مواد کا کوڈ۔: 80
ہٹس: 1879
تاریخ اشاعت : 11 October 2023 - 23: 21
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات(41)
سفیان بن عوف غامدی کو معاویہ کی طرف سے حکم ملا کہ ایک لشکر کے ساتھ فرات کی طرف جائے تاکہ '' ہیت '' نامی شہر کہ جو'' انبار'' شہر کے پاس ہے جائے اور پھر وہاں سے انبارجائے اوراگرراستے میں کوئی مقابلہ وغیرہ کرے تو اس پر حملہ کرکے انہیں برباد کردینا اور اگرراستے میں کسی نے مزاحمت نہ کی تو شہر انبار تک جانا۔

 

3۔ سفیان بن عوف کا ظلم وستم


سفیان بن عوف غامدی کو معاویہ کی طرف سے حکم ملا کہ ایک لشکر کے ساتھ فرات کی طرف جائے تاکہ '' ہیت '' نامی شہر کہ جو'' انبار'' شہر کے پاس ہے جائے اور پھر وہاں سے انبارجائے اوراگرراستے میں کوئی مقابلہ وغیرہ کرے تو اس پر حملہ کرکے انہیں برباد کردینا اور اگرراستے میں کسی نے مزاحمت نہ کی تو شہر انبار تک جانا اوراگر وہاں پر بھی کوئی لشکروغیرہ نہ ہو تو مدائن تک جانا اور پھر وہاں سے شام واپس آجانا اورایک لمحہ کے لئے بھی کوفہ کے قریب نہ جانا،پھر معاویہ نے اس سے کہا کہ: اگر تم نے انباراورمدائن کو برباد کردیا تو گویا تم نے کوفہ کوبرباد کردیا ہے اور تمہارا یہ عمل عراق کے لوگوں کو مرعوب کردے گا اور ہمارے چاہنے والوں کو خوشحال کردے گا اورجو لوگ ہماری مدد کرنے سے خوف زدہ ہیں وہ ہماری طرف آجائیں گے سفر کے دوران اگر تمہارا کوئی موافق نہ ہوتو اسے قتل کردینا اوردیہاتوں کو ویران کردینا اوران کے مال واسباب کو مال غنیمت سمجھنا کیونکہ ان لوگوں سے مال غنیمت لینا ان لوگوں کو قتل کرنے کی طرح ہے اور یہ کام دلوں کو جلا کر راکھ کردے گا ۔ سفیان کہتا ہے کہ جو کچھ انبار میں تھا اسے برباد کردیا اورپھر شام واپس آگیا اور جب معاویہ کے پاس پہنچا تو پورا ماجرا بیان کیا، اس نے کہا: میں نے تمہارے بارے میں یہی گمان کیا تھا، زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ عراق کے لوگ خوفزدہ ہوگئے اور گروہ گروہ کرکے شام کی طرف ہجرت کیا(1)
علی علیہ السلام کو خبر ملی کہ سفیان انبار میں موجود ہے اور آپ کے سردار حسان بن حسان کو قتل کردیا ہے حضرت غصّے کے عالم میں گھر سے باہرآئے اورنخلیہ چھاؤنی گئے اور لوگ بھی آپ کے پیچھے پیچھے آئے، امام علیہ السلام ایک اونچی جگہ پر گئے اورخداوندعالم کی تعریف کی اورپیغمبراسلام پر درود بھیجا پھر آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا: تفصیلات کے خواہشمند افراد نہج البلاغہ خطبہ نمبر ستائیس کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
عراق کے لوگوں کے دل میں خوف وڈر پیدا کرنے کے لئے معاویہ نے صرف ان تینوں کو ہی نہیں بھیجا تھا بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ ذمہ داری سونپی تھی، مثلاً نعمان بن بشیرانصاری کو حکم دیا کہ '' عین التّمر'' یہ شہر فرات کے مغرب میں واقع ہے پر حملہ کرے اور اسے برباد کردے(2) اوریزید بن شجرہ کو حکم دیا کہ مکہ جائے اور وہاں کے لوگوں کے مال واسباب کو برباد کردے(3) بالآخر یہ فتنہ وفساد اپنے نتیجہ پر پہنچ گیا اورعراقیوں کے دل میں زبردست خوف وہراس بیٹھ گیا البتہ یہ تمام غم انگیز واقعات جنگ نہروان کے بعد رونما ہوئے اور ایک طرف سے خود اپنے لوگوں کے دباؤ نے اور دوسری طرف سے باہر والوں کے دباؤ نے عراق کے لوگوں خصوصاً امام کے چاہنے والوں کو سخت مشکل میں ڈال دیا تھا۔ اے کاش یہ ناگوار حادثے یہی ختم ہوجاتے لیکن ایک دوسرے حادثہ نے علی علیہ السلام کو سخت رنجیدہ کردیا اور آپ کے دل کو ملول کردیا۔


مصرکی فتح اورمحمد بن ابی بکرکی شہادت


عثمان کے قتل کے بعد شام کے علاوہ تمام اسلامی علاقے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں شامل تھے،امام علیہ السلام نے سنہ چھتیس ہجری،اپنی حکومت کے پہلے سال میں قیس بن سعد بن عبادہ کو مصر کا حاکم مقرر کیا اورمصرروانہ کیا (4)لیکن کچھ دنوں بعد امام علیہ السلام نے کسی وجہ سے اسے اس منصب سے مغرول کرکے اسی سال جنگ جمل کے بعد محمد ابن ابی بکر کو مصرکا حاکم معین کرکے انہیں مصر روانہ کیا، اس سلسلے میں تاریخ نے امام علیہ السلام کے دوخط کا تذکرہ کیا ہے ایک خط رسمی طور لکھا اور اُسے محمد بن ابی بکر کے ہاتھ میں دیا اوردوسرا جب آپ مصر میں سکونت پذیر ہوگئے تب روانہ کیا دونوں خط کو مولف''تحف العقول'' نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے(5) اسی طرح سے ابو اسحاق ثقفی نے اپنی کتاب ''الغارات'' میں نقل کیا ہے
 ابواسحاق ثقفی لکھتے ہیں:جب امام علیہ السلام کا خط محمد بن ابی بکر کے پاس پہنچا تو آپ ہمیشہ اس کو پڑھتے تھے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے اورجس وقت محمد، عمروعاص کے حملے میں قتل ہوئے تو وہ خط عمر وعاص کے ہاتھ میں پہنچ گیا اور اس نے سب کو جمع کیا اورمعاویہ کے پاس بھیج دیا تمام خطوط کے درمیان اس خط نے معاویہ کو اپنی طرف زیادہ متوجہ کیا اوروہ اس میں بہت زیادہ غور و فکر کرنے لگا ،ولید بن عقبہ نے جب دیکھا کہ معاویہ بہت متعجب ہے تو اس نے کہا حکم دو کہ اس خط کو جلا دوں، معاویہ نے کہا خاموش رہ اوراس کے بارے میں اپنا نظریہ پیش نہ کر، ولید نے معاویہ کے جواب میں کہا،تو بھی اپنا نظریہ پیش کرنے کا حق نہیں رکھتا کیا یہ صحیح ہے کہ لوگ یہ سمجھ جائیں کہ ابوتراب کی حدیثیں تیرے پاس ہیں اورتو اسے پڑھ کر فیصلہ کرتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیوں علی سے جنگ کررہے ہو؟ معاویہ نے کہا:  لعنت ہو تجھ پر مجھے حکم دے رہا کہ ایسے علم کے خزانے کو جلا دوں ؟ خدا کی قسم اس سے زیادہ جامع واضح اورحقیقت پر مبنی علم میں نے آج تک نہیں سنا تھا ولید نے اپنی بات دہرائی اورکہا اگر علی کے علم اور فیصلے سے الفت ہے تو کیوں اس سے جنگ کررہے ہو؟ معاویہ نے کہا اگر ابوتراب نے عثمان کو قتل نہ کیا ہوتا اور مسند علم پر بیٹھتے تو میں ان سے علم سیکھتا پھر تھوڑی دیر خاموش رہا اور اپنے ساتھیوں پر نگاہ کی اور کہا ہم نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ یہ خطوط علی کے ہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کے یہ خطوط ابوبکر صدیق کے ہیں جو محمد کو وراثت میں ملے ہیں اور ہم اسی کے اعتبارسے فیصلہ کرتے ہیں اورفتوی دیتے ہیں جی ہاں، امام علیہ السلام کے خطوط ہمیشہ بنو امیہ کے پاس تھے یہاں تک حکومت عمربن عبد العزیز کے ہاتھ میں آئی اور اس نے اعلان کیا کہ یہ خطوط علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی حدیثیں ہیں ۔
جب علی علیہ السلام کو مصرکی فتح اور محمد کے قتل ہوجانے کے بعد خبرملی کے یہ خط معاویہ تک پہنچ گیا ہے تو بہت زیادہ افسوس کیا،عبد اللہ بن سلمہ کہتا ہے،امام علیہ السلام نے ہم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے ان کے چہرے پر افسردگی کے آثار دیکھے وہ ایسا شعرپڑھ رہے تھے جس میں گزشتہ باتوں پر افسوس تھا میں نے امام علیہ السلام سے پوچھا اس سے آپ کا کیا مقصد ہے؟  امام علیہ السلام نے فرمایا: محمد بن ابی بکرکو مصر کے لئے حاکم بنایا اس نے مجھے خط لکھا کہ میں پیغمبراسلام کی سنت سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتا میں نے اسے خط لکھا اور اس میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کی تشریح و وضاحت کی مگر وہ قتل ہوگیا اور خط دشمن کے ہاتھ میں پہنچ گیا۔


امام علی السلام کا حاکم اورآزاد لوگ


مصرکے معزول حاکم محمد بن قیس کے زمانے میں کچھ لوگوں نے اس کی حکومت سے کنارہ کشی اختیارکی اوراپنے کو آزاد متعارف کرایا(یعنی کسی بھی گروہ کے ساتھ نہیں ہیں) جب محمد بن ابی بکر کی حکومت ایک مہینہ گزرگئی تو انہوں نے آزاد لوگوں کو دوکاموں میں اختیاردیا کہ یا تو حکومت کے ساتھ رہیں اوراس کی پیروی کرنے کا اعلان کریں، یا مصر کو چھوڑ کرچلے جائیں، ان لوگوں نے حاکم مصر سے کہا کہ ہمیں مہلت دیں تاکہ ہم اس کے بارے میں فکر کریں لیکن حاکم نے ان کی باتوں کو قبول نہیں کیا وہ لوگ مقابلہ آرائی کرنے لگے اوراپنا دفاع کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔ایسے حالات میں جنگ صفین شروع ہوگئی اورجب خبر ملی کہ امام علیہ السلام اورمعاویہ کے درمیان حکمین کے ذریعے اختلاف حل ہوگیا ہے اور دونوں فوجوں نے جنگ روک دی ہے تو اس گروہ کی جرأت حاکم پر اور زیادہ ہوگئی اور اپنے کو آزاد سمجھنے لگے اور کھلم کھلا حکومت کی مخالفت کرنے لگے حاکم نے مجبورہو کر دوآدمیوں بنام حارث بن جمہان اور یزید بن حارث کنانی کو بھیجا تاکہ ان لوگوں کو موعظہ و نصیحت کریں، مگر یہ دونوں اپنا وظیفہ انجام دیتے ہوئے مخالفین کے ہاتھوں قتل ہوگئے،محمد بن ابی بکر نے تیسرے آدمی کو بھیجا اور وہ بھی اس راہ میں قتل ہوگیا۔
اس گروہ کےافراد کے قتل ہونے کہ وجہ سے بعض لوگ بہت جری ہوگئے اور ارادہ کیا کہ شامیوں کی طرح ہم بھی عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لوگوں کو دعوت دیں اورچونکہ مخالفت کا ماحول پہلے سے بنا ہوا تھا لہذا دوسرے افراد بھی ان کے ساتھ ہوگئے نتیجہ یہ ہوا کہ سرزمین مصرظلم وفساد کا شکار ہوگئی اورجوان،حاکم مصر کی حکومت کو اپنی اصلی حالت پرنہ لاسکے، امیرالمومنین علیہ السلام مصر کے حالات سے باخبر ہوئے اور فرمایا صرف دو آدمی ہیں جو مصر میں امن و سکون پیدا کرسکتے ہیں ایک قیس بن سعد جواس سے پہلے مصر کے حاکم تھے اور دوسرے مالک اشتر، آپ نے یہ بات اس وقت کہی جب مالک اشتر کو سرزمین ''جزیرہ'' کا حاکم مقرر کرچکے تھے، قیس بن سعد امام علیہ السلام کی رکاب کے ملازم تھے لیکن عراق میں جو فوج موجود تھی اس فوج میں ان کا رہنا ضروری تھا، اس لئے امام علیہ السلام نے مالک اشترکو خط لکھا اور وہ اس وقت عراق کی وسیع ترین سر زمین''نصیبین'' میں موجود تھے جوعراق اور شام کے درمیان واقع ہے اس خط میں امام علیہ السلام نے اپنے اور مصر کے حالات کے بارے میں لکھا :'' امابعد،تم ان لوگوں میں سے ہو کہ جن کی مدد و نصرت سے ہم دین کو مستحکم کرتے ہیں اورنافرمانوں کے تکبرکو قلمع و قمع کرتے ہیں اوروحشناک راستوں کو صحیح کرتے ہیں، میں نے محمد ابن ابی بکر کو مصر کا حاکم مقررکیا تھا مگر کچھ گروہوں نے اس کی پیروی کرنے کے بجائے مخالفت کی اور وہ جوانی اورتجربہ نہ ہونے کہ وجہ سے ان پر کامیاب نہ ہوسکے، جتنی جلدی ہو میرے پاس پہنچ جاؤ تاکہ جوکچھ انجام دینا ہے اس کے بارے میں تحقیق کریں اور کسی معتبر اور قابل اعتماد شخص کو اپنا جانشین معین کردو''۔
جب امام علیہ السلام کا خط مالک اشتر کو ملا تو انہوں نے شبیب بن عامر کو اپنا جانشین مقررکردیا اورامام علیہ السلام کی خدمت میں آگئے اور مصر کے ناگوار حالات سے آگاہ ہوئے امام علیہ السلام نے ان سے فرمایا جتنی جلدی ممکن ہومصر جاؤ کیونکہ تمہارے علاوہ کسی کو اس کام کا اہل نہیں سمجھتا میں تمھارے اندر جو عقل اور درایت دیکھ رہا ہوں اس کی وجہ سے کسی چیز کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے اہم کاموں کی انجام دہی کے لئے خدا سے مدد طلب کرو اور سخت چیزوں کو نرمی سے آسان کرو اور جتنا ممکن ہو خوش اخلاقی سے پیش آؤ اورجہاں پر صرف غصہ اور دشمنی کے علاوہ کچھ نہ ہو وہاں اپنی طاقت کا استعمال کرو ۔


منابع:


1- الغارات ج2 ص 464 سے 474 تک ، تاریخ طبری ج4  ص 103
2- الغارات ج2 ص 445
3- الغارات ج2  ص504
4- تاریخ طبری ج3 ص 462
5- تحف العقول ص176

 
دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: