مواد کا کوڈ۔: 58
ہٹس: 96
تاریخ اشاعت : 17 September 2023 - 10: 28
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات (19)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ جو آپ کی تاریخی زندگی کے محافظ ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی خداوندعالم اوراس کے پیغمبرسے دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں دوری اختیارنہیں کی جب کہ بڑے بڑے طاقتور لوگ بھاگ گئے۔

اسلام کا پہلا ورق جدا ہوگیا


پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرمبارک حضرت علی علیہ السلام کے سینے پر تھا اور آپ کی روح خدا کی بارگاہ میں چلی گئی۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس واقعہ کو اپنے ایک تاریخی خطبے میں اس طرح بیان کیا ہے۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ جو آپ کی تاریخی زندگی کے محافظ ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی خداوندعالم اوراس کے پیغمبرسے دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں دوری اختیارنہیں کی جب کہ بڑے بڑے طاقتور لوگ بھاگ گئے اور جنگ سے پیچھے ہٹ گئے میں نے اپنی جان کو پیغمبرخدا کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہ کیا جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوا اس وقت ان کا سر میرے سینے پر تھا اورمیرے ہاتھوں پران کی روح بدن سے جدا ہوئی اور میں نے بطور تبرک اپنے ہاتھوں کو چہرے پر ملا، اس وقت ہم نے آپ کے بدن کو غسل دیا اور فرشتوں نے ہماری مدد کی فرشتوں کے کچھ گروہ زمین پر آتے تھے توکچھ گروہ اوپرجاتے تھے اوران کے ہمہمہ کی آواز جب کہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جنازے پر نماز پڑھ رہے تھے میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھی یہاں تک کہ ہم نے آپ کوآپ کی قبر میں رکھ دیا۔ مجھ سے زیادہ پیغمبرکی موت اورحیات اور حالات کے بارے میں کوئی نہیں جانتا ہے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کے بعد بعض گروہ نے خاموشی اختیارکرلی اور دوسرا گروہ پوشیدہ طور پر راز و رموز تلاش کرنے میں مصروف ہو گیا۔(1)
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد سب سے پہلا واقعہ جس سے مسلمان روبرو ہوئے وہ عمر کی طرف سے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کو جھٹلانا تھا۔ اس نے پیغمبراسلام کے گھر کے سامنے شوروغوغا کرنا شروع کردیا اورجو لوگ یہ کہتے تھے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتقال ہوگیا ہے ان کو دھمکی دیتا تھا، جب کہ عباس اور ابن مکتوم ان آیتوں کی تلاوت کررہے تھے جس کے مفہوم سے واضح ہو رہا تھا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوگیا ہے مگر اس کا لوگوں پر کوئی اثر نہ پڑا یہاں تک کہ عمر کا دوست ابوبکر جو مدینہ کے باہرتھا وہ آیا اور جیسے ہی اس حالات سے باخبر ہوا تو اس نے بھی سورہ زمر کی تیسویں آیت " اِنّكَ مَيَّتٌ وَ اِنَّهُم مَيَّتون " تم مرجاؤ گے اور دوسرے بھی مرجائیں گے۔" کو پڑھا کہ جس کو دوسروں نے اس سے پہلے پڑھا تھا اور عمر کو خاموش کردیا۔
جس و قت حضرت علی علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دے رہے تھے اس وقت اصحاب کا ایک گروہ ان کی مدد کررہا تھا اورغسل وکفن کے ختم ہونے کا انتظارکررہا تھا اورخود پیغمبراسلام کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے آمادہ ہورہا تھا اوراکثر افراد سقیفئہ بنی ساعدہ (2) میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین کا انتخاب کررہے تھے اور سقیفہ میں تمام امور کی باگ ڈور انصار کے ہاتھوں میں تھی لیکن جب ابوبکر وعمر اور ابوعبیدہ جو مہاجرین میں تھے اس واقعہ سے با خبر ہوئے تو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم اطہر جو غسل کے لئے آمادہ تھا چھوڑ کر سقیفہ میں انصار کے ساتھ شریک ہوگئے اور لفظی تکراراور مار پیٹ کے بعد ابوبکرپانچ آدمی کے ووٹ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ منتخب ہوئے، جب کہ مہاجرین میں ان تین آدمیوں کے علاوہ کوئی بھی اس چیز سے آگاہ نہ تھا۔
سقیفہ کا واقعہ اورجو باتیں وہاں ہوئيں اس کے سبب اور بعض اہل سنت کے دانشوروں کے بقول ابوبکر ایک ووٹ سے جو عمر نے دیا تھا خلفیہ منتخب ہوگئے اور یہ ایک تاریخ اور اصولی بحث ہے جو نہ صرف تاریخی اعتبار سے بلکہ اعتقادی نظر سے بھی قابل غور و فکر ہے، اہل سنت دانشوروں کے مطابق ہمارے بزرگوں نے اس واقعہ کو لفظ بہ لفظ  نقل کیا ہے اوراس کے بارے میں بحث و گفتگو کی ہے اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم صرف تاریخی پہلو پر اکتفا کررہے ہیں اور اس کی مزید تحقیق و تحلیل کواس مقصد کے تحت آپ قارئین پر چھوڑتے ہیں تاکہ اس موضوع کے متعلق لکھی جانے والی کتابوں کا آپ مطالعہ کریں اورسقیفہ بنی ساعدہ میں رونما ہونے والے تمام حالات و واقعات اور گفتگو سے مکمل طور پر آگاہ ہوسکیں۔ 
ایسے پرآشوب ماحول میں امام علی علیہ السلام پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غسل وکفن میں مشغول تھے اور انجمن سقیفہ اپنے کام میں مشغول تھی۔ ابوسفیان جو بہت بڑا سیاسی اور سوجھ بوجھ رکھتا تھا اس نے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے گھرآیا اورآپ سے کہا اپنا ہاتھ بڑھاؤ تا کہ میں تمہاری بیعت کروں(3) اورتمہیں مسلمانوں کے خلیفہ کے عنوان سے لوگوں کو روشناس کراؤں، کیونکہ اگر میں نے تمہارے ہاتھ پر بیعت کر لی تو عبد مناف کے فرزندوں میں سے کوئی بھی تمہاری مخالفت کے لئے نہیں اٹھے گا اور آخر میں پورا عرب تمہیں اپنا حاکم وسردار قبول کرلے گا لیکن حضرت علی علیہ السلام نے ابوسفیان کی باتوں پرکوئی توجہ نہ دی چونکہ آپ اس کی نیت سے آگاہ تھے، آپ نے فرمایا فی الحال میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیزوتکفین میں مصروف ہوں۔ ابوسفیان چلا گیا  اس کے بعد ابوسفیان دوبارہ پیغمبراسلام کے چچا ابن عباس کو ساتھ لے کرآیا اورپھر دونوں نے حضرت علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ اپنے بھتیجے کے ہاتھ پر بیعت کریں لیکن حضرت نے ان کی درخواست کو قبول نہیں کیا امام علیہ السلام کی یہ باتیں نہج البلاغہ میں موجود ہیں۔(4)
 تھوڑی دیرگزری تھی کہ تکبیر کی آواز کانوں سے ٹکرائی حضرت علی علیہ السلام نے عباس سے اس کا سبب پوچھا عباس نے کہا: میں نےآپ سے نہیں کہا تھا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیے تا کہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں ؟ لیکن آپ حاضرنہ ہوئے اوردوسروں نے آپ پر سبقت حاصل کرلی ۔


عباس اورابو سفیان کی درخواست کیوں رد کردی گئی؟


یقینا حضرت علی علیہ علیہ السلام ابو سفیان کو کہ جو اسلام کا دیرینہ اور سخت ترین دشمن تھا خوب پہچانتے تھے اورجانتے تھے کہ اس کے دماغ میں کیا سازش چل رہی ہے اوراس کے ذریعے وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا بیج بونا چاہتا تھا اگر حضرت علی علیہ السلام اس کی درخواست قبول کرلیتے اور پیغمبراسلام کے انتقال کے فوراً بعد بڑی بڑی شخصیتوں کو بیعت کی دعوت دیتے تو یقینا سقیفہ میں لوگ جمع نہیں ہو سکتے تھے یا اصلاً سقیفہ کا وجود ہی نہ ہوتا کیونکہ دوسرے افراد کے اندر اتنی جرأت نہ تھی کہ خلافت اسلامی جیسے اہم مسئلہ کو ایک گروہ کے مختصر سے مجمع میں تبادلہ خیالات کرتے اورایک شخص کو چند آدمیوں کی رائے سے جانشین کے لئے منتخب کرتے۔
بہرحال، پیغمبراسلام اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمومی دعوت اور چند اہم شخصیتوں کا حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں پر خصوصی بیعت کرنا حقیقت سے دورتھا اور تاریخ نے اس بیعت کے سلسلے میں بھی وہی فیصلہ کیا ہے جو ابوبکر کی بیعت کے بارے میں کیا ہے، اس لئے کہ حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی دوحال سے خالی نہیں تھی یا امام علیہ السلام خدا کی طرف سے ولی و حاکم منصوص اور معین تھے یا نہیں تھے ؟
پہلی صورت میں بیعت لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور خلافت کے لئے رائے لینا اوراس منصب پر قبضہ کرنے کے لئے کسی کو خلیفہ بنانا خدا کی معین کی ہوئی چیزوں کی توہین کرنا ہے اورخلافت کے موضوع کو جوالہی منصب ہے اوریہ کہ خلیفہ کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے معین ہواس قانون کی اہانت کرتا ہے اوراُسے ایک انتخابی مقام ومنصب قراردینا ہے جب ایک متدین اورحقیقت پسند انسان اپنی شخصیت و منزلت کی حفاظت کے لئے حقیقت اوراصلیت میں تحریف نہیں کرتا اور حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرتا تو کس طرح سے امام معصوم ایسا کرسکتا ہے ؟
دوسری صورت میں خلافت کے لئے حضرت علی علیہ السلام کا انتخاب بالکل اسی طرح ہوتا جس طرح سے خلافت کے لئے ابوبکرکا انتخاب ہوا اور ابوبکر کے جگری دوست خلیفئہ دوم (عمر) ابوبکر کے انتخاب کے سلسلے میں بہت دنوں تک یہی کہتے رہے ۔
"  كانَت بيعتُ أبي‏بَكر فَلتَت وَ فِي الله شَرَّها " (5)
 " یعنی ابوبکرکا خلافت کے لئے منتخب ہونا ایک جلد بازی کا کام تھا اور خدا نے اس کے شر کو روک دیا"
ان تمام چیزوں سے اہم بات یہ کہ ابوسفیان اپنی درخواست میں ذرہ برابر بھی حسن نیت نہیں رکھتا تھا اوراس کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف، اضطراب اورگروہ بندی پیدا کردے اورعربوں کو پھرسے جاہلیت کے اندھیرے میں ڈال دے اور اسلام کے نئے اور ہرے بھرے درخت کو ہمیشہ کے لئے خشک کردے ۔
وہ حضرت علی علیہ السلام کے گھرآیا اورامام علیہ السلام کی مدح میں اشعار پڑھا جس کے دو شعر کا ترجمہ یہاں پیش کررہے ہیں ۔
"اے ہاشم کے بیٹو،اپنی خاموشی کو ختم کردو تاکہ لوگ خصوصاً قبیلئہ تیم اور قبیلئہ عدی کے لوگ تمہارے مسلم حق کو لالچی نگاہوں سے نہ دیکھیں ۔"
"خلافت کا حق تمہیں ہے اورتمہاری طرف آیا ہے اوراس کے لئے حضرت علی کے علاوہ کوئی شائستگی ولیاقت نہیں رکھتا ہے۔"
مگر حضرت علی علیہ السلام کنابتہً اس ناپاک نیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " تو ایسا کام کرنا چا ہتا ہے کہ جس کے اہل ہم نہیں ہیں ۔ "
مشہور مورخ طبری تحریر کرتے ہیں :
علی علیہ السلام نے اس کی ملامت کی اورکہا تیرا ہدف فتنہ و فساد کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو ہمیشہ اسلام کے لئے کینہ پرور ثابت ہوا ہے مجھے تیرے وعظ ونصیحت کی ضرورت وحاجت نہیں ہے۔(6)
ابوسفیان مسلمانوں کے درمیان پیغمبراسلام کی جانشینی کے اختلافی مسئلے سے بخوبی واقف تھا اور اس سلسلے میں اس نے یہ نظر پیش کی۔
" میں ایک ایسا طوفان دیکھ رہا ہوں جسے خون کے علاوہ کوئی دوسری چیز خاموش نہیں کرسکتی(7)


سوال:

حضرت علی علیہ السلام نے ابوسفیان اور ابن عباس ک درخواست کیوں رد کردی۔؟


منابع:


1- نہج البلاغہ خطبہ 192
2- مدینہ منورہ میں ایک چھوٹے سے محلے کا نام ہے جو قبیلہ بنی ساعدہ سے متعلق تھا اور قبیلہ کے سردار قبیلے سے متعلق امور کے متعلق وہاں مٹینگیں کرتے تھے۔
3- کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنا اور اس کی تمام باتوں کو من و عن تسلیم و پیروی کرنا
4- نہج البلاغہ خطبہ 5
5- تاریخ طبری ج3 ص205، سیرت ابن ہشام ج4 ص308
6- تاریخ طبری ج3 ص205، سیرت ابن ہشام ج4 ص308
7- شرح نہج البلاغہ ج2ص44 جوہری کی کتاب السقیفہ سے ماخوذ۔

 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: