نے ابن تیہان، فروہ، حباب، اورزید بن ثابت کو فدک بھیجا تا کہ جتنی مقدار میں ان لوگوں نے غصب کیا تھا اس کی اجرت و قیمت معین ہونے کے بعد یہودیوں کو جو وہاں ساکن تھے ادا کریں ان لوگوں نے یہودیوں کا حصہ پچاس ہزار درہم معین کیا اورعمر نے اس رقم کو اس مال سے ادا کیا جو عراق سے حاصل ہوا تھا۔(4)


فدک غصب کرنے کا مقصد


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا پرست اصحاب کے لئے سب سے بڑی کامیابی ابوبکرکی خلافت و جانشینی تھی ابوبکرکی نئی حکومت چند گروہوں سے مخالفت سے روبرو ہوئی جس میں پہلا گروہ بنی ہاشم کا خاندان تھا جس کے رئیس حضرت علی علیہ السلام تھے اس گروہ نے اسلام کی حفاظت کے لے خاموشی اختیار کی اورمسلحانہ قیام کرنے سے پرہیز کیا۔ دوسرا گروہ قریش کے مہاجرین کا تھا( یعنی جو لوگ مکہ کے رہنے والے تھے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ مدینہ منورہ آئے تھے) جن میں بعض جیسے ابوسفیان بہت ہی بااثر لوگوں میں سے تھا جسے خلیفہ اپنے ساتھ ملانا چاہتا تھا جس دن سقیفہ بن ساعدہ کی بنیاد پڑی تو مہاجرین میں سے صرف تین افراد سقیفہ بنی ساعدہ میں موجود تھے اور وہ سوائے خلیفہ اور اس کے دو ہم خیال عمر اور ابوعبیدہ کے علاوہ کوئی اورنہ تھا بے شک اس طرح سے بیعت لینے کی بناء پر پورا گروہ غضبناک ہوگيا اور جب اس نے سنا کہ ابوبکر نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے تو اس نے اعتراض کیا اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام اور عباس کے گھر گیا اوردونوں کو مسلحانہ قیام کے لئے دعوت دی اورکہا کہ ''میں مدینے کو سواروں اور سپاہیوں سے بھردوں گا تم لوگ اٹھو اور حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لو۔
تیسرا گروہ: انصار(مدینے کے لوگ) کے بہت سے افراد خصوصا جو خزرجیان تھے جنہوں نے پہلے ہی دن سے خلیفہ کی بیعت نہیں کی تھی اورغصے کے عالم میں سقیفہ کو چھوڑ کر چلے آئے تھے ضروری تھا کہ خلیفہ اس گروہ کے افراد سے محبت و الفت سے پیش آتا، ابوبکر نے ابوسفیان کو خاموش کرنے اور اس کے عقیدے کو خریدنے کے لئے جو مال و دولت دیا اورصرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے بیٹے یزید کو شام کی حکومت کے لئے منتخب کرلیا جب ابوسفیان کو یہ خبر ملی کہ اس کے بیٹے کو حکومت ملی ہے تو فوراً اس نے کہا: ابوبکر نے صلۂ رحم کیا ہے(5)
جب کہ اس سے پہلے ابوسفیان ابوبکر سے کسی بھی طرح کا رشتہ جوڑ نے کا قائل نہیں تھا۔ خلیفہ نے نہ صرف لوگوں کے عقائد کا سودا کیا بلکہ مال و دولت کو انصار کی عورتوں میں تقسیم کیا جب زید بن ثابت " بنی عدی" کی ایک عورت کا حصہ اس کے گھرلایا تو اس محترم عورت نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ زید نے کہا: یہ تمہارا حصہ ہے اور خلیفہ نے تمام عورتوں کے درمیان تقسیم کیا ہے اس عورت نے اپنی تیز ہوشی سے سمجھ لیا یہ پیسہ رشوت دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے لہذا اس سے کہا: میرے دین کو خریدنے کے لئے رشوت دے رہے ہو؟ خدا کی قسم! اس کی طرف سے میں کوئی چیز نہیں لوں گی اور اسے واپس کردیا۔(6)


حکومت کے پاس مال کی کمی


فدک پر قبضہ جمانے اوراہل بیت علیہم السلام سے چھین لینے کا ایک مقصد بیت المال کا خالی ہونا تھا،پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیماری کے دوران تمام چیزوں کو جوکچھ بھی ان کے پاس تھا لوگوں میں تقسیم کردیا تھا اوربیت المال خالی تھا اور بہت ہی کم اموال کہ جو مدینہ منورہ کے اطراف سے پہنچتا تھا وہ بہت ہی کم ہوتا تھا جو ان کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرپاتا تھا، دوسری طرف اطراف کے قبیلے والے مخالفت کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے اورخلیفہ کے نمائندوں کو زکاة اور مالیات دینے سے منع کردیا تھا اس وجہ سے حکومت کے اقتصاد پر بہت بڑا ضربہ وارد ہورہا تھا۔
اسی وجہ سے حاکم کے گروہ کے رئیس کے سامنے کوئی راہ نہ تھی مگر یہ کہ حکومت کے اخراجات کے لئے ادھر ادھر ہاتھ پھیلائے اور مال جمع کرے اور اس وقت فدک سے بہتر کوئی چیز نہ تھی۔ سیرہ حلبی ج3 ص 400 میں نقل ہوا ہے کہ عمر نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ابوبکرسے کہا: کل تمہیں فدک کی بہت سخت ضرورت پڑے گی کیونکہ اگر مشرکین عرب مسلمانوں کے خلاف قیام کریں تو تم کہاں سے جنگ کے تمام اخراجات کو لاؤ گے۔
خلیفہ اور اس کے ہمفکروں کا کردار و عمل بھی اسی مطلب کی گواہی دیتا ہے چنانچہ جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس سے فدک کا مطالبہ کیا تو اس نے جواب میں کہا: پیغمبراسلام نے تمہاری زندگی کے اخراجات کا انتظام کردیا ہے اور اس کی بقیہ آمدنی کو مسلمانوں میں تقسیم کیا ہے اس لئے تم یہ سب لے کر کیا کرو گی؟
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی نے فرمایا: میں بھی اپنے بابا کے عمل کی پیروی کروں گی اور بقیہ آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردوں گی۔ جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے خلیفہ کو بے جواب کردیا تواس نے کہا کہ میں بھی یہی کام انجام دوں گا جو تمہارے بابا نے انجام دیا ہے۔(7)
اگر خلیفہ کا مقصد فدک کے تصرف و خرچ کرنے میں فقط حکم الہی کا جاری کرنا تھا اور فدک کی آمدنی میں سے پیغمبراسلام ص اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخراجات نکال کر مسلمانوں کے امور میں صرف کرنا تھا تو کیا فرق تھا کہ اس کام کو وہ انجام دے یا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی یا اس کا شوہرانجام دے جو نص قرآنی کے مطابق گناہوں اور نافرمانیوں سے پاک و منزہ تھا خلیفہ کا اس بات پر اصرار کرنا کہ فدک کی آمدنی اس کے اختیار میں ہو اس بات پر گواہ ہیں کہ اس کی نگاہیں اس آمدنی پر تھی تاکہ اس کے ذریعے سے اپنی حکومت کو مضبوط اوردیگر امور میں خرچ کرے۔
فدک غصب کرنے کی ایک اور وجہ
فدک غصب کرنے کی ایک وجہ یہ تھی ہے جیساکہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی اقتصادی طاقت کا ڈر تھا امام علیہ السلام کے اندررہبری کے شرائط موجود تھے کیونکہ علم، تقوی اور تابناک ماضی پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرابت اورپیغمبراسلام کا ان کے متعلق وصیت کرنا یہ ایسے حقائق ہیں جسے انکار نہیں کرسکتے اور جب بھی کوئی شخص ان شرائط کے ساتھ مالی طاقت و قدرت بھی رکھتا ہو اورچاہتا ہوکہ خلافت کی ڈگمگاتی کرسی کو سہارا دے تو ایسا شخص بہت بڑے خطرے میں پڑسکتا ہے ایسی صورت میں اگر حضرت علی علیہ السلام کے تمام شرائط و امکانات کو غصب کرنا ممکن نہ ہو اور ان کی ذاتی چیزوں کو لینا ممکن نہ ہوسکے مگر حضرت علی علیہ السلام کی اقتصادی طاقت کو غصب کرسکتے تھے اسی وجہ سے خاندان اورحضرت علی علیہ السلام کے حالات کو ضعیف کرنے کے لئے فدک کو اس کے حقیقی مالک سے چھین کرغصب کرلیا اور پیغمبراسلام کے خاندان کو خلافت و حکومت کا محتاج بنادیا۔
یہ حقیقت عمر اور خلیفہ کی گفتگو سے واضح ہوتی ہے اس نے ابوبکر سے کہا" لوگ دنیا کے بندے ہیں اور اس کے علاوہ ان کا ہدف بھی کچھ نہیں ہے تم خمس اور مال غنیمت کو علی سے لے لو اور فدک بھی ان کے ہاتھوں سے چھین لو اور جب لوگ انہیں خالی ہاتھ دیکھیں گے تو انہیں چھوڑ کر تمہاری طرف مائل ہو جائیں گے۔(8)
اس مطلب پر دوسرا گواہ یہ ہے کہ خلیفہ نے نہ صرف خاندان پیغمبرکو فدک سے محروم کیا بلکہ انہیں مال غنیمت جنگ میں سے پانچواں حصہ جونص قرآن کریم کے اعتبارسے خاندان پیغمبر کا حق تھا(9) اس سے بھی محروم کردیا اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ایک دینار بھی انہیں نہیں دیا گيا۔
یہاں پرایک نکتہ بیان کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ (خمس جنگی غنیمت) یعنی مسلمانوں کو جو جنگ میں مال غنیمت حاصل ہوتی ہے اس میں سے پانچواں حصہ ہے تو یہ اس تفسیر کی بناء پرہے جسے اہل سنت کے دانشوروں نے سورہ انفال کی اکتالیسویں آیت میں کیا ہے جس میں خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:
" وَاعلَمُوا أ نَّما غَنِمتُم مِن شَیئٍ فَإنَّ اللّه خُمسُه وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِی القُربی۔"
"اوریہ جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ ،رسول اور رسول کے قرابتدار کے لئے ہے ۔"


سوالات:


1- فدک غصب کرنے کا مقصد کیا تھا۔؟


منابع:


1- بحار الانوار ج48 ص 144
2-  شرح ابن ابی الحدید ج 15 ص 216، بحارالانوار ج16 ص 216
3- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج16 ص 211، بحارالانوار ج 16 ص 214
4- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج16 ص 211
5- تاریخ طبری ج 3 ص 202
6- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج1 ص 133
7- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج16ص 316،ناسخ التواریخ جلد حضرت فاطمہ زہرا ص 122
8- ناسخ التواریخ جلد مربوط بہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا 122
9- سورۂ انفال آیت 41 '' وَاعلَمُواأنَّما غَنِمتُم مِن شَیئٍ فَإنَّ اللّه خُمسُه وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِی القُربی"
 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: