مواد کا کوڈ۔: 71
ہٹس: 1830
تاریخ اشاعت : 03 October 2023 - 17: 05
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ک سوانح حیات (32)
سرزمین صفین میں حکمیت کا ماجرا تاریخ اسلام کا بے نظیرواقعہ شمارہوتا ہے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام جو کامیابی کے دو قدم فاصلے تک پہنچ چکے تھے اگر آپ کے بیوقوف و نادان ساتھی آپ کی حمایت کرنے سے باز نہ آتے یا کم سے کم آپ کے لئے مزاحمت ایجاد نہ کرتے تو فتنہ کو روکا جاسکتا تھا۔

حکمیت کا ماجرا


سرزمین صفین میں حکمیت کا ماجرا تاریخ اسلام کا بے نظیرواقعہ شمارہوتا ہے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام جو کامیابی کے دو قدم فاصلے تک پہنچ چکے تھے اگر آپ کے بیوقوف و نادان ساتھی آپ کی حمایت کرنے سے باز نہ آتے یا کم سے کم آپ کے لئے مزاحمت ایجاد نہ کرتے تو فتنہ کو روکا جاسکتا تھا۔


صلح کے لئے معاویہ کا اصرار


صفین میں جنگ کے طولانی ہونے اور فوج شام کے بہت زیادہ سپاہی مارے جانے کی وجہ سے معاویہ نے ارادہ کیا کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو امام علی علیہ السلام کو صلح وسازش اور جنگ ختم کرنے اور دونوں فوجوں کو ان کے اصلی جگہ پر واپس جانے کے لئے تیار کرے اور اس کام کو ایک خاص طریقے سے شروع کیا کہ جس میں سے تین اہم راستے یہ تھے۔
 ا۔ اشعث بن قیس سے گفتگو
٢۔ قیس بن سعد سے گفتگو
٣۔ امام علیہ السلام کو خط لکھنا
لیکن امام علیہ السلام کی فوج کے مستحکم ایمان وعقیدہ کی بنا پر اس کا یہ منصوبہ بے نتیجہ ثابت ہوا یہاں تک کے مسئلہ ''لیلة الہریر'' پیش آگیا اور قریب تھا کی معاویہ کی پوری فوج معدوم ہوجائے۔
امام علیہ اسلام دس ربیع الاوّل سنہ اڑتیس ہجری قمری منگل کے دن ہنگام فجرجب کہ ابھی اندھیرا پھیلا ہوا تھا نمازِصبح اپنے دوستوں کے ساتھ بجا لائے۔ آپ فوج شام کی کمزوری اورتھکاوٹ سے مکمل طور پرآگاہ تھے اورجانتے تھے کہ دشمن آخری مورچے تک پیچھے چلا گیا ہے اورایک زبردست حملے سے ہی معاویہ کے خیمہ تک پہنچا جاسکتا ہے اسی وجہ سے آپ نے مالک اشترکو حکم دیا کہ فوج کو منظم کریں جب کہ مالک اشتر لوہے کا پورا لباس پہنے تھے فوج کے پاس آئے اور اپنے نیزے پر ٹیک لگایااوربلند آوازسے پکارا''سَوُّوْاصُفُوفَکُمْ رَحِمَکُمُ اللہ'' اپنی صفوں کومرتب کروخداوندعالم تم پر رحم کرے گا، تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ حملہ شروع ہوگیا اور ابتدا سے ہی دشمن کی شکست ان کے بھاگنے کی وجہ سے ظاہر ہوگئی تھی۔
دونوں فوجوں کے درمیان بغیر کسی امان کے جنگ دوبارہ شروع ہوگئی اوراس جنگ میں جتنے بھی وسائل ممکن تھے اسے استعمال کیا گیا تیر و پتھر، نیزہ و تلوار اور لوہے کہ سلاخیں جو دونوں طرف کے فوجیوں کے سر پر مثل پہاڑ کے گر رہی تھیں استعمال ہوئے جنگ بدھ کو صبح تک جاری رہی اور معاویہ کی فوج کے لوگ زخمی اور قتل ہوئے، لوگ اس رات میں کتوں کی طرح چیخ رہے تھے اور اسی لئے بدھ کی اس رات کو تاریخ نے ''لیلة الہریر'' ( کتوں کے چيچنے کی رات) کے نا م سے یاد کیا گیا۔
مالک اشتراپنے سپاہیوں کے درمیان ٹہل رہے تھے اور لوگوں سے کہہ رہے تھے لوگوں فتح و کامرانی میں ایک کمان سے زیادہ کا فاصلہ نہیں بچا ہے اور بلند آواز سے کہا '' ألا مَن یَشرِی نَفسَه لله وَ یُقاتِلُ مَعَ الأشتَر حَتی یَظهَرَ أو یَلحَقَ بِالله؟''؟ یعنی کیا کوئی ایسا شخص ہے جو اپنی جان کو خدا کے لئے بیچ دے اوراس راہ میں اشتر کے ساتھ جنگ کرے تاکہ کامیاب و کامران ہوجائے اور خداوندعالم سے ملحق ہو جائے ؟(1)
امام علیہ السلام نے ایسے حسّاس موقع پر اپنے سرداروں اور فوج کے بااثر افراد کے سامنے تقریر کی اور فرمایا:'' اے لوگوں تم لوگ دیکھ رہے ہو کہ تمھارا اور دشمن کے کام کا انجام کہا تک پہنچ چکا ہے اور دشمن سے آخری سانس کے علاوہ کچھ باقی نہیں ہے کام کی ابتدأ کو آخر میں حساب کیا جائے گا میں صبح کے وقت ان لوگوں کو محکمہ الہی میں لے جاؤں کا اور ان کی ذلت بھری زندگی کو ختم کر دوں گا۔(2)
معاویہ امام علیہ السلام کی تقریر سے باخبرہوا لہٰذا عمروعاص سے کہا یہ وہی رات ہے کہ علی کل جنگ کو یک طرفہ کردیں گے اب بتاؤ ہمیں کیا کرنا چاہئيے ؟
عمر وعاص نے کہا: نہ تمھارے سپاہی ان کے سپاہی کی طرح ہیں اور نہ تو ہی ان کی طرح ہے وہ دین اورعقیدہ کے تحت جنگ کررہے ہیں اورتو دوسرے مقصد کے تحت ، تو زندگی کی تمنا کررہا ہے اوروہ شہادت کے طلبگار ہیں عراق کی فوج تمہاری کامیابی پر خوف محسوس کررہی ہے جب کہ شام کی فوج علی کی کامیابی پر خوف زدہ نہیں ہے۔
معاویہ:اس وقت کیا کرنا چاہئے؟
عمروعاص: اس وقت گزارش کرنا چاہیے کہ اگر قبول کریں گے تو اختلاف کا شکار ہوجائیں گے اور اگر قبول نہیں کریں گے تو دوگروہ ہوجائے گا ان لوگوں کو خدا کی کتاب کی طرف دعوت دو تاکہ خدا کی کتاب تمہارے اور ان کے درمیان حاکم رہو اور اس طرح سے تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گا یہ مطلب (فکر) بہت دنوں سے ہمارے ذہن میں تھا لیکن اس کو ظاہر کرنے سے میں نے پرہیز کیا تا کہ اس کا وقت پہنچ جائے معاویہ نے اپنے قدیمی ترین ساتھی کا شکریہ ادا کیا اور اس نقشے کو عملی صورت دینے کی کوشش میں لگ گیا۔
  تیرہ ربیع الاوّل جمعرات کے دن صبح سویرے یا ایک قول کی بناء پر تیرہ صفر کو امام علیہ السلام کی فوج دھوکے اور بغیر کسی سابقہ کے روبرو ہوگئی اورعمروعاص نے شام کے سرکشوں کی خدمت کی کہ امیہ کے گروہ کی دوبارہ زندگی کے حق میں اور ان کا اجتماع میں واپس جانا ہوا، شام کی فوج نےعمرو کے حکم کے مطابق قرآن کو نوک نیزہ پراٹھایا اوراپنی صفوں کو قرآن کے اعتبار سے مزین کیا، دمشق کا سب سے بڑا قرآن دس آدمی کی مدد سے نوک نیزہ پر اٹھایا گیا اور اس وقت سب نے ایک آواز ہوکر نعرہ بلند کیا ''ہمارے اور تمھارے درمیان خدا کی کتاب حاکم ہے''         
عراقیوں کے کان میں یہ آواز پہنچی اوران کی آنکھیں نوک نیزہ پرپڑی شام کی فوج سے نعروں اوررحم و کرم کی فریادوں کےعلاوہ کوئی دوسری چیز سنائی نہیں دے رہی تھی سب ایک آواز ہوکر کہہ رہے تھے۔
 ''اے عرب کے لوگوں اپنی عورتوں اور لڑکیوں کے لئے خدا کو نظر میں رکھو''! خدا کے واسطے خدا کو تمہارے دین کے بارے میں !
شام کے لوگوں کے بعد کون لوگ شام کی سرحدوں کی حفاظت کریں گے اورعراق کے لوگوں کے بعد کون لوگ عراق کی سرحدوں کی حفاظت کریں گے؟
کون لوگ روم و ترک اور دوسرے کافروں کے ساتھ جہاد کرنے کے لئے باقی رہیں گے؟
قرآن اور ان کے محبت آمیز نعروں کے دلنشین منظر نے امام علیہ السلام کی فوج کے بہت سے سپاہیوں کے عقل و ہوش کو گم کر دیا تھا اوران لوگوں کو مبہوت اورمدہوش کردیا تھا جنگ کرنے والے بہادر لوگ جو کچھ دیر پہلے فخر و مباہات کر رہے تھے اور کامیابی کے ایک قدم فاصلے پر تھے افسوس اورتأسف میں اپنی جگہ پر گڑگئے لیکن شیر کی طرح بہادر لوگ مثلاً عدی بن حاتم ، مالک اشتر اور عمرو بن الحمق وغیرہ ان کے فریبی حربہ سے باخبرتھے اورجانتے تھے کہ چونکہ دشمن کے اندرمقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے اور سقوط اور نابود ہونے کی منزل میں آگئے ہیں لہذا وہ اپنے کو اس طریقے سے نجات دینا چاہتے ہیں ورنہ لوگ کبھی بھی قرآن کو نہ اٹھاتے اور نہ کبھی اٹھائیں گے اسی وجہ سے عدی بن حاتم نے امام علیہ السلام سے کہا:
" کبھی بھی باطل کی فوج حق سے مقابلہ نہیں کرسکتی دونوں طرف لوگ زخمی یا قتل ہوئے ہیں اوروہ لوگ جو ہمارے ساتھ باقی بچے ہیں ان لوگوں سے طاقتور ہیں شامیوں کے نعروں پر دھیان نہ دیجیے اور ہم سب آپ کے مطیع اور فرما بردار ہیں ۔"
مالک اشتر نے کہا: معاویہ کا کوئی جانشین نہیں ہے لیکن آپ کا جانشین موجود، اگر اس کے پاس فوجی ہیں تو وہ آپ کے فوجی کی طرح صبر و تحمل نہیں رکھتے، لوہے کو لوہے سے کاٹئیے اور خدا سے مدد طلب کیجیے۔
تیسرے(عمرو بن الحمق)نے کہا: اے مولا ہم تعصب کی بناء پر آ پ کی حمایت کے لئے آمادہ نہیں ہوئے ہیں بلکہ خدا کی مرضی کے لئے آپ کی دعوت پرلبیک کہا ہے اس وقت حق آخری نقطے پر پہنچ گیا ہے اور ہم لوگوں کو آپ کے وجود کے بعد کوئی فکر نہیں ہے ۔(3)
لیکن اشعث بن قیس جس نے اپنے کو امام علیہ السلام کے خیمے کے محافظوں میں شمار کیا ہے جس کی حرکات و سکنات پہلے ہی دن سے مشکوک اور مخفیانہ تھی اورمعاویہ اور اس کا رابطہ تقریباً آشکار و واضح ہوچکا تھا اس نے امام علیہ السلام سے کہا : اس قوم کی دعوت کا جواب دیجیۓ کیونکہ ان کی درخواست کا جواب آپ سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا اور لوگ زندگی کے خواہاں ہیں اورجنگ سے خوش نہیں ہیں۔امام علیہ السلام اس کی ناپاک نیت سے آگاہ تھے فرمایا: اس مسئلے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے۔(4)
دشمنوں کے اس فریبی نعروں نے عراق کے سادہ لوح لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا اور لوگ کمزوری و ناتوانائی کی حالت میں امام عیہ السلام کے پاس آئے اورکہا ان کی دعوت کو قبول کر لیجیئے،امام علیہ السلام اس حسّاس موقع پر دھوکہ کھائے لوگوں کے ذہنوں کو واضح و روشن کرنے کے لئے ان سے فرمایا: ''اے خدا کے بندو! میں ہر شخص کی دعوت کو بحکم قرآن قبول کرنے میں تم لوگوں سے زیادہ شائستہ ہوں لیکن معاویہ،عمروعاص، ابن ابی معط، حبیب بن مسلمہ اورابن ابی سراح اہل دین اور قرآن نہیں ہیں میں تم لوگوں سے بہتر ان کو پہچانتا ہوں میں نے ان لوگوں کے ساتھ بچپن سے آج تک زندگی بسر کی ہے وہ لوگ ہر زمانے میں بدترین لڑکے اور بدترین مرد تھے خدا کی قسم ان لوگوں نے قرآن کو اس لئے بلند نہیں کیا کہ وہ قرآن کو پہچانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس پرعمل کریں بلکہ ان کا یہ کام مکر و فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اے خدا کے بندوں اپنے سروں اور بازوؤں کو کچھ لمحوں کے لئے مجھے عاریہ کے طور پر دے دو، کیونکہ حق قطعی نتیجہ پر پہنچ گیا اور ستمگروں کی جڑ کو کاٹنے میں کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے۔
جب کہ مخلص افراد نے امام علیہ السلام کے نظریہ کی طرفداری کی ہے مگر اچانک عراق کی فوج کے بیس ہزارآدمی جب کہ وہ لوہے کا لباس پہنے تھے اوران کی پیشانیوں پرسجدوں کے نشانات تھے اور کندھوں پر تلواریں تھی،(5) میدان جنگ چھوڑ کر سردار کے خیمے کے پاس آگئے اس گروہ کی رہبری  مسعر بن فدکی، زید بن حصین اورعراق کے بعض قاری کررہے تھے اوربعد میں یہی لوگ خوارج کے سردار بن گئے یہ لوگ امام علیہ السلام کی قیام گاہ کے سامنے کھڑے ہوئے اورآپ کو " یاامیرالمومنین" کے بجائے "یاعلی" کہہ کر خطاب کیا اور بے ادبی سے کہا اس قوم کی دعوت کو قبول کر لو ورنہ تمہیں قتل کردیں گے جس طریقے سے عثمان بن عفان کو قتل کیا ہے خدا کی قسم اگر ان لوگوں کی دعوت قبول نہیں کی تو تمہیں قتل کردیں گے ۔
وہ سردارجس کی کل تک مکمل اطاعت تھی اس وقت ایسی جگہ پر پہنچ گیا تھا کہ اسے زبردستی سپرد ہونے اورصلح قبول کرنے کا حکم دیا جارہا تھا امام علیہ السلام نے ان لوگوں کے جواب میں فرمایا:
 ''میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے خدا کی کتاب کی طرف لوگوں کو بلایا اور وہ پہلا وہ شخص ہوں جس نے خدا کی کتاب کی دعوت کو قبول کیا اورمیرے لئے جائز نہیں ہے کہ میں تم لوگوں کو غیر کتاب خداکی طرف دعوت دوں میں ان لوگوں کے ساتھ جنگ کروں گا کیونکہ وہ لوگ قرآن کے حکم پرعمل نہیں کرتے ان لوگوں نے خدا کی نافرمانی کی اور اس کے عہد و پیمان کو توڑ ڈالا اور اس کی کتاب کو چھوڑ دیا ہے میں تم لوگوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے تمہیں دھوکہ دیا ہے وہ لوگ قرآن پر عمل کرنے کے خواہش مند نہیں ہیں ۔
امام علیہ السلام کی منطقی اوراستدلالی گفتگو کا ان لوگوں پراثر نہ ہوا لیکن کچھ دنوں کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ یہ لوگ تندمزاج اورحقیقت کو سمجھنے اور درک کرنے سے بہت دور تھے جو شامیوں کے بیہودہ نعروں سے متاثر ہوگئے تھے اورامام علیہ السلام ان کو جتنی بھی نصیحت کرتے تھے وہ اتنے ہی زیادہ شیطان صفت ہوجاتے تھے اور کہتے تھے کہ ضروری ہے کہ امام حکم دیں کہ مالک اشتر جنگ کرنے سے باز آجائیں۔


سوالات:


1- لیلۃ الہریر کو لیلۃ الہریر کیوں کہا جاتا ہے۔؟
2- عمروعاص نے معاویہ کو علی علیہ السلام کے خلاف کیا مشورہ دیا۔؟


منابع:


1- تاریخ طبری ج 3 جزء 6ص26،  وقعۃ صفین ص475، کامل ابن اثیرج3ص160  
2- وقعہ صفین ص 476، الاخبار الطوال ص188، الامامة و السیاسة ج 1 ص8
3- وقعہ صفین ص481، الاخبارالطوال188، مروج الذہب ج 2ص400، تاریخ طبری ج 3جزء6ص26، کامل ابن اثیرج 3ص160   
4- وقعہ صفین ص482، الامامة والسیاسة ج 1 ص 108 ، مروج الذہب ج 2ص401
5- وقعہ صفین ص489، تاریخ طبری ج 3جزء6 ص27، مروج الذہب ج 2ص401 ، کامل ابن اثیرج 3ص161
      
 دفتر نشر فرہنگ و معارف اسلامی مسجد ہدایت
مولف:علی ریخته گرزاده تہرانی

آپ کی رائے
نام:
ایمیل:
* رایے: