مواد کا کوڈ۔: 55
ہٹس: 67
تاریخ اشاعت : 14 September 2023 - 10: 27
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (16)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس ہجری قمری میں فریضہ حج اور مناسک حج کی تعلیم کے لئے مکہ معظمہ روانہ ہوئے اوراس مرتبہ یہ حج پیغمبراسلام کا آخری حج شمار ہوا اسی وجہ سے اسے ''حجة الوداع'' کہتے ہیں۔

غدیرخم کا واقعہ


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس ہجری قمری میں فریضہ حج اور مناسک حج کی تعلیم کے لئے مکہ معظمہ روانہ ہوئے اوراس مرتبہ یہ حج پیغمبراسلام کا آخری حج شمار ہوا اسی وجہ سے اسے ''حجة الوداع'' کہتے ہیں۔ وہ افراد جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حج کی سعادت انجام دینا چاہتے تھے یا حج کی تعلیمات سے روشناس ہونا چاہتے تھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے جن کی تعداد تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔
 حج کے مراسم تمام ہوئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینے کے لئے روانہ ہوئے جب کہ بہت زیادہ لوگ آپ کی خدا حافظی کے لئے آئے سوائے ان لوگوں کے جو مکہ مکرمہ میں آپ کے ہمراہ ہوئے تھے وہ سب کے سب آپ کے ہمراہ تھے وہ پہلے ہی روانہ ہوگئے. جب یہ قافلہ بے آب و گیاہ جنگل بنام ''غدیر خم'' پہنچا جو جحفہ سے تین میل کی دوری پرواقع ہے تو وحی کا فرشتہ نازل ہوا اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ٹھہرنے کا حکم دیا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی سب کو ٹھہرنے کا حکم دیدیا تاکہ جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ بھی پہنچ جائیں۔ قافلے والے اس بے آب و گیاہ اوربےموقع، دوپہر کے وقت، تپتے ہوئے صحرا اور گرم و تپتی ہوئی زمین پرپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اچانک رک جانے سے متعجب اور حیرت زدہ تھے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ لگتا ہے خدا کی طرف سے کوئی اہم حکم آگیا ہے اوراس حکم کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ اس غیرمساعد حالت میں آگے بڑھنے سے سب کو روک دیں اورخدا کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرخداوندعالم کا یہ فرمان نازل ہوا:
" يا ايَّهَا الَرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْکَ مِن رَّبِّکَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَالله يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسَ۔ (1)
" اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے."
اگر آیت کریمہ کے مفہوم پرغور کیا جائے تو چند نکات وجود میں آتے ہیں۔
1۔ وہ حکم جسے پہنچانے کے لئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا گیا وہ اتنا عظیم اوراہم تھا کہ (برفرض محال) اگرپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے پہنچانے میں خوف کھاتے اور اسے نہیں پہنچاتے تو گویا آپ نے رسالت الہی کو انجام نہیں دیا بلکہ اس پیغام کے پہنچانے کی وجہ سے آپ کی رسالت مکمل ہوگئی۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ " مَا أُنزِلَ إِلَيْکَ مِن رَّبِّکَ " سے مراد ہرگز قرآن مجید کی تمام آیتیں اوراسلامی احکامات نہیں ہیں کیونکہ اگرپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خداوندعالم کے تمام احکامات کو نہ پہنچائیں تو اپنی رسالت کو انجام نہیں دیا ہے تو یہ ایک ایسا واضح اورروشن امرآیت کے نزول کا محتاج نہیں ہے بلکہ اس حکم سے مراد ایک خاص امر کا پہنچانا ہے تاکہ اس کے پہنچانے سے رسالت مکمل ہوجائے اوراگریہ حکم نہ پہنچایا جائے تو رسالت عظیم اپنے کمال تک نہیں پہنچ سکتی، اس بناء پرضروری ہے کہ یہ حکم اسلامی اصول کا ایک اہم پیغام ہو تاکہ دوسرے اصول و فروع سے ارتباط رکھتا ہو اورخداوندعالم کی وحدانیت اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کے بعد اہم ترین مسئلہ شمار ہو۔
2۔ اجتماعی محاسبہ کی نظر سے پیغمبر اسلام کو یہ احتمال تھا کہ ممکن ہے اس پیغام کو پہنچاتے وقت لوگوں کی طرف سے انہیں ضرر پہنچے لیکن خداوندعالم ان کے ارادے کو قوت و طاقت دینے کے لئے ارشاد فرماتا ہے: " وَالله يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسَ"
اب ہم ان احتمالات کی تحقیق کریں گے جو ماموریت کے سلسلے میں مفسرین اسلامی نے بیان کئے ہیں کہ کون سا احتمال آیت کے مفہوم سے نزدیک ترہے۔
شیعہ محدثین اوراسی طرح اہل سنت کے تیس بزرگ محدثین نے (مرحوم علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر  ج1 ص 194 سے 209 تک ان تیس افراد کے نام و خصوصیات مکمل طریقے سے بیان کئے ہیں جن کے درمیان بہت سے نام مثلاً طبری، ابونعیم اصفہانی، ابن عساکر، ابو اسحاق حموینی، جلال الدین سیوطی وغیرہ شامل ہیں اور پیغمبر اسلام کے صحابی میں ابن عباس،ابو سعید خدری و براء ابن عازب وغیرہ کے نام موجود ہیں۔) بیان کیا ہے کہ یہ آیت غدیرخم میں نازل ہوئی ہے جس میں خداوندعالم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کو ''مومنوں کا مولی'' بنائیں۔(2)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ولایت و جانشینی عظیم اوراہم موضوعات میں سے ہے اور اس کے پہنچانے سے رسالت کی تکمیل ہوئی ہے نہ یہ کہ امر رسالت میں نقص شمار کیا جائے۔
 اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اجتماعی اور سیاسی محاسبہ کے مطابق اپنے اندرخوف و ڈر محسوس کرتے کیونکہ حضرت علی علیہ السلام جیسے شخص کی وصایت اورجانشینی جن کی عمر تیتیس برس سے زیادہ نہ تھی، کا اعلان ایسے گروہ کے سامنے کہ جو عمر کے لحاظ سے ان سے بہت بڑے تھے بہت زیادہ دشوار تھا۔
اس کے علاوہ اسی مجمع کے بہت سے لوگ جو پیغمبراسلام کے ارد گرد بیٹھے تھے مختلف جنگوں میں ان کے اکثر رشتہ داروں کا خون حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں بہا تھا اورایسے کینہ توز افراد پر ایسے شخص کی حکومت بہت دشوارمرحلہ تھی، اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام پیغمبراسلام کے چچا زاد بھائی اورداماد تھے اور ایسے شخص کو خلافت کے لئے معین کرنا کم ظرفوں کی نگاہ میں ایک (رشتہ داری) فیملی تعصب کے مترادف تھا۔ لیکن ان تمام نامساعد حالات کے باوجود خداوندعالم کا حکیمانہ ارادہ یہ تھا کہ اس تحریک کو دوام بخشنے کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و جانشینی کے لئے منتخب کیا جائے اور اپنے پیغمبر کی رسالت کو رہبر و رہنما کا تعیین کرکے پایہ تکمیل تک پہنچایاجائے۔


واقعہ غدیرکی تشریح


اٹھارہ ذی الحجہ کو غدیرخم کی سرزمین پردو پہر کا تپتا ہوا سورج چمک رہا تھا اور اکثر مورخین نے جس کی تعداد ستر ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزار تک بیان کی ہے اس جگہ پرپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ٹھہرے ہوئے تھے اور اس روز رونما ہونے والے تاریخی واقعہ کا انتظارکررہے تھے اور شدید گرمی کی وجہ سے اپنی رداؤں کو دو حصوں میں تہہ کرکے ایک حصے کو سر پر اوردوسرے حصے کو پیر کے نیچے دبائے ہوئے تھے۔ ایسے حساس موقع پر ظہر کی اذان پورے بیابان میں گونج اٹھی اور مؤذن کے تکبیر کی آوازبلند ہوئی لوگ نماز ظہرادا کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس عظیم الشان مجمع میں جس کی سرزمین غدیر پر مثال نہیں ملتی نماز ظہرباجماعت ادا کی پھر لوگوں کے درمیان اس منبر پر جو اونٹ کے کجاؤں سے بنایا گیا تھا تشریف لائے اور بلند آواز سے یہ خطبہ پڑھا۔
تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ہیں ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اوراسی پرہمارا ایمان ہے اوراسی پر بھروسہ ہے اور برے نفس اور خراب کردار سے خدا کی پناہ طلب کرتے ہیں کہ اس کے علاوہ گمراہوں کا کوئی ہادی و رہنما نہیں ہے وہ خدا جس نے ہر شخص کی ہدایت کی اس کے لئے گمراہ کرنے والا نہیں ہے. میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد خدا کے بندے اور اسی کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں۔
اے لوگو،عنقریب میں تمہارے درمیان سے خداوندعالم کی بارگاہ میں واپس چلا جاؤں گا اور میں مسئول ہوں اور تم بھی مسئول ہو میرے بارے میں کیا فکر کرتے ہو؟
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابیوں نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے خدا کے مذہب کی تبلیغ کی اور ہم لوگوں کے ساتھ نیکی کی اور ہمیشہ نصیحت کی اور اس راہ میں بہت زیادہ زحمتیں برداشت کیں خدا آپ کو جزائے خیر دے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پھرتمام مجمع سے مخاطب ہو کرفرمایا:
کیا تم لوگ گواہی نہیں دوگے کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد خدا کے بندے اور اس کے پیغمبر ہیں؟ جنت و جہنم اور موت حق ہے اور قیامت بغیر کسی تردید کے ضرورآئے گی اور خداوندعالم ان لوگوں کو جو قبروں میں دفن ہیں دوبارہ زندہ کرے گا؟
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابیوں نے کہا: ہاں ہاں ہم گواہی دیتے ہیں۔
پھرپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گرانقدرچیزیں بطور یادگار چھوڑکرجارہا ہوں کس طرح ان کے ساتھ برتاؤ کرو گے ؟ کسی نے پوچھا: اس دوگرانقدر چیز سے کیا مراد ہے؟
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ثقل اکبر جو خدا کی کتاب ہے جس کا ایک حصہ خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا تمہارے ہاتھ میں ہے اس کی کتاب کو قبول کرلو تاکہ گمراہ نہ ہوجاؤاور ثقل اصغر میری عترت اور میرے اہل بیت ہیں میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میری یہ دونوں یادگاریں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی۔
اے لوگو، کتاب خدا اور میری عترت پرسبقت حاصل نہ کرنا بلکہ ہمیشہ اس کے نقش قدم پر چلنا تاکہ تم محفوظ رہ سکو، اس موقع پرپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو ہاتھوں پر بلند کیا یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی دیکھائی دینے لگی اور سب نے حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھوں پر دیکھا اور انہیں اچھی طرح سے پہچانا اورجان لیا کہ اس اجتماع اور ٹھہرنے کا مسئلہ حضرت علی علیہ السلام سے مربوط ہے اور سب کے سب پوری توجہ و حرص کے ساتھ آمادہ ہوئے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی باتوں کو غور سے سنیں۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو، تمام مومنین میں سب سے زیادہ بہتر شخص کون ہے؟
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابیوں نے جواب دیا خدا اور اس کا پیغمبر بہترجانتا ہے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھرفرمایا: خداوندعالم میرا مولا اور میں تم لوگوں کا مولا ہوں اور ان کے نفسوں سے زیادہ ان پر اولیٰ ہوں، اے لوگو! جس جس کا میں مولا اور رہبر ہوں علی بھی اس کے مولا اور رہبر ہیں۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس آخری جملے کی تین مرتبہ تکرار کی(3) اور پھرفرمایا:
پروردگارا، تو اسے دوست رکھ جوعلی کو دوست رکھتا ہو اور تو اسے دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھتا ہو۔ خدایا علی کے چاہنے والوں کی مدد کر اور ان کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر، خدایا علی کو حق کا محور قرار دے۔
پھرفرمایا: دیکھو جو بھی اس بزم میں شریک نہیں ہیں ان تک یہ پیغام الہی پہنچا دینا اور دوسروں کو اس واقعہ کی خبردینا۔ ابھی یہ عظیم الشان مجمع اپنی جگہ پر بیٹھا ہی تھا کہ وحی کا فرشتہ نازل ہوا اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خوشخبری دی کہ " الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً۔" " آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے۔" (4)
اس وقت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکبیربلند ہوئی اورفرمایا: خدا کا شکر کہ اس نے اپنے دین کو کامل کردیا اور نعمتوں کو تمام کردیا اورمیری رسالت اورعلی کی ولایت سے میرے بعد خوشحال ہوا۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اترے اورآپ کے صحابی گروہ درگروہ حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد دیتے رہے اور انہیں اپنا مولا اور تمام مومنین مرد اور عورت کا مولا مانا اس موقع پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا شاعرحسان بن ثابت اپنی جگہ سے اٹھا اورغدیر کے اس عظیم و تاریخی واقعہ کو اشعارکی شکل میں سجا کراسے ہمیشہ کے لئے جاویداں بنا دیا یہاں اس مشہور قصیدے کے دو شعر پیش کرتے ہیں:
فَقالَ لَهُ قُم یا عَلیُّ فَاِنَّنی             رَضیتُکَ مِن بَعدی اِماماً وَ هادِیاً
فَمَن کُنتُ مَولاهُ فَهذا وَلیُّهُ               فَکُونوا لَه اَتباعَ صِدقٍ مُوالیاً
" پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: اٹھو میں نے تمہیں لوگوں کی راہنمائی اور پیشوائی کے لئے منتخب کیا جس شخص کا میں مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں. اے لوگو! تم پر لازم ہے کہ علی کے سچے پیرو اور ان کے حقیقی چاہنے والے بنو۔
قارئین کرام جو کچھ اب تک بیان کیا گیا وہ اس عظیم تاریخی واقعہ کا خلاصہ تھا جواہل سنت کے دانشمندوں نے بیان کیا ہے شیعہ کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، مرحوم طبرسی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب احتجاج ج1ص 71تا 84 میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک تفصیلی خطبہ نقل کیا ہے تفصیلات کے خواہشمند اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوالات:


1- حجۃ الوداع کو اس نام سے کیوں منسوب کیا گیا ہے وجہ کیا ہے۔؟
2- سورہ مائدہ کی تیسری آیت کریمہ کا شان نزرل کیا ہے۔؟


منابع:


1- سورۂ مائدہ آیت 67
2- الغدیر ج 1 ص 424، 438
3- احمد بن حنبل نے اپنی کتاب ''مسند'' میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر نے اس جملے کی چار مرتبہ تکرارکی۔
4- سورۂ مائدہ، آیت3

 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی
 

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: