مواد کا کوڈ۔: 78
ہٹس: 1818
تاریخ اشاعت : 10 October 2023 - 08: 43
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی سوانح حیات(39)
عبداللہ کے قتل سے جو وحشت اوررعب پیدا ہوا اس نے امام علیہ السلام کو آمادہ کیا کہ جہالت اور بدبختی کو جڑ سے ختم کردیں، اسی وجہ سے آپ نے ارادہ کیا کہ "حروراء" یا نہروان جائیں۔

عبداللہ کے قاتلوں کومتنبہ کرنے کا ارادہ


عبداللہ کے قتل سے جو وحشت اوررعب پیدا ہوا اس نے امام علیہ السلام کو آمادہ کیا کہ جہالت اور بدبختی کو جڑ سے ختم کردیں، اسی وجہ سے آپ نے ارادہ کیا کہ "حروراء" یا نہروان جائیں۔
تاریخ بیان کرتی ہے کہ امام علیہ السلام مدائن سے گزرکرنہروان پہنچے اور خوارج کو پیغام دیا کہ عبداللہ اوراس کی بیوی کے قاتل کو میرے حوالے کریں تاکہ اس کا بدلہ لیں، خوارج نے جواب دیا ہم سب نے مل کراسے قتل کیا ہے اوراس کے خون کو حلال سمجھا ہے امام علیہ السلام ان کے قریب پہنچے اور فرمایا:
 '' اے گروہ ( نافرمان) میں تم کو متنبّہ کررہا ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ کل امت اسلامی تم کو لعنت کا مستحق قراردے اور بغیرکسی واضح دلیل کے دریا کے کنارے قتل کردیئے جاؤ۔ میں نے تم لوگوں کو مسئلہ حکمیت قبول کرنے سے منع کیا اورمیں نے کہا تھا کہ بنی امیہ کو نہ دین سے محبت ہے اور نہ قرآن ہی چاہتے ہیں میں ان لوگوں کو بچپن سے لے کراس وقت جب کہ وہ بڑے ہوگئے ہیں خوب پہچانتا ہوں، وہ لوگ سب سے بُرے بچے اوربدترین مرد ہیں لیکن تم لوگوں نے میری بات غورسے نہیں سنی اورمیری مخالفت کرنے لگے اور میں نے اسی دن کے لئے دونوں قاضیوں سے عہد وپیمان لیا کہ جو کچھ قرآن نے زندہ کیا اُسے زندہ کریں اورجس چیز کو ختم کیا ہے اسے موت دیدیں اور اس وقت دونوں نے برخلاف ان دونوں حکم کے عمل کیا اور میں اپنے پہلے ہی قول اور طریقے پر باقی ہوں۔
'' خوارج امام علیہ السلام کی منطقی گفتگو کے جواب میں بیہودہ باتوں کے علاوہ کچھ نہیں رکھتے تھے اوراصرارکررہے تھے کہ مسئلہ حکمیت قبول کرنے کی وجہ سے سب کافر ہوگئے ہیں اور ہم نے توبہ کرلیا ہے تم بھی اپنے کفرکا اعتراف کرو اورتوبہ کرو، اس صورت میں ہم تمہارے ہمراہ ہیں اوراگرایسا نہیں کیا تو ہم کوچھوڑ دو اور اگر جنگ کرنا چاہتے ہو تو ہم تم سے جنگ کے لئے تیار ہیں ۔"


آخری اتمام حجت


حضرت علی علیہ السلام خوارج کی باتوں سے مایوس ہوگئے اور اپنی فوج منظم کرنے لگے میمنہ کی فوج کا سردار، حجر بن عدی اور میسرہ کا سردار شبعث بن ربعی کو بنایا اورابوایوب انصاری کوسواروں کاسردار اور ابو قتادہ کو پیادہ چلنے والوں کا سردار بنایا اس جنگ میں امام علیہ السلام کے ساتھ آٹھ سو صحابی شریک تھے اور اسی وجہ سے آپ نے ان لوگوں کا سردار قیس بن سعد بن عبادہ کو بنایا اورخود قلب لشکرتھے، اس وقت سوار لوگوں نے پرچم امانی کو اٹھایا اورابو ایوب انصاری کو حکم دیا کہ فریاد بلند کریں کہ اگر کوئی واپس جانا چاہتا ہے تو وہ جاسکتا ہے اور جو لوگ اس پرچم کے سایہ میں آئیں گے ان کا توبہ قبول ہوگا اور جو شخص بھی کوفہ جائے یا اس گروہ سے الگ ہوجائے وہ امن وامان میں رہے گا، ہم تم لوگوں کا خون بہانا نہیں چاہتے، اس وقت ایک گروہ پرچم کے نیچے آگیا اورامام علیہ السلام نے ان کی توبہ قبول کرلی (1) اوربعض لوگوں کا کہنا ہے کہ خوارج میں سے ایک ہزار لوگ پرچم کے سایہ میں آگئے خوارج کے بعض سردار جو امام علیہ السلام کی طرف آگئے ان کے نام یہ ہیں، مسعر بن فدکی، عبداللہ طائی، ابومریم سعدی، اشرف بن عوف، سالم بن ربیعہ اورحقیقت میں صرف عبداللہ بن وہب راسبی کےعلاوہ اس میں کوئی بھی سردار نہ بچا(2)۔مشہور مورخ طبری لکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام کی فوج میں اس گروہ کے شامل ہونے کے بعد خوارج کی فوج میں کل دو ہزارآٹھ سو سپاہی بچے(3) امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ جب تک دشمن جنگ شروع نہ کرے تم لوگ جنگ نہ کرنا آخر کار بعض لوگوں نے جسارت کی اور جنگ شروع ہوگئی اوراس جنگ میں بہت ہی کم مدت میں امام علیہ السلام کو کامیابی نصیب ہوئی۔ اس وقت خوارج میں سے ایک شخص بڑھا اورامام علیہ السلام کے ساتھیوں پرحملہ کیا اورتین آدمیوں کو قتل کردیا، اب امام علیہ السلام نے جنگ شروع کی اوراپنے پہلے ہی حملے میں اس شخص کو قتل کردیا اور پھر اپنے فوجیوں کو حملہ کرنے کا حکم دیا اورفرمایا: خدا کی قسم تم لوگوں میں دس آدمی کے علاوہ کوئی قتل نہیں ہوگا اور اس میں سے صرف دس آدمی کے علاوہ کوئی زندہ نہیں رہے گا۔(4)
            
امام علیہ السلام کے بہادر سپاہیوں نے چاروں طرف سے اورخود امام علیہ السلام نے قلب لشکر سے اپنے بدترین وعاجز دشمن پر حملہ کیا اورکچھ ہی دیرمیں خوارج کے بے جان جسم زمین پر گرتے نظر آئے اس جنگ میں تمام خوارج قتل ہوگئے اور صرف دس آدمی باقی بچے تھے اور دوسرے افراد وہاں سے کسی نہ کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ امام علیہ السلام کے دوستوں نے سمجھا کہ خوارج کی نسل ختم ہوگئی ہے لیکن امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا:''کلّا واللّٰہ انّھم نطففی اصلاب الرجال وقرارات النساء، کلّما نجم منھم قرن قطع حتٰی یکون آخرھم لصوصاً سلّابین ''(5)نہیں ایسا ہرگزنہیں ہے وہ لوگ بصورت نطفہ مردوں کے صلب میں اورعورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان کی طرف سے کوئی شاخ نکلے گی (حکومت اسے) کاٹ دے گی (اوردوسری شاخ وہیں پر اُگے گی) یہاں تک کہ بدترین اورغارتگر گروہ اور مال کے چرانے والے نکل آئیں گے اور پھر آپ نے فرمایا: میرے بعد تم لوگ خوارج سے جنگ نہ کرنا کیونکہ تمہارا اصلی دشمن معاویہ ہے اورمیں نے امن وامان کی حفاظت کے لئے ان لوگوں سے جنگ کی ہے ان میں سے بہت کم لوگ بچے ہیں اور ان سے جنگ کرنا اچھا نہیں ہے۔
امام علیہ السلام نے جنگ کے مال غنیمت، اسلحہ ، جانورگھوڑے وغیرہ کو اپنے فوجیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور ان کے سامان، کنیزوں اور غلاموں کو ان کے وارثوں کو واپس کردیا اور پھراپنی فوج کے درمیان کھڑے ہوئے اور ان کے کام کی تعریف کی اور شکریہ ادا کیا اور حکم دیا کہ اب یہیں سے صفین کی طرف روانہ ہوجائیں اورفساد کو جڑ سے ختم کردیں لیکن ان لوگوں نے امام علیہ السلام کے جواب میں کہا: ہمارے بازو تھک گئے ہیں، ہماری تلواریں ٹوٹ گئی ہیں اور تیر ختم ہوگئے ہیں کتنا بہتر ہوتا کہ ہم لوگ کوفہ چلیں جائیں اوراپنی فوج کو مزيد قوت و استحکام عطا کریں،ان لوگوں نے واپس جانے پراتنا زیادہ اصرار کیا کہ امام علیہ السلام کو افسوس ہوا اورمجبوراً آپ ان لوگوں کے ساتھ نخلیہ میں اپنی چھاؤنی پر واپس آگئے اور وہ لوگ دھیرے دھیرے کوفہ چلے گئے اور اپنی بیوی بچوں سے جاملے اور زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ چھاؤنی پر کچھ ہی لوگ باقی بچے اور اتنے کم سپاہیوں کے ساتھ شامیوں سے جنگ کرنا ممکن نہ تھا اور اس طرح مورخین کے نقل کرنے کے مطابق نو ماہ صفرالمظفر سنہ اڑتیس ہجری کوخوارج کے فتنہ کی تاریخ کا خاتمہ ہوگيا۔ (6)


لوٹ مار، بدامنی اور دردناک قتل عام


جنگ نہروان کی ناگہانی آفت وبلا امام علیہ السلام کے استقلال اور آپ کے باوفا ساتھیوں کی ہمت سے ختم ہوئی اور اب وہ وقت آگیا تھا کہ امام علیہ السلام سرکشوں سے اپنی فوج کی پاکسازی کے لئے دوسری مرتبہ اسلامی سرزمین پرچین و آرام اورراحت کوزندہ کریں اور معاویہ اورشامیوں کی خود غرضی کو ختم کردیں کیونکہ تمام فتنہ وفساد کی جڑ ابوسفیان کا بیٹا تھا۔لیکن افسوس یہ ہے کہ تاریخ نے کچھ اور ہی کروٹ لی، معاویہ نے عراق میں اپنے جاسوس معین کئے تھے تاکہ ذمہ داری کے ساتھ تمام واقعوں کی خبراسے دیتے رہیں۔
معاویہ نے بدامنی پھیلانے اور لوٹ مار اور تاراجی اور امام علیہ السلام کے شیعوں کے قتل کے لئے مناسب موقع دیکھا اسی وجہ سے اس نے چند گروہ حجاز، یمن اور عراق کے علاقے میں بھیج کر ذہنی جنگ کا آغاز کردیا اور دھوکہ وفریب، بے گناہ افراد کا قتل، عورتوں اور محتاجوں کا مال غارت وبرباد کرکے امام علیہ السلام کے ذہن کو شام کی طرف دوبارہ موڑ دیا بلکہ اس سے عملی طورپریہ ثابت کرنا چاہا کہ مرکزی حکومت اپنی سرحدوں کی حفاظت نہیں کرسکتی ہے۔ یہ سیاست جو حقیقت میں شیطانی سیاست تھی اس نے اپنا اثر دکھایا، معاویہ نے سنگ دلوں کو بھیج کرامام علی علیہ السلام کی حکومت کے ایک ہزارآدمیوں کو قتل کرادیا اوران سرکش و نافرمان حملہ کرنے والوں نے بچوں اورعورتوں پر بھی رحم نہیں کیا یہاں تک کہ ان لوگوں نے عبیداللہ بن عباس کے دو بچوں کا سربھی لوگوں کے سامنے قلم کردیا۔
امام علیہ السلام کی حکومت کا یہ دورتاریخ کا بہت غمگین اوردرد ناک ورق تھا البتہ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ امام علیہ السلام کے پاس دشمن کو نابود وبرباد کرنے کے لئے کوئی سیاسی تدبیریا دوسرا طریقہ نہ تھا بلکہ جو چیزحضرت کے اختیار میں تھی وہ صرف مٹھی بھر فضول اور بہانے باز، آرام طلب اور اس سے بھی بدتر وہ لوگ تھے جوصرف ایک دوسرے کا منھ دیکھنے والے تھے یہی وجہ تھی کہ امام علیہ السلام اپنے بلند وعالی ترین مقصد تک نہیں پہنچ سکے، تاریخ نے اس وحشیانہ حملوں کو بہت ہی دقیق طور پر ذکر کیا ہے اورہم یہاں پراسے واضح طریقے سے تحریر کررہے ہیں تاکہ معاویہ کا عہد وپیمان اسلام کے اصول اور انسانی اصولوں سے واضح وروشن ہوجائے۔


1-ضحّاک بن قیس کی لوٹ مار 


معاویہ کو خبرملی کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام شام کی طرف روانہ ہونے والے ہیں تاکہ دوبارہ جنگ کا آغازکریں، معاویہ نے اس سلسلے میں خطوط لکھے اوراپنے نمائندوں کو شام کے تمام علاقوں میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو خط کے مضمون سے آگاہ کریں،ایسے حالات میں معاویہ نے ضحّاک بن قیس فہری کی سرداری میں تین سے چار ہزار لوگوں کو چنا اورحکم دیا کہ کوفہ جائیں اورجس قبیلے کے لوگ امام کے مطیع وفرماں بردار ہیں اسے برباد کردیں اور یہ کام بہت جلدی جلدی انجام دیں اس طرح سے کہ اگر کسی شہر میں بالکل صبح سویرے داخل ہوں تو اسی دن شام کو دوسرے شہر میں رہیں اور کہیں پر بھی بالکل نہ ٹھہریں کہ اپنے مقابلے والوں سے جنگ کریں بلکہ جنگ کی طرح اور ان سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے کام کو جاری رکھیں۔
ضحّاک چلتے چلتے'' ثعلبیہ '' دیہات پہنچا جو کہ عراقیوں کے مکہ جانے کا راستہ تھا اس نے حاجیوں کے مال و سامان کو لوٹا اوراپنا سفر جاری رکھا اور پھرعمروبن قیس یعنی عبداللہ بن مسعود کے بیٹے کے روبرو ہوا اوراسے اورکچھ دوسرے لوگوں کو قتل کردیا۔ جب حضرت علی علیہ السلام کو ضحّاک کی لوٹ ماراورقتل وغارت گری کی خبر ملی تو امام علیہ السلام منبر پر گئے اور فرمایا: اے لوگوں، بندہ صالح عمرو بن قیس کی طرف جلدی جاؤ اوراپنے دوستوں کی مدد کے لئے جاؤ جو دشمن کے حملے سے زخمی ہوئے ہیں جاؤ اور اپنے دشمن سے جنگ کرو اوراپنی سرحدوں کی حفاظت کرو تاکہ دشمن اسے عبور نہ کرسکے۔ ان لوگوں نے امام علیہ السلام کی تقریر کے مقابلے میں عکس العمل دکھایا جب امام علیہ السلام نے ان کی سستی اورناتوانی کو مشاہدہ کیا تو فرمایا: ''خدا کی قسم !میں حاضر ہوں کہ تم لوگوں میں سے دس آدمیوں کو معاویہ کے ایک آدمی کے مقابلے میں بدل دوں، لعنت ہو تم پرکہ میرے ساتھ میدان میں آؤ اور مجھے بیچ میدان میں چھوڑدواوربھاگ جاؤ، خدا کی قسم میں بابصیرت موت سے ناخوش نہیں ہوں اور اس میں میرے لئے بہت بزرگی اور آسائش ہے اور تم سے اور تمہاری سختیوں سے نجات پاجاؤں گا'' ۔


سوال:


1- حضرت علی علیہ السلام نے ان لوگوں سے کہ جنہوں نے یہ تصور کیا کہ خوارج کی نسل ختم ہوگی ہے کیا فرمایا۔؟
2- جنگ نہروان کے بعد کیسے حالات پیش آئے۔؟


منابع: 


1- الاخبار الطوال ص210
2- مقالات اسلامیین ج1 ص 210
3- کامل ابن اثیر ج3 ص 346، تاریخ طبری ج4 ص 64  
4-شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج2  ص273-282
5-  نہج البلاغہ خطبہ نمبر 59
6- تاریخ طبری ج2 ص 98

دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: